سات فقہاء کا نظریہ حدیث

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
آثار التشریع
سات فقہاء کا نظریہ حدیث
علامہ خالد محمودمدظلہ
پی- ایچ- ڈی لندن
الحمدللہ وسلام علیٰ عبادہ الذین اصطفیٰ اما بعد
جس طرح فقہ اور حدیث میں نسبت تضاد نہیں۔محدثین اور فقہاء بھی ایک دوسرے کے ہم دوش چلے ہیں۔ان میں بھی آپس میں کوئی تخالف نہیں۔ بعض کم علم لوگ فقہ کو اس طرح حدیث کا مخالف بتاتے ہیں جس طرح بعض دوسرے کم فہم حدیث کو قرآن کے مقابل لاکھڑا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حدیث ایک عجمی سازش ہے جو لوگوں کو قرآن سے دور کرنے کی لیے کی گئی ہے۔[معاذاللہ]
ہم یہاں محدثین اور فقہاء دونوں کو ایک ساتھ ملا کر بیان کرتے ہیں اس سے علمی دنیا میں ہم آہنگی پیدا ہوگی۔واللہ ہو الموفق
ہم سب سے پہلے سات بڑے فقہاء کا نظریہ حدیث پیش کرتے ہیں جس سے پتہ چلے گا کہ وہ رائے کو حدیث کے سامنے کس طرح مسترد کرتے ہیں۔
1:حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ(۱۵۰)، 2:حضرت امام محمد رحمہ اللہ(۱۸۹)
3:حضرت امام مالک رحمہ اللہ(۱۷۹ھ)، 4:حضرت امام ابویوسف رحمہ اللہ(۱۸۲)
5:حضرت امام زفر رحمہ اللہ(۱۵۸)،6 :حضرت امام شافعی رحمہ اللہ (۲۰۴)
7:حضرت امام احمد رحمہ اللہ( ۲۴۱)
[1]:حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ م150ھ فرماتے ہیں۔
اذا جاءنا الحديث عن النبی صلى الله عليه وسلم ناخذ به، اذا جاءنا عن الصحابة یتخيرنا واذا جاءنا عن التابعين زاحمناهم۔
الانتقاء لابن عبدالبر ص141
ترجمہ:جب ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث پہنچے تو ہم اسی کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے جب کوئی روایت پہنچے تو ہم ان میں سے کسی کے پیچھے ہولیتے ہیں اور جب ہمیں کوئی بات تابعین رحمہم اللہ سے آئے تو ہم ان کے برابر اپنی بات لاتے ہیں (خوداجتہاد کرتے ہیں)
حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ یہ بھی فرماتے ہیں۔
اٰخذ بکتاب اللہ فمالم اجد فبسنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والآثار الصحاح عنہ التی فشت فی ایدی الثقات فان لم اجد فیقول اصحابہ اٰخذ بقول من شئت واما اذا انتہیٰ الامر الی ابراہیم والشعبی والحسن والعطاء فاجتہد کما اجتہدوا
المناقب للذہبی ص20، ولم یویدہ مافی تاریخ بغداد ج13ص368
ترجمہ:میں کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرتاہوں۔ اگر مجھے وہاں بات نہ ملے تو پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آثار صحیحہ جو ثقہ راویوں کے پاس ثقہ راویوں سے پہنچی ہو ان کے مطابق فیصلہ کرتاہوں۔اگر میں وہاں بھی بات نہ پاؤں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے جس کی بات چاہوں لے لیتا ہوں لیکن جب معاملہ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ،علامہ شعبی رحمہ اللہ،حسن بصری رحمہ اللہ اور عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ تک پہنچے تو میں اسی طرح اجتہاد کرتاہوں جس طرح ان حضرات نے اجتہاد کیا ہے۔
ان حضرات سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اپنی اور اپنے اساتذہ کی رائے پر حدیث اور آثار صحابہ کو بہرحال مقدم کرتے ہیں اور حدیث کے ہوتے ہوئے محض رائے سے دین کی بات کہنا جائز نہ سمجھتے تھے۔آپ فرماتے ہیں:
لم تزل الناس فی صلاح مادام فیہم من یطلب الحدیث فاذا طلبوا العلم بلاحدیث فسدوا،
میزان کبریٰ للشعرانی ج1ص51
حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
ایاکم والقول فی دین اللہ بالرای وعلیکم بالسنۃ فمن خرج عنہا ضل
میزان کبریٰ للشعرانی ج1ص50
ترجمہ: دیکھنا! اللہ کے دین میں رائے سے بات کہنے سے بچنا، تم پر سنت کی اتباع لازم ہے، جو سنت سے نکلا اس نے رستہ کھودیا۔
سنت کا ثبوت کمزور سند سے بھی ملے تو رائے سے مسئلہ بتانے سے بہتر ہے۔ خلیفہ ابوجعفر منصور کے پاس کسی نے شکایت کی کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ حدیث کی پرواہ نہیں کرتے۔ابوجعفر نے پوچھا تو آپ نے فرمایا:
اے امیر المومنین! تم نے غلط سنا ہے۔ میں سب سے پہلے کتاب اللہ پر عمل کرتاہوں، اس کے بعد سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے فیصلوں پر، پھر باقی صحابہ رضی اللہ عنہم کے فیصلوں پر۔جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کسی مسئلے میں مختلف ہوتے ہیں تو بحالت مجبوری قیاس کرتاہوں(اور ان میں سے کسی کی بات کو ترجیح دیتاہوں)
[میزان کبریٰ للشعرانی ج1ص77]
جو شخص یہ کہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ قیاس کو حدیث پر مقدم کرتے تھے، اس کے بارے میں علامہ شعرانی لکھتے ہیں:
جاننا چاہیے کہ یہ کلام اس شخص کا ہے جو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے تعصب رکھنے والا اور اپنے دین میں دلیر ہے اور بات چیت میں احتیاط کرنے والا نہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے غافل ہے کہ بےشک کان، آنکھ اور دل؛ ان سب کے بارے میں اس شخص سے پرسش کی جائے گی۔
[میزان کبریٰ للشعرانی ج1ص174]
آگے جا کر لکھتے ہیں:اگر اس پر بھی کوئی اعتراض کرنے سے باز نہ آئے تو میں خدا کی قسم کھا کر کہتاہوں کہ اس کا سبب سوائے اس کے کہ وہ قلبی بینائی سے کور ہے، اور کچھ نہیں۔
[میزان کبریٰ للشعرانی ج1ص192]
پیش نظر رہے کہ علامہ شعرانی رحمہ اللہ م976ھ کوئی حنفی المذہب بزرگ نہیں کہ اپنے امام کا دفاع کر رہے ہوں، آپ شافعی المذہب تھے۔ یہ آپ کی انصاف پسندی ہے کہ حق بات کو حق کہہ گئے آپ ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
ایک مرتبہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ ہم کو حدیث سے الگ کرو۔ امام صاحب نے اس کو سختی سے ڈانٹا اور فرمایا :اگر حدیث نہ ہوتی تو ہم میں سے کوئی آدمی قرآن مجید کو نہ سمجھ پاتا۔ پھر آپ نے اس شخص سے سوال کیا کہ بندر کے گوشت کے بارے میں تم کیا کہتے ہو،کیا قرآن میں اس کی حرمت یا حلت کی کوئی دلیل ہے؟وہ شخص لاجواب ہوگیا اور ساکت ہوگیا۔پھر اس شخص نے آپ سے پوچھا کہ آپ کی اس میں کیا رائے ہے؟آپ نے جواب دیا کہ بندر بہیمۃ الانعام یعنی چار پایہ جانوروں میں سے نہیں ہے یعنی حلال نہیں۔
[المیزان ج1ص158]