اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
مجلس الشیخ:
 
ترتیب و عنوانات: مفتی شبیر احمد حنفی حفظہ اللہ
6 دسمبر2012ء بروز جمعرات حضرت الشیخ متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ نے خانقاہ اشرفیہ اختریہ مرکز اہل السنۃ و الجماعۃ 87 جنوبی سرگودھا میں منعقدہ ماہانہ مجلسِ ذکر سے خطاب فرمایا، جس میں ’’اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ‘‘ کے عنوان پر پر اثرگفتگو فرمائی۔ اس بیان کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم اما بعد! فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ۔:Īاللّهُ يَجْتَبِيْ إِلَيْهِ مَنْ يَشَآءُ وَيَهْدِيْ إِلَيْهِ مَنْ يُنِيْبُĨ
سورۃ الشوریٰ:13
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَاركْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔
میں نےآپ کے سامنے سورۃ الشوری ٰ کی ایک آیت تلاوت کی ہے۔ اللہ رب العزت نے اس آیت میں اپنی ذات تک پہنچنے کے دو راستے بتائے ہیں۔ ہر انسان کی اصل منزل اللہ کی ذات ہے۔اللہ ہی خالق ہے ،اللہ ہی مالک ہے ،اللہ تمام انسانو ں کی اصلی منزل ہے۔
اس آیت میں اللہ نے اپنے تک پہنچنے کے دو طریقے بیان فرمائے ہیں۔ ایک ’’اِجْتِبَاء‘‘ اوردوسرا’’اِنَابَتْ‘‘ ہے۔بسااوقات بند ہ محنت نہیں کرتا اور اللہ بغیر محنت کے بندہ کو اپنے تک پہنچادیتے ہیں اور بسا اوقات انسان محنت کرتاہے اور محنت کرنے کے بعد اللہ اس کواپنی ذات تک پہنچاتے ہیں۔ دونوں طریقے چلتے ہیں۔اس کوکبھی یوں بھی کہتے ہیں کہ ایک چیز ہوتی ہے ’’وہب‘‘ اور ایک چیز ہوتی ہے ’’کسب‘‘۔مثلاًقرآن میں اللہ نے چار طبقات وہ بیان فرمائے ہیں جو انسانیت کے سب سے اعلیٰ طبقے ہیں۔
1: نبیین
2: صدیقین
3: شہداء
4: صالحین
یعنی انبیا ء،صحابہ،شہداءاوراولیاء۔
اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ پہلامقام نبوت،دوسرامقام صحابیت، تیسرامقام شہادت اور چوتھامقام ولایت ہے۔
ان میں دو مقا م ’’مقام ِوھب‘‘ ہیں اور دو مقام’’مقام ِ کسب‘‘ ہیں۔نبوت اور صحابیت مقام وہب ہیں اور شہادت اورولایت مقامِ کسب ہیں۔ نبوت اور صحابیت محنت اوراعمال سے نہیں ملتی بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطاسے ملتی ہے او ر شہادت و ولایت کا مقام انسان کو محنت کرنے سے ملتاہے۔ انسان محنت کرتاہے تو اللہ اس کو عطافرمادیتے ہیں۔
میں سمجھا رہا تھا کہ ایک ’’وہب‘‘ ہے او رایک ’’کسب‘‘ ہے۔ دونوں کو ایک مثال سے سمجھیں :
وھب اور کسب کی مثال:
ہما رے شیخ حضر ت اقد س عارف باللہ مولانا شاہ محمد حکیم اختر دامت برکاتہم نے ایک بہت پیاری مثال ارشاد فرمائی ہے۔ حضرت فرمانے لگے کہ شاہ محمد احمد رحمہ اللہ ایک بہت بڑے شیخ تھے اور بہت بڑے آدمی تھے۔ ہمارے شیخ حضر ت اقدس حکیم صاحب دامت برکاتہم نے شاہ محمد احمد رحمہ اللہ کی خدمت میں تین سال مستقل صحبت میں گزارے۔ تین سال کا عرصہ بہت بڑاعرصہ ہے ،حضرت چونکہ کالج میں پڑھتے تھے؛ جامعہ طبیہ کالج علیگڑھ میں۔تو حضرت کی خانقاہ میں رہتے،وہا ں سے کالج جاتے اور کالج سے پھر خانقاہ جاتے۔ پوری رات خانقاہ میں گزارتے ،پھر وہاں سے کالج اور کالج سے خانقاہ۔ تو جو اُن کی جوانی کاعرصہ تھا و ہ بوڑھے شیخ کے حوالے کیا۔ یہ وہی شاہ محمد احمد رحمہ اللہ ہیں جنہوں نے مرزا غالب کے شعر کا بڑے پیارے انداز میں جواب دیا تھا۔ مرزا غالب نے شعر کہا تھا :
عشق نے غالب نکما کر دیا ورنہ ہم بھی آدمی تھےکام

کے

حضرت شاہ محمد صاحب نے اس کاجواب دیا،فرمایا:
عشق نے کما کر دیا احمد آدمی تھے ورنہ ہم بس نام کے
کیونکہ غالب عشق مجازی پہ مرتاتھا اور شاہ محمد احمد عشق حقیقی پہ روتے تھے،تو ظاہر ہے کہ اپنے میدان میں وہ ٹھیک کہہ رہاہے او راپنے میدان میں یہ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ یہ شاہ محمد احمدوہ ہیں جنہیں ”پرتاب گڑھی“ کہتے ہیں۔ دوسرے شیخ شاہ عبد الغنی پھولپوری ہیں۔ان کی خدمت میں حکیم صاحب نے اٹھارہ سال گزارے۔ دیکھو”ا ٹھارہ سال“بات کہنی بڑی آسان ہے۔
تذکرہ حضرت حکیم محمد اختر دامت برکاتہم:
ہم حضرت کی خدمت میں تھے تو حضر ت فرمانے لگے آج لوگوں کو تعجب ہوتاہے کہ حکیم اختر بوڑھے کے پاس لوگ اپنی جوانیاں لٹاتے ہیں اور کسی کو یہ نہیں پتا کہ اختر نے اپنی جوانی ایک بوڑھے کے قدموں میں اٹھارہ سال لٹائی ہے،یہ تو کسی کو نہیں پتا۔آج لوگ میر ی سہولتیں،راحتیں دیکھتے ہیں لیکن یہ نہیں پتا کہ میں نے شیخ کی خدمت کتنی کی ہے؟!حضرت حکیم صاحب نے”معارف مثنو ی“ کتاب لکھی اورحضرت مولانا سیدمحمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کے ہاں تقریظ کے لیے گئی۔حضرت بنوری فرماتے ہیں:جب یہ معارف مثنوی میرے پاس آئی تو مجھے پتاچلاکہ حکیم اختر مولوی ہے،ورنہ میں یہ سمجھتا تھا کہ یہ مولانا عبد الغنی پھو لپوری کا نوکر ہے۔ ”خادم“ تو بڑا عزت والا لفظ ہے،حضرت فرماتے ہیں:میں سمجھتا تھا کہ نوکر ہے ، کیوں ؟ حضرت کی دوائیاں کوٹنی ،حضر ت کے نسخے کوٹنے اور حضرت کے سر پر مالش کرنی ،لنگی باندھ کے ان کی خدمت میں لگے رہتے تھے، تو لوگ سمجھتے کہ یہ حضرت کا نوکر ہے۔ معارف مثنوی لکھی تو پتہ چلاکہ یہ شخص نوکر نہیں ہے بہت بڑا عالم ہے۔
تذکرہ شاہ عبدالقادر رائیپوری رحمہ اللہ:
آپ نے نام سنا ہےحضرت شاہ عبد القادر رحمہ اللہ کا،یہاں خانقاہ ڈھڈیاں میں ان کی قبرہے۔ یہ رائیپور کے نہیں تھے۔دراصل ان کے شیخ تھے شاہ عبدالرحیم رحمہ اللہ، یہ اپنے شیخ میں اس قدر فنا تھےکہ لوگ ان کو اب بھی شاہ عبدالقادر رائیپوری کہتے ہیں۔ایک مرتبہ ریلوے اسٹیشن پہ کافی لوگ آئے ہوئے تھے۔ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے کسی سے پوچھا کہ یہ ر ش کیوں ہے؟ جواب ملا کہ شاہ عبدالرحیم رحمہ اللہ کے جانشین شاہ عبد القادر رائیپوری تشریف لائے ہیں،تو لوگ ان کی زیا رت کیلئے جمع ہوئے ہیں۔حضرت تھانوی نے فرمایا کہ ہم بھی زیارت کرتے ہیں کیونکہ بڑے آدمی ہیں۔ جب ان کی مجلس میں پہنچے تو حکیم الامت حضرت تھانوی نے سوال کیا کہ آپ حضرت کے جانشین ہیں اور ہم نے آپ کو کبھی بھی حضرت کی خانقاہ میں رائیپور نہیں دیکھا ،تو آپ کیسے جانشین بنے اور اتنی بڑی نسبت آپ کو کیسے ملی ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ جب کبھی آپ خانقاہ میں آئے تھے تو ایک وہاں” کا لو“ہوتا تھا،میں وہی ہوں۔
ایک نکتہ:
میں ایک بات نکتہ کےطور پر عرض کرتا ہوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا سب سے بڑا کما ل ”صحابیت“ ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا مقام سب سے بڑاہے۔ اس پر آپ ایک دلیل ذہن نشین فرمائیں!صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا مقام سب سے بڑاہے۔صحابہ کرام کا بڑا مقام یہ اور ان کی اصلی شان صحابیت ہے اور واحد و ہ صحابی جن کو قرآن نے ”صحابی“ کہا و ہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں :
إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا
[التوبۃ :40]
تو ان کامقام سب سے بلند ہوناچاہیئے۔ یہ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کااعزاز ہے
خیر میں حضرت شاہ محمداحمد کا واقعہ عرض کر رہاتھا کہ حضرت کسی کی عیا دت کے لیے تشریف لے جا رہے تھے۔ ساتھ شاہ ابرار الحق بھی ساتھ تھے۔ راستے میں مولا نا محمد احمد نے فرمایا: یہاں ہمارے ایک دوست حکیم سلمان صاحب ہیں، ان کوبھی ساتھ لے چلو۔ان کو لینے کے لیے گئے تو وہ سو رہے تھے۔ فرمایا کہ ان کواٹھادو۔ حکیم صاحب فرماتے ہیں کہ اصل میں تو اٹھا نا تکلیف کاسبب تھا، اگر ان کونہ اٹھاتے تو ان کو تکلیف زیادہ ہوتی۔اب بتاؤ! رات کو آپ کے گھر کوئی بڑا آدمی آئے اور آپ سو رہے ہوں اور وہ واپس چلا جائے۔ جب آپ کو پتہ چلے تو آپ نے رونا ہے یا نہیں؟کہ ہمیں اٹھا دیتے۔ الغرض کہا کہ ان کواٹھاؤاور انہیں ساتھ لے کر چل پڑے۔اس پر حضرت ابرار الحق نے فرمایا کہ اسے کہتے ہیں:”اجتبا ء“حکیم صاحب سوئے پڑے ہیں اور ان کو اٹھا کر ساتھ ملایا۔ میں ”وہب“ بتارہاتھا کہ آدمی محنت نہیں کرتا بلا محنت کسی مقام تک پہنچتاہے۔آگے نکلے تو آگے ان کے میزبان تھے ڈاکٹر صاحب،ان کی کار میں جانا تھا۔ جب ان کی کار تک پہنچے، ڈاکٹر صاحب نے دروازہ کھولا اور کہا کہ اندر آجائیں۔ تو مولانا ابرارالحق ہر دوئی کہنے لگے کہ اسے کہتے ہیں:” انابت“ دیکھو ہم تھوڑاسا چلے ہیں تو کار کادروازہ کھلا توہم بیٹھے۔کبھی اللہ کسی آدمی کو کھینچ لیتے ہیں۔ جیسے یہ سوئے ہوئے تھے۔ تو شیخ نے اٹھایا،اور کبھی اللہ تعالی محنت کرنے کی وجہ سے منزل تک پہنچادیتے ہیں جیسےیہ گئے اورڈاکٹر صاحب نے گیٹ کھولا اوریہ گاڑی میں بیٹھ گئے۔
چند واقعات:
تو میں بات یہ سمجھا رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے دو راستے ہوتے ہیں۔ایک راستہ یہ ہے کہ اللہ کسی کوکھینچ لے او ربغیر بندے کی محنت کے کھینچ لے اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ بند ہ محنت کرےاور محنت سے اپنے مولاکو پالے۔یہ دونوں طریقے قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں۔ اس پر میں چند ایک واقعات بیا ن کرتاہوں۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا واقعہ:
ہمارےاکابر میں سے وہ حضرات جن کو اللہ پاک نے خود کھینچاہے۔ ان میں سے پہلاواقعہ حضرت ابو بکرصدیق کا ہے۔ان کا ”اجتباء“ ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو کھینچاہے۔امام سیوطی رحمہ اللہ نے”خصائص الکبریٰ“میں یہ نقل کیا ہےکہ صدیق اکبررضی اللہ عنہ مکہ سے چلے اور شام کے علاقے میں تجارت کے لیے گئے۔ راستے میں ابوبکررضی اللہ عنہ کو خواب آیا اور انہوں نے اپنا خواب ایک عیسائی راہب ،عالم کو بیان کیا کہ تعبیر بیا ن کریں۔
خواب آئے توتعبیر کےلیے ہر بندہ کوبیان نہ کیا کریں۔ حدیث میں دولوگ بتائے ہیں کہ ان کو بیان کرنا چاہیے؛ایک حبیب اوردوسرا لبیب۔
[جامع الترمذی:کتاب الرؤیا، باب تعبیر الرؤیا]
یعنی دوست ہو یا عقلمندہو،اس کے علاوہ کسی بندے سے خواب کی تعبیر مت پوچھو۔
توسیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے خواب دیکھا اور عیسائی عالم کے سامنے اس کا تذکرہ کیا۔ عیسائی راہب نے کہا: اس کی تعبیر یہ ہے کہ
” يبعث نبي من قومك تكون وزيره في حياته وخليفته بعد موته “
کہ تمہاری قوم میں سے ایک نبی مبعوث ہوگا، تم زندگی میں اس کے نائب اور اس کی وفات کے بعد اس کے خلیفہ ہو گے۔
یہ تعبیر تھی سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے اس خواب کی، تعبیر کو سنا اور خاموش ہوگئے۔ آگے لکھا ہے۔
فأسرها أبو بكر حتى بعث النبي صلی اللہ علیہ و سلم۔
اس تعبیر کو چھپا لیایہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی، تو ابوبکر نےآپ سے پوچھا:” یا محمد! ما الدلیل علی ماتدعی؟“ [آپ کے اس دعوی نبوت پر کیا دلیل ہے؟]کیونکہ ابھی تک کلمہ نہیں پڑھا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الرؤیا التی رأیت بالشام۔ میری نبوت پر دلیل تیرا و ہ خواب ہے جوتو نے شام میں دیکھاہے۔صدیق اکبر نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوگئے۔ اس روایت میں ہے: فعانقہ و قبّل مابین عینیہ۔چمٹ گئے اورپیشانی کا بوسہ لیا۔
[الخصائص الکبریٰ: ج1 ص51]
محدثین نے لکھاہے کہ صدیق اکبر واحد وہ شخص ہیں جنہوں نے کلمہ پڑھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کابوسہ لیا او رجب دنیا سے گئے تب بھی بوسہ لیا۔ جب آئے تب بھی ماتھا چوما اور جب گئے تب بھی ماتھا چوما۔ اب بتاؤ اس سے بڑی کیا دلیل ہوگی کہ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں شیخ کا ہاتھ چومنا جائز ہے؟ بندے کو بڑا تعجب ہوتاہے کہ لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ چومنا جائز ہے؟ اللہ تعالی ہمیں بات سمجھے کی توفیق عطافرمائیں۔
ایک علمی بحث:
آپ حضرات نے ہمیشہ سنا ہے کہ باقی حضرات نے کلمہ پڑھا ہے اور دلیل مانگی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نےبغیر دلیل مانگے کلمہ پڑھا ہے۔ یہاں دلیل سے مراد ”معجزہ“ ہے، یعنی بغیر معجزہ مانگے کلمہ پڑھاہے، باقی معجزہ مانگتے تھے پھر کلمہ پڑھتے تھے۔یہ اصول اپنی جگہ ٹھیک ہے اور ابو بکر کا دلیل مانگنا اپنی جگہ ٹھیک ہے۔ بسااوقات ایسے ہوتاہے کہ ایک اصول نہ سمجھنے کی وجہ سے بند ے کو غلط فہمی پیدا ہوتی ہے، اصول اپنی جگہ بجاہوتے ہیں اور نصو ص و معاملات اپنی جگہ درست ہوتے ہیں۔ میں اس پر مثالیں دیتا ہوں۔
مثال نمبر1:
مجھے ایک شخص کہنے لگا کہ ”ہدایہ“کامصنف صحا بہ کرام رضی اللہ عنہم کا گستاخ ہے۔میں نے کہا: کیوں گستاخ ہے ؟ کہنے لگا کہ یہ لکھتاہے:عند ابی حنیفۃ رضی اللہ عنہ۔یہ گستاخی ہے۔ میں نےپوچھا گستاخی کیسے ہے؟تو وہ کہنے لگاکہ صحابی ہو تو رضی اللہ عنہ کہا جاتاہے اور غیر صحابی ہوتو رحمۃ اللہ علیہ،جو لقب صحابی کاتھا اس نے غیر صحابی کود ے کر صحابہ کی توہین کی ہے۔ میں نے کہا کہ غیر صحا بی کو رضی اللہ عنہ کہنا صاحب ہدایہ کا طریقہ نہیں ہے خود قرآن کریم کاطریقہ ہے، اس کا جواب قرآن میں ہے۔ میں نے کہا،پارہ 11رکوع 2میں ہے :
وَالسَّابِقُوْنَ الْأَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهَاجِرِيْنَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ۔
[التوبۃ:100]
[ترجمہ: اور مہاجرین اور انصار میں سے جو لوگ پہلے ایمان لائے، اور جنہوں نے نیکی کے ساتھ ان کی پیروی کی، اللہ ان سب سے راضی ہو گیا ہے اور وہ اس سے راضی ہیں]
تو اللہ نے انصار ومہاجرین صحابہ اور ان کے متبعین کو بھی”رضی اللہ عنہم“ فرمایا ہے، لہذا اب تو یہ بھی کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ گستاخ ِصحابہ ہے معاذ اللہ۔ ا ب چپ ہو گیا۔
پھر مجھے کہنے لگاکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصول غلط ہے۔میں نے کہا: اصول بھی ٹھیک ہے ،وہ کہنے لگا: پھر قرآن غلط ہے ؟ میں نے کہا:قرآن بھی ٹھیک ہے۔ کہنے لگا:آخر مطلب کیا ہے ؟ تو میں نے کہا: اسی مطلب اور سمجھنے کانام ”فقہ“ ہے، جس سے خدانے تمہیں محروم رکھاہے۔ پھر میں نے کہا کہ علماء نے یہ ضابطہ کہ صحابی کو رضی اللہ عنہ او رغیر صحابی کو رحمۃ اللہ علیہ کہا جائے اس لیے بیان فرمایاکہ مثلاًایک نام کے تین آدمی ہیں؛ میں مثال کے طور پر کہتا ہوں کہ ”محمد “ ایک نام ہے، اس نام کے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں ،صحابی بھی ہیں او ربعد کے ولی بھی ہیں۔ محمدرسول اللہ نبی ہیں، محمد بن حنفیہ صحابی ہیں اور محمد بن حسن الشیبانی آپ کو ولی مل جائیں گے۔ اب اگر کوئی کہے کہ محمد نے فرمایا تو کیسے پتہ چلے کہ یہ کون سے محمد ہیں ؟ تو ضابطہ سے معلوم ہواکہ اگر ”صلی اللہ علیہ وسلم“ ہوگا تو سمجھو اللہ کے نبی ہیں،اگر ”رضی اللہ عنہ“ ہوگا تو صحابی ہیں اوراگر ”رحمۃ اللہ علیہ“ ہوگا تو سمجھو کہ اللہ کے ولی ہیں۔ یہ اصطلاحات اس لیے تاکہ بعد والے کو دھوکہ نہ ہو۔ اگر رضی اللہ عنہ ہو گا تو صحابی اور رحمۃ اللہ علیہ ہو تو بعد کے آدمی ہوں گے۔اب ”امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ“ کہا جا ئے تو کسی کے ذہن میں شک نہیں پڑتا کہ نبی ہوگا یا صحابی ہوگا۔ لہذا اگر غیر صحابی کی شہرت اتنی زیادہ ہوکہ اگر ”رضی اللہ عنہ“ کہہ بھی دیں تو شہرت زیادہ ہونے کی وجہ سے پتہ چل جائے گا کہ صحابی نہیں ہے۔ ایسے شخص کو رضی اللہ عنہ کہنا بالکل صحیح ہے۔ اب قرآن، ضابطہ،ہدایہ سب ٹھیک ہیں۔
مثال نمبر2:
ایک شخص کہنے لگا کہ آپ یوں کہتےہیں کہ فقہ حنفی قرآن وحدیث کا مغزہے، یہ تو قرآن و حدیث کی توہین ہے۔ میں نےکہاکیسے؟ کہنے لگاکہ بادام میں ایک چھلکااور ایک مغز ہوتاہے، اصل چیز مغز ہوتاہے چھلکانہیں، تو تم نے قرآن و حدیث کا مغز فقہ حنفی کو کہہ کر قرآن وحدیث کو چھلکاکہا اور فقہ کو مغز کہا ،یہ تم نے قرآن و حدیث کی توہین کی ہے۔ میں نے کہا ا س کا نام توہین ہے توتم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر فتویٰ لگاؤ معاذ اللہ۔اس پر وہ مجھے کہنےلگاکہ وہ کیوں ؟ میں نےکہاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”الدعاء مخ العبادۃ “
[جامع الترمذی: ابواب الدعوات، باب فضل الدعوۃ]
کہ دعا عبادت کا مغز ہے۔اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع، قیام ،سجدہ کو چھلکافرمادیا اور دعاکو مغز کہہ دیا ،تو تیرے اصول کے مطابق اللہ کے نبی نے رکوع، سجدے کی توہین کی ہے۔ اب خاموش ہو گیا کیونکہ جواب نہیں،میں نے کہا تم” الدعاء مخ العبادۃ“کو ہی نہیں سمجھے۔ اس حدیث کامطلب یہ ہے کہ اس عبادت سے مقصود اللہ سے کچھ لیناہے، بالکل اسی طرح فقہ قرآن و حدیث کا مغز ہے،اس کامطلب یہ ہے کہ قرآن و حدیث سے مقصود شریعت پر عمل کرنا ہے اور اسی کانا م فقہ حنفی ہے۔
حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کا واقعہ:
مضمون یہ چل رہا تھا کہ کبھی اللہ بندے کو توفیق عطا فرماتاہے بغیر بندے کی محنت کے جیسے اللہ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو چنا ہے۔دوسرا واقعہ حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کا ہے۔ یہ صحابی ہیں بڑے پائے کے۔حضرت وحشی نے ابھی کلمہ نہیں پڑھا تھا،غلام تھے حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کے۔وحشی مکہ میں ہیں، اورادھر جب میدان احد سجا۔ تو چونکہ ہندہ کے والد میدان بدر میں قتل ہوئے تھے تو ہندہ نے کہا کہ میرے والد کو حمزہ رضی اللہ عنہ نے قتل کیا ہے۔ اگر تو نے میرے باپ کے قاتل حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کرے گا تو میں تجھے اپنا تمام زیور اتار کر دے دوں گی، حضرت جبیر بن مطعم نے کہا کہ اگر تو حضرت حمزہ کو قتل کیا تو تجھےآزاد کر دوں گا۔وحشی چھوٹے نیزے کے بڑے ماہر تھے۔ انہوں نے تاک کر نیزا مارا، حضرت حمزہ شہید ہوگئے اور وحشی آزاد ہوگئے اور مکہ سے نکل گئے۔ وحشی کو یہ غم تو تھا کہ مسلمان فاتح بننے کے بعد مجھے قتل کریں گے اور انتقام لیں گے۔حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا، جسم کے ٹکڑے کیے گئے مثلہ کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا شدید دکھ ہوا۔
لیکن ایک وقت آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ تم وحشی کے پاس جاؤ اور اس کو اسلام کی دعوت دو۔ یہ اللہ کا انتخاب ہے۔ملا علی قاری رحمہ اللہ نے ”مرقاۃ شرح مشکوۃ “میں واقعہ یہ وقعہ نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ جاؤا سے دعوت دو۔جب گئے تو وحشی کہنے لگے: میں تو کلمہ نہیں پڑھتا، اس لیے کہ قرآن میں ہے کہ جو قتل کرتا ہے،زنا کرتا ہے، شرک کرتا ہے وہ جہنم میں جائے گا اور دوہرا عذاب پائے گا، تو سارے کرتوت تو میں نے کیے ہیں، میں کیسے کلمہ پڑھوں؟وحشی کا اشکال لے کرواپس پہنچےتو اس پر آیت اتری:
إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ۔
[الفرقان:70]
فرمایا کہ وحشی کو جاکر بتاؤ کہ اللہ کا حکم آگیا ہے کہ جو ایمان لائے، نیک اعمال کرے اور گزشتہ گناہوں پر توبہ کرے تو اللہ اس کے گناہوں کو بھی نیکیوں سے بدل دیتے ہیں۔وحشی کے پاس پیغام پہنچا، تو وحشی کہنے لگے:ہذا شرط شدید۔کہ گناہوں کو بھی چھوڑوں اور توبہ بھی کروں، یہ میرے بس میں نہیں ہے،اتنا مشکل معاملہ مجھ سے نہیں ہوتا۔پھر قرآن کی آیت اتری:
إِنَّ اللّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ
[النساء:48،116]
کہ اللہ شرک کے علاوہ جو گناہ چاہے معا ف فر ادے گا۔وحشی نے پھر کہا کہ ابھی معافی کا وعدہ نہیں ہے، اللہ چاہیں تو معاف کریں گے ورنہ نہیں اور مجھے کیا پتہ میری معافی چاہیں گے یا نہیں؟وحشی کے لیے قرآن کی آیت پھر اتری :
قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِيْنَ أَسْرَفُوْا عَلٰى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَحْمَةِ اللّهِ إِنَّ اللّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ
[الزمر: 53]
کہ مایوس نہ ہو میں تمہارے سارے گناہ معاف کردوں گا۔ وحشی نے کہا کہ اب ٹھیک ہے میں مسلمان ہوتاہوں۔ اسے کہتے ہیں:” اَللّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشَاءُ
اتنا بڑا قاتل !اور اللہ کی رحمت آئی کہ خدا اسلام کی طرف لارہے ہیں اور وہ دوڑ رہے ہیں، بالآخر کلمہ پڑھا اور وحشی سے حضرت وحشی رضی اللہ عنہ بنے۔
حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کا واقعہ:
تیسرا واقعہ فضیل بن عیاض کا ہے۔ ابتداءًیہ ڈاکو تھے،شرابیں پیتے تھے، لوٹ مار کرتے تھے لیکن جب خدا نے بدلا ایک گھر گئے، ڈاکہ ڈالنے کے لیے ،دیوار پھلاندی، تہجد کا وقت تھا، آگے گھر میں تلاوت ہورہی تھی، وہاں یہ آیت سنی:
أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِيْنَ آمَنُوْا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللّهِ
[الحدید:16]
[ترجمہ: جو لوگ ایمان لے آئے ہیں، کیا ان کے لیے اب بھی وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر کے لیے پسیج جائیں؟]
یہ آیت سنی تو کہا: دوبارہ پڑھو، بالآخر تائب ہوکر واپس آگئے۔ یہ اللہ کا نظام ہے۔
حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ کا واقعہ:
حضرت جنید بغدادی کو خدا نے چنا،یہ شاہی پہلوان تھے ان کا نام چلتا تھا، بادشاہ نےاعلان کیا کہ اس سے کوئی پہلوان کشتی کرے، یہ سرکاری مال کھاتاہے، اس کی کشتی تو دیکھیں کہ پہلوان کتنا بڑا ہے ؟جب اعلان ہوا تو بوڑھا آدمی اسی (80) سال کا، کاپنتے وجود کے ساتھ میدان میں سامنے آگیا۔اس نے کہا: میں کشتی کروں گا، جنید بغدادی نے کہا: میں تیری ہڈی پسلی ایک کردوں گا، اپنی اوقات تو دیکھ،ہم سے کشتی کرے گا؟ تو اس نے کہا: ہاں میں کشتی کروں گا۔ جب میدان میں آئے، کشتی کرنے لگے تو کشتی سے پہلے اس بوڑھے نے جنید بغدادی کے کان میں کہا: جنید! میں سید ہوں،حضو رصلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے ہوں،بوڑھا ہوں، گھر میں فاقے ہیں، میں تو کشتی نہیں کرسکتا،اگر آج تو گر جائے گا تو حضور کی نسل کو کھانا مل جائے گا، میں نے تجھ سے کشتی کیا کرنی ہے؟!جب یہ بات ان کے کان میں کہی توجنید بغدادی نے دو چار ٹیڑھے میڑھے داؤ پیچ کیے اور پھر گر گئے اور بوڑھا ان کے سینے پر سوار ہوگیا۔ جنید بغدادی کی شکست کا اور بوڑھے کی فتح کا اعلان ہوگیا۔ دیکھو !کتنا بڑا سرکاری پہلوان اور شکست کا اعلان، لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے لیے قربانی دی ہے،رات کو خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، فرمایا: جنید! تم نے ہماری نسل کا خیال کیا ہے، پوری دنیامیں تیری شہرت کے ڈنکے بجوا دوں گا۔آج دنیا میں کون سا ایسا بندہ ہوگا جو جنید بغدادی کو نہ جانتا ہو۔ ایک چھوٹا سا واقعہ پیش آیا اور اللہ نے کایا پلٹ دی۔
اللہ کسی یوں چن لیتاہے اور کسی کو محنت کرنی پڑتی ہے اللہ ہم سب کو بلامشقت اپنی محبت عطا فرمائے، اللہ بلامشقت رضاء و جنت عطا فرمائے۔ لیکن اگر کوئی مشقت آجائے تو خود کو تیار کریں اور خندہ پیشانی سے برداشت کریں۔
میں نے کئی بار آپ کی خدمت میں گزارش کی ہے ، لہذا اسی مجلس میں فیصلہ کرو کہ جو گزشتہ گناہ ہیں اللہ معاف فرمادیں ،آئندہ نہیں کریں گے،نیت کرو،نیت میں کیا حرج ہے۔ اللہ جس کو چاہیں گے اسی کو عطا فرمائیں گے۔اب بتاؤموت کے وقت کا کوئی پتہ ہے ،اچانک مرجائیں اور چہرے پہ داڑھی نہیں ہے، تو بتاؤ اللہ کے رسول کو کیا جواب دیں گے؟اچانک مرجائیں اور شراب پی کے مرجائیں تو بتاؤ اللہ کو کیا جواب دیں گے؟اللہ نے موت کا وقت مقرر کیا ہے، لیکن بندے کو بتایا نہیں ہے۔اس وجہ سے تاکہ بندہ ہر وقت تیار رہے، کسی وقت بھی موت کا فرشتہ آسکتاہے۔ میں اس لیے گزارش کرتاہوں کہ اللہ کے سامنے پہنچنا ہے اور پہنچنے کے دو ذریعے ہیں؛ کبھی اللہ چن لیتاہے اور کبھی محنت کرنی پڑتی ہے۔
حضرت جی مولانا محمدالیاس رحمہ اللہ کا ملفوظ :
مجھے حضرت جی مولانا محمدالیاس رحمہ اللہ کا ملفوظ یاد آیا جو ہماری فکر کے سو فیصد خلاف ہے۔ حضرت نے بڑی عجیب بات فرمائی، فرمانے لگے کہ ہم کبھی محنت کرتے ہیں محنت کرکے بندے کو دین پہ لاتے ہیں اور بعض بندے بغیر محنت کے مل جاتے ہیں، جو بغیر محنت کے ملے اس کی قدر زیادہ کرنا ،اس لیے کہ جو تیری محنت سے آیا وہ تیری محنت کا نتیجہ ہے اور جو تیری محنت کے بغیر ملا وہ خدا کی عطا ہے۔ اللہ کی عطا کو معمولی نہ سمجھنا ،ہم کہتے ہیں کہ یہ میری محنت سے آیا ہے اور یہ خود آیا ہے،حالانکہ وہ خود نہیں آیا خدا کی عطا ہے اور خدا کی عطا کی قدر کرو۔
اللہ ہمیں حقیقی محبت عطا فرمائے ،ہمیں سلوک کی منزلیں طے کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اللہ ہمیں گناہوں سے بچائے، اللہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے محبت کی توفیق عطا فرمائے۔
وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین۔