فقیہ ابن فقیہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
تذکرۃ الفقہاء:
حصہ دوم
فقیہ ابن فقیہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما
مولانا محمد عاطف معاویہ حفظہ اللہ
فقہ میں آپ رضی اللہ عنہما کا مقام:
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا شمار کبار فقہاء صحابہ رضی اللہ عنہم میں ہوتا ہے۔فقہ میں ان کی جلالت شان کو بیان کرتے ہوئےمیمون بن مہران فرماتے ہیں:
مارأیت افقہ من ابن عمر۔
(اعلام الموقعین ج1ص18)
میں نے میں ابن عمر سے بڑا فقیہ کہیں نہیں دیکھا۔
امت کے ایک بہت بڑے طبقہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہماسے اس نعمت عظمیٰ(فقاہت)کو حاصل کیا امام ذہبی رحمہ اللہ نے آپ رضی اللہ عنہماکے شاگردوں کی تعداد220سے کچھ اوپر بتائی ہے۔
(سیراعلام النبلاء ج4ص109،110)
ان شاگردوں نے فقہ والی دولت آپ سے لے کہ آگے امت میں پھیلائی۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے فرماتے ہیں جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے شاگردوں سے امت کو علم و فقہ والی دولت ملی ہے اس میں بہت بڑا حصہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے شاگردوں کا ہے۔
(اعلام الموقعین ج1ص21)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہماباکمال،فقیہ ہونے کے باوجود کبار صحابہ رضی اللہ عنہم کی اتباع کو پسند کرتے تھے اور ان کی مخالفت کو درست نہ سمجھتے تھے آپ رضی اللہ عنہما اکثر فرمایا کرتے تھے میں نے اپنے رفقاء کو ایک متعین راستے پر چلتے دیکھا ہے اگر میں اس راہ سے ہٹ کر کوئی اور راستہ اختیار کروں تو خطرہ ہے کہ میں ان کے ساتھ نہ مل سکوں۔
(فقہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ص39،40)
مجتہد کو اللہ پاک کئی ایک خصوصیات سے نوازتے ہیں۔

مسائل غیرمنصوصہ کو منصوصہ پر قیاس کرنا۔

حدیث نبوی سے مراد پیغمبر کو سمجھنا۔

جن مسائل کے متعلق احادیث دو قسم کی ہیں ان میں کسی ایک کو ترجیح دینا وغیرہ۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو اللہ تعالیٰ نے تینوں خوبیوں سے نوازا تھا۔
اگر ایک آدمی نے کسی عورت کے ساتھ ایک شخص کو دیکھا کہ وہ زنا کا ارادہ کرچکا تھا تو صرف ارادہ زنا سے اس پر حد نہیں لگائی جائے گی آپ رضی اللہ عنہما نے اس پر دوسرا مسئلہ قیاس کیا کہ اگر ایک شخص نے کسی کا سامان چوری کیا مگر اس کو گھر سے باہر نہیں نکالا تھا تو اس کے ہاتھ نہیں کاٹے جائیں گے۔
[مصنف عبدالرزاق ج9ص491رقم19082]
معلوم ہوا آپ اجتہاد کے قائل تھے قرآن وسنت کے بعد مسائل کے حل کے لیے فقہ کی ضرورت محسوس کرتے تھے۔
مراد پیغمبر کی تعیین:
حضور علیہ السلام نے اہل ایمان کو مشرکین کی مخالفت کا حکم دیتے ہوئے داڑھی کو بڑھانے کا فرمایا حدیث میں الفاظ ہیں
"وفروا اللحیٰ"
[بخاری ج2ص875باب تقلیم الاظفار]
یعنی داڑھی کو چھوڑ دو اس حدیث کی شرح میں مشہور غیرمقلد عالم وحید الزمان لکھتے ہیں کہ مختار یہ ہے کہ داڑھی کا چھوڑ دینا افضل ہے اس کو بڑھنے دینا
[تیسر الباری ج5ص529]
اب داڑھی کتنی بڑھانی چاہیے اس حدیث میں اس کے متعلق کوئی صریح حکم نہیں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما جو اس حدیث کے راوی ہیں نے مراد پیغمبر کو اپنے عمل سے واضح کیا آپ کے بارے میں منقول ہے
"انہ کان یقبض علی لحیتہ فیاخذ منہا ماجاوز القبضۃ"
[کتاب الآثار بروایۃ القاضی ص234رقم1040]
اب مٹھی سے زائد داڑھی کو کاٹ لیتے تھے۔یہی بات صحیح بخاری میں ان الفاظ کے ساتھ منقول ہے:
وکان ابن عمر اذا حج او اعتمر قبض علی لحیتہ فما فضل اخذہ
[بخاری ج2ص875]
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما جب حج یا عمرہ کرتے تو مٹھی سے زائد داڑھی کو تراش لیتے تھے۔
حدیث میں مطلقا داڑھی بڑھانے کا حکم تھا حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے عمل سے اس کی حد کو واضح فرمادیا۔
فقہی مسائل:
احادیث متعارضہ میں کسی ایک کو ترجیح۔
1:امام کے پیچھے قراءت نہ کرنا۔
عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ:كَانَ إِذَا سُئِلَ هَلْ يَقْرَأُ أَحَدٌ خَلْفَ الْإِمَامِ قَالَ إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ خَلْفَ الْإِمَامِ فَحَسْبُهُ قِرَاءَةُ الْإِمَامِ وَإِذَا صَلَّى وَحْدَهُ فَلْيَقْرَأْ
[موطا امام مالک ص68باب ترک القراءۃ خلاف الامام فیما جہر ]
یعنی آپ کا نظریہ تھا کہ جب کوئی امام کے پیچھے نماز پڑھے تو قراءت کی ضرورت نہیں بلکہ امام کی قراءت ہی مقتدی کی قراءت کےلیے کافی ہے۔ہاں کوئی اکیلا نماز پڑھے تو قرآن ضروری ہے اور آپ کا اپنا معمول بھی امام کے پیچھے قراءت نہ کرنے کا تھا۔
2:ترک رفع الیدین۔
عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ خَلْفَ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فَلَمْ يَكُنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى مِنَ الصَّلَاةِ
[سنن طحاوی ج1ص163]
حضرت مجاہد فرماتے ہیں میں نے حضرت ابن عمر کی اقتداء میں نماز ادا کی آپ نے صرف شروع نماز میں رفع یدین کیا بعد میں نہیں کیا۔
3:آپ ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرتے تھے۔
[مصنف عبدالرزاق رقم 11387،مصنف ابن ابی شیبہ ج4ص11رقم5]
4:وتر تین رکعات ہیں۔
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ مُسْلِمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا عَنِ الْوِتْرِ، فَقَالَ: أَتَعْرِفُ وِتْرَ النَّهَارِ ؟ قُلْتُ: نَعَمْ , صَلَاةُ الْمَغْرِبِ قَالَ: صَدَقْتَ أَوْ أَحْسَنْتَ
[سنن طحاوی ج1ص197باب الوتر]
عقبہ بن مسلم کہتے میں نے حضرت ابن عمر سے وتر کے متعلق سوال کیا آپ نے پوچھا دن کے وتر تو جانتے ہو؟میں نے کہا جی ہاں مغرب کی نماز آپ نے فرمایا بالکل ٹھیک کہا۔یعنی جس طرح مغرب کی تین رکعتیں ہیں وتر کی بھی تین رکعتیں ہیں،
5:فجر کی جماعت کھڑی ہوجائے تو سنتیں ادا کرنا۔
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: " خَرَجَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا مِنْ بَيْتِهِ , فَأُقِيمَتْ صَلَاةُ الصُّبْحِ , فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ الْمَسْجِدَ وَهُوَ فِي الطَّرِيقِ , ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَصَلَّى الصُّبْحَ مَعَ النَّاسِ
[سنن طحاوی ج1ص256]
آپ نے صبح کی نماز ادا کرنے کے لیے تشریف لائے تو جماعت کھڑی ہوچکی تھی آپ نے مسجد کے باہر پہلے سنتیں ادا کیں پھر جماعت میں شامل ہوگئے۔
6:مدرک رکوع مدرک رکعت ہے۔
عن ابن عمر قال إذا أدركت الإمام راكعا فركعت قبل أن يرفع فقد أدركت
[مصنف عبدالرزاق ج2ص279رقم3361]
حضرت نافع سے روایت ہے حضرت ابن عمر نے فرمایا جب آپ امام کو رکوع کی حالت میں پالو تو تم نے وہ رکعت پالی۔
وفات:
آپ کی دلی تمنا تھی کہ مجھے موت مدینہ میں آئے مگر تقدیر کچھ اور تھی آپ کی وفات 74ھ میں 83یا84برس کی عمر میں مکہ میں ہوئی وصیت کے مطابق لوگوں نے آپ کو حرم کے باہر دفن کرنا چاہا مگر حجاج نے مداخلت کرکے خود ہی جنازہ پڑھایا اور مہاجرین کے قبرستان میں دفن کردیا۔
[سیر صحابہ ج1ص16حصہ دوم]