نماز اہل السنت والجماعت

User Rating: 2 / 5

Star ActiveStar ActiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط نمبر 11
نماز اہل السنت والجماعت
متکلمِ اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
کیفیت اشارہ:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ اِذَاقَعَدَ فِی التَّشَھُّدِ وَضَعَ یَدَہٗ الْیُسْریٰ عَلٰی رُکْبَتِہِ الْیُسْریٰ وَوَضَعَ یَدَہٗ الْیُمْنٰی عَلٰی رُکْبَتِہِ الْیُمْنٰی وَعَقَدَ ثَلاَ ثاً وَّخَمْسِیْنَ وَاَشَارَبِالسَّبَّابَۃِ۔
(صحیح مسلم ج1 ص216 باب صفۃ الجلوس فی الصلوٰۃ )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد میں بیٹھتے تھے تو اپنا بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر اوردایاں ہاتھ دائیں گھنٹے پر رکھتے تھے اور دائیں ہاتھ سے(۵۳) کے عدد کی شکل بناتے اور کلمہ کی انگلی سے اشارہ کرتے۔ ‘‘
اشارہ کے وقت انگلی کو بار بار حرکت نہ دینا:
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ رضی اللہ عنہ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ یُشِیْرُبِاِصْبَعِہٖ اِذَادَعَا وَ لاَ یُحَرِّکُھَا۔
(سنن النسائی ج 1ص187 باب بسط الیسری علی الرکبۃ،سنن ابی داؤد ج1 ص149 باب الاشارۃ فی التشہد )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگلی سے اشارہ کرتے تھے اور اسے حرکت نہیں دیتے تھے۔ ‘‘
شہادت والی انگلی کوآخر نماز تک بلا حرکت بچھائے رکھنا:
عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ دَخَلْتُ عَلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَھُوَیُصَلِّیْ وَقَدْوَضَعَ یَدَہٗ الْیُسْریٰ عَلٰی فَخِذِہٖ الْیُسْریٰ وَوَضَعَ یَدَہٗ الْیُمْنٰی عَلٰی فَخِذِہٖ الْیُمْنٰی وَقَبَضَ اَصَابِعَہٗ وَبَسَطَ السَّبَّابَۃَ وَھُوَ یَقُوْلُ یَامُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ۔
(جامع الترمذی ج 2ص199 ابواب الدعوات باب بلا ترجمۃ)
ترجمہ: حضرت عاصم بن کلیب اپنے باپ کلیب سے وہ اپنے باپ حضرت شہاب بن مجنون رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :
’’ شہاب بن مجنون فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نماز پڑھ رہے تھے اور اپنا بایاں ہاتھ بائیں ران پر رکھا ہوا تھا اوردایاں ہاتھ دائیں ران پر۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کلمہ کی انگلی کو بچھایا ہوا تھا اور یہ دعا پڑھ رہے تھے۔
نوٹ : ( دعامذکورہ کا ترجمہ یہ ہے ) اے دلوں کو پھیرنے والی ذات میرا دل اپنے دین پر ثابت قدم فرما!
فائدہ : دعا ء تشہد میں درود شریف کے بھی بعد سلام کے قریب مانگی جاتی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بھی انگلی کو بچھا کر اسی حالت پر برقرار رکھے ہوئے تھے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انگلی کو آخر نماز تک بچھائے رکھنا چاہئے۔ چنانچہ حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’قُلْتُ فِیْہِ اِدَامَۃُ اِشَارَۃِ التَّشَھُّدِاِلٰی اٰخِرِالصَّلٰوۃِ۔‘‘
(الثواب الحلی علی جامع الترمذی للتھا نوی ج2 ص199 )
ترجمہ: میں(مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ ( کہتا ہوں کہ اس حدیث میں یہ ثابت ہے کہ اشارہ آخر نماز تک برقرار رکھنا چاہیے۔
تشہد میں نظریں شہادت کی انگلی سے آگے نہ بڑھیں:
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا۔
قَالَ: لَایُجَاوِزُبَصَرُہٗ اِشَارَتہٗ۔
(سنن ابی داؤد ج 1ص149 باب الاشارۃ فی التشہد ،سنن النسائی ج1 ص 173باب موضع البصر فی التشہد)
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر انگلی کے اشارہ سے آگے نہ جاتی تھی۔
تشہد سراً پڑھنا:
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ مِنَ السُّنَّۃِ اَنْ یُّخْفَی التَّشَھُّدُ۔
(سنن ابی داؤد ج 1ص149 باب اخفاء التشہد ،جامع الترمذی ج 1ص65 باب ما جاء انہ یخفی التشہد )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ سنت میں سے یہ ہے کہ تشہد آہستہ پڑھا جائے۔
قعدہ اولیٰ سے تکبیر کہتے ہوئے اٹھنا:
عَنْ مُطَرِّفٍ قَالَ صَلَّیْتُ اَنَاوَعِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ رضی اللہ عنہ صَلٰوۃً خَلْفَ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ رضی اللہ عنہ فَکَانَ اِذَاسَجَدَکَبَّرَوَاِذَا رَفَعَ کَبَّرَوَاِذَا نَھَضَ مِنَ الرَّکْعَتَیْنِ کَبَّرَ۔
(صحیح البخاری ج1 ص114 باب یکبر وینھض من السجدتین )
ترجمہ: حضرت مطرف رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے اور حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی۔ جب آپ سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے ، جب سر اوپر اٹھاتے تکبیر کہتے اور جب دو رکعتوں سے اٹھتے تو تکبیر کہتے۔
تیسری رکعت کے شروع میں رفع یدین نہ کرنا:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَادَخَلَ فِی الصَّلٰوۃِرَفَعَ یَدَیْہِ نَحْوَصَدْرِہٖ وَاِذَارَفَعَ رَأْسَہٗ مِنَ الرُّکُوْعِ وَلَایَفْعَلُ بَعْدَذٰلِکَ
(الناسخ والمنسوخ لابن شاھین ص153 باب رفع الیدین فی الصلوٰۃ)
ترجمہ: حضرت بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے ہاتھ سینہ تک اٹھاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے اور نہ اس کے بعد کرتے۔
فرض کی آخری دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ پڑھنا:
عَنْ اَبِیْ قَتَادَۃَ رضی اللہ عنہ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ یَقْرَئُ فِی الظُّھْرِ فِی الْاُوْلَیَیْنِ بِاُمِّ الْکِتَابِ وَسُوْرَتَیْنِ وَفِی الرَّکْعَتَیْنِ الْاُخْرَیَیْنِ بِاُمِّ الْکِتَابِ۔
(صحیح البخاری ج 1ص107 باب یقرأ فی الاخریین بام الکتاب،صحیح مسلم ج1 ص185 باب القراء ۃ فی الظہر والعصر)
ترجمہ: حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے تھے اور آخری دو رکعتوں میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے۔
قعدہ اخیرہ کرنا:
:1 عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ کُنَّااِذَاصَلَّیْنَاخَلْفَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم …… فَقَالَ اِنَّ اللّٰہَ ھُوَالسَّلَامُ فَاِذَاصَلّٰی اَحَدُکُمْ فَلْیَقُلْ اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطِّیِّبَاتُ، اَلسَّلَاَمُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ، اَلسَّلَامُ عَلَیْنَاوَعَلٰی عِبَادِاللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ…… اَشْھَدُاَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَاَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًاعَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔
(صحیح البخاری ج1 ص 115باب التشہد فی الٓاخرۃ ،صحیح مسلم ج 1ص173 باب التشہد فی الصلوٰۃ)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالی ہی سلام ہے۔ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اسے (تشہد) یوں کہنا چاہئے التحیات للہ والصلوات والطیبات …آخر تک۔
:2 عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ عَلَّمَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَلتَّشَھُّدَ فِیْ وَسْطِ الصَّلَاۃِ وَفِیْ اٰخِرِھَا۔
) (مسند احمد ج4 ص238 حدیث نمبر4382 )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے درمیان نماز اور آخر نماز میں تشہد کی تعلیم دی۔
تورک نہ کرنا:
تشہد میں سرین کے بل بیٹھنے کو ’’تورک‘‘ کہتے ہیں۔ تورک کی نفی احادیث میں وارد ہے اور دایاں پاؤں کھڑا کرنے اور بائیں کو بچھا کر اس پر بیٹھنے کا ذکر ملتا ہے۔
:1 عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ وَقَالَ اِنَّمَاسُنَّۃُ الصَّلٰوۃِ اَنْ تَنْصَبَ رِجْلَکَ الْیُمْنٰی وَتُثْنِیَ الْیُسْریٰ۔
(صحیح البخاری ج 1ص114 باب سنۃ الجلوس فی التشہد ،سنن النسائی ج 1ص173 باب کیف الجلوس للتشہد الاول)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نماز میں سنت یہ ہے کہ آپ دایاں پاؤں کھڑا رکھیں اور بایاں پاؤں بچھا دیں۔
:2 عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہاقَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَسْتَفْتِحُ الصَّلٰوۃَ بِالتَّکْبِیْرِوَالْقِرَائَ ۃَ بِالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ……… وَکَانَ یَفْرِشُ رِجْلَہٗ الْیُسْریٰ وَیَنْصَبُ رِجْلَہٗ الْیُمْنٰی۔
(صحیح مسلم ج1 ص194 باب ما یجمع صفۃ الصلوٰۃ وما یفتح بہ ویختم بہ )
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے، فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز تکبیر سے شروع کرتے اور قرات الحمد للہ رب العالمین سے اور (تشہد میں) اپنا بایاں پاؤں پھیلاتے اور دائیں پاؤں کو کھڑا رکھتے۔
درود شریف پڑھنا:
عَنْ فُضَالَۃَ بْنِ عُبَیْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ سَمِعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم رَجُلاً یَدْعُوْفِی الصَّلٰوۃِ لَمْ یَحْمِدِ اللّٰہَ وَلَمْ یُصَلِّ عَلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَجَّلْتَ اَیُّھَاالْمُصَلِّی ثُمَّ عَلَّمَھُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَسَمِعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم رَجُلاً یُّصَلِّیْ فَمَجَّدَ اللّٰہَ وَحَمِدَہٗ وَصَلّٰی عَلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اُدْعُ تُجَبْ وَسَلْ تُعْطَ۔
(سنن النسائی ج 1ص189 باب التمجید والصلوٰۃ علی النبیﷺ فی الصلوٰۃ )
ترجمہ: حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو سنا کہ وہ نماز میں نہ اللہ تعالی کی حمد بیان کرتا ہے اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ اے نمازی تم نے جلدی کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو سکھایا (کہ پہلے اللہ تعالی کی حمد و ثناء پھر نبی علیہ السلام پر درود پڑھا کرو) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور آدمی سے سنا کہ وہ نماز پڑھ رہا ہے اور اللہ کی بزرگی بیان کر رہا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھ رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دعا کر تیری دعا قبول ہوگی، سوال کر عطا کیا جائے گا۔
الفاظ درود شریف:
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
سَاَلْنَارَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقُلْنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَیْفَ الصَّلٰوۃُ عَلَیْکُمْ اَہْلَ الْبَیْتِ؟ فَاِنَّ اللّٰہَ قَدْ عَلَّمَنَاکَیْفَ نُسَلِّمُ عَلَیْکَ۔ قَالَ قُوْلُوْا اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَاصَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
)صحیح البخاری ج1 ص477 باب یزفون النسلان فی المشی)
ترجمہ: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! ہم آپ پر اور اہل بیت پر صلوۃ کیسے بھیجیں، کیونکہ اللہ تعالی نے ہمیں سلام بھیجنے کا طریقہ تو بتلا دیا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یوں کہا کرو اللھم صل علی محمد آخر تک۔ (ترجمہ یہ ہے) اے اللہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما جس طرح تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر رحمتیں نازل کیں ، بے شک تو قابل تعریف بزرگی والا ہے۔ اے اللہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر برکت نازل فرما جس طرح تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر برکت نازل کی تھی ، بے شک تو قابل تعریف بزرگی والا ہے۔
بعد از تشہد اختیاری دعا:
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ کُنَّا اِذَا صَلَّیْنَا خَلْفَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم … فَقَالَ اِنَّ اللّٰہَ ھُوَالسَّلَامُ فَاِذَا صَلّٰی اَحَدُکُمْ فَلْیَقُلْ اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ…… اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ ثُمَّ لْیَتَخَیَّرْمِنَ الدُّعَائِ اَعْجَبَہٗ اِلَیْہِ فَیَدْعُوْ۔
(صحیح البخاری ج1 ص115 باب ما یتخیر من الدعاء بعد التشہد ولیس بواجب ،صحیح مسلم ج 1ص 173باب التشہد فی الصلوٰۃ )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ اللہ ہی سلام ہے۔ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اسے چاہیے کہ یوں کہے التحیات للہ (آخر تشہد تک) پھر اس کو اختیار ہے کہ جو دعا ا سے پسند ہو مانگے۔ ‘‘
الفاظ دعا:
:1 اللہ تعالی نے قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ذکر فرمائی :
رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَمِنْ ذُرِّیَتِیْ رَبَّنَاوَتَقَبَّلْ دُعَائَ رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ۔
(سورۃ ابراھیم :41.40)
ترجمہ: اے اللہ ! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنا اور میری دعا قبول فرما۔ اے ہمارے پروردگار! مجھے ، میرے والدین کو اور تمام مومنین کو حساب والے دن بخش دے
:2 عَنْ اَبِیْ بَکْرِنِ الصِّدِّیْقِ رضی اللہ عنہ اَنَّہٗ قَالَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَلِّمَنِیْ دُعَائً اَدْعُوْ بِہٖ فِیْ صَلَا تِیْ۔ قَالَ قُلْ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمًا کَثِیْرًا وَّلَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ فَاغْفِرْلِیْ مَغْفِرَۃً مِّنْ عِنْدِکَ وَارْحَمْنِیْ اِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۔
(صحیح البخاری ج1 ص115 باب الدعا قبل السلام ،صحیح مسلم ج1 ص347 باب الدعوات والتعوذ )
ترجمہ: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے کوئی دعا سکھائیں جسے میں اپنی نماز میں مانگا کروں۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دعا مانگا کرو۔
)ترجمہ دعا) ’’اے اللہ میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا اور تیرے علاوہ کوئی اور ذات نہیں جو گناہ بخش دے ، پس اپنے ہاں میری مغفرت فرما اور مجھ پر رحم فرما۔ بے شک تو ہی مغفرت کرنے والا ہے اور رحم کرنے والا ہے۔
کسی بھی رکن میں امام سے سبقت نہ کرنا:
عَنْ اَنَس رضی اللہ عنہ قَالَ صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ذَاتَ یَوْمٍ فَلَمَّا قَضَی الصَّلٰوۃَ اَقْبَلَ عَلَیْنَا بِوَجْھِہٖ فَقَالَ اَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ اِمَامُکُمْ فَلَا تَسْبِقُوْنِیْ باِلرُّکُوْعِ وَلَا بِالسُّجُوْدِ وَلاَ بِالْقِیَامِ وَلَابِالْاِنْصِرَافِ۔
(صحیح مسلم ج 1ص180 باب تحریم سبق الامام برکوع اوسجود ونحوھما )
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی جب نماز مکمل کی تو ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے لوگو! میں تمہارا امام ہوں۔ تم لوگ رکوع، سجدہ ، قیام اور نماز ختم کرنے میں مجھ سے سبقت نہ کیا کرو۔
نماز کا اختتام سلام پر ہے:
عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہاقَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَسْتَفْتِحُ الصَّلٰوۃَ بِالتَّکْبِیْرِ…وَکَانَ یَخْتِمُ الصَّلٰوۃَ بِالتَّسْلِیْمِ۔
(صحیح مسلم ج 1ص195 باب ما یجمع صفۃ الصلوٰۃ وما یفتتح بہ ویختم بہ ،سنن ابی داؤد ج 1ص121 باب من لم یجھر ببسم اللہ الرحمن الرحیم )
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز تکبیر سے شروع فرماتے اور سلام پر ختم کرتے تھے۔
الفاظ سلام:
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّہٗ کَانَ یُسَلِّمُ عَنْ یَّمِیْنِہٖ وَعَنْ یَّسَارِہٖ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ۔
(جامع الترمذی ج1 ص65 باب ماجاء فی التسلیم فی الصلوٰۃ ،شرح معانی الآثار ج 1ص190 باب السلام فی الصلوٰۃ کیف ھو؟ )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دائیں بائیں سلام پھیرتے تھے (اور یہ فرماتے تھے) السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔
کیفیت سلام:
:1 عَنْ عَبْدِاللّٰہِ رضی اللہ عنہ قَالَ رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یُکَبِّرُ فِیْ کُلِّ خَفْضٍ وَّرَفْعٍ وَقِیَامٍ وَقُعُوْدٍ وَ یُسَلِّمُ عَنْ یَّمِیْنِہٖ وَعَنْ شِمَالِہٖ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ حَتّٰی یُرَیٰ بَیَاضُ خَدِّہٖ وَرَاَیْتُ اَبَا بَکْرٍ رضی اللہ عنہ وَعُمَرَ رضی اللہ عنہ مایَفْعَلَانِ ذٰلِکَ۔
(سنن النسائی ج1 ص194باب کیف السلام علی الیمین )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ ہر اونچ، نیچ، قیام ، قعدہ، وغیرہ میں تکبیر کہتے تھے اور دائیں بائیں سلام پھیرتے تھے (اور فرماتے تھے) السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ، یہاں تک کہ آپ کے گالوں کی سفیدی نظر آتی تھی اور میں نے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی دیکھا کہ وہ بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
:2 عَنْ عَامِرِبْنِ سَعْدٍ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ کُنْتُ اَریٰ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یُسَلِّمُ عَنْ یَّمِیْنِہٖ وَعَنْ یَّسَارِہٖ حَتّٰی اَریٰ بَیَاضَ خَدِّہٖ۔
(صحیح مسلم ج1 ص216 باب السلام التحلیل من الصلوٰۃ عند فراغھا وکیفیتہ )
ترجمہ: حضرت عامر بن سعد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں اور بائیں سلام پھیرتے تھے یہاں تک کہ میں آپ کے گالوں کی سفیدی دیکھتا تھا۔
مقتدیوں کا امام کے سلام کے ساتھ سلام پھیرنا:
:1 عَنْ عِتْبَانَ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ صَلَّیْنَامَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَسَلَّمْنَاحِیْنَ سَلَّمَ۔
(صحیح البخاری ج1 ص116 باب یسلم حین یسلم الامام )
ترجمہ: حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا ہم نے سلام پھیرا۔
:2کَانَ ابْنُ عُمَرَ رضی اللہ عنہ یَسْتَحِبُّ اِذَاسَلَّمَ الْاِمَامُ اَنْ یُّسَلِّمَ مَنْ خَلْفَہٗ۔ )ایضاً(
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اس بات کو پسند کرتے تھے کہ جب امام سلام پھیرے تو مقتدی بھی سلام پھیردیں۔
جہری نمازوں میں جہراً اور سری نمازوں میں سراً قراء ت کرنا:
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ یَقُوْلُ فِیْ کُلِّ صَلٰوۃٍ یُقْرَاُ فَمَا اَسْمَعَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَسْمَعْنَاکُمْ وَمَااَخْفٰی عَنَّا اَخْفَیْنَا عَنْکُمْ۔
(صحیح البخاری ج 1ص 106باب القرا ء ۃ فی الفجر،صحیح مسلم ج 1ص170 باب وجوب قرا ء ۃ الفاتحہ فی کل رکعۃ )
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ ہر نماز میں قرات کی جاتی ہے۔ پس جس نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قرات سنائی (یعنی بلند آواز سے پڑھی) ہم بھی تمہیں سناتے ہیں اور جس نماز میں ہم سے اخفاء کیا (یعنی آہستہ پڑھی) تو ہم بھی تم سے اخفاء کرتے ہیں۔
دوران نماز آنکھیں بند نہ کرنا:
عَنِ ابْنِ عَبَّاس رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَاقَامَ اَحَدُکُمْ فِی الصَّلٰوۃِ فَلاَ یَغْمِضْ عَیْنَیْہِ۔
(المعجم الکبیر للطبرانی ج 5ص 247رقم الحدیث 10794،المعجم الاوسط للطبرانی ج 1ص603 رقم الحدیث 2218)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز کے لئے کھڑا ہو تو اپنی آنکھیں بند نہ کرے۔