زندگی گزارنے کا طریقہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
مجلس الشیخ:
زندگی گزارنے کا طریقہ
ترتیب و عنوانات: مفتی شبیر احمد حنفی حفظہ اللہ
یکم نومبر2012ء بروز جمعرات حضرت الشیخ متکلم اسلام حضرت مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ نے خانقاہ اشرفیہ اختریہ مرکز اہل السنۃ و الجماعۃ 87 جنوبی سرگودھا میں منعقدہ ماہانہ مجلسِ ذکر سے خطاب فرمایا، جس میں زندگی گزارنے کےطریقہ پر دلنشین گفتگو فرمائی۔ افادۂ عام کے لیے اس بیان کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم اما بعد فاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ۔:Īتَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ؀ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُĨ
سورۃ الملک:1،2
میں نے آپ حضرات کی خدمت میں سورت ملک کے شروع کا حصہ تلاوت کیا ہے۔ حدیث مبارک میں سورت ملک پڑھنے کے بہت زیادہ فضائل آئے ہیں اور ترغیب بھی دی گئی ہے کہ رات کو سونے سے قبل اس سورت کو پڑھ لیا جائے۔ جو شخص اس کو پڑھنے کا اہتمام کرتاہے قبر میں یہ سورت اس شخص کو اللہ کے عذاب سے بچا لیتی ہے۔
جامع الترمذی:رقم2890
انسان جو بھی اعمال عالمِ دنیا میں کرتاہے، ان اعمال کی عالمِ مثال میں خاص صورت ہوتی ہے۔ یہ سورۃ الملک بھی قبر میں خاص شکل میں آکر اللہ تبارک وتعالیٰ سے بندہ کو بچانے کی سفارش کرتی ہے۔ ان آیات کریمہ میں اللہ نے بہت ساری باتیں ہمیں سمجھائی ہیں، میں نے اسی مقصد کے لیے ان آیتوں کی تلاوت کی ہے۔
Īتَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُĨ
اللہ تبارک وتعالیٰ بہت بابرکت ذات ہے، اسی کے قبضہ میں پوری دنیا کی بادشاہت وحکومت ہے۔ اللہ جس کو چاہتے ہیں عطا فرماتے ہیں اور جس سے چاہتے ہیں چھین لیتے ہیں۔
Ī وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌĨ
اس پر مجھے ایک واقعہ یاد آیا۔
قدرت باری تعالیٰ پر ایک واقعہ:
یہ اس وقت کی بات ہے جب میں کراچی جامعہ بنوریہ میں پڑھتا تھا اورشبِ جمعہ کا بیان سننے کے لیے مکی مسجد جایا کرتے تھے، بعد میں مرکز بنا تو ’’مدنی مسجد‘‘ اس کا نام رکھا گیا۔کبھی ہمارے ہاں کراچی کے حضرات تشریف لائیں تو میں ان سے گزارش کرتاہوں کہ جب میں تیسرے سال میں کراچی پڑھتا تھا اور اس وقت یہ مدنی مسجد جو تبلیغی جماعت کراچی کا بہت بڑا مرکز ہے ،بنا تھا۔ اللہ کا شکر ہے جب اس کا کنواں کھودا گیا تو کنواں کھودنے کی سعادت اللہ تعالیٰ نے بچپن میں ہمیں عطا فرمائی تھی۔ہم چھوٹے چھوٹے تھے، خواہش ہوتی تھی کہ ایسی نیکیاں کریں جو مستقل صدقہ جاریہ بنیں۔وہاں مرکز کے امیر تھے بھائی امین صاحب ،فوت ہوگئے ،بوڑھے تھے۔شب جمعہ کا بیان فرمارہے تھے، انہوں نے واقعہ بیان کیا کہ دینی مدرسے میں پڑھنے والے سے شیطان کتنا پریشان ہوتاہے- یہ تو آپ کے علم میں ہے کہ ابلیس کا تخت سمندر میں ہے، چھوٹے چھوٹے شیاطین صبح جاتے ہیں اور شام کو رپورٹ دیتے ہیں۔شام والے چلے جاتے ہیں وہ صبح رپورٹ دیتے ہیں بہت سارے شیاطین آئے انہوں نے کارگزاری سنائی کہ فلاں بندے سےکفر کروایا،شاباش!فلاں سے زنا،شاباش!فلاں خاوند بیوی کے درمیان جدائی کرائی، اپنے اپنے اعمال سناتے رہے اور اس سے شاباش لیتے رہے-امیر صاحب فرمانے لگے: ایک شیطان تھوڑی دیر بعد آیا۔وہ تھا بھی لنگڑا قسم کا ،ابلیس نے پوچھا: تو دیر سے آیا ہے، کیا کام کیا؟اس نے کہا: میں نے یہ کام کیا کہ ایک بچہ جو روزانہ مدرسہ میں جاتا تھا آج میں نے اس کی چھٹی کروائی ہے۔ابلیس تخت سے اترا اور اسے سینے سے لگالیا۔شیاطین نے کہا: یہ بھی کوئی بات ہے، اگر اس نے آج چھٹی کرلی تو کل پھر چلا جائے گا۔یہ بعض شیاطین کو اشکال ہوا کہ ہمارے سردار نے اس کو شاباش زیادہ دی ہے جس کا کام چھوٹا ہے۔ تو ابلیس نے اس سے پوچھا کہ تو نے تو اسے آج چھٹی کروائی ہے، وہ کل تو چلا جائے گا۔اس نے کہا کہ اگر بچہ آج مدرسہ نہیں گیا تو کل بھی نہ جائے گا۔ کیونکہ وہ سوچے گا کہ میں اگر اب جاؤنگا تو قاری صاحب ماریں گے کہ کل کیوں نہیں آیا تھا؟گھر بھی نہیں جائے گا کہ ماں مارے گی کہ مدرسہ کیوں نہیں گیا؟تو ماں سمجھے گی کہ مدرسہ میں ہے اور قاری صاحب سمجھیں گے کہ گھر میں ہے اور یہ بھٹکتا رہے گا اور مدرسہ چھوڑ جائے گا،نتیجہ یہ نکلے گا کہ یہ بندہ علمِ دین سے محروم ہوجائےگا، تو میں نے اس لیے ایک دن کی چھٹی کروائی کہ اگلی چھٹیاں یہ خود بخود کرے گا۔اس پر بھی شیاطین کو تعجب ہوا کہ ایک مولوی نہ بنا تو کیا ہوا؟ابلیس نے ان کا یہ سوال اور اشکال دور کرنے کے لیے کہا کہ آؤ میرے ساتھ گشت کرو۔ تبلیغ والے اپنا گشت کرتے ہیں نیک اعمال کے لیے ،شیاطین اپنے گشت کرتے ہیں گناہوں کی طرف لانے کے لیے۔ چنانچہ اس نےچند ایک شیاطین لیے اور ایک عابد کے دروازے پر دستک دی،وہ نیک اعمال کرنے والاتو تھا لیکن عالم نہیں تھا۔گھر والوں نے دروازے سے پوچھا: کون؟انہوں نے کہا کہ ہم نے بڑا اہم مسئلہ پوچھنا ہے، انہیں کہیں ہماری بات سنیں۔گھر والوں نے جواب دیا کہ حضرت اللہ اللہ کر رہے ہیں، بہت زیادہ مصروف ہیں،اس وقت بات نہیں کریں گے۔ابلیس نے کہا: ہمارا بڑا اہم مسئلہ ہے۔ جب گھر والوں نے جا کر بتلایا کہ لوگ آئے ہیں تو وہ بزرگ تشریف لائے۔
ذکر شیخ کی ہدایت کے مطابق کیا جائے:
ہم بہت سے حضرات سے کہتے ہیں کہ آپ ذکرکریں اپنے شیخ سے پوچھ کر، ذکر کی حیثیت مقویات کی سی ہے۔ اگر آپ مقویات اور خمیرہ کھانا چاہیں، حکیم سے پوچھ پوچھ کر کھائیں گے تو وہ بتلائے گا کہ اس کو کتنی مقویات کی ضرورت ہے؟ تو وہ مقرر کر دے گا اور اگر حکیم سے پوچھے بغیر دکان پر جائیں اور پنسار سے دس پندرہ مقویات کے نسخے اٹھالیں جس میں مغزیات ،دیسی گھی سب چیزیں ملی ہوئی ہوں۔بندہ سمجھے گا کہ میں نے طاقت کی چیزیں کھائیں ہیں لیکن پتا اس وقت چلے گا جب یہ بیمار ہوگا۔جس طرح مقویات اور خمیرے حکیم سے پوچھ کر استعمال کرتے ہیں اسی طرح اذکار بھی اپنے شیخ سے پوچھ پوچھ کر کرتے رہیں۔یہ بات عام بندوں کو سمجھ نہیں آتی۔بسا اوقات بندہ اتنے زیادہ ذکر کرتا ہے کہ خوراک ہوتی نہیں جس کی وجہ سے دماغ خشک ہوجاتاہے، وہ سمجھتاہے کہ میں عرش کی سیر کرتاہوں۔ وہ عرش کی سیر نہیں کرتا۔وہ خشکی کا مریض ہوتاہے۔ خشکی دور کر دو تو وہ عرش سے نیچے آجائے گا۔ تو اس لیے اپنے شیخ سے پوچھ کر چلنا ضروری ہے۔
مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ کا فرمان:
مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے بھی استاد تھے اور مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب کے بھی استاد تھے۔بہت بڑے صوفی تھے۔ حضرت فرمایا کرتے تھے کہ دیکھو ذکر کی مثال تو مقویات کی سی ہے، مقویات کے لیے ضروری ہے کہ پہلے آدمی کا معدہ ٹھیک ہو۔ اگر معدہ ٹھیک نہ ہو تو پھر اس کو دیسی گھی پلاؤ اس کو کچھ نفع نہ ہوگا، اگر معدہ اور اندر کا نظام ٹھیک ہو تو خشک روٹی کھلاؤ گے تو اس کو لگے گی اور طاقتور بن جائے گا۔
اگر آدمی گناہوں کی لت سے بچ جائے پھر صرف فرائض پڑھے تو بھی اللہ کا ولی ہے اور ولایت کے اعلیٰ مقامات طے کرتا چلا جائے گا اور اگر گناہ نہیں چھوڑے گا پھر ذکر کرے گا تو اس سے انسان کو نفع نہیں ہوتا۔بہت سارے حضرات کہتے ہیں کہ سال ہوگیا، بیعت کی لیکن مجھے نفع نہیں ہوا۔فائدہ کیسے ہوگا؟
گناہ؛ فیضِ شیخ میں رکاوٹ ہیں:
میں نے جب حضرت اقدس عارف باللہ مولانا حضرت شاہ حکیم محمد اختر دامت برکاتہم العالیہ سے بیعت کی،ہم اشرف المدارس میں بیٹھے تھے۔ مجھے ابھی تک یاد ہے عصر کی نماز کے بعد کا وقت تھا تو حضرت نے فرمایا: چلو بیعت کرتے ہیں۔ عصر کے بعد جب ہم بیٹھے بیعت کرنے کے لیے تو ہوا شمال وجنوب کی چل رہی تھی، بیچ میں دیوار تھی، ہوا نہیں لگ رہی تھی۔ حضرت نے فرمایا: یہاں ہوا نہیں لگ رہی، چلو اوپر چلتے ہیں۔وہاں زبردست ہوا چل رہی تھی۔اس وقت حضرت فرمانے لگے: دیکھو ہوا چل رہی تھی لیکن اس دیوار کی وجہ سے اس ہوا کے فیض سے محروم تھے بالکل اسی طرح مرید شیخ کے پاس رہتاہے لیکن گناہِ کبیرہ کرتاہے تو جس طرح دیوار ہوا کے چلنے کے باوجود رکاوٹ بن رہی تھی اسی طرح مرید کے گناہ شیخ کے فیض میں رکاوٹ بنتے ہیں، وہ سمجھتاہے کہ میرے شیخ میں کمال نہیں، گناہ چھوڑے گا تو فائدہ ہوگا۔ ایک آدمی اپنے حکم سے دوائی لیتاہے ساتھ پرہیز نہ کرے تو دوائی اثر نہیں کرتی۔ اسی طرح شیخ کی مجلس میں ذکر کرتارہے لیکن گناہوں سے نہ بچے تو پھر ذکر کیا اثر کرے گا۔ اللہ ہمیں تمام گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
بقیہ قصہ:
خیر دروازے پر دستک دی بزرگ تشریف لائے۔ ابلیس نے ان سے مسئلہ پوچھا:حضرت! یہ فرمائیں کہ سوئی کے ناکہ سے اللہ تعالیٰ اونٹ گزارسکتے ہیں؟ انہوں نےفرمایا کہ گزار سکتے ہیں، اس لیے کہ’’ إِنَّ اللّهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ‘‘ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہیں،ابلیس نے کہا: کیسے گزاریں گے؟فرمایا کہ ناکہ بڑا کردیں گے یا اونٹ کو چھوٹا کردیں گے۔ابلیس نے کہا: نہیں، سوئی کا ناکہ بھی بڑا نہ کریں اور اونٹ کو بھی چھوٹا نہ کریں۔ اب گزار سکتے ہیں یا نہیں؟اس عابدنے کہا: تیرا دماغ ٹھیک ہے؟ اللہ قادر ہیں یا تو سوئی کا ناکہ بڑا کردیں گے یا اونٹ کو چھوٹا کردیں لیکن یہ تو نہیں کہ ناکہ بھی بڑا نہ کریں اور اونٹ کو بھی چھوٹا نہ کریں پھر بھی گزار دیں، تو مذاق کرتاہے؟!ابلیس نے کہا: جاؤ جا کر سو جاؤ۔پھر ابلیس ایک عالم کے مکان پر لے گیا۔ وہ سوئے ہوئے تھے۔دروازہ کھٹکھٹایا، گھر والوں نے بتلایا کہ وہ تو آرام کررہے ہیں۔ ابلیس نے کہا کہ بڑا ضروری مسئلہ ہے، بڑی دور سے آئے ہیں۔مولوی صاحب تشریف لائے۔ پوچھا :کیا کام ہے؟انہوں نے وہی مسئلہ پوچھا کہ بتاؤ اللہ پاک سوئی کے ناکہ کو بڑا کیے بغیر، اونٹ کو چھوٹا کیے بغیر گزار سکتے ہیں یا نہیں؟فرمایا: ہاں گزار سکتے ہیں۔کہا :کیسے؟فرمایا:’’وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ‘‘ ہیں، گزار سکتے ہیں۔ کہا: کیسے؟فرمایا: اگر بات عقل میں آئے پھر مانیں تو پھر ہم نے عقل کی بات مانی خدا کی قدرت کو تو نہیں مانا۔عقل میں نہ آئے پھر بھی مانے اس کانام خدا کی قدرت کو ماننا ہے۔ابلیس نے کہا: ٹھیک ہے جا کر سو جائیں اور اپنے چیلوں سے کہا: چلو اب بتاؤ بات سمجھ میں آئی ؟کہنے لگے: نہیں، تو ابلیس کہنے لگا: بزرگ صبح اٹھے گا اور لوگوں کو بتائے گا کہ رات کو یہ واقعہ پیش آیا میں نے یہ جواب دیا خود بھی کفر پر مرا پورے محلہ کو بھی کافر بنا دے گا اور مولانا صاحب فجر کی نماز پڑھائیں گے اور یہ واقعہ بتلائیں گے، خود بھی توحید پر جائیں گے اور پورے گاؤں کو توحید پر لے آئیں گے۔اس نے بچہ کو مولوی بننے سے روک دیا اس نے بہت بڑا کام کیا ہے۔
علاقوں کے علاقے بدلتے ہیں ایک عالم کی وجود سے۔ اللہ ہمیں ان کی قدر کرنے کی توفیق عطافرمائے [آمین]
زندگی اور موت پیدا کرنے کا مقصد:
اگلی بات فرمائی’’الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ ‘‘ اللہ نے موت کو بھی پیدا فرمایا اور اللہ نے زندگی کو بھی پیدا فرمایا۔ کیوں پیدا فرمایا؟اللہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں:’’أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا‘‘کہ تم میں سے اچھا عمل کون کرتاہے؟
ایک عجیب نکتہ:
حضرت حکیم صاحب فرماتے ہیں کہ میں خود یہ آیت اپنے شیخ سے پڑھ رہا تھا، میرے شیخ مولانا عبدالغنی پھولپوری رحمہ اللہ نے مجھ سے پوچھا: بتاؤ! پہلے زندگی ہے یا موت ؟میں نے کہا: پہلے زندگی ہےپھر موت۔فرمایا: جب پہلے زندگی پھر موت ہے تو اللہ کو یوں فرمانا چاہیے تھا کہ ’’ الَّذِي خَلَقَ الْحَيَاةَ وَالْمَوْتَ‘‘۔اب ادب دیکھو فرماتے ہیں:میں نے شیخ سے کہا: آپ ہی جواب عنائیت فرمائیں۔شیخ نے کہا اللہ رب العزت نے موت کو پہلے اس لیے بیان کیا کہ موت بھی ہے اورزندگی بھی ہے لیکن جو بندہ موت کو سامنے رکھ کر زندگی گزارتاہے اس کے جینے کا انداز اور ہوتا ہے اور جو زندگی کو سامنے رکھ کر زندگی گزارتاہے اس کے جینے کا انداز اور ہوتاہے۔
زندگی گزارنے کے طریقے:
دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے دو طریقے ہیں:
1: آدمی زندہ رہے جینے کے لیے۔
2: آدمی زندہ رہے مرنے کے لیے۔
جو آدمی جیتا ہے جینے کے لیے اس کے جینے کے انداز اور ہوتے ہیں اور جو آدمی جیتا ہے مرنے کے لیے اس کے جینے کے انداز اور ہوتے ہیں۔
آج دو مسئلے ہیں۔ایک ہماری ذات کااور دوسرا ہماری اولاد کاکہ میرا مکان اچھا ہو، میری اولاد کا مکان بھی اچھاہو، میں بھی اچھی زندگی گزاروں اور میری اولاد بھی اچھی زندگی گزارے، میں بھی خوشحال ر ہوں اور میری اولاد بھی خوشحال ہو۔
جینے کے لیے جینا:
جہاں تک اپنی ذات کا مسئلہ ہےآج پوری دنیا میں ایک لڑائی شروع ہے، آپ سیاسی جماعتیں دیکھ لیں، یونینیں دیکھ لیں، پوری دنیا میں ایک ہی لڑائی جاری ہے، وہ لڑائی کیاہے؟اسے کہتے ہیں ’’حقوق کی جنگ‘‘۔ ہمارا حق ہے حکومت نہیں دیتی، حکومت کہتی ہمارا حق ہے وہ نہیں دیتے ،وکیل کہتے ہمارا حق ہے عدالت نہیں دیتی ،استاد کہتاہے: شاگرد میرا حق نہیں دیتا، شاگرد کہتاہے: استاد میرا حق نہیں دیتا۔ پوری دنیا میں حقوق کی جنگ ہے۔ یہ جنگ ان کی ہے جو دنیا میں جیتے ہیں جینے کے لیے۔ ان کو ایک ہی فکر ہے کہ اپنا حق کیسے لے لیں اور اب تو اپنے حق سے بڑھ کر یہ ہے کہ دوسرے کا حق کیسے چھین لیں؟اگر بات یہیں تک ہوتی کہ اپنا حق لینا ہے تو گنجائش تھی لیکن دوسرے کا حق چھیننا اس کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔لیکن چوبیس گھنٹے ہماری ایک ہی فکر ہے کہ میں اپنا حق کیسے لے لوں یا دوسرے کا حق کیسے چھین لوں؟یہ ان کی زندگی ہے جو جیتاہے جینے کے لیے اس کو یہی فکر ہے کہ میرا مال کسی کے پاس نہ رہ جائے، میں لے کر مروں گا،مرجاؤں گا لیکن ایک مرلہ نہیں چھوڑوں گا۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی لڑائی ہوتی ہے آٹھ آٹھ آنے پر۔
دو واقعات:
ایک واقعہ سرگودہا جیل میں دیکھا، بالکل ہمارے قریب گاؤں ہے۔ وہاں کا ایک آدمی جیل میں پچیس سالہ سزا کاٹ رہا ہے، وجہ کیاکہ ایک بندہ آیا اس نے اپنی سائیکل کو پنچر لگوایا اورپیسے نہیں دئیے۔ اس نے پمپ مارا اور بندہ مرگیا۔یہ آج سے بارہ پندرہ سال پہلے کی بات ہے، اس وقت پنچر کتنے کا لگتاتھا؟ آٹھ آنے یا ایک روپے کااور پرسوں اخبارات میں آپ نے خبر پڑھی ہوگی، کراچی میں پٹرول پمپ پر دو لڑکے آئے، پٹرول ڈلوایا موٹر سائیکل میں تیس روپے کا۔کہا: ہم نہیں دیتےپیسے، گارڈ کھڑا تھا، اس نے فائر مارا۔ ایک مرگیا ایک زخمی ہوگیا۔ اب جب مرگیاتو وہ کھڑا معافیاں مانگ رہاہے کہ مجھے معاف کردو ،اب معافی کا کیا مطلب؟ اب تجھے سزائے موت ہوگی اور آپ نے اپنے دیہاتوں میں دیکھا ہےلڑائی کس پر ہے ایک بنّے پر،پانی کی باری پر،بکریاں کھیت میں آگئیں اس پر لڑائی، یہ ساری لڑائیاں کیوں ہیں؟کہ بندہ جیتاہے جینے کے لیے۔
مرنے کے لیے جینا:
اور جو آدمی جیتاہے مرنے کے لیے وہ یہ نہیں سوچتا کہ میں نے کس کس سے لینا ہے بلکہ وہ سوچتاہے کہ میں نے کس کس کو دینا ہے؟ اس کی خواہش یہ ہے کہ جب میں دنیا سے جاؤں تو میرے ذمے کسی کا قرض نہ ہو،میں اپنا نامہ اعمال صاف کرکے اللہ کے ہاں پہنچ جاؤں۔جو جیتاہے جینے کے لیے وہ دیکھتاہے کہ لوگ مجھے کیا کہیں گے؟داڑھی رکھ لی لوگ کیا کہیں گے؟پگڑی باندھ لی لوگ کیا کہیں گے؟حرام کام چھوڑ دیا تو لوگ کیا کہیں گے؟اور جو جیتا ہے مرنے کے لیے وہ دیکھتاہے میں نے یہ کام کرلیا تو میرا اللہ کیا کہے گا؟
حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا مرید کو جواب:
حکیم الامت حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ لوگوں کے امراض کو جانتے تھے، ایک شخص نے خط لکھا۔ مرید کا خط اور شیخ کا جواب سنو۔مرید نے کہا: حضرت!آپ کی بیعت کرلی ہے، پھر میں نے داڑھی رکھ لی ہے، داڑھی رکھنے پر لوگ ہنستے ہیں۔ جواب سنو، فرمایا: آج لوگ ہنستے ہیں، اگر داڑھی تو نے برقرار رکھی تو پھر قیامت کے دن تجھے رونا نہیں پڑے گا۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے، یہ نہ کیا تو لوگ کیا کہیں گے؟پوری جنگ اس بات پر ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟آج تھوڑے سے لوگ ہیں تھوڑی سی بدنامی کا ڈر ہے اور قیامت کے دن حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک آنے والے اربوں کھربوں لوگ جمع ہوں گے، کیا وہ ذلت برداشت کر لیں گے؟اللہ ان کے سامنے پوچھ لیں کہ یہ کام کیوں کیا تھا؟ نبی کی سنت کو کاٹ کر گندی نالی میں کیوں بہایاتھا؟میں نے تجھے سودیے تجھے ساڑھے ستانوے نظر نہیں آئے تجھے اڑھائی کا بوجھ نظر آتاہے؟کتنا ظالم ہے اس کو زکوٰۃ بوجھ نظر آتی ہے، اڑھائی جو دیتاہے وہ بھی اپنے لیے نہیں بندوں کے لیے اور اس پر بھی وعدہ ہے کہ میں اس کو کئی گنا ضرب دے کر تجھے واپس کردوں گا۔
جینے کے لیے جینےوالوں کی فکر:
جو جینے کےلیے جیتاہے اسکی کوشش ہوتی ہے کہ سب سے لے لوں اور جو مرنے کے لیے جیتاہے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ میں سب کو دے دوں اس لیے جینے کے لیے جینے والے کی فکر اور ہوتی ہے اور مرنے کے لیے جینے والے کی فکر اور ہوتی ہے۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے واقعات:
1: امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ بہت بڑےامام ہیں۔ بہت بڑے زاہد، بہت بڑے عابد، بہت بڑے فقیہ اور بہت بڑےتاجر بھی تھے۔ایک مرتبہ ایک خاتون ریشم لے کر آئی۔امام صاحب نے پوچھا: کتنے کا ہے؟کہنے لگی سو درہم کا ،فرمایا:یہ زیادہ کا ہے، کہنے لگی: دو سو درہم۔ آپ نے فرمایا: اور بھی زیادہ کا ہے۔ اس نے کہا: تین سو درہم۔ فرمایا: اب بھی زیادہ کا ہے۔ اب بتلاؤ دکاندار کی خواہش ہوتی ہے سستا مال لوں اور مہنگا بیچوں۔ امام صاحب فرمارہے ہیں:یہ مہنگا ہے تو سستا بیچ رہی ہے۔ آخرچار سو درہم تک بات گئی۔ فرمایا: نہیں، یہ اس سے بھی مہنگا ہے۔تو وہ عورت کہنے لگی:آپ مجھ سے مذاق کرتے ہیں؟ فرمایا: مجھے مذاق کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جاؤ کسی مرد کو بلا لاؤ، وہ مرد کو بلا لائی تو امام صاحب نے پانچ سو درہم میں اس ریشم کو خرید لیا۔
عقود الجمان مترجم: ص318، 319
سو درہم کو ریشم پانچ سو درہم میں لے رہے ہیں، کیوں؟یہ دیہاتی عورت ہے اسے پتہ نہیں قیمت کا۔ تو میں اسے دھوکہ کیوں دوں؟ یہ امام اعظم تھے۔
2: امام اعظم رحمہ اللہ ایک آدمی کے دروازے کے پاس دھوپ میں بیٹھے ہوئے تھے۔گرمی کا موسم ہے دیوار کا سایہ نہیں لیتے۔امام یحییٰ بن ابی زائدہ رحمہ اللہ نے پوچھا: آپ سائے میں کیوں نہیں آئے؟تو فرمایا:اس سائے میں بیٹھنا جائز نہیں ہے۔ کہا: کیوں؟فرمایا:مالک مکان پر میرا قرض ہے اور جس بندہ سے قرضہ لینا ہو اس سے نفع اٹھانا سود ہوتاہے۔میں اس کے مکان کے سائے میں بھی نہیں بیٹھوں گا، کہیں یہ قیامت میں سود میں شمار نہ کیا جائے۔
عقود الجمان مترجم: ص321
تو میں نے پہلی فکر یہ بتلائی کہ جو جیتاہے مرنے کے لیے اس کی فکر یہ ہوتی ہے کہ میں نے کس کس کے دینے ہیں اور جو جیتاہے جینے کے لیے اس کی فکر یہ ہوتی ہے کہ میں نے کس کس سے لینے ہیں۔دوسری فکر میں نے بتائی کہ جو آدمی جیتاہے جینے کے لیے اس کی فکر یہ ہوتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے اور جو جیتاہے مرنے کےلیے اس کی فکر کیا ہے’’ میرا اللہ کیا کہے گا، میرا رسول کیا کہے گا، میں نے کل ان کے سامنے جانا ہے، کس منہ سے ان کے سامنے جاؤں گا، کون سی شکل لے کر جاؤں گا‘‘۔ ایمان سےبتاؤ: بندہ اگر پندرہ ہزار روپے پر پولیس کا ملازم ہو اور اس کو پتہ ہو کہ آئی جی بغیر ٹوپی کے آنے کو پسند نہیں کرتا، وہ آئی جی کے سامنے ننگے سر جا سکتاہے؟ بتاؤ کبھی بھی جائے گا؟ [نہیں۔ سامعین]اور اللہ کے دربار میں ننگے سر کیوں ہے؟بندہ کو فکر نہیں، دل میں خدا کی عظمت نہیں، وگرنہ بندہ کٹ جاتا کبھی ننگے سر خدا کے دربار میں نہ جاتا۔اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق دے۔اس پر ایک واقعہ عرض کرتاہوں۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا ایمان افروز جواب:
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے راز دان ہیں۔دسترخوان پر بیٹھے تھے۔ سامنے ایران کے جرنیل بیٹھے ہیں، مذاکرات تھے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے کھانے کا لقمہ زمین پر گرا۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اٹھایا، صاف کیا۔ جب صاف کرکے کھانے لگے ساتھ بیٹھے آدمی نےکہنی ماری: یہ لوگ کیا کہیں گےکہ ان کو کھانے کا طریقہ نہیں آتا۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے تاریخی جملہ ارشاد فرمایا جس کو تاریخ نے سینہ میں محفوظ کر رکھا ہے، فرمایا:
’’ اترک سنۃ حبیبی لہولاء الحمقاء‘‘
ان بےوقوفوں کی وجہ سے محبوب کی سنت کو چھوڑ دوں؟ یہ مجھ سے نہیں ہوگا۔
میں نے کہا: جو جیتاہے جینے کےلیے اس کی فکر کیا ہوتی ہے؟لوگ کیا کہیں گے اور جو جیتاہے مرنے کے لیے اس کی فکر کیا ہوتی ہے؟میرا اللہ کیا کہے گا؟ میرا رسول کیا کہے گا؟اب آپ بتاؤ مرنے کےلیے جینا ہے یا جینے کے لیے جینا ہے؟
اس پر میں آپ کو ایک شعر سناتاہوں، اس کو ذہن میں رکھا کرو:
لوگ سمجھیں مجھے محروم وقار وتمکیں مگر وہ نہ سمجھیں کہ میری بزم کے قابل نہ رہا
لوگ جیسا بھی سمجھیں لیکن اللہ یہ سمجھیں کہ یہ میرا ہے۔ تو بس یہ دعا کریں کہ اللہ ہمارا بن جائے لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ ہمارے شیخ فرماتے ہیں:
جو تو میرا تو سب میرا،آسماں میرا زمیں میری
اک تو نہیں میرا ، تو کوئی شئی نہیں میری
اللہ کی قسم آپ اللہ کے بن جاؤ پوری زمین آپ کی ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی میں نے سنایا جگر مراد آبادی شرابی تھا،بعد میں توبہ کی، اللہ والا بن گیا، حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ کےہاتھ پر بیعت کی، شراب چھوڑ دی، بدل گیا۔جب جگر مراد آبادی واپس آیا۔جگر کو ڈاکٹروں نے کہا :جگر! شراب پیو وگرنہ مر جاؤ گے،تمہارا معدہ شراب کا عادی ہے۔تو جگر نے پوچھا: اگر میں شراب پیتا رہا تو کتنے سال تک جی سکتاہوں؟تو انہوں نے کہا: اگر شراب پیو گے تو چھ، سات سال زندہ رہ جاؤ گے۔ جگر چونکہ بیعت ہوگیا تھا اب دل میں اللہ کی محبت کی چوٹ لگ گئی تھی، جگر انہیں کہنے لگا: میں شراب پی کر زندہ رہوں اس سے بہتر ہے کہ شراب چھوڑوں اور ابھی مرجاؤں۔کیوں؟شراب پیوں گا تو میرا اللہ ناراض ہوگا، شراب چھوڑوں گا تو میرا اللہ خوش ہوگا، خدا کو ناراض کرکے زندہ رہنے سے بہتر ہے اللہ کو راضی کروں اور فوراً مرجاؤں۔ شراب چھوڑ دی پھر چھ سال نہیں کئی سال تک زندہ رہا۔ موت وحیات تو اللہ کے اختیار میں ہے۔
ذات اور اولاد کا مسئلہ:
میں آخری بات عرض کرتاہوں، میں نے عرض کیا تھاکہ ایک معاملہ ہے ہماری ذات کا دوسرا معاملہ ہےہماری اولاد کا۔ذات کے بارے میں دو باتیں بتلائیں۔ جو شخص دنیا میں جیتاہے جینے کےلیے اس کو فکر ہوتی ہے میں مر گیا تو میری اولاد کا کیا بنے گا؟اور جو جیتاہے مرنے کےلیے اس کی فکر ہوتی ہے میری اولاد مر گئی تو اس کا کیا بنے گا؟دونوں میں فرق سمجھ آگیا؟ہم میں سے ہر ایک کو یہ فکر ہےکہ میں مرگیا تو اولاد کا کیا بنے گا ؟چلو میٹرک کرے، بی اے کرے، ایم اے کرے، کوئی محنت ومزدوری کرے،’’بیٹا! جتنی دیر میں زندہ ہوں اتنی دیر تک بہاریں ہیں، میں مر گیا تو تجھے کسی نے پوچھنا تک نہیں‘‘۔ والدین یہی بات کہتے ہیں نا؟کیا جو خدا تجھے پوچھتاہے تیری اولاد کو نہیں پوچھے گا؟ اِس سے پوچھو: جب تیرا باپ مرا پھر تجھے خدا نے چھوڑ دیا تھا؟ ہمارا دادا مر گیا خدا نے باپ کو نہیں چھوڑا، باپ مرگیا تو ہمیں نہیں چھوڑا ہم مرگئے تو خدا ہماری اولاد کو چھوڑدیں گے؟ہم کیسی بات کرتے ہیں؟اولاد کے جینے کا فکر کرو ہم اس سے منع نہیں کرتے لیکن اولاد کے مرنے کا بھی فکر کرو وگرنہ بڑا نقصان ہوگا۔ قیامت کے دن جب جہنم میں اولاد جائے گی تو کہے گی اللہ میرے والدین کو دوگنا عذاب دے۔ یہ ہمیں دین پر لگاتے ہم لگ جاتے، ہم جو دین پر نہیں لگے تو یہ میرے باپ اور میری ماں کا قصور ہے۔ کیوں قیامت میں خدا کی عدالت میں مجرم بن کے کھڑے ہوتے ہو؟اس لیے آج طے کرو کہ ہم اپنی زندگی بھی بدلیں گے اور اپنی اولاد کی زندگی بھی بدلنے کی فکر کریں گے۔میں انہی باتوں پر اپنی گفتگو ختم کرتاہوں۔میں بھی توبہ کرتاہوں آپ بھی توبہ کریں۔کسی بندے کا حق دینا ہے تو اللہ کے لیے حق کو جلدی ادا کریں اور اگر استعداد نہیں ہے تو اس سے معافی مانگو۔ اگر معاف نہیں کرتا تو لکھ کر اپنے گھر رکھو اور اولاد کو کہہ دو: میں نے فلاں فلاں کا دینا ہے جب اللہ توفیق عطا فرمائے دے دینا۔وصیت کرکے مرجاؤ۔ امید ہے اللہ کوئی نہ کوئی صورت پیدا فرمادیں گے۔اللہ ہم سب کویہ باتیں سمجھنے اور ان پر عمل کرنےکی توفیق عطا فرمائے۔
آمین
و اٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین