سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
تذکرۃ المحدثین:
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما
مولانا محمد اکمل راجنپوری حفظہ اللہ
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص ابوعبدالرحمان رضی اللہ عنہما کا شمار صحابہ کرام کی اس جماعت میں ہوتا ہے جو علم وفضل اور عبادت وریاضت کے لحاظ سے خاص امتیاز رکھتے تھے۔
آپ کا علمی ذوق:
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کو علم کی تلاش اور جستجو بہت زیادہ تھی جس کی وجہ سے آپ نے اپنی مادری زبان کے علاوہ عبرانی زبان میں بھی اچھی خاصی مہارت حاصل کر لی تھی۔ دربار نبوی میں اکثر حاضر رہتے، جو کچھ زبان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتے اس کو زیب قرطاس کرلیتے تھے۔اسی ذوق اور جستجو کی بناءپر جس قدر احادیث نبوی کا ذخیرہ آپ کے پاس تھااس کا اندازہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے فرمان سے لگایا جا سکتا ہے، فرماتے ہیں :
لَمْ یَکُنْ اَحَدٌ مِنْ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَکْثَرَ حَدِیْثاًمِنِّیْ اِلَّا مَاکَانَ مِنْ عَبْدِاللہِ بْنِ عَمْرٍو فَاِنَّہٗ یَکْتُبُ وَلَا اَکْتُبُ
سیر اعلام النبلاء ج4ص46
اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و سلم میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہماواحد شخص ہیں جن کے پاس مجھ سے زیادہ احادیث کا ذخیرہ موجود تھا،وجہ یہ تھی کہ عبداللہ بن عمرو احادیث لکھتے تھے اور میں لکھتا نہ تھا۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما جو کچھ زبان نبوت سے سنتے اس کو لکھ لیتے ایک مرتبہ قریش کے چند بزرگوں نے ان کو اس سے منع کیا،تو آپ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے آپ کے ارشادات اور ملفوظات کا ایک مجموعہ جمع کیا جس کا نام صادقہ رکھا۔آپ رضی اللہ عنہما اس مجموعہ کو بہت عزیز رکھتے تھے۔
چنانچہ حضر ت امام مجاہد رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور تکیے کے نیچے سےایک کتاب نکال کر دیکھنے لگا تو انہوں نے منع کیا۔تو میں نے کہا آپ تو مجھ کو اپنی کسی کتاب اور کسی اور چیز سے منع نہ فرماتے تھے تو انہوں نے فرمایا:
إن هذه الصحيفة الصادقة التي سمعتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم ليس بيني وبينه أحد
{ سیر اعلام النبلاء ج4ص46، اسد الغابہ ج3ص234،مسند احمد ج4ص192،سنن ابی داود،باب کتابۃ العلم }
یہ وہ صحیفہ حق ہے جس کو میں نے تنہا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر جمع کیا تھا۔
درس حدیث کا حلقہ:
عالم ربانی کے درس حدیث کا حلقہ بہت وسیع تھا چنانچہ طالبان علوم نبوی دور دراز ممالک سے سفر کرکے حصول حدیث کے لیے ان کے دربار میں حاضر ہوتےاور آپ جہاں جاتے وہیں پہ متلاشیان علم کا ایک جم غفیر آپ کے ارد گرد جمع ہوجاتا تھا۔چنانچہ ایک نخعی بزرگ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں ایلیاء کی مسجد میں جماعت کےساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ ایک شخص میرے پہلو میں آکر کھڑا ہوا۔نماز کے بعد لوگ ہر طرف سے اس کے پاس سمٹ آئے دریافت سے معلوم ہوا کہ یہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما ہیں۔
{مسند احمد ج4ص198}
اخبار رسول کے بیان کرنے میں احتیاط:
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے جب کوئی بات پوچھی جاتی اگر آپ کو یاد ہوتی تو بتا دیتے اگر زبانی کچھ یاد نہ ہوتا تو دیکھ کر جواب دیتے تھے۔
چنانچہ حضرت ابوقبیل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مین نے سوال کیا کہ قسطنطنیہ پہلے فتح کیا جائے گا یا رومیہ؟ان کو زبانی یاد نہ تھا انہوں نے صندوق منگا کر ایک کتاب نکالی اور اس کو ایک نظر دیکھ کر فرمایا کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے لکھ رہے تھے کہ کسی نے یہی سوال کیا تھا۔
{مسند احمد ج2ص176}
طالبان حدیث کے ساتھ برتاؤ:
آپ رضی اللہ عنہما اپنے شاگردوں کے ساتھ نہایت محبت کے ساتھ پیش آتے تھے۔چنانچہ ایک مرتبہ ان کے گرد بہت بڑا مجمع تھا ایک شخص اس کو چیرتا ہوا آگے بڑھا لوگوں نے روکا تو آپ نے فرمایا اس کو آنے دو تو وہ آپ کے پاس آکر بیٹھا اور سوال کیا کہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فرمان یاد ہوتو بیان فرمائیے تو آپ نے فرمایا میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ مسلم وہ ہے کہ مسلمان اس کی زبان اور ہاتھ سے محفوظ رہیں۔
[مسند احمد ج4ص192]
اہل علم کی قدر شناسی:
عالم ربانی سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بہت بڑے عالم اور صاحب علم وعمل ہونے کے باوجود اپنے معاصرین علماء اور اہل علم کی قدر کیا کرتے تھے۔
چنانچہ ایک مرتبہ ان کے سامنے فقیہ الامت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کیا گیا تو فرمانے لگے،لوگوں نے ایک ایسے شخص کا تذکرہ کیا جس کو میں اس دن سے بہت دوست رکھتا ہوں جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن چار آدمیوں سے حاصل کرو اور سب سے پہلے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا نام لیا۔
{صحیح مسلم باب مناقب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ}
تعداد مرویات:
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کے پاس احادیث نبوی کا بہت بڑا ذخیرہ تھا جیسا کہ حافظ الحدیث ابوہریرہ رضی اللہ کا فرمان ہے۔لیکن آپ کی مرویات کی تعداد کتب احادیث میں سات سو[700]ملتی ہیں جن میں سے7احادیث صحیح بخاری ومسلم دونوں میں ہیں۔ جب کہ 8احادیث صرف صحیح بخاری اور 20احادیث صرف صحیح مسلم میں ہیں۔
{سیر اعلام النبلاء ج4ص43،تہذیب ج7ص208}
سن وفات:
آخر کار علوم نبوی کے بحر بیکراں،علم وعمل کے پیکر امام العابدین عالم ربانی سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بھی 65ھ کو دار الفناء کو چھوڑ کر دارالبقاء کو کوچ کرگئے۔
[سیراعلام النبلاء ج4ص48]