مفتی محمد کفایت اللہ دہلوی رحمہ الل

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
تذکرۃ الاکابر:
آخری حصہ
مفتی محمد کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ
مولانا محمد زکریا حفظہ اللہ
عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم:
مفتی صاحب رحمہ اللہ کے فتاوی جات سے درج ذیل امور واضح ہوتے ہیں:
1:حیات فی القبر ثابت ہے یعنی انبیاء کرام علیہم السلام کو اپنی قبروں میں حیات حاصل ہے جو کہ شہداء کی حیات سے اعلیٰ ہے اور شہداء کی حیات نص قطعی سے ثابت ہے[فتویٰ1،2]
2:جمہور امت کا نظریہ اور عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے[فتویٰ3]
3:سماع موتی عام[ مردے]ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے جو کہ صحابہ کرام کے دور سے چلا آرہا ہے، ہاں میت کو قبر میں رکھنے کے بعد اس قدر حیات ڈالی جاتی ہے کہ وہ آرام یا تکلیف کو محسوس کرے[یہ جسم مثالی کی نفی ہے فافہم][ فتوی4]
4: اگر کوئی سماع موتی کا عقیدہ رکھے تو اس کی تفسیق وتضلیل کرنا مفسد ہونے کی علامت ہے۔
ولاشک فی فسادہ
[فتویٰ4]
یاد رہے کہ یہ عام مردوں کے بارے میں ہے کیونکہ سماع عند قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت بعد میں آرہی ہے جس کے مفتی صاحب قائل ہیں۔
5:صلوۃ وسلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرشتوں کے ذریعے پہنچایا جاتاہے اور یہ صحیح احادیث سے ثابت ہے [فتوی5]
6:اگر یہ عقیدہ رکھاجائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک میلاد میں حاضرہوتی ہے تو یہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف ہے۔
7:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن اطہر مبارک جو کہ قبر میں موجود ہے، سے روح کا تعلق ہے اور اس کی مفارقت کا عقیدہ رکھنا باعث توہین ہے نہ کہ موجب تعظیم[جسد مثالی والے حضرات متوجہ ہوں][فتویٰ5]
8:روضہ رسول کے قریب کھڑے ہوکر سلام کرنا جائز ہے، غیرنبی کی قبر پر سلام کرنا جائز نہیں۔ معلوم ہواکہ سماع عندالقبر ثابت ہے تب ہی تو جائز ہے۔[فتویٰ6]
9:مفتی صاحب نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حیات حاصل ہے لیکن یہ حیات حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم پر میت کے اطلاق کے منافی نہیں کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وقوع موت کا کوئی بھی منکر نہیں، تو اس وجہ سے حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مات یموت موتاً کی نسبت جائز ہے۔
10:آپ صلی اللہ علیہ وسلم عالم قبر وبرزخ کے لحاظ سے زندہ ہیں اور عالم دنیا کے اعتبار سے میت ہیں، تب ہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا گیا جنازہ پڑھا گیا اور قبر مبارک میں دفن کیا گیا۔
عقیدہ توسل:
مفتی صاحب رحمہ اللہ کا بھی وہی مسلک ہے جو کہ علمائے اہل السنۃ و الجماعۃ دیوبند کا ہے کہ وسیلہ بالذوات جائز اور امر مباح ہے، ناجائز ،حرام اور شرک نہیں ہے۔ مفتی صاحب کا موقف کفایت المفتی ودیگر کتب سے ذکر کیا جاتاہے۔
فتویٰ 1:سوال :باوجود خدا کی وحدانیت وقدرت کے قائل ہونے کے بزرگوں کی ارواح طیبہ سے براہ راست مشکل کشائی وحاجت روائی کی التجاء کرنا فعل مستحسن ہے یا نہیں؟
جواب:کسی بزرگ یا پیر ولی سے اولاد یا رزق یا کوئی حاجت طلب کرنا جائز نہیں ہے۔ حاجت روائی صرف حق تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے، بزرگوں کے وسیلے سےخدائے تعالیٰ سے دعا کرنے میں تو مضائقہ نہیں۔
[کفایت المفتی ج1ص196]
فتویٰ2:[ایک فتوی میں مفتی صاحب کو زید وعمرو کا ایک مکالمہ لکھا گیا ہے اور پھر استفتاء کیا گیا ہے کہ اس میں زید حق پر ہے یا عمرو؟تو مفتی صاحب نے جواب میں عمرو کی تصحیح وتصدیق فرمائی ہے]
عمرو کا قول:”اس سے ظاہر ہے کہ حضرات اولیاء اللہ سے جس قسم کی استعانت انہوں نے جائز بتائی ہے اس میں سے قسم اول تو سرے سے استعانت ہی نہیں ہے بلکہ توسل ہے، جس سے کسی کو بھی انکار نہیں۔“
مفتی صاحب کا جواب:عمرو کا بیان صحیح اور آیات واحادیث واقوال فقہاء حنفیہ کے موافق ہےالخ
[کفایت المفتی ج1ص194]
فتویٰ3:یہ فتویٰ قاضی شمس الدین صاحب کی کتاب مسالک العلماء فی حیات الانبیاء سے ماخوذ ہے ملاحظہ ہو:
”اگر کوئی آدمی قبر پر جاکر کہتاہے کہ اللہ تعالیٰ اس بزرگ کے طفیل میری فلاں حاجت پوری کردے تو کیاجائز ہے یا نہیں؟
جواب:قبر پر جاکر دعا کرنا اور یہ کہنا کہ یااللہ اس بزرگ کے طفیل میرا فلاں کام پورا کردے ،یہ مباح ہے“
[ص214،215]
قارئین کرام! غور فرمائیں کہ مفتی صاحب توسل بالذوات کے بارے میں کیا فرماتے ہیں اور بعض الناس ان نظریات کو بدعت اور گمرائی سے تعبیر کرتے ہیں !
فرض نمازوں کے بعد دعا :
فرض نماز کے بعد دعا مانگنے کے بارے میں مفتی صاحب کی کیا رائے ہے اور علماء و فقہاءِ امت کی عبارات اس عمل کے بارےمیں مفتی صاحب کس انداز سے پیش کرتے ہیں؟ ہم مفتی صاحب ہی کےایک رسالہ سے اس بات کو واضح کرتے ہیں۔ مفتی صاحب سے اس بارے سوال ہوا تو آپ نے مختصر جواب کو کافی نہ سمجھا بلکہ مستقل ایک رسالہ تحریر فرمایا، جس کا نام”النفائس المرغوبہ فی حکم الدعاء بعد المکتوبہ“ ہے۔ اس میں آپ نے احادیث اور فقہ کی عبارات ذکر فرمائی ہیں۔ ہم اختصار کے ساتھ کچھ اہم مقامات سے مفتی صاحب کا مسلک آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔مفتی صاحب سے سوال کیا گیا کہ فرض نماز کے بعد دعا مانگنا کیسا ہے؟ چونکہ سوال طویل تھا، اس لیے آپ نے جواب میں سوال کے تین حصے بنالیے۔ ملاحظہ ہو:
”سوال مذکور میں کئی باتیں جواب طلب ہیں۔
1:اول یہ کہ سنت اور نفلوں کے بعد لوگوں کا اجتماعی طور پر دعا کرنا ثابت ہے یا نہیں ؟
2:فرضوں کے بعد سنتوں سے پہلے دعا مانگنے کا احادیث وفقہ سے ثبوت ہے یا نہیں ؟
3:فرضوں کے بعد کس قدر دعا جائز ا ور ثابت ہے؟
ان باتوں کی توضیح و تفصیل تین فصلوں میں کی جاتی ہے۔ “
[النفائس المرغوبہ ص5]
چونکہ ہمارا موضوع دعا بعدالفرائض ہے، اس لیے ہم فصل دوم کے چند اقتباسات ذکر کرتے ہیں۔ مفتی صاحب لکھتے ہیں:
”فرضوں کے بعد دعا مانگنے کا ثبوت :
اس بارے میں حدیث و فقہ سے اس امر کی شہادت ملتی ہے کہ فرائض کے بعد دعا مانگنے کا طریقہ نہ صرف جائز بلکہ افضل ہے۔ “
[النفائس المرغوبہ ص10]
اس کے بعد مفتی صاحب نے تقریباً 11احادیث نقل کی ہے کہ فرض نمازوں کے بعد دعا مانگنا ثابت ہے۔حدیث نمبر2 کے بعد لکھتے ہیں:
”اس حدیث سے ہر فرض نماز کےبعد دعا مانگنا ثابت ہوتا ہے ،خواہ اس کے بعد سنتیں ہو یا نہ ہوں۔ اسی طرح لفظ اذا سلم سےیہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ سنتوں سے پہلے دعا پڑھتے تھے۔“
[النفائس المرغوبہ ص12]
تمام احادیث نقل کرنے کے بعد مفتی صاحب لکھتے ہیں:
”اور نماز کے بعد اذکار اور دعا کے بارے میں بے شمار روایات کتب حدیث میں موجود ہے، ہم نے صرف ان چند احادیث پر اکتفاء کیا کہ طالب حق کےلیے اس قدر کافی ہے۔ “
مزید فرماتے ہیں: ” ان احادیث سے یہ باتیں ثابت ہوئیں:
1:رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد ذکر کرتے اور دعا مانگتے تھے۔ دیکھو حدیث نمبر2 ،3 ،6
2:فرض نماز کے بعد دعا مانگنا ان فرضوں سے مخصوص نہیں ہے جن کے بعد سنتیں نہ ہوں بلکہ تمام حدیثوں میں کل صلوٰۃ (ہر نماز) کا لفظ موجود ہے جو ہر نماز کو شامل ہے۔
3:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ صرف یہی نہ تھی کہ
” اللہم انت السلام ومنک السلام “
پڑھتے ہوں بلکہ اور دعا ئیں بھی آپ سے صحیح سند سے ثابت ہے۔ دیکھو حدیث نمبر2سے 10تک۔
4: فرضوں کے سلام کے بعد سنتوں سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوائے
”اللہم انت السلام “
کے اور دعا ئیں بھی جو اس سے بڑی ہیں، پڑھتے تھے۔ دیکھو حدیث نمبر2،7،8 الحاصل ان تمام روایات سے یہ بات نہایت صراحت کے ساتھ ثابت ہوئی کہ فرائض کے بعد دعا مانگنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اور آپ کی سنت ہے،اور اس کی مقبولیت کی امید بھی زیادہ ہے، اور یہ سرور کونین شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔
[النفائس المرغوبہ ص15، 16 ملخصاً]
اس دعا کے ثبوت پر آٹھ حوالے مختلف کتب فقہ سے نقل فرما کر لکھتے ہیں :
” الحاصل یہ روایات فقہیہ ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ فرض نماز کے بعد امام اور مقتدی سب مل کر دعا مانگیں اور دعا سے فارغ ہو ہاتھ منہ پر پھیریں۔ “
[ص17 ،18]
اس کے علاوہ مفتی صاحب نے بہت سے شبہات کے جوابات بھی ذکر فرمائے ہیں، جنھیں ہم نے طوالت سے بچنے کے لیےذکر نہیں کیا۔ مزیدتفصیل مطلوب ہو توحضرت مفتی صاحب کا رسالہ
” النفائس المرغوبہ فی حکم الدعاء بعد المکتوبہ“
کامطالعہ فرمائیں۔