ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
تذکرہ الفقہاء:
حصہ اول
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
مولانا محمد عاطف معاویہ حفظہ اللہ
نام ونسب:
نام عائشہ، لقب صدیقہ وحمیرا،کنیت ام عبداللہ اور خطاب ام المومنین۔ نسب نامہ یوں ہے:عائشہ بنت ابی بکر الصدیق بن ابو قحافہ عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن قیم بن مرہ بن کعب بن لوی القرشی التمیمی۔
[الاصابۃ ج2ص1088]
”ام عبداللہ“ کنیت کی وجہ:
عرب میں کنیت شرافت اور عزت کی علامت تھی۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اللہ تعالیٰ نے نسبی اولاد والی نعمت عطا نہیں فرمائی تھی۔آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:
حضور! آپ کی تمام ازواج مطہرات کی کنیت ہے، میری اولاد نہیں، میں کونسی کنیت رکھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.
« فَاكْتَنِى بِابْنِكِ عَبْدِ اللّهِ »
[سنن أبي داود ج2ص331 باب فِى الْمَرْأَةِ تُكْنَى]
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی وضاحت کرتے ہوئے فخر المحدثین مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔
فاکتنی بابنک ای بابن اختک اسماء بنت ابی بکر وہو عبداللہ
[بذل المجہود فی حل ابی داود ج5ص272]
کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا :عائشہ! اپنے بھانجے عبداللہ کے نام پر کنیت رکھ لو۔تو آپ کی کنیت” ام عبداللہ“ اپنے بھانجے کی وجہ سے ہے۔
ولادت باسعادت:
اکثر اصحابِ سیر آپ کی تاریخ ولادت کے بارے میں خاموش ہیں جبکہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے آپ کی ولادت کے متعلق دو قول ذکر کیے ہیں۔4نبوی،یا5نبوی
[الاصابہ ج4ص2573]
بچپن میں غیرمعمولی ذہانت :
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ذریعہ چونکہ دین کا بہت بڑا حصہ امت تک پہنچنا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے بچپن میں ہی ان کو غیرمعمولی ذہانت عطا فرمائی تھی۔جس کی وجہ سے آپ بچپن میں اترنے والی آیات واحکام کو بھی یاد رکھتی تھیں۔آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں .
لَقَدْ أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ وَإِنِّي لَجَارِيَةٌ أَلْعَبُ { بَلْ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ }
[صحیح البخاری،کتاب التفسیر،رقم4876]
جب مکہ مکرمہ میں سورہ قمر کی آیت:
{ بَلْ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ }
نازل ہوئی اس وقت میں بچی تھی اور کھیل رہی تھی۔
حاضر جوابی:
ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کھیل رہی تھیں کہ حضور علیہ السلام تشریف لائے۔ دیکھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے کھلونوں میں دو پروں والا ایک گھوڑا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ! عائشہ یہ کیا ہے ؟آپ رضی اللہ عنہا نےعرض کی: گھوڑا۔پوچھا: پروں والا گھوڑا؟[یعنی گھوڑے کے پر تو نہیں ہوتے]حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فوراً جواب دیا کہ حضور !حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑے کے پر تو تھے۔آپ رضی اللہ عنہا کا برجستہ جواب سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا پڑے۔
[مشکوۃ ج2ص290باب عشرۃ النساء]
اس سے ام المومنین حضرت امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی سرعت فہم،حاضر جوابی اوردینی واقفیت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے شروع سے ہی ان کو غیرمعمولی صفات سے نوازا تھا۔
نکاح ورخصتی:
مستند اور معتبر روایات کے مطابق جب حضور علیہ السلام نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا تو اس وقت ان کی عمر چھ سال تھی اور رخصتی کے وقت عمر مبارک نو سال تھی۔
(صحیح البخاری: ج2 ص771)
بعض روایات میں نکاح کے وقت عمر سات سال بھی آئی ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا خود فرماتی ہیں.
تَزَوَّجَنِى رَسُولُ اللّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَنَا بِنْتُ سَبْعٍ
[بخاری ص551،سنن ابی داود،باب فی تزویج الصغار]
اس نکاح سے مقصود نبوت وخلافت کے رشتہ کا استحکام اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی غیرمعمولی ذہانت سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خلوت والی زندگی کو امت تک پہنچانا تھا۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس مقصود کو پورا فرمایا۔
فضائل ومناقب:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اللہ تعالیٰ نے بےشمار فضائل سے نوازا تھا، ان میں بعض فضیلتیں ایسی ہیں جو صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو عطا ہوئیں۔خود فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسی خوبیاں عطا کی ہیں جو میرے علاوہ کسی کو نہیں ملیں۔

1.

نکاح سے پہلے فرشتے نے آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کےسامنے میری صورت پیش کی۔

2.

میری عمر سات سال تھی جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح فرمایا۔اتنی چھوٹی عمر میں حضور علیہ السلام نے کسی اور بیوی سے نکاح نہیں فرمایا۔

3.

جب میری رخصتی ہوئی تو میری عمر نو سال تھی۔

4.

ازواج مطہرات میں سے صرف میں کنواری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم میں آئی۔

5.

حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے بستر پر ہوتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی۔

6.

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ محبت مجھ سے کرتے۔

7.

اللہ تعالیٰ نے میری براءت کے لیے قرآن کریم کی آیات نازل فرمائیں۔

8.

میں نے جبرائیل امین علیہ السلام کو دیکھا ہے۔

9.

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال مبارک میرے حجرے میں ہوا۔
[المستدرک للحاکم ج5ص13رقم6790]
اس کے علاوہ آپ رضی اللہ عنہا بےشمار فضائل کی مالک تھیں،جن کو محدثین کرام اور اصحاب سیر نے مستقل ابواب میں ذکر فرمایا ہے۔
علمی فضل وکمال:
علمی اعتبار سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو تمام ازواج مطہرات بلکہ اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم پر فوقیت حاصل تھی۔بہت سارے مسائل ایسے تھے جن کو آپ کی ذات گرامی نے حل فرمایا ہے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں.
ما أشكل علينا أصحاب رسول الله صلى الله عليه و سلم حديث قط فسألنا عائشة إلا وجدنا عندها منه علما
[جامع الترمذی ج2ص707باب من فضل عائشہ رضی اللہ عنہا]
ہم کو جب بھی کسی مسئلہ میں الجھن پیش آتی تو ہم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھتے، آپ اس کو حل فرمادیتیں۔
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں.
ما رأيت أحدا أعلم بالحلال والحرام والعلم والشعر والطب من عائشة أم المؤمنين
[المستدرک للحاکم: ج5ص14رقم6793]
میں نے حلال وحرام، علم وشاعری اور طب میں صدیقہ کائنات امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کسی کو جاننے والا نہیں دیکھا۔یعنی آپ سب سے بڑی عالمہ تھیں۔
مشہور تابعی امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر ازواج مطہرات سمیت تمام لوگوں کے علم کو جمع کیا جائے تو حضرت عائشہ کا علم سب سے زیادہ ہوگا۔
[المستدرک للحاکم: ج5ص18رقم6806]
حضرت مسروق رحمہ اللہ سے کسی نے سوال کیا کہ کیا حضرت عائشہ علم فرائض جانتی تھیں؟آپ نے قسم اٹھا کر فرمایا میں نے بڑے بڑے صحابہ کو دیکھا کہ وہ حضرت عائشہ سے علم فرائض کے متعلق پوچھتے تھے۔
[الطبقات الکبریٰ لابن سعد ج2ص286]
حضرت عطا فرماتے ہیں: حضرت عائشہ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ فقیہ ،سب سے بڑی عالمہ اور سب سے اچھی رائے والی تھیں۔
[المستدرک للحاکم: ج5ص18رقم6806]
معلوم ہوا کہ خیرالقرون میں صاحب رائے ہونا عیب نہیں، بلکہ فضل وکمال کی دلیل تھی۔ [جاری ہے]