فتاویٰ عالمگیری

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
 
مولانا محمد یوسف حفظہ اللہ
فتاویٰ پر اعتراضات کا علمی جائزہ:
منکرین فقہ کی طر ف سے ویسے تو آئے دن فقہ اور ائمہ فقہ کے خلاف کتابیں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ مگر چند کتابیں ایسی بھی ہیں جو خصوصاً فقہ حنفی کی مستند اور مایہ ناز کتاب ” فتاویٰ عالمگیری“کے خلاف لکھی گئی ہیں۔ جن میں معترضین حضرات نے یہ ثابت کرنے کی لاحاصل کوشش کی ہےکہ ” فتاویٰ عالمگیری“کے مسائل قرآن وحدیث کے خلاف ہیں۔ مگر حقائق کیا ہیں؟اس کا فیصلہ وہ شخص بآسانی کر سکتاہے جو تعصب وعناد کی عینک اتار کر فقہ حنفی کا مطالعہ کرے۔اور اس منصف مزاج آدمی کے لیے یہ سمجھنا بھی مشکل نہ ہوگا کہ مسائل فقہ خصوصا ً ” فتاویٰ عالمگیری“ پر اعتراضات اٹھانے والے حضرات یا تو ادھوری عبارت نقل کرتے ہیں، یا وہ مسائل سمجھنے میں کفایت شعاری سے کام لیتے ہیں ، یا پھر حسب عادت فقہ دشمنی کے زیر اثر تعصب وعناد کے ہاتھوں مجبور ہوکر ورق سیاہ کرتے ہیں۔ذیل میں ہم غیر مقلد عالم مفتی عبیداللہ خان عفیف کی طرف سے فتاویٰ عالمگیری پر کیے جانے والے اعتراضات میں سے بطور نمونہ چند ایک کا علمی جائزہ پیش کرتے ہیں تاکہ قارئین کرام کے سامنے معترض کی شخصیت اور اعتراضات کی حقیقت واضح ہوجائے۔
1:سر کے مسح کا انکار:
موصوف نے فتاویٰ عالمگیری پر ایک اعتراض یہ کیا ہے کہ اس میں سر پر مسح کرنے کا حکم الگ سے مذکور نہیں ہے بلکہ مسح کرنے کے بجائے منہ کے ساتھ ہی سر دھونے کا حکم ہے۔جب کہ قرآن وحدیث میں وضو کے دوران میں سر کا مسح کرنے کا حکم الگ موجود ہے۔اس اعتراض میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیےفاضل معترض نے پہلے سورۃ المائدہ کی آیت نمبر6لکھی جس میں وضو کے فرائض کا بیان ہے۔پھر یہ حدیث مبارک نقل کی:
عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى الْمَازِنِيِّ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ وَهُوَ جَدُّ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى أَتَسْتَطِيعُ أَنْ تُرِيَنِي كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ نَعَمْ فَدَعَا بِمَاءٍ فَأَفْرَغَ عَلَى يَدَيْهِ فَغَسَلَ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ مَضْمَضَ وَاسْتَنْثَرَ ثَلَاثًا ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا ثُمَّ غَسَلَ يَدَيْهِ مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ ثُمَّ مَسَحَ رَأْسَهُ۔۔۔۔ الخ
[بخاری ج1ص31باب مسح الراس]
ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا، کیا آپ مجھے بتلا سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کیسے کرتے تھے؟حضرت عبداللہ نے فرمایا جی ہاں۔پھر آپ نے پانی منگوایا ، اپنے ہاتھ پر ڈالا اور اسے دو دفعہ دھویا پھرتین بار کلی کی اور ناک جھاڑی پھر اپنا چہرہ تین بار دھویا پھر اپنے بازؤں کو دو دو فعہ کہنیوں تک دھویا پھر دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کا مسح کیا۔۔۔۔۔۔الخ
آیت کریمہ اور حدیث مبارک لکھنے کے بعد موصوف نے فقہ کو قرآن وحدیث کے خلاف ثابت کرنے کے لیے فتاویٰ عالمگیری کی یہ عبارت پیش کی:
وإذا غَسَلَ الرَّأْسَ مع الْوَجْهِ أَجْزَأَهُ عن الْمَسْحِ
[ فتاویٰ عالمگیری ج1ص7]
اگر منہ کے ساتھ سر کو دھولیا تو یہ مسح کے قائم مقام ہوجائے گا۔
قارئین کرام! نہایت مناسب ہوگا کہ ہم پہلے علماء احناف کی کتابوں سے سر کے مسح کی حیثیت واضح کردیں اس کے بعد عالمگیری کی مذکورہ عبارت کا درست مفہوم بیان کریں گے۔
مسلک حنفی میں وضو کے دوران میں سر کے مسح کو فرض قرار دیا گیا ہے۔ چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں۔
1: مشہور حنفی مفسر قاضی علامہ ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ سورہ مائدہ کی آیت:6کے تحت لکھتے ہیں :
”فقلنا بوجوب مسح ربع الراس لأن للراس اربعة جوانب مقدم الراس واحد منها “
[تفسیر مظہری ج3ص47]
.1 ہم چوتھائی سر کے مسح کی فرضیت کے قائل ہیں اس لیے کہ سر کی چار طرفیں ہیں۔ اور ان میں سے ایک جانب سر کے سامنے والا حصہ ہے.
2.فقہ حنفی کی معتبر کتاب” الہدایہ “کے مصنف علامہ برہان الدین المرغینانی کتاب الطہارت کا آغاز مذکورہ آیت کریمہ سے کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں.
ففرض الطهارة غسل الأعضاء الثلاثة ومسح الرأس بهذا النص
[الہدایہ ج1ص17]
اس آیت کریمہ کی وجہ سے وضو کے فرض تین اعضاء [چہرہ،بازو،اور پاؤں]
کا دھونا اور سر کا مسح کرنا ہے۔
3:علامہ ابوالبرکات عبداللہ بن احمد النسفی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں۔
فرض الوضوء غسل وجہہ۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ویدیہ بمرفقیہ ورجلیہ بکعبیہ ومسح ربع راسہ
[کنز الدقائق ص6-5]
وضو کے فرض چہرے کا دھونا ،دونوں ہاتھوں کا کہنیوں سمیت اوردونوں پاؤں کا ٹخنوں سمیت دھونا اور چوتھائی سر کا مسح کرناہیں۔
4:مذہب حنفی کے مسائل پر مشتمل کتاب "الفقہ الحنفی وادلتہ "میں مرقوم ہے۔
ففرض الوضوء بہذا النص: فرض غسل الوجہ، وغسل الیدین مع المرفقین، ومسح ربع الراس ،وغسل الرجلین مع الکعبین
[الفقہ الحنفی وادلتہ ج1ص35]
ترجمہ: اس آیت کریمہ کی وجہ سے وضوکے فرائض یہ ہیں۔ چہرے کا دھونا ، دونوں ہاتھو ں کو کہنیوں سمیت دھونا، چوتھائی سر کا مسح دھونا اور دونوں پاؤں ٹخنوں سمیت دھونا۔
:مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:وضو میں چار فرض ہیں۔پیشانی کے بالوں سے لے کر ٹھوڑی کے نیچے تک اور ایک کان سے دوسرے کان تک منہ دھونا،دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھونا،چوتھائی سر کا مسح کرنا،اوردونوں پاؤں ٹخنوں سمیت دھونا۔ [تعلیم الاسلام مکمل حصہ دوم ص25]
مذکورہ حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ فقہ حنفی بھی سر کے مسح کوفرض مانتی ہے۔ اب جو مسئلہ مذہب حنفی میں فرض ہو اور ان کی کتابوں میں موجود ہو اس کو قرآن وحدیث کے خلاف ثابت کرنے کی مذموم کوشش کرنا یقیناً بددیانتی ہے۔
عالمگیری کی عبارت کا صحیح مفہوم:
حق بات یہ ہے کہ فتاویٰ عالمگیری میں بھی سر کے مسح کو فرض کہا گیا ہے۔ جس کی مختصر وضاحت یہ ہے کہ فتاویٰ عالمگیری میں کتاب الطہارت کی پہلی فصل فرائض وضو کے بیان میں ہے۔ جس میں سب سے پہلے مذکورہ آیت کریمہ نقل کی ہے۔پھر لکھا ہے کہ وضو میں چار فرض ہیں۔اس کے بعد ہر فرض کی سرخی قائم کی گئی ہے۔پہلے فرض کی سرخی ص5پر،دوسرے اور تیسرے فرض کا عنوان ص6پر اور چوتھے فرض کا ذکر ص7پر موجودہے۔مزید آسانی کے لیے یوں سمجھیے.
کتاب الطہارۃ۔۔۔۔الفصل الاول فی فرائض الوضوء۔۔۔۔وہی اربع۔۔۔الاول غسل الوجہ۔۔۔والثانی غسل الیدین۔۔والثالث غسل الرجلین۔۔۔والرابع مسح الراس
اس میں وضو کا چوتھا فرض ”سر کا مسح “کرنا لکھاہے۔
اس کے بعد اسی عنوان یعنی”والرابع مسح الراس “کے تحت وہ زیر بحث مسئلہ لکھا ہے جسے ذکر کرکے فاضل معترض نے فتاویٰ عالمگیری کا قرآن وحدیث کے خلاف ہونے کا فیصلہ صادر فرمایا ہے۔مگر افسوس کہ انہوں نے عبارت نقل کرنے میں دیانت داری کا ثبوت نہیں دیا۔اصل عبارت کیا ہے؟ملاحظہ کیجیے۔
وإذا غَسَلَ الرَّأْسَ مع الْوَجْهِ أَجْزَأَهُ عن الْمَسْحِ وَلَكِنْ يُكْرَهُ لِأَنَّهُ خِلَافُ ما أُمِرَ بِهِ
[ فتاویٰ عالمگیری ج1ص7]
اگر کسی نے سر کو چہرے کے ساتھ دھولیا تو یہ مسح کے قائم مقام تو ہوجائے گا لیکن ایسا کرنا مکروہ ہے کیونکہ یہ نصوص میں بیان کردہ طریقے کے خلاف ہے۔اب دیکھیے ناں کہ درج بالا عبارت میں نہ تو سر کےمسح کی فرضیت کا انکار کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کے نہ کرنے کا حکم دیاگیا ہے بلکہ اس میں ایک احتمالی صورت کا حل پیش کیا گیا ہے کہ اگر کوئی آدمی ایسا کر بھی لے تو اس کے بارے میں یہ حکم ہے البتہ ایسا کرنا بہرحال مکروہ ہے۔
مقام حیرت:
فاضل معترض صاحب!آپ نے ادھوری عبارت نقل کرکے جو بھی اعتراض کیا سو کیا، یہ الگ بات ہے ایسا کرنا دیانتداری کا خون کرنا ہے،مگر ہمیں اس سے بحث نہیں اصل بات جو ہماری سمجھ سے بالاتر ہے وہ یہ کہ جناب کو زیر اعتراض عبارت سے ذرا پہلے سر پر مسح کی فرضیت کا حکم کیوں نظر نہ آیا ؟ اس سے بڑھ کر یہ کہ معترض صاحب کو تنقید کا نشانہ بننے والی عبارت سے جڑا ہوا کراہت کا حکم بھی دکھائی نہیں دیا۔ آخر کیوں؟یہ دونوں چیزیں اچانک نظر سے اوجھل کیسے ہو گئیں؟ دوسری بات جو باعث حیر ت ہے یہ کہ اگر اس طرز عمل کا نام [بزعم معترض]قرآن وحدیث پر عمل پیرا ہونا ہےتوپھر فقہ سے عداوت ونفرت کا کیا عالم ہوگا؟ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہیے؟اللہ تعالیٰ ہمیں فقہ اور فقہاء سے عقیدت نصیب فرمائے۔آمین