قرآن مجید کو بغیر وضو چھونے کا حکم

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
فقہ المسائل:
قرآن مجید کو بغیر وضو چھونے کا حکم
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
سوال:
ڈاکٹر ذاکر نائیک کے ایک لیکچر میں سنا کہ وہ قرآن مجید کو چھونے کےلیے وضوء کو ضروری قرار نہیں دیتےبلکہ قرآن کی آیت : لَا
يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ
کے متعلق کہتے ہیں کہ جو لوگ اس سے انسانوں کے لیے وضوء کو ضروری قرار دیتے ہیں ، ان سے غلط فہمی ہوئی ہے۔ ان کی تقریر کا خلاصہ یہ ہے:
1:آیت قرآنی [واقعہ: 79] کا شان نزول دیکھیں تو پتہ چلتاہے کہ مشرکین یہ اعتراض کرتے تھےکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جو قرآن کی وحی کی جاتی ہے، یہ نعوذباللہ شیطان القاء کرتاہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ قرآن لوح محفوظ میں ہے اسے صرف پاک نفوس ہی چھو سکتے ہیں اوروہ صرف اور صرف فرشتے ہیں، شیطان اس میں دسترس نہیں کر سکتا۔لہذا اس آیت سے دلیل نہیں پکڑی جاسکتی۔
2:بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر آپ وضو کر لیں تو آپ ”مطہرین“ بن جائیں گے۔ کیونکہ طہارت سے سو فیصد پاکی مراد ہے، یعنی ایسی ہستیاں جو ذہن، بدن اور خیالات ہر اعتبار سے پاک ہوں ، صرف بدنی پاکی مراد نہیں بلکہ وہ مراد ہیں جو سو فیصد معصوم ہوں اور وہ صرف فرشتے ہی ہوسکتے ہیں نہ کہ انسان،اور طہارت کا معنی”صرف بدن کا پاک ہونا نہیں“ درست نہیں بلکہ اس سے انتہائی پاکیزگی مراد ہے۔
3:لا یمسہ،کا مطلب ہے ”نہیں چھو سکتے“،حالانکہ ایک غیر مسلم قرآن کا نسخہ 150 روپے میں بازار سے خرید لاتاہے اور چھو لیتاہے، میں چھو سکتاہوں (چنانچہ خود چھو کر دکھاتاہے) تو اگرقرآن میں مراد انسان ہوتے تو ناپاک ہونے کی حالت میں کبھی نہ چھو سکتے۔معلوم ہوا یہ حکم فرشتوں کے متعلق تھا انسانوں کے متعلق نہیں ہے۔
4:اگر کوئی وضو میں ہے اور قرآن کو چھوتا ہے تو یہ مستحب ہے، فرض نہیں۔ وضو تو نماز کے لیے ضروری ہے۔قرآن کی کوئی آیت اور کوئی حدیث یہ نہیں کہتی کہ قرآن کو چھونے کے لیے وضو کرنا ضروری ہے۔
براہ مہربانی تحقیقی جواب دے کر مسئلہ واضح فرمائیں۔
مجیب الرحمٰن۔ لاہور
جواب:
قرآن مجید کو چھونے کے لیے وضوء کرنا ضروری ہے، بغیر وضوء کے قرآن کو چھونا جائز نہیں۔ چند دلائل یہ ہیں:
1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ
[سورۃ الواقعہ: 79]
ترجمہ: اس کو وہی لوگ چھوتے ہیں جو خوب پاک ہیں۔
اس آیت کی تفسیر میں علامہ عبد اللہ بن احمد النسفی رحمہ اللہ [م۷۰۱ھ] فرماتے ہیں:
وإن جعلتها صفة للقرآن فالمعنى لا ينبغي أن يمسه إلا من هو على الطهارة من الناس
[مدارک التنزیل: ۲/ ۶۴۲]
ترجمہ: لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ کو اگر قرآن کی صفت قرار دیا جائےتو آیت کا معنی یہ ہو گا کہ قرآن کو وہی لوگ چھوئیں جو پاک ہوں۔
علامہ آلوسی بغدادی رحمہ اللہ [م۱۲۷۰ھ] فرماتے ہیں:
وكون المراد بهم المطهرين من الأحداث مروي عن محمد الباقر على آبائه وعليه السلام وعطاء وطاوس وسالم
[روح المعانی للآلوسی ج14ص154]
کہ ”مطھرون“ سے مراد وہ لوگ ہیں جو حدث سے پاک ہوں (یعنی انسان مراد ہیں) یہ موقف امام محمد باقر، امام عطاء، امام طاوس اور حضرت سالم سے مروی ہے۔
اگرچہ بعض حضرات نےاس آیت میں ”مطھرون“ سے مراد فرشتے لیے ہیں، لیکن مفسرین کی اکثر یت نے عموم الفاظ اور احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظراس سے انسان مراد لیے ہیں۔ ملا جیون رحمہ اللہ [م۱۱۳۰ھ]فرماتے ہیں:
الاکثر علی انہ نفی بمعنی النہی، و ان الضمیر المنصوب راجع الی القرآن۔۔۔۔ ای لا یمس ھذا القرآن الا المطھرون من الاحداث فلا یمسہ المحدث و الجنب و لا الحائض و لا النفساء
[تفسیرات احمدیہ: ص۶۸۳ سورۃ الواقعۃ]
کہ اکثر مفسرین کا موقف یہ ہے کہ یہاں نفی نہی کے معنی میں ہے اور ضمیر منصوب قرآن کی طرف راجع ہے یعنی اس قرآن کو وہی لوگ چھوئیں جو احداث سے پاک ہوں۔ لہذا قرآن کو بے وضوء، جنبی، حائضہ اور نفاس والی عورت نہ چھوئیں۔
علامہ شامی رحمہ اللہ [م ۱۲۵۲ھ] دونوں احتمال ذکر کرنے کے بعد مندرجہ بالا تفسیر کو اکثر مفسرین کا موقف قرار دیتے ہیں، چنانچہ لکھتے ہیں:
وَعَلَى الثَّانِي الْمُرَادُ مِنْهُمْ النَّاسُ الْمُطَهَّرُونَ مِنْ الْأَحْدَاثِ وَعَلَيْهِ أَكْثَرُ الْمُفَسِّرِين
[رد المحتار: کتاب الطہارۃ]
ترجمہ:دوسرے احتمال کے مطابق اس [المطہرون] سے وہ لوگ مراد ہیں جوحدث سے پاک ہوں اور یہی اکثر مفسرین کا موقف ہے۔
حافظ ابو بکر رحمہ اللہ [م۳۷۰ھ] نے اسی تفسیر کو راجح قرار دیا ہے۔ چنانچہ حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
انہ کتب فی کتابہ لعمرو بن حزم: و لا یمس القرآن الا طاہر فوجب ان یکون نہیہ ذلک بالآیۃ
[احکام القرآن: ج۳ ص۶۲۱]
ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک خط میں جو حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کے ہاتھ (اہل یمن کو)بھیجا تھا، لکھا :”قرآن کو صرف پاک لوگ ہی چھوئیں“، توعین ممکن ہے کہ آپ کا یہ فرمانا اسی آیت کی وجہ سے ہو۔
2: حضرت عبد الرحمٰن بن یزید سے روایت ہے، فرماتے ہیں:
كُنَّا مَعَ سَلْمَانَ فِي حَاجَةٍ ، فَذَهَبَ فَقَضَي حَاجَتَهُ ثُمَّ رَجَعَ ، فَقُلْنَا لَهُ : تَوَضَّأْ ، يَا أَبَا عَبْدِ اللهِ لَعَلَّنَا أَنْ نَسْأَلَك عَنْ آيٍ مِنَ الْقُرْآنِ ؟ قَالَ : قَالَ : فَاسْأَلُوا ، فَإِنِّي لاَ أَمَسُّهُ ، إِنَّهُ لاَ يَمَسُّهُ إِلاَّ الْمُطَهَّرُونَ ، قَالَ : فَسَأَلْنَاهُ ، فَقَرَأَ عَلَيْنَا قَبْلَ أَنْ يَتَوَضَّأَ.
مصنف ابن ابی شیبہ: في الرجل يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَهُوَ غَيْرُ طَاهِرٍ،مصنف عبدالرزاق ج1ص263رقم1327باب القراءۃ علیٰ غیر وضوء،
کہ ہم حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کام کے سلسلے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ قضاء حاجت کےلیے تشریف لے گئے، جب واپس آئے تو ہم نے عرض کی: (آپ وضوء کر لیں) ہم قرآن کی چند آیات آپ سے پوچھنا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: پوچھو! کیوں کہ میں قرآن کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا، اسے تو صرف پاک لوگ ہی چھوتے ہیں۔ عبد الرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ ہم نے آپ سے چند آیات پوچھیں تو آپ نے وضوء کرنے سے قبل مطلوبہ آیات پڑھیں۔
اس سے واضح ہوا کہ مس قرآن کے لیے وضوء شرط ہے، البتہ تلاوت قرآن بغیر وضوء کے کی جا سکتی ہے۔
امام حاکم اور امام ذہبی رحمہما اللہ فرماتے ہیں: یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔
مستدرک الحاکم مع التلخیص ج2ص519تفسیر سور ۃالواقعہ
3: حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں روایت کرتے ہیں:
أَنَّهُ كَتَبَ إِلَى أَهْلِ الْيَمَنِ بِكِتَابٍ فِيهِ الْفَرَائِضُ وَالسُّنَنُ وَالدِّيَاتُ وَبَعَثَ بِهِ مَعَ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ وَفِيهِ :« وَلاَ يَمَسُّ الْقُرْآنَ إِلاَّ طَاهِرٌ ». ،
السنن الکبریٰ بیہقی ج1ص87رقم416باب نہی المحدث عن مس المصحف،موطا امام محمد ص163رقم296باب الرجل یمس القرآن وہو جنب او علیٰ غیر طہارۃ
کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل یمن کی طرف ایک خط لکھا، جس میں فرائض، سنن اور دیت کے احکامات تھے، یہ خط حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کے ہاتھ (اہل یمن کو)بھیجا ،منجملہ اس خط میں یہ بھی لکھا تھا :”قرآن کو صرف پاک لوگ ہی چھوئیں“
4: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں:
لا يمس القرآن إلا طاهر
[المعجم الصغیر للطبرانی ج2ص139حدیث1162،]
کہ قرآن کو صرف پاک لوگ ہی چھوئیں۔
علامہ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس روایت کے راویوں کی توثیق کی گئی ہے، یعنی یہ راوی ثقہ ہیں۔
[مجمع الزوائد: ج1ص387باب فی مس القرآن]
5: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں مروی ہے:
أَنَّهُ كَانَ لاَ يَمَسُّ الْمُصْحَفَ إِلاَّ وَهُوَ طَاهِرٌ
[مصنف ابن ابی شیبہ ج2 ص256 رقم7506باب فی الرجل علی غیر وضوء والحائض یمسان المصحف]
کہ آپ مصحف کو صرف پاک ہونے کی حالت میں چھوتے تھے۔
ان دلائل سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید کو چھونے کے لیے پاک ہونا ضروری ہے۔ جمہور امت کا یہی موقف ہے۔ مدینہ منورہ کے سات فقہاء [فقہاء سبعہ]کا بھی یہی موقف ہے۔
[السنن الکبریٰ للبیہقی: ج۱ ص۸۸، باب نہی المحدث عن مس المصحف]
حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت سعید بن زید، امام عطاء، امام زہری، امام ابراہیم نخعی، امام حکم، امام حماد اور فقہاء کی ایک عظیم جماعت کا یہی موقف ہے جن میں امام مالک اور امام شافعی شامل ہیں۔
البحوث العلمیۃ: ج۶ ص ۲۷۵، من احکام القرآن الکریم
اور حضرات احناف کا بھی یہی موقف ہے۔
رد المحتار: کتاب الطہارۃ، بدائع الصنائع: مبحث مس المصحف
ڈاکٹر ذاکرنائیک کے شبہات کی حقیقت:
ڈاکٹر صاحب کے شبہات کے جوابات بالترتیب پیش خدمت ہیں:
جواب شبہ1:
وہ آیات جو کسی خاص پس منظر کے تحت نازل ہوئی ہوں لیکن الفاظ عام استعمال کیے گئے ہوں تو جمہور علماءو فقہاء کے نزدیک سبب نزول کے اس خاص واقعہ کے بجائے الفاظ کے عموم کا اعتبار ہو گا۔ اس قاعدہ کے لیے علماء اصول اور ارباب تفسیر کے ہاں ایک جملہ مشہور ہے:
العبرة لعموم اللفظ لا لخصوص السبب.
[کشف الاسرار: باب حکم الاجماع ۳/ ۳۷۶، تفسیر القرطبی: سورۃ الاعراف،الایۃ۳۱]
کہ الفاظ کے عموم کا اعتبار ہوگا نہ کہ سببِ نزول کے خاص واقعہ کا۔
اسی اصول کے پیش نظر مذکورہ آیت کے عموم سے سلف صالحین اور حضرات فقہاء کرام رحمہم اللہ نے قرآن مجید کو چھونے کے لیے وضوء کو ضروری قرار دیا ہے۔ تفصیل گزر چکی ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اس اصول سے نا واقفیت کی وجہ سے ایسی بات کہہ دی ہے جو جمہور امت کے موقف کے خلاف ہونے کی وجہ سےنا قابل قبول ہے۔
جواب شبہ 2:
ڈاکٹر صاحب کا یہ کہنا بھی بلا دلیل ہے کہ” طہارت سے سو فیصد پاکی مراد ہے، یعنی ایسی ہستیاں جو ذہن، بدن اور خیالات ہر اعتبار سے پاک ہوں۔۔۔ اور وہ صرف فرشتے ہی ہوسکتے ہیں نہ کہ انسان “اس لیے کہ اگر قرآن مجید کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح جاتی ہے کہ اس لفظ و مادہ کا اطلاق انسانوں پر بھی ہوا ہے۔ مثلاً
1: فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ
[البقرۃ:222]
ترجمہ:جب تمھاری عورتیں پاک ہو جائیں تو ان کے پاس اسی طریقے سے آؤ جس طرح اللہ نے تمھیں حکم دیا ہے۔
2: وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا
[المائدہ:6]
ترجمہ:اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو سارے جسم کو(غسل کے ذریعے) خوب اچھی طرح پاک کرو۔
3: إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ،
الاحزاب:33
ترجمہ: اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے گندگی کو دور رکھے اور تمھیں ایسی پاکیزگی عطا کرے جو ہر طرح مکمل ہو۔
ان تین آیات میں ”طہارت“ کا مادہ انسانوں کے لیے استعمال ہوا ہے جو کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے موقف کی تردید کے لیے کافی ہیں۔
جواب شبہ 3:
یہ بات ایک ابتدائی طالب علم کو بھی معلوم ہے کہ شریعت میں بعض مرتبہ نفی سے مراد نہی ہوتی ہے۔مثلاًحدیث مبارک میں ہے:
المسلم أخو المسلم لا يظلمه
[صحیح مسلم:باب تحریم ظلم المسلم وخذ لہ]
ترجہ: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اس پر ظلم نہیں کرتا۔
جب کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ آپس میں ظلم ہو رہا ہے،تویہاں نفی بمعنیٰ نہی ہے اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان مسلمان پر ظلم نہ کرے۔ حضرات مفسرین کرام نے بھی یہی بیان کیا ہے
کہ لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ
میں بھی نفی بمعنی نہی ہے۔
[دیکھیئے تفسیر بیضاوی، تفسیر السمعانی، تفسير أبي السعود وغیرہ]
تنبیہ: مسلمان کے لیے یہی حکم ہے کہ قران مجید کو بلا طہارت نہ چھوئے۔ رہا غیر مسلم تو اولاً وہ اعمال کا مکلف نہیں ہے۔ ثانیاً اگر وہ قرآن کو چھونا چاہتا ہے تو اسے ہدایت کر دی جائے کہ یہ اللہ کا مقدس کلام ہے، ناپاکی کی حالت میں اسے چھونا اس کی عظمت کے خلاف ہے، لہذا ناپاکی کی حالت میں ہو تو غسل یا وضوء کر کے اس کا مطالعہ کیا کرو، اس کو وضوء اور غسل کا طریقہ بھی بتا دیا جائے۔ اس سے اس کے دل میں اس کلام کی عظمت پیدا ہو گی ان شاء اللہ۔ اگر غیر مسلم سے بے حرمتی کا خطرہ ہوتو اس کو قرآن مطالعہ کے لیے بھی نہ دیا جائے۔ [فتاویٰ رحیمیہ: ج ۱ ص۳۲ ملخصاً]
جواب شبہ 4:
ڈاکٹر ذاکر نائیک کا یہ شبہ ماقبل میں ذکر کردہ دلائل دیکھنے سے ختم ہو جاتا ہے۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے کئی نظریات اہل السنۃ و الجماعۃ کے نظریات کے خلاف ہیں، قرآن و سنت کی تشریح میں اپنی عقل ناقص کو دخل دیتے ہوئے سلف صالحین سےمروی تفاسیر کو پس پشت ڈال کر من مانی تفسیر کرتے ہیں ،ائمہ حضرات کی تقلید کو ناجائز کہتے ہیں اور مقلدین کو کوستے رہتے ہیں۔ان کے افکار میں سائنسی تحقیقات کی مرعوبیت کے ساتھ ساتھ مغربی افکار کی ترجمانی پائی جاتی ہے۔ان کی تقاریر سننا، اور ان میں پیش کردہ مسائل پر بلا تحقیق عمل کرنا انتہائی مضر اور بعض صورتوں میں گمراہی کا سبب ہے۔ مسائل کے حل کے لیے کسی مستند عالم و مفتی کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ و اللہ اعلم
ہر شبہ کا جواب دینا ضروری نہیں
مراسلہ:حافظ محمد احمد۔ چنی گوٹھ
حکیم الامت، مجدد الملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا:
ابلیس کے شبہ کا جواب اللہ تعالیٰ نے نہیں دیا۔تو معلوم ہوا کہ ہر شبہ کا جواب دینا ضروری نہیں،بلکہ
فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ
یہاں سے نکل جا ، تو مردود ہے
فرمادیا۔ تو معلوم ہوا کہ بعض جگہ یہی جواب دینا چاہیے۔ [الکلام الحسن: ۲/ ۱۱۸]

<