فتاویٰ عالمگیری

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

تعارف کتب فقہ:

فتاویٰ عالمگیری
مفتی محمد یوسف حفظہ اللہ
تصویر کا اصلی رخ:
گزشتہ شمارے میں فقہ کی معتبر ومستند کتاب ”فتاویٰ عالمگیری“پر ایک غیر معتبر شخص کےایک اعتراض کا جائزہ پیش کیاگیا تھا۔ اب دوسری قسط میں بھی جناب موصوف کی ایک اور غلط فہمی کا ازالہ کیا جائے گا۔ جناب موصوف عبید اللہ خان صاحب نے علمی بے مائیگی کا ثبوت دیتے ہوئے دانستہ یا نادانستہ فقہ کے ایک اہم مسئلہ پر لب کشائی کی ہے۔ جناب کی تحقیق چونکہ لائق التفات ہی نہیں چہ جائیکہ ان کے الزامات کو وقعت دی جائے، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تصویر کا اصلی رخ عوام کے سامنے رکھ دیا جائےتاکہ پڑھنے والے خود فیصلہ کر لیں کہ حقیقت حال کیا ہے؟!
دس درہم سے کم کی چوری پر ہاتھ کاٹنا:
فاضل معترض نے اس اعتراض میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حدیث شریف میں چور کا ہاتھ کاٹنے کی کم ازکم مالیت تین درہم بتائی گئی ہے جبکہ فتاویٰ عالمگیری کا مسئلہ اس کے خلاف ہے۔اپنے اعتراض میں جان پیدا کرنے کے لیے موصوف نے پہلے یہ حدیث ذکر کی ہے.
عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَطَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مِجَنٍّ ثَمَنُهُ ثَلَاثَةُ دَرَاهِمَ
[صحیح البخاری]
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چور کا ہاتھ تین درہم کی ڈھال میں کاٹا تھا۔
اس کے بعد فتاویٰ عالمگیری کی یہ عبارت نقل کی .
أَقَلُّ النِّصَابِ في السَّرِقَةِ عَشَرَةُ دَرَاهِمَ۔
کہ سرقہ(چوری)کا کم سے کم نصاب دس درہم ہے۔
فتاویٰ عالمگیری ج2ص189 الْبَابُ الْأَوَّلُ في بَيَانِ السَّرِقَةِ وما تَظْهَرُ بِهِ
اصل حقیقت کیا ہے؟
یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ مال ودولت انسان کو بہت محبوب ہے،انسانی طبیعت اس کی طرف میلان رکھتی ہے۔اس کے حصول کے لیے انسان بہت جان سوزی کرتا ہےاگر شریعت کے اصول وضوابط دستگیر ی نہ کرتے تو سیم وزر کے شیدائی علانیہ طور پر ڈاکہ زنی کرتے پھرتے۔ اسی ممکنہ فساد کی روک تھام اور انسانیت کے مال وجان کے تحفظ کے لیے خالق کائنات نے چور کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ہے۔اس موقع پر یہ سوال جنم لیتاہے کہ کتنی مالیت کے چرانے پر چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا؟ اس بارے میں اصول اور بنیاد کی حیثیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان مبارک ہے:
لا تقطع ید السارق فیما دون ا لمجن
[سنن النسائی ج2ص 258]
کہ چوری کرنے والے کا ہاتھ ایک ڈھال کی قیمت سے کم میں نہ کاٹا جائے۔
اور اسی فیصلے پر عہد رسالت میں عمل ہوا۔چنانچہ امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کسی چور کا ہاتھ ایک ڈھال کی قیمت سے کم میں نہیں کاٹا گیا۔
[بخاری کتاب الحدود ج2ص1004]
مذکورہ دو احادیث سے یہ عقدہ تو حل ہوگیا کہ ایک ڈھال کی قیمت کے برابر مال چرانے پر چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔باقی رہا یہ مسئلہ کہ عہد نبوت وعہد صحابہ میں ڈھال کی قیمت کتنی تھی؟اس سلسلے میں روایات مختلف ہیں۔ مثلاً
1: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطَعَ فِي مِجَنٍّ ثَمَنُهُ ثَلَاثَةُ دَرَاهِمَ۔
[صحیح البخاری ج2ص1004]
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈھال ( کے چرانے ) میں چور کا ہاتھ کاٹا تھا جس کی قیمت تین درہم تھی۔
2: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک دینا رکے چوتھائی حصے یا کچھ زائد ( کے چرانے ) میں ہاتھ کاٹنا ہے۔
مصنف ابن ابی شیبہ جلد14ص365
3:حضرت انس سے مروی ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ایک ڈھال کے چرانے میں چور کا ہاتھ کاٹا تھا جس کی قیمت پانچ دراہم تھی۔
[سنن النسائي ج2ص257]
4: عن أيمن قال : يقطع السارق في ثمن المجن وكان ثمن المجن على عهد رسول الله صلى الله عليه و سلم دينارا أو عشرة دراهم
[سنن النسائي ج2ص259]
ترجمہ: حضرت ایمن سے روایت ہے کہ چور کا ہاتھ ایک ڈھال کے چرانے میں کاٹا جائے گا اور رسول اللہ کے زمانے میں ڈھال کی قیمت ایک دینار یا دس درہم تھی۔ڈھال کی قیمت کے بارے میں مذکورہ احادیث باہم مخالف ہیں،اس لیے ایسا حل تلاش کرنا ضروری ہےجسے اپنانے کی صورت میں کسی بھی حدیث کا انکار لازم نہ آئے۔ اللہ تعالیٰ جزا ئے خیر عطا فرمائے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو کہ وہ احادیث کے مختلف ہونے کی صورت میں منشاء نبوی کو سامنے رکھ کر ایسا حل تلاش کرتے ہیں کہ تمام احادیث پر عمل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
ڈھال کی قیمت چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مختلف اوقات میں بدلتی رہی ہے۔ابتداء میں ڈھال کی قیمت تین دراہم تھی۔اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دراہم کی چوری پر چور کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تھا۔اس کے بعد قیمت میں اضافہ ہوا تو بڑھ کر پانچ دراہم ہوگئی۔پھر کچھ عرصہ بعد ڈھال کی قیمت مزید بڑھ کر دس دراہم تک پہنچ گئی۔اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ابتداء اسلام میں اونٹ کے سستا ہونے کی وجہ سے دیت کی قیمت آٹھ سو دینار یا آٹھ ہزار درہم تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور میں اسی پر عمل ہوتا رہا مگر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب او نٹ کا نرخ بڑھ گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے دیت کی قیمت آٹھ سو دینار یا آٹھ ہزار درہم سے بڑھا کر ایک ہزار دینار یا بارہ ہزار درہم مقرر فرما دی۔
[ابو داؤد ص900باب الدیۃ کم ھی؟]
بالکل یہی مسئلہ ڈھال کا تھا ، اس کی قیمت بھی بدلتے زمانے کے ساتھ بڑھتے بڑھتے دس درہم ہو گئی تھی۔ فقہ حنفی میں جو چوری کا نصاب درس درہم لکھا ہے یہ فقہا احناف کی ذاتی رائے ہر گز نہیں بلکہ یہ تو احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور بہت جلیل القدر صحابہ و تابعین کرام کا مذہب ہے۔ چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
لا یقطع الکف فی اقل من دینار او عشرۃ دراہم۔
کہ چور کا ہاتھ ایک دینار یا دس دراہم سے کم مالیت میں نہ کاٹا جائے گا۔
[عبد الرزاق ج9 ص520]
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: لا یقطع السارق فی دون ثمن المجن و ثمن المجن عشرۃ دراہم۔چور کا ہاتھ ڈھال کی قیمت سے کم مالیت میں نہ کاٹا جائے اور ڈھال کی قیمت دس دراہم ہے۔
[مصنف ابن ابی شیبہ ج14ص371]
عن القاسم قال : اتی عمر بسارق فامر بقطعہ فقال عثمان : ان سرقتۃ لا تسویٰ عشرۃ دراہم قال فامر بھا عمر فقومت ثمانیۃ دراہم فلم یقطہ
مصنف ابن ابی شیبہ جلد14ص373 واللفظ لہ و مصنف عبد الرزاق ج9ص521
اس کا مفہوم یہ ہے کہ سیدنا عمر کی خدمت میں ایک چور لایا گیا توآپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمایا۔ ( یہ سن کر) سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سامان سرقہ دس دراہم کی مالیت کے برابر نہیں ہے۔ بعد میں اس کی قیمت لگائی گئی تو وہ آٹھ دراہم کے برابر نکلا، اس وجہ سے چور کا ہاتھ نہیں کاٹا گیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ جو مسئلہ حدیث شریف سے ثابت ہو، صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کا اس پر عمل ہو اور تابعین حضرات کا مذہب ہو وہ صرف فتاویٰ عالمگیری میں نقل کرنے سے خلاف حدیث کیسے بن گیا ؟ ہاں یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ مسئلہ حدیث کے تو نہیں البتہ اہل حدیث کے خلاف ہے ،کیوں کہ ان کو فقہ سے اللہ واسطے کا بیر ہے۔
قارئین کرام! علماء احناف نے تو ڈھال کی قیمت سے متعلق مختلف احادیث میں سے کسی ایک حدیث کودلائل کی قوت کی بنیاد پر ترجیح دی ہے، اس بات کا انکارِ حدیث یا مخالفتِ حدیث سے دور کا بھی تعلق نہیں اور اختلاف احادیث کی صورت میں اجتہاد کے ذریعے ایک حدیث کو راجح قرار دینا یہ اہل علم کا طریقہ ہے۔ موصوف کا چونکہ اہل علم میں شمار نہیں ہوتا اس لیے ایسی بچگانہ باتیں فرمادیتے ہیں۔