محبت اور اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
محبت اور اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم
مولانا محمد ارشد سجاد حفظہ اللہ
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی شخص کا ایمان اس وقت کامل اور مکمل نہیں ہو سکتا جب تک وہ سرکارِ دو عالم رحمت کائنات محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے دل کی گہرائیوں سے محبت اور عشق نہ رکھے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ ، دیگر ضروریات دین اور قطعیات اسلام پر ایمان لانا ضروری ہے اسی طرح حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدس پر بھی ایمان لانا ضروری ہے۔ اور یہ آپ کی ذات مبارکہ سے محبت کے بغیر ممکن ہی نہیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ قرآن کریم میں حق تعالیٰ نے ماں باپ،اولاد ،تجارت اور اموال کے ساتھ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محبت کی صورت میں عذاب کے انتظار کی وعید بیان فرمائی ہے۔
[سورۃ التوبہ: 24]
جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے ان تمام مذکورہ چیزوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کے ساتھ زیادہ محبت ہونا ایمان کے لیے ضروری ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی ارشاد فرمایا :
” لا یؤ من احدکم حتیٰ اکون احب الیہ من والدہ و ولدہ والناس اجمعین “
[بخاری]
ترجمہ: جب تک میں تمہیں اپنی اولاد و والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں اس وقت تک تم میں سے کسی کا ایمان کامل نہیں ہو سکتا۔
بہر حال یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جس میں کسی بھی ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان کو ذرہ برابر بھی اختلاف یا شبہ نہیں ہے۔ چودہ سو سال کے تمام مسلمان عوام وخواص خصوصاً اکابر علماء دیوبند جو اس دور میں بلا شک وشبہ
”ما انا علیہ واصحابی“
کے حقیقی ترجمان ہیں۔ وہ سب کے سب بلا اختلاف و اشتباہ اس عقیدہ سنیہ پر متفق ومتحد ہیں اور اس کو نہ صرف دل وجان سے تسلیم کرتے ہیں بلکہ تحریراً وتقریراً اور علماً وعملاً ہر طرح سے اس کی اشاعت و اظہار میں پیش پیش ہیں۔ ان کی تقاریر اور تصانیف اس پر شاہد عدل ہیں حق تعالیٰ نے انہیں قرآن و سنت کا صحیح ترجمان و پاسبان بنا کر امت کی قیادت وسیادت کا شرف عطا فرمایا ہے۔ امام الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے رسول ہونے کے ناطے امت پر بے شمار حقوق ہیں۔ بالخصوص آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام سے الفت و محبت، تعظیم وتوقیر ، اتباع و اطاعت اور آپ کی سنتوں سے محبت کرنا ہے۔ ذیل میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور حضرات اکابر علماء دیوبند کی ذات نبوت سے عقیدت و اطاعت کا مختصر منظر پیش خدمت ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عشق:
صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مصالحت کی غرض سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اپنا نمائندہ بنا کر مکہ بھیجا۔ تفصیلی بات چیت کے بعد قریش مکہ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے یہ پیشکش کی کہ اگر آپ خود عمر ہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری طرف سے آپ کو اجازت ہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہ کیسے ممکن ہے کہ میرے آقا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو طواف سے روک دیا جائے اور میں خود طواف کر لوں؟ قریش مکہ کے دلوں پر یہ بات بجلی بن کر گری۔ وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ غلامان ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عشق و ادب میں اتنا مقام نصیب ہو چکا ہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ جب واپس تشریف لائے تو بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ کیا آپ طواف کر آئے ہیں ؟ تو آپ نے جواب دیا اللہ کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر میں وہاں ایک سال بھی ٹھہرا رہتا اور میرے آقا حدییبہ میں ہوتے تو میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر طواف نہ کرتا۔
غزوہ بدر کے موقع پر مقام صفراء میں حضرت مقداد بن الاسود رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے رسول خدا صلی اللہ علی وسلم جس چیز کا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیاہے اس کو انجام دیجیے ہم سب آپ کے ساتھ ہیں۔ خدا کی قسم ہم بنی اسرائیل کی طرح یہ ہرگز نہیں کہیں گے اے موسیٰ! آپ اور آپ کا رب جا کر لڑیں ہم تو یہیں بیٹھیں ہیں۔ بلکہ ہم بنی اسرائیل کے برعکس یہ کہیں گے ہم بھی آپ کے ساتھ مل کر جہاد و قتال کریں گے بلکہ ہم آپ کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے سے لڑیں گے۔ راوی حدیث حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کہ میں نے اس وقت دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور فرطِ مسرت سے چمک اٹھا۔
بنو دینار کی ایک خاتون صحابیہ رضی اللہ عنہا ایسی تھیں جن کا بھائی ،شوہر، اور باپ جنگ احد میں شہید ہو گئے۔ وہ کہتی تھیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت بتلاؤ تو لوگوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بفضلہ تعالیٰ صحیح و سلامت ہیں وہ کہنے لگیں کہ مجھے دکھاؤ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں ؟ جب دور سے آقائے کون و مکان محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو بے اختیار پکار اٹھیں” کل مصیبۃ بعدک حلل“ آپ سلامت ہیں تو سب کچھ برداشت ہے۔
علماء دیوبند کا عشق رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم
قطب الاقطاب حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ اپنے دور میں علما ء حق کے سرخیل تھے۔ ان سے کسی نے پوچھا :حضرت ! اگر آپ کو معلوم ہو جائے کہ آپ کی ایک دعا قبول ہو گی تو آپ کیا دعا کریں گے؟ فرمانے لگے میں دعا کروں گا اے اللہ ! حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جوعشق و محبت تھا مجھے بھی اس میں سے کچھ حصہ مل جائے۔
بانی دارالعلوم دیو بند قاسم العلوم و الخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانو توی رحمہ اللہ مدینہ منورہ داخل ہوئے تو جذب و کیف کا ایک عجیب عالم ان پر طاری ہوا۔ جوتے اتار دیے اور ننگے پاؤں چلنے لگے، پا ؤں راستے کے کنکروں اور پتھروں سے لہو لہان ہو گئے۔ لیکن اس کی پروا تک نہ تھی۔ ایک طرف ادب و احترام میں ان کا یہ مقام تھا اور دوسری طرف اتباع سنت کا اس قدر خیال تھا کہ جب جہاد آزادی میں حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کی گرفتاری کا وارنٹ جاری ہوا تو تین دن تک روپوش رہے۔ اور پھر بر سر عام چلنے پھرنے لگے، عقیدت مندوں نے بڑی منت سماجت کی کہ آپ روپوش رہیں۔ آپ فرمانے لگے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تین دن تک غارِ ثور میں روپوش رہے تھے اس سنت پر عمل ہو گیا معلوم نہیں پھر اس سنت پر عمل کا موقع ہاتھ آتا ہے یا نہیں۔ اس لیے تین دن سے زیادہ روپوشی اختیار نہیں کی اور اس طرح ایک سنت پر عمل کرنے کےلیے حضرت نانوتوی رحمہ اللہ نے گرفتاری کا خطرہ مول لیا۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : کہ میں تین دن تک صبح سے رات تک اپنے تمام اعمال کا بغور جائزہ لیتا رہا دیکھنا یہ تھا کہ کتنی اتباع سنت ہم لوگ عادۃً کرتے ہیں اور کتنی اتباع کی توفیق علم حاصل کرنے کے بعد ہوئی اور کتنی باتوں میں اب تک محرومی ہے،تین دن تک تمام امور زندگی اور معمولات شب و روز کا جائزہ لینے کے بعد اطمینان ہو گیا کہ الحمد للہ معمولات میں کوئی عمل خلاف سنت نہیں۔حضرت مولانا عاشق الہیٰ مہاجر مدنی رحمہ اللہ ،فخر المحدثین العلام حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ کی سوانح میں رقم فرماتے ہیں : میں سمجھتا ہوں آپ کی طبعیت کو قدرت نے اتباع سنت کا سانچہ بنا دیا تھا۔ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ محبت جو خون کی طرح آپ کی رگ رگ میں جاری وساری تھی۔ آپ کی مبارک طویل زندگی کے لمحہ لمحہ کو ایک بے نظیر کرامت بنائے ہوئے تھی۔ آپ کی عمر بھر دینی خدمت میں انہماک حدیث میں تبحر،فقہ میں اجتہاد ، تحریر وتقریر میں اشاعت دین ، حرکت وسکون میں اظہار حق ،قیام و قعود میں اتباع سنت لازمی و متعدی نفع دین کا تو بے پایاں سمندر تھا جس میں کوئی بھی غوطہ لگانے والا غواص موتیوں سے کبھی بھی محروم نہیں رہا۔ اور اس بنا پر مجھے یہ کہنے کا حق ہے کہ:
اولئک آبائی فجئنی بمثلھم، اذا جمعتنا یا جریر المحامع
[تذکرۃ الخلیل ص379]
اے جریر!یہ ہیں میرے آباء و اجداد، ان کی مثل لا کر دکھاؤ جب مجمعے ہی جمع کریں۔یہ ہیں اکابرین دیوبند جن کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے اطاعت و تابعداری کا بے مثال جذبہ ا للہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص محبت و الفت نصیب فرمائے۔ آمین