یار زندہ صحبت باقی

User Rating: 1 / 5

Star ActiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
یار زندہ صحبت باقی
مفتی ابولبابہ شاہ منصور حفظہ اللہ
شہادت کا ایک اور سانحہ دل کو گھائل کرگیا۔ابھی ماضی قریب میں پے درپے ہونے والی عظیم شہادتوں کا دکھ مندمل نہ ہوا تھا کہ ایک اور زخم صدماتی تحفہ دے گیا۔مادر علمی بنوری ٹاؤن کے حزن وملال اور رنج وغم کا اندازہ کون کرسکتاہے جس نے یکے بعد دیگرے اتنے عظیم سپوتوں کی قربانی دی ہے کہ اب تو اس کے در ودیوار کی طرح آسمان بھی شفق رنگ ہوگیا ہے۔لگتاہے اس شجرہ طیبہ کی اصل نے ایمان وتقویٰ اور علم وعمل کی بہاریں دنیا کو دکھانے کے بعد اب اس کی شاخیں جنت میں اس قدر پھیل گئی ہیں کہ داروغہ باغ بہشت اور ان کے ساتھی میزبان جب چاہتے ہیں ایک خوشہ توڑ کر اپنے ہاں سجالیتے ہیں۔
حضرت دین پوری رحمہ اللہ کے ساتھ بیتی ساعتوں کو جب مڑ کر دیکھتے ہیں تو ایک حلیم وبردبار،مرنجان مرنج شخصیت علم وعمل اور حسن اخلاق وبلندی کردار کے آمیزے میں گندھی ہوئی نظر آتی ہے۔حضرت موصوف کو جہاں اللہ تعالیٰ نے ذہانت وفطانت اور علم دوستی وعلم پروری کی صفات سے نوازا تھا،وہیں وہ طبعاً انتہائی شریف النفس،سلیم الفطرت،خوش اخلاق وخوش مزاج تھے ۔ایک دل آویز اور معصوم سی مسکراہٹ ان کے چہرے پر ہر وقت سجی رہتی تھی اور عجب سی شیرینی اور مٹھاس ان کی آواز اور لہجے میں گھلی ہوئی تھی۔انسان کو کچھ قابلیتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردی جاتی ہیں،مگر جب تک اس کے حسنِ خَلق میں حسنِ خُلق نہ ہو اور فطری قابلیتوں یا اعلیٰ مہارتوں کے ساتھ کردار کی بلندی اور سوچ کی وسعت ورفعت نہ ہو،تب تک وہ خلق خدا کی بےساختہ محبتیں نہیں سمیٹ پاتا،نہ کوئی اچھا نقش چھوڑ سکتاہے۔حضرت دینپوری رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے دونوں صفتوں سے نوازا تھا۔علمی قابلیت اور فطری ذکاوت بھی غضب کی تھی اور ساتھ ساتھ مزاج میں نرمی اور رویے میں مٹھاس بھی خوب عطا ہوئی تھی،لہذا انہوں نے زندگی بھر خیر بھی پھیلائی اور محبت بھی سمیٹی،علم وعمل کی خوشبو بکھیرتے بکھیرتے اور تلامذہ ومعتقدین کی چاہتیں اور محبتیں سمیٹتے سمیٹتے وہ اس انداز میں رخصت ہوئے کہ سمجھ میں نہیں آتا ان کی حلیم وشفیق شخصیت سے جدائی کا غم زیادہ ہے یا ان کے جانے سے ہونے والے نقصان کے اندیشے فزوں تر ہیں۔
شاید پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ اس عاجز نے چند سال پہلے خواب میں ایک مجاہد عالم کو دیکھا کہ وہ شہید ہوگیا ہے۔پر کالونی کی بڑی جامع مسجد میں جہاں استاذ محترم حضرت مولانا عبدالقیوم چترالی رحمہ اللہ امامت فرماتے تھے،شہداء کی یاد میں جلسہ ہورہاہے۔اس میں وہ بھی آسمان سے چمکتے دمکتے چہرے اور سفید براق میں آیا ہوا ہے۔مسجد میں خوب چہل پہل ہے۔احقر نے اس سے پوچھا کہ آسمان والے ہمارے بارے میں کیا سمجھتے ہیں؟ہم لوگ شہادتیں تو پیش کررہے ہیں۔ہمارے کام کے بارے میں آسمانوں پر کیا تبصرہ ہوتاہے؟اس نے کہا :آسمان والے وہی کچھ سمجھتے ہیں جو آپ لوگ ان کے بارے میں گمان رکھتے ہو۔کمال کا بلاغتی جملہ تھا۔
صاف چھپتے بھی نہیں،سامنے آتے بھی نہیں،مگر سمجھنے والوں کے لیے اس میں خوشخبری بھی پنہاں ہے اور استقامت کی تلقین بھی۔دشمن سمجھتاہے کہ اس سے قصاص لینے والا کوئی نہیں،اس لیے وہ بےخطر ہوکر بے ضرر علماء وطلباء کو دھڑلے سے شہید کرتا جارہاہے۔اسے بھولنا نہیں چاہیے کہ شہادت دینے والے طبقے کی بقاء کی ذمہ دار خود اللہ رب العزت ہے اور اللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین کا نظام اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔کائنات کے فیصلے اس نے کسی شقی وسنگدل کے سپرد نہیں کیے،نہ پہلے،نہ آج،نہ آئندہ۔
مجھے بھارت کے ایک عالم نے بتایا کہ احمد آباد،سورت،گجرات میں جب ہندؤوں کے مظالم حد سے زیادہ بڑھ گئے اور آئے دن ہونے والے مسلم کش فسادات کے ذریعے مسلمانوں کو سرے سے صفحہ ہستی سے مٹانے کا ہدف طے کرلیا گیا[جبکہ آٹھ سو سالہ طویل مسلم سلطنت میں ایک بھی ہندو کش فساد کا ثبوت نہیں ملتا]تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ ایسا ہوا کہ پورے علاقے میں سیلاب آیا۔ہندؤوں کے گھر بہہ گئے۔جو گھر کھڑا ہوتا،دور سے پتہ چلتا مسلمانوں کا ہے۔تمام غیرمسلم مسلمانوں کے ہاں پنا ہ لینے پر مجبور ہوئے۔بالکل ایسے جیسے فرعون کے زمانے میں تمام ”فرعونی“ طوفان،چیچڑی،جوں،مینڈک اور خون کے عذاب میں مبتلا ہوجاتے تھے اور تمام بنی اسرائیل محفوظ رہتے تھے۔جب پانی اترا تو متعصب ہندؤوں کے سر سے مسلم کشی کا سودا بھی اتر گیا۔
کراچی کو علماء،طلباء سے خالی کرنے والے ازلی شقیوں کو کس غلط فہمی میں نہ رہنا چاہیے۔اگر زمین پر موجود اللہ والے پاکستان کی حدود میں قانون میں ہاتھ نہیں لیتے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آسمانوں پر موجود احکم الحاکمین نے اپنے تکوینی قوانین معطل کردئیے ہیں۔”بے شک تیرا رب گھات لگائے ہوئے ہے۔
[الفجر:14]
جناب دین پوری صاحب فقہی مجالس میں نکتہ رس مفتی ہوتے تھے اور نجی مجالس میں بذلہ سنج دوست۔اس عاجز کو ان کی سلامتِ طبع اور مزاجِ اعتدال کی بنا پر ان سے خاص لگاؤ تھا۔آنجناب کو بھی اس نالائق سے خصوصی شفقت ومحبت کا تعلق تھا۔جامعۃ الرشید میں ہونے والی فقہی مجالس میں جب بھی دعوت دی،نہایت خوش دلی اور خوش کلامی سے قبول کی۔ہنستے مسکراتے آئے اور کھلتے چہرے کےساتھ رخصت ہوئے۔یقین کامل ہے کہ جنت میں بھی اسی نرم خوئی اور خوش طبعی کے ساتھ داخل ہوئے ہوں گے۔جامعۃ الرشید کے چمنستان میں ہم ان کا استقبال کیاکرتے تھے۔وہاں وہ ان شاء اللہ ہمارا استقبال کریں گے۔یار زندہ صحبت باقی۔ان کےساتھ ہونے والی صحبتیں ان شاء اللہ وہاں بھی قائم ودائم رہیں گی۔دشمن نے رسوا ہونا ہے اور حق نے غالب ہونا۔مصیبت میں صبر اور مقابلے میں عزم وہمت کو ہاتھ سے جانے نہ دینا چاہیے۔
[بشکریہ ضرب مؤمن]
بقیہ: شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ
صحیح مسلم کی شرح بنام ”فتح الملہم“ لکھی لیکن آپ یہ شرح مکمل نہ کرسکے۔اب یہ شرح شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم العالیہ نے مکمل کی ہے۔یہ مکمل شرح مطبوع ہے۔مولانا سید سلمان ندوی لکھتے ہیں:
صحیح مسلم کی شرح تو احناف میں سے حافظ بدرالدین عینی رحمہ اللہ نے بہت پہلے لکھ کر احناف کی طرف سے حق ادا کیا تھا،مگر صحیح مسلم کی کوئی شرح حنفی نقطہ نظر سے اب تک نہیں لکھی گئی تھے، اس لیے مرحوم نے اپنے دست وبازو سے آزمایا۔
[جاری ہے]