مفتی محمد کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ اور عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
 
مولانا محمد زکریا حفظہ اللہ
مفتی صاحب رحمہ اللہ کا مسلک عقیدہ حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں آپ کے فتاوٰی” کفایت المفتی“ کے چند فتاوی سے واضح ہوجاتاہے ،جو ذیل میں درج کیے جاتے ہیں۔ ان سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کا نظریہ اس بارے میں کیا ہے اور وہ لوگ جو اس عقیدہ کے انکاری ہو کر حضرت مفتی صاحب کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں کتنی سچائی میں ہیں؟عبارات ملاحظہ ہوں۔
فتویٰ1:
سوال: انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں یا نہیں؟
جواب: انبیاء کرام علیہم صلوٰات اللہ اجمعین اپنی قبور میں زندہ ہیں، مگر ان کی زندگی دنیاوی زندگی نہیں ہے بلکہ برزخی اور تمام دوسرے لوگوں کی زندگی سے ممتاز ہے۔ اسی طرح شہداء کی زندگی بھی برزخی ہے اور انبیاء کی زندگی سے نیچے درجے کی ہے۔دنیا کے اعتبار سے تو وہ اموات میں داخل ہیں
” إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ “
کی صریح دلیل ہے۔
[کفایت المفتی ج1ص80دارالاشاعت]
فتویٰ 2:
سوال : حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم ثابت ہے یا نہیں؟
جواب: ہاں انبیاء علیہم السلام کو حضرت حق تعالیٰ نے ایک مخصوص اور ممتاز حیات عطا فرمائی ہے، جو شہداء کی حیات سے ممتاز ہے اور شہداء کو ایک حیات عطا ہوتی ہے جو اولیاء کی حیات سے امتیاز رکھتی ہے مگر یہ زندگی دنیا کی زندگی سے علیحدہ ہے، کیونکہ دنیا کی زندگی کے لوازم ان میں پائے نہیں جاتے۔
[کفایت المفتی ج1ص88دارالاشاعت]
فتویٰ3:
سوال: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر اطہر میں زندہ ہیں؟
جواب: جماہیر امت محمدیہ کا یہ قول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قبر اطہر میں حیات مخصوص کے ساتھ حیات ہیں۔ باقی یہ بات کہ اس حیات کی حقیقت کیا ہے؟یہ حضرت حق کو ہی معلوم ہے، وہ حیات حضور انور پر میت کے اطلاق کے منافی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن پاک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرکے فرمایا ہے:
إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ۔
[الزمر:30]
اور دوسری جگہ فرمایا .
أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَز
[آل عمران:144]
اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضور علیہ السلام کی وفات کے بعد مجمع صحابہ کو خطاب کرکے فرمایا تھا ۔
من كان منكم يعبد محمدا فإن محمدا صلى الله عليه و سلم قد مات
[ صحيح ابن حبان باب وفاتہ صلی اللہ علیہ وسلم، السنن الكبرى]
فتویٰ4:
سوال: سماع موتیٰ محققین علماء کے نزدیک ثابت ہے یا نہیں؟
جواب: مسئلہ سماع موتی قرون اولیٰ سے مختلف فیہ چلا آتاہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا بھی اس میں اختلاف تھا ،قرن صحابہ کے بعد بھی ہمیشہ علماء اس میں مختلف رہے۔ اکثر صوفیہ سماع موتیٰ کے قائل ہیں لیکن علمائے حنفیہ کے نزدیک ثابت نہیں۔ہاں میت کو قبر میں رکھنے کے بعداس قدر حیات اس میں ڈالی جاتی ہے کہ وہ آرام یا تکلیف کو محسوس کرے۔
وَلَا يَرِدُ تَعْذِيبُ الْمَيِّتِ فِي قَبْرِهِ لِأَنَّهُ تُوضَعُ فِيهِ الْحَيَاةُ عِنْدَ الْعَامَّةِ بِقَدْرِ مَا يُحِسُّ بِالْأَلَمِ وَالْبِنْيَةُ لَيْسَتْ بِشَرْطٍ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ بَلْ تُجْعَلُ الْحَيَاةُ فِي تِلْكَ الْأَجْزَاءِ الْمُتَفَرِّقَةِ الَّتِي لَا يُدْرِكُهَا الْبَصَرُ ،
[فی الشامی ج3ص134]
تاہم کسی فریق کو یہ حق نہیں کہ وہ دوسرے فریق کی تضلیل یا تفسیق یا تجہیل کرسکے کیونکہ اس صورت میں مسئلہ قرون اولیٰ میں بھی مختلف فیہ تھا اس تضلیل یا تفسیق یا تجہیل کا اثر صحابہ کرام تک پہنچے گا۔ ولاشک فی فسادہ
[کفایت المفتی ج1ص201،202دارالاشاعت]
فتویٰ5:
سوال: مولود میں لفظ ”یارسول السلام علیک یا حبیب السلام علیک “پکار کرکہنا اس غرض سے کہ سمجھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک محفل میلاد میں آتی ہے، لہذا برائے تعظیم کھڑے ہوکر لفظ مذکور کو پکار کر کہتے ہیں۔ آیا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟
جواب: صلوٰۃ وسلام کے ساتھ ”یارسول“و ”یاحبیب“ندا کے الفاظ سے پکارنا اس خیال سے کہ صلاۃ وسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرشتوں کے ذریعہ پہنچا دیا جاتاہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک ہماری ندا اور خطاب پہنچ جاتاہے جائز اور درست ہے، قبر مبارک پر ایک فرشتہ مقرر فرمادیا گیا ہے اور اس کو ایسی قوت سامعہ عطا فرمائی کہ وہ تمام مخلوق کے صلاۃ وسلام سن کر حضرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کردیتاہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جواب دیتے ہیں[ اس کے بعد نواب صدیق حسن خان کی نزل الابرار کی عبارت لکھی ہے جو کہ طوالت کی وجہ سے چھوڑ دی گئی ہے]ہاں اس خیال اور اعتقاد سے ندا کرنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک مجلس مولود میں آتی ہے، اس کا شریعت مقدسہ میں کوئی ثبوت نہیں اور کئی وجہ سے یہ خیال باطل ہے۔
اول یہ کہ حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر مبارک میں زندہ ہیں، جیسا کہ اہل السنۃ والجماعۃ کا مذہب ہے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک کا مجالس میلاد میں آنا بدن سے مفارقت کرکے ہوتاہے یا کسی اور طریقے سے؟اگر مفارقت کرکے مانا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبر مطہر میں زندہ ہونا باطل ہوتاہے یا کم ازکم اس زندگی میں فرق آنا ثابت ہوتاہے۔ تو یہ صورت علاوہ اس کے بےثبوت ہے، باعث توہین ہے، نہ موجب تعظیم اور اگر مفارقت نہیں ہوتی تو پھر ہر مجلس مولود میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی بدن روح کے ساتھ ہوتی ہے یا محض بطور کشف وعلم کے؟پہلی صورت بداہۃً باطل ہے اور دوسری صورت بےثبوت اور بعض اعتبار سے موجب شرک ہے کہ آن واحد میں مجالس کثیرہ کا علم ہونا اس طرح کہ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہرجگہ حاضر وناظر ہیں، یہ خاصہ ذات احدیت ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرجگہ حاضر وناظر سمجھنا شرک ہے۔
فتویٰ 7:
یہ تمام عبارت جناب سجاد بخاری صاحب کی کتاب
” اقامۃ البرہان علی ابطال وساوس ہدایۃ الحیران “
سے ماخوذ ہے ملاحظہ ہو۔
”حضرت مفتی صاحب بھی المہند کے مصدقین میں سے ہیں اور اس سے ان کا مسلک بھی معلوم ہوسکتاہے، مگر ہم غیر مبہم اور اس سے واضح تر عبارت میں حضرت مفتی صاحب کا مسلک پیش کرتے ہیں۔ حضرت مفتی صاحب نے ایک استفتاء کے جواب میں تحریر فرمایا:
الجواب: انبیاء علیہم السلام زندہ ہوتے ہیں، یعنی ان کو ایک برزخی زندگی حاصل ہوتی ہے، ان کی قبر مطہر کے قریب کھڑے ہوکر ان کو سلام عرض کرنا جائز ہے، انبیاء علیہم السلام کے سوا اور کسی ولی کی قبر پر سلام کرنا اور یہ سمجھنا کہ وہ سنتے ہیں درست نہیں۔۔۔۔۔الخ محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ دہلی“
اصل فتویٰ راقم الحروف سجاد بخاری کے پاس محفوظ ہے، جو راقم کو مولانا عبدالمجید حال خطیب سرائے عالمگیر سابق خطیب نوشہرہ درکاں سے حاصل ہوا۔فتوی کی پوری عبارت حضرت مفتی صاحب کےاپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے۔
[ اقامۃ البرہان علی ابطال وساوس ہدایۃ الحیران ص213]
مندرجہ بالا فتاوی سے حضرت مفتی صاحب کا مسلک روز روشن کی طرح واضح ہوجاتا ہےجس کے بعد کسی منکر حیات کو راہ نہیں مل سکتی کہ وہ مفتی صاحب رحمہ اللہ کے فتوی ونظریات کو اپنے لیے استعمال کرے۔