ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

div class="mainheading">تذکرۃ الفقہاء: حصہ دوم

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
مولانا محمد عاطف معاویہ حفظہ اللہ
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کا شمار پہلی صف کے کبار فقہاء صحابہ میں ہوتاہے جن میں حضرت عمر ،حضرت علی،حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہم وغیرہ شامل ہیں۔آپ کمال درجہ کی فقیہہ تھیں۔علم تفسیر،علم حدیث،علم اجتہادآپ کی ذات میں بدرجہا اتم موجود تھے۔
علم تفسیر میں مقام:
مجتہد کی نظر صرف قرآن کے ظاہری الفاظ پر نہیں ہوتی بلکہ وہ منشاءِ خداوندی کو بھی سمجھتاہے۔ یہ صفت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا میں موجود تھی۔ ایک مرتبہ آپ کے بھانجے حضرت عروہ نے عرض کیا :خالہ جان! قرآن کی آیت Īإِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌĨ
[البقرہ:158]
کا ظاہری مطلب تو یہ ہے کہ اگر حاجی صفا مروہ کے درمیان سعی نہ کریں تو کوئی گناہ نہیں؟(حالانکہ یہ سعی ضروری ہے)تو آپ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: عروہ! تم نے آیت کا مطلب نہیں سمجھا، اگر یہی مطلب ہوتا جو آپ نے بیان کیاہے تو اللہ تعالیٰ یوں فرماتے
:لَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لَا يَتَطَوَّفَ بِهِمَا
(اگر سعی نہ کرو تو کوئی حرج نہیں) اصل حقیقت یہ ہے کہ چند قبائل اسلام لانے سے پہلے بتوں کی پوجا کرتے تھے، ان میں سے کچھ بت صفا مروہ پر نصب تھے۔ اسلام لانے کے بعد جب وہ سعی کرتے تو ذہن میں خیال آتا کہ کہیں ہماری سعی کی وجہ سے ان بتوں کی پرستش تو نہیں ہوتی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ صفا مروہ کی سعی کرنے پر کوئی گناہ نہیں۔
مشہور محدث ابوبکر بن عبدالرحمن کو جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکا یہ فرمان معلوم ہوا کہ تو آپ نے ان کے علم کو داد دیتے ہوئے کہا :”اصل علم اس کو کہتے ہیں۔“
[صحیح بخاری رقم الحدیث 1643]
علم حدیث میں مقام:
علم تفسیر کی طرح روایت ودرایت حدیث میں بھی آپ کو کمال حاصل تھا۔ آپ کا شمار ان صحابہ میں ہوتاہے جن سے بکثرت احادیث مروی ہیں۔ آپ کی مرویات کی تعداد2210ہے۔
[کشف الباری: ج1ص292]
کثرت روایت کے ساتھ ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خصوصیت تھی کہ آپ احادیث کی حکمتوں اور ان میں موجود مصلحتوں کو بیان کرتی تھیں۔ چنانچہ بعض روایات سے کچھ حضرات جمعہ کے دن غسل کے وجوب پر استدلال کرتے ہیں،
مثلاً إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ الْجُمُعَةَ فَلْيَغْتَسِلْ
[بخاری رقم 877]
کہ جو شخص جمعہ ادا کرنے کے لیے آئے وہ غسل کر کے آئے۔
آپ رضی اللہ عنہا اس کی مصلحت بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
كَانَ النَّاسُ يَنْتَابُونَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ مِنْ مَنَازِلِهِمْ وَالْعَوَالِيِّ فَيَأْتُونَ فِي الْغُبَارِ يُصِيبُهُمْ الْغُبَارُ وَالْعَرَقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُمْ الْعَرَقُ فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْسَانٌ مِنْهُمْ وَهُوَعِنْدِي فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ أَنَّكُمْ تَطَهَّرْتُمْ لِيَوْمِكُمْ هَذَا،
[صحیح بخاری رقم 902]
یعنی غسل جمعہ کا تاکیدی حکم اس وقت تھا جب صحابہ رضی اللہ عنہم کے مالی حالات تنگ تھے،کپڑے موٹے ہوتے اور وہ مشقت والے کام کرتے تھے۔پسینہ کی بدبو دور کرنے کے لیے غسل کا حکم تھا، جو بعد میں منسوخ ہوگیا۔
اجتہاد واستنباط:
آپ کا شمار صف اول کے فقہاء صحابہ میں ہوتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اجتہاد واستنباط میں کمال کی قوت عطا فرمائی تھی۔چند مسائل درج ذیل ہیں۔
1:حضرت عبداللہ بن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے متعہ کے متعلق سوال کیا تو آپ نے قرآن کریم کی آیت۔
وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ، إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ
سے متعہ کی حرمت پر استدلال کیا۔ فرمایا: اس آیت میں دو عورتوں یعنی بیوی اور باندی سے نفع حاصل کرنے کی اجازت دی گئی ہےاور ممتوعہ عورت نہ بیوی ہے، نہ باندی۔لہذا وہ زنا میں داخل ہے۔
[المستدرک للحاکم: رقم الحدیث 3484]
2: ا گر کوئی شوہر اپنی بیوی کو طلاق لے لینے کا اختیار دے دے اور بیوی اختیار واپس کرکے خاوند کو قبول کرلے تو بعض صحابہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک عورت کو ایک طلاق واقع ہوجائے گی مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نزدیک اس سے کوئی طلاق واقع نہ ہوگی۔آپ نے دلیل میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا واقعہ پیش کرتے ہوئے فرمایا :آپ علیہ السلام نے اپنی ازواج مطہرات کو اختیار دیا تھا ،ازواج نے حضور علیہ السلام کو اختیار کیا جس پر کوئی طلاق بھی واقع نہیں ہوئی تھی۔
[بخاری رقم 5263]
[جاری ہے]