بیویوں سے حسن سلوک کا ایک عنوان جدید

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
خزائن السنن:
بیویوں سے حسن سلوک کا ایک عنوان جدید
مفتی شبیر احمد حنفی
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بیویوں سے حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ خاوند اگر اس حکم پر عمل پیرا ہو تو اس کی زندگی بھی خوش و خرم گزرے کی اور باری تعالیٰ کا حکم بھی پورا ہو جائے گا۔ اس مضمون کو عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم نے اپنے عالی ذوق کے مطابق نہایت عمدگی سے سمجھایا ہے۔ افادہ کی غرض سے ہدیہ قارئین ہے۔
عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا:
’’رات جنوبی افریقہ سے ایک میاں بیوی کا فون آیا کہ ہم دونوں میں شدید اختلاف ہے۔ بیوی نے کہا کہ جب میرا شوہر گھر آتا ہے تو میں بجائے خوشی کے خوف سے کانپنے لگتی ہوں کہ جیسے کوئی جلاَّد آرہاہے۔ اللہ تعالیٰ نے میری زبان سے ایسا مضمون بیان کرادیا جس سے دونوں شیر وشکر ہوگئے ۔میں نے اس کے شوہر سے کہا کہ اپنی بیوی سے محبت کرو اور عشقِ لیلیٰ سے نورِ عشقِ مولی حاصل کرو ،کیونکہ اللہ کا حکم ہے کہ اپنی بیویوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ، یہ معروف بہت بڑا معروف ہے اس میں بیویوں کی خطاؤں کو معاف کرنا بھی داخل ہے، ان کے ٹیڑھے پن کو تسلیم کرتے ہوئے ان سے گزارا کرنا بھی اسی میں داخل ہے کیونکہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت
[وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ الایۃ سورۃ النساء:19]
کی گویا تفسیر فرمائی کہ ’’اَلْمَرْاَۃُ کَالضِّلَعِ ‘‘ عورت مثل ٹیڑھی پسلی کے ہے،’’إِنْ أَقَمْتَهَا كَسَرْتَهَا ‘‘اگر پسلی کو سیدھا کرنا چاہو گے تو ٹوٹ جائے گی،
’’وَإِنْ اسْتَمْتَعْتَ بِهَا اسْتَمْتَعْتَ بِهَا وَفِيهَا عِوَجٌ‘‘
[صحیح البخاری: 5184]
اور اگر اس سے گزارا کرنا چاہو گے تو ٹیڑھی پسلی سے گزارا ہورہاہے یا نہیں؟کوئی ہسپتال میں داخل ہوکر اپنی پسلی سیدھی نہیں کراتا۔ لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ عورت کے ٹیڑھے پن کی، ٹیڑھی بات کی اصلاح کی کوشش مت کرو،ایسے ہی گزارا کرلو اور بیوی کو لیلیٰ سمجھو اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بیویوں سے تم کو تین نعمتیں ملیں گی:[1]لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا۔ تم کو اس سے سکون ملے گا اور[2]مَوَدَّةً۔ یعنی محبت ملے گی [3]وَرَحْمَةً اور رحمت ملے گی۔یہ تین نعمتیں تم پاؤ گے۔
ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ میری بیٹی کے مزاج میں غصہ بہت ہے، آپ اس کے لیے دعا کردیجیے ورنہ جب بیاہ کی جائے گی تو شوہر کے جوتے کھائے گی۔ میں نے کہا کہ دیکھو: باپ کو کتنی فکر ہے؟! اللہ تعالیٰ کو بھی اپنی بندیوں کا کتنا خیال ہے جب ہی تو یہ آیت نازل کی کہ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ [سورۃ النساء:19] یہ صرف تمہاری بیبیاں نہیں ہیں ہماری بندیاں بھی ہیں۔
اپنی لیلیٰ سے محبت کرنا تو عین تمھاری فطرت ہے لیکن مولیٰ کا کرم دیکھو کہ تم عشقِ لیلیٰ کرو ہم اس کو عشق مولیٰ تسلیم کریں گے کیونکہ تم نے ہمارے حکم ’’عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ‘‘ پر عمل کیا اور اپنی بیوی کو بھلائی سے رکھا تو یہ کتنا بڑا کرم ہے کہ وہ مولیٰ عشق لیلیٰ کو عشق مولیٰ تسلیم کررہاہے۔کتنا کریم مولیٰ ہے! لہذا اپنی بیویوں سے محبت کرکے، ان خطاؤں کو معاف کرکے ،ان کی ٹیڑھی ٹیڑھی باتوں کو سن کرکے ان کے ناز اٹھا لو تو گویا آپ نے عشق لیلیٰ سے عشق مولیٰ حاصل کرلیا، کیونکہ بیوی کے ساتھ محبت سے پیش آئے تو بیوی بھی خوش ہوئی اور اللہ بھی خوش ہوگیا ،لہذا کتنا بڑا انعام ہے کہ عشق لیلیٰ بھی ملا اور عشق مولیٰ بھی ملا۔‘‘
[مواہب ربانیہ ص443تا445]
فقہ المسائل
خطبہ جمعہ کے وقت سنت و تحیۃ المسجد کا حکم
متکلمِ اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
سوال:
1:جمعہ کے دن جب امام خطبہ دے رہا ہو تو بعض لوگ مسجد میں داخل ہوتے ہی سنتیں پڑھنا شروع کر دیتے ہیں اور امام کے خطبہ کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ پوچھنا یہ ہے کہ خطبہ کے دوران سنتیں پڑھنا درست ہے یا نہیں؟
2: جب جمعہ کا خطبہ شروع ہو جائے تو آنے والے کے لیے دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھنا کیسا ہے؟ہمارے ایک دوست ہیں وہ کہتے ہیں کہ خطبہ کے دوران آنے والے شخص کو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت ضرور پڑھ لینی چاہییں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو دوران خطبہ نماز پڑھنے کا حکم فرمایا تھا۔ براہ مہربانی تحقیقی جواب عنایت فرمائیں۔
السائل
محمد ذیشان۔ کراچی
جواب: حامداً و مصلیاً
[1]: احادیث مبارکہ میں خطبہ کے دوران خاموش رہنے اور خطبہ کو غور سے سننے کی تاکید آئی ہے۔ خاموشی سے خطبہ سننے پر بہت بڑے اجرو ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے۔دورانِ خطبہ نماز پڑھنے ، گفتگو کرنے حتی کہ کسی کو خامو ش ہونے کا حکم دینے کی بھی ممانعت وارد ہوئی ہے۔
لہذا اگر کوئی شخص ایسے وقت مسجد میں داخل ہوا کہ امام خطبہ دے رہا ہو تو اسے چاہیے کہ بیٹھ کر خاموشی سے خطبہ سنے، اس دوران کسی قسم کی نوافل وسنن پڑھنا جائز نہیں۔
[رد المحتار: ج3ص38 باب الجمعۃ، مطلب فی شروط وجوب الجمعۃ]
اور مذکورہ موقف درج ذیل احادیث و آثار سے ثابت ہے:
1: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ إِذَا قُلْتَ لِصَاحِبِكَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ’’أَنْصِتْ‘‘ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَقَدْ لَغَوْتَ ‘‘
صحیح البخاری: ج1ص127، 128، صحیح مسلم: ج1 ص281
ترجمہ:جب امام جمعہ کا خطبہ دے رہا ہو اور تم اپنے قریب بیٹھے ہوئے شخص کو کہو: ’’چپ رہو‘‘ تو یہ بھی لغو حرکت ہے۔
امام ابو جعفر طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ روایات جن میں خطبہ کے وقت کسی کو چپ کرانے کے لیے’’أَنْصِتْ‘‘ کہنے کو لغو سے تعبیر کیا گیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے متواتر مروی ہیں۔
[سنن الطحاوی: ج1 ص251]
اس متواتر حدیث مبارک میں خطبہ کے دوران بولنے والے آدمی کو چپ کرانے کے لیے:’’چپ رہو‘‘کہنے کو لغو کہا گیا ہے حالانکہ امر بالمعروف ہونے کی وجہ سے یہ واجب ہے،تو سنت یا نفل نماز ادا کرنا بدرجہ اولیٰ ممنوع ہو گا۔
2:حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’
’لاَ یَغْتَسِلُ رَجُلٌ یَوْمَ الْجُمْعَۃِ وَیَتَطَھَّرُمَااسْتَطَاعَ مِنْ طُھْرٍ وَیَدَّھِنُ مِنْ دُھْنِہٖ اَوْیَمُسُّ مِنْ طِیْبِ بَیْتِہٖ ثُمَّ یَخْرُجُ فَلاَ یُفَرِّقُ بَیْنَ اثْنَیْنِ ثُمَّ یُصَلِّیْ مَاکُتِبَ لَہٗ ثُمَّ یُنْصِتُ اِذَا تَکَلَّمَ الْاِمَامُ اِلَّاغُفِرَلَہٗ مَابَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْجُمْعَۃِ الْاُخْرٰی۔‘‘
(صحیح البخاری ج 1ص 121 باب الدھن للجمعۃ )
ترجمہ: جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے ، خوب پاکی حاصل کرے اور تیل یا گھر میں میسر خوشبو لگائے۔ پھر نماز جمعہ کے لئے نکلے (وہاں جاکر) دو انسانوں کے درمیان تفریق نہ کرے، پھر جہاں تک ہو سکے نماز ادا کرے اور جب امام خطبہ دے تو خاموشی اختیار کرے۔ ایسے شخص کے اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔
: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
اِذَا دَخَلَ اَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ وَالْاِمَامُ عَلَی الْمِنْبَرِ فَلاَ صَلَاۃَ وَلَا کَلَامَ حَتّٰی یَفْرُغَ الْاِمَامُ۔
[مجمع الزوائد للھیثمی ج 2ص407]
قال العثمانی: فالحدیث حسن ان شاء اللہ ولہ شواہد
[اعلاء السنن:ج2ص78]
ترجمہ: جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو اور امام منبر پر ہو تو نہ کوئی نماز جائز ہے اور نہ بات چیت،یہاں تک کہ امام فارغ ہو جائے۔
4: حضرت نبیشہ ا لہذلی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:أَنَّ الْمُسْلِمَ إِذَا اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ثُمَّ أَقْبَلَ إِلَى الْمَسْجِدِ لَا يُؤْذِي أَحَدًا فَإِنْ لَمْ يَجِدْ الْإِمَامَ خَرَجَ صَلَّى مَا بَدَا لَهُ وَإِنْ وَجَدَ الْإِمَامَ قَدْ خَرَجَ جَلَسَ فَاسْتَمَعَ وَأَنْصَتَ حَتَّى يَقْضِيَ الْإِمَامُ جُمُعَتَهُ وَكَلَامَهُ إِنْ لَمْ يُغْفَرْ لَهُ فِي جُمُعَتِهِ تِلْكَ ذُنُوبُهُ كُلُّهَا أَنْ تَكُونَ كَفَّارَةً لِلْجُمُعَةِ الَّتِي قَبْلَهَا۔
[مسند احمد ج15 ص300 رقم الحدیث 20599]
قال الہیثمی: رجالہ رجال الصحیح خلا شیخ احمد و ہو ثقۃ
[مجمع الزوائد:ج2 ص386]
ترجمہ: مسلمان جب جمعہ کے دن غسل کرے، پھر کسی کو تکلیف دیے بغیرمسجد کی طرف آئے۔ اگر امام خطبہ کے لئے نہیں نکلا تو جہاں تک ہو سکےنماز پڑھ لے اور اگر امام خطبہ کے لئے آ چکا ہے تو بیٹھ جائے، غور سے خطبہ سنے اور خاموش رہے یہاں تک کہ امام نماز جمعہ و خطبہ ختم کر لے۔ اگر اس مسلمان کے اس جمعہ کے سارے گناہ معاف نہ ہوئے تو اس کا یہ عمل پہلے جمعہ کےلیے تو کفارہ بن ہی جائے گا۔
5: حضرت ثعلبہ بن مالک القرظی فرماتے ہیں:
أَدْرَكْتُ عُمَرَ ، وَعُثْمَانَ ، فَكَانَ الإِمَامُ إِذَا خَرَجَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ تَرَكْنَا الصَّلاَة.
مصنف ابن ابی شیبۃ ج4ص72 باب من کان یقول اذا خطب الامام فلا یصلی
قال العثمانی:و رجالہ رجال الصحیح
[اعلاء السنن:ج2ص93]
ترجمہ: میں نے حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کو پایا۔ (ان کے زمانے میں) جب امام جمعہ کے دن(خطبہ کے لیے) نکلتا تو ہم نماز چھوڑ دیتے۔
6: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، وَابْنِ عُمَرَ؛ أَنَّهُمَا كَانَا يَكْرَهَانِ الصَّلاَة وَالْكَلاَمَ بَعْدَ خُرُوجِ الإِمَام.
[مصنف ابن ابی شیبۃ: ج4ص72،نصب الرایہ ج2ص202]
قال العثمانی:رجالہ ثقات
[اعلاء السنن:ج2ص79]
ترجمہ:حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما امام کے خطبہ کے لیے نکلنے کے بعد نماز پڑھنے اور گفتگو کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے۔
7-13:حضرت سائب بن یزید، حضرت سعید بن مسیب، حضرت عروہ، امام زہری، حضرت مجاہد، حضرت ابو قلابہ، امام ابن سیرین کے قوی آثار سے بھی دورانِ خطبہ نماز پڑھنے سے منع ثابت ہوتا ہے۔
مصنف ابن ابی شیبۃ: ج4ص 71، 72،سنن الطحاوی: ج1 ص253
[2]: آپ کے دوست کا یہ کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی [حضرت سلیک غطفانی رضی اللہ عنہ]کو دوران خطبہ نماز پڑھنے کا حکم فرمایا تھا اس لیے دو رکعتیں ضرور پڑھی جائیں، چند وجوہ سے درست نہیں۔اس لیے کہ۔۔۔
)1(: وہ تمام احادیث و آثار جن کا ذکر شق اول کے جواب میں کیا گیا ہے،سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ خطبہ کے دوران نماز پڑھنا بالکل منع ہے،اس میں سنت اور تحیۃ المسجد (جو کہ مستحب ہے) سب کی ممانعت ہے۔ اس عمومی ممانعت کے مقابلہ میں حضرت سلیک غطفانی رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھنے کا حکم دینا یقیناً ان کی خصوصیت ہے۔ کیونکہ وہ اس وقت مفلوج الحال تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ان کو دو رکعتیں پڑھنے کا حکم دینا اس مقصد کے لیے تھا کہ لوگ انہیں دیکھ لیں اور تعاون کریں۔
مسند احمد بحوالہ فتح الملہم: ج5 ص480
چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
جاء رجل يوم الجمعة والنبي صلى الله عليه و سلم يخطب بهيئة بذة فقال له رسول الله صلى الله عليه و سلم أصليت قال لا قال صل ركعتين وحث الناس على الصدقة فألقوا ثيابا فأعطاه منها ثوبين
سنن النسائی: ج1 ص208 باب حث الإمام على الصدقة يوم الجمعة في خطبته
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ و سلم جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے۔ ایک آدمی آیا جو نہایت خستہ حالت میں تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے پوچھا: کیا تو نے نماز پڑھی ہے؟ اس نے کہا نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: دو رکعتیں پڑھ لو، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو صدقہ کی ترغیب دی۔ چنانچہ لوگوں نے کپڑے جمع کیے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان میں سے دو کپڑے اس آدمی کو دے دیے۔
نیزدیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کا تعامل بھی اس بات پر دلیل ہے کہ خطبہ کے دوران دو رکعتیں ادا کرنا ان صحابی کی خصوصیت ہے۔ اس لیے کہ بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم دوران خطبہ تشریف لائے لیکن تحیۃ المسجد ادا نہیں کی۔حضرت سلیک غطفانی رضی اللہ عنہ کا واقعہ ان حضرات کو بخوبی معلوم تھا، اگر تحیۃ المسجد ادا کرنا ضروری ہوتا تو یہ حضرات ضرور ادا فرماتے۔چنانچہ حضرت عبد اللہ بن صفوان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک آدمی لوگوں کی گردنیں پھلاندتے ہوئے آیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے دورانِ خطبہ اس کو فرمایا:’’اِجْلِسْ‘‘(بیٹھ جاؤ)
[سنن النسائی: ج1ص207، سنن ابی داؤد: ج1ص166]
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آدمی کو بٹھا دیا، تحیۃ المسجد کا حکم نہیں دیا۔اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ دورانِ خطبہ تشریف لائے۔
[صحیح مسلم: ج1 ص280]
لیکن اس میں کہیں ذکر نہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دو رکعتیں ادا کی ہوں۔
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن صفوان کے بارے میں روایت ہے کہ مسجد میں تشریف لائے، اس وقت حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ خطبہ جمعہ دے رہے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن صفوان آکر بیٹھ گئے، دو رکعتیں ادا نہیں کیں۔
سنن الطحاوی: ج1 ص253
)2(: اس روایت کے تمام طرق دیکھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ خطبہ شروع کرنے سے پہلے کا ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے اس روایت پر یہ باب قائم کیا ہے: ’’الصلاۃ قبل الخطبۃ‘‘ [خطبہ سے پہلے نماز پڑھنے کا بیان]
السنن الکبریٰ للنسائی:ج1 ص183
اس روایت کے بعض طرق میں یہ الفاظ منقول ہیں:
’’و امسک عن الخطبۃ حتی فرغ من صلاتہ‘‘
[سنن الدار قطنی: ص279، رقم 1602]
کہ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و سلم خطبہ دینے سے رک گئے یہاں تک کہ وہ صحابی نماز سے فارغ ہو گیا۔
اور صحیح مسلم کی روایت میں یوں ہے:
’’و النبی قاعد علی المنبر‘‘
[صحیح مسلم: ج1ص287]
کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت منبر پر بیٹھے ہوئے تھے اور یہ بات واضح ہے کہ خطبہ منبر پر کھڑے ہو کر دیا جاتا ہے نہ کہ بیٹھ کر۔
ایک طریق میں یہ الفاظ بھی ہیں:
’’فألقوا ثيابا‘‘
[سنن النسائی: ج1 ص208 باب حث الإمام على الصدقة يوم الجمعة في خطبته]
کہ لوگوں نے اس کی مدد کے لیے کپڑے ڈالنا شروع کیے، اور یہ بات مسلم ہے کہ دورانِ خطبہ ایسے افعال ممنوع ہیں۔اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس صحابی کی نمازکے وقت خطبہ شروع نہیں فرمایا تھا، لہذا اس صحابی کی نماز دورانِ خطبہ نہیں ہوئی بلکہ خطبہ سے قبل ہوئی ہے۔
فائدہ: ان روایات کے پیشِ نظرجن روایات میں ’’یخطب‘‘ کے الفاظ آتے ہیں، اس سے
’’یرید ان یخطب ‘‘یا ’’یکاد ان یخطب‘‘ مراد ہے۔
[فتح الملہم: ج5 ص481]
خلاصہ کلام:حضرت سلیک غطفانی رضی اللہ عنہ کا تحیۃ المسجد پڑھنا ان کی خصوصیت ہے یا اس وقت کا واقعہ ہے جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم خطبہ ارشاد نہ فرما رہے تھے۔ لہذا عمومی ممانعت کی وجہ سے خطبہ کے دوران سنتیں ادا کرنا جائز ہے نہ تحیۃ المسجد۔ و اللہ اعلم