”قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ“کے متعلق تین مضامین

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
مجلس الشیخ:
”قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ“کے متعلق تین مضامین
ترتیب و عنوانات: مفتی شبیر احمد حنفی حفظہ اللہ
7فروری 2013ء بروز جمعرات حضرت الشیخ متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ نے خانقاہ اشرفیہ اختریہ مرکز اہل السنۃ و الجماعۃ 87 جنوبی سرگودھا میں منعقدہ ماہانہ مجلسِ ذکر سے خطاب فرمایا، جس میں آیت قرآنی ”قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ“ کے متعلق تین مضامین ارشاد فرمائے۔افادۂ عام کے لیے اس بیان کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔
الحمدللہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ و نعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سئیات اعمالنا من یہدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضلل فلاہادی لہ ونشہد ان لا الہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ ونشہد ان سیدنا ومولانا محمدا عبدہ ورسولہ،امابعد فاعوذباللہ من الشیطن الرجیم،بسم اللہ الرحمن الرحیم:قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحٰى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلٰهُكُمْ إِلٰهٌ وَاحِدٌ فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْ لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا۔
[الکہف:110]
دجالی فتنہ سے حفاظت :
میں نے جو آیت کریمہ تلاوت کی ہے، یہ سورہ الکہف کی آخری آیت ہے۔ کل جمعہ کا دن ہے۔اللہ رب العزت جمعہ کے دن ہمیں معمولات نبوت کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرنا ہی نجات کا ذریعہ ہے۔دجال کا فتنہ بہت سخت ہے۔بڑے بڑے لوگوں کے دل اس سے کانپ جائیں گے۔جو دجال کے فتنہ سے بچنا چاہے اس کے لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ جمعہ کے دن سورہ کہف کی تلاوت کرے۔
[تفسیر ابن کثیر تحت سورۃ الکہف]
اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔[آمین]
بغیر الارم اٹھنے کاحیرت انگیز نسخہ:
سورت الکہف کی آخری
[قُلْ لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا
سے آخر سورت تک]آیات کی ایک خوبی اور خصوصیت ہے جو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمانےبیان فرمائی کہ جو شخص رات کسی وقت اٹھنا چاہے اس آیت کو پڑھے اور اس وقت کی نیت کرے، اللہ اس کو اس وقت اٹھادے گا۔بغیر الارم کے اٹھنے کا بندوبست اللہ نے فرمایا ہے۔
[معارف القرآن: ج۵ ص۶۶۴ عن الثعلبی]
اللہ ہمیں اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
میں یہ بات بطور کارگزاری کے عرض کرتاہوں۔ میرا بحمداللہ تعالیٰ پورے ملک اور بیرون ملک معمول ہے کہ جس وقت کی نیت کرکے سوتاہوں اسی وقت اللہ پاک اٹھا دیتے ہیں۔اس کا اندازہ ان کو ہوتاہے جو سفر میں میرے ساتھ ہوتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ بڑوں کی چھوٹی باتیں بڑی ہوتی ہیں اور چھوٹوں کی بڑی باتیں چھوٹی ہوتی ہیں۔تو میں چونکہ بہت چھوٹا ہوں ان باتوں کی اس وقت اہمیت محسوس نہیں ہوتی۔
تین مضامین:
اس آیت کریمہ کی روشنی میں مضامین تو کئی بیان کیے جاسکتے ہیں، لیکن میں سمجھانے کے لیے تین مضمون پیش کرتاہوں۔
1:لفظ ِ” قُلْ“ پر
2: إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ پر
3: فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا پر
تو تین مضمون آپ ذہن نشین فرمائیں۔
مضمون اول: لفظ ِ” قُلْ“:
اللہ رب العزت نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہےکہ آپ فرمائیں
: إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ ،تو یہ قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ
،اللہ کا کلام ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ کے کلام ہونے کا معنیٰ یہ ہے کہ کلام کے متکلم ”اللہ“ ہیں۔ اللہ اس کے متکلم کیسے ہیں؟ اللہ کی شان کے لائق ہے۔میں عوام کو سمجھانا بھی چاہوں گا تو میرے بس میں نہیں ہے۔شاید آپ حضرات سمجھ جائیں کہ یہ اللہ کی کلام نفسی ہے۔جس کے ساتھ اللہ متصف ہیں اور اللہ جب سے ہے اس وقت سےخدا کا کلام ہے۔اس کا معنیٰ کیا ہے؟یہ ایک علمی مسئلہ ہے جو عوام کے بس میں نہیں ہے۔ میں صرف اتنی بات عرض کرتاہوں کہ
: قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ
“اللہ کا کلام ہے اللہ کے کلام ہونےکا معنیٰ کہ اللہ اس کلام کے متکلم ہیں۔
قل إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ
،اللہ نے فرمایا ہے اور ہم بھی پڑھتے ہیں
: قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ
،لیکن جب اللہ پڑھے تو مطلب اور ہے، جب ہم نے پڑھا تو مطلب اور ہے۔یہ بات میں نے عرض کی ہے ایک مسئلہ اور مسئلے کا جواب دینے کے لیے۔
ہمارا اہل السنۃ والجماعۃ احناف دیوبند کا نظریہ ہے کہ اذان کے بعد درود پاک ہو اور درود پاک کے بعد دعا ہو جو حدیث مبارک میں موجود ہے۔
اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّآمَّةِ
[صحیح البخاری ، بَاب الدُّعَاءِ عِنْدَ النِّدَاءِ]
اہل بدعت کی بے ادبی:
بعض اہل بدعت کا ذوق یہ ہے کہ اذان سے پہلے بھی
”الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ“
کہو اور اذان کے بعد بھی”
الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ“
کہو۔ یہ اہل بدعت کا ذوق ہے اہل السنۃ و لجماعۃ کا ذوق نہیں ہے۔اہل السنۃ والجماعۃ اس طریقے کے پابند ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے نقل ہوکر امت کے پاس پہنچا ہو۔تو بعض اہل بدعت کو اصرار ہوتاہے کہ آپ یہ صلٰوۃ کیوں نہیں پڑھتے؟ ہم اہل السنۃ والجماعۃ انہیں یہ بات سمجھاتے ہیں کہ اس لیے نہیں پڑھتے کہ ہمارا عقیدہ ہے ہم یہاں زندہ ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں، ہم بھی مخلوق ہیں اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی مخلوق ہیں لیکن کسی مخلوق کو جو عظمت اور رتبے میں بہت بڑی ، تو ایسے بڑے آدمی کو دور سے پکارنا یہ ادب کے خلاف ہے۔ ہمیں چونکہ دیوبند والوں نے ادب سکھلایا ہے،اس لیے ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دور سے نہیں بلاتے،یہ ادب کے خلاف ہے۔شاگرد اپنے استاد کو دور سے آواز دے کر نہیں پکارتا،مرید اپنے پیر کو دور سے آواز دے کر نہیں پکارتا ،بیٹا اپنے باپ کو دور سے آواز دے کر نہیں پکارتا، تو امتی اپنے نبی کو دور سے آواز دے کر پکارے گا ،تو یہ ادب کے خلاف ہے۔ اس لیے ہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دور سے” یا رسول اللہ “کہہ کر پکارنا چھوڑ دیا ہے۔
اہل بدعت کا اعتراض:
جب ہم یہ بات کہتے ہیں تو اہل بدعت ہماری اس دلیل پر اعتراض کرتے ہیں کہ جب ہم نماز پڑھتے ہیں تو دوران نماز میں قعدہ میں ہم کہتے ہیں۔
السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ ،
[صحیح البخاری: بَاب التَّشَهُّدِ فِي الْآخِرَةِ]
اگر دور سے یارسول اللہ کہنا ادب کے خلاف ہے، تو نماز میں : أَيُّهَا النَّبِيُّ،کہنا بھی ادب کے خلاف ہے۔ اس لیے کہ "ایہا النبی" کہہ کر نبی پاک کو خطاب کیا ہے تو یہ خلاف ادب ہوا۔
اہل السنۃ و الجماعۃ کا جواب:
ہم کہتے ہیں اذان سے پہلے اور اذان کے بعد ”
الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ“
اور نماز میں التحیات میں:
السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ
کہنا، ان دونوں میں فرق ہے۔فرق کیا ہے؟
تین عبادات کے بدلےتین انعامات:
جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عرش پر تشریف لے گئے ہیں معراج کے موقع پر، تو اللہ نے پوچھا ہے: میرے پیغمبر! کیا لے کر آئے ہو؟تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرض کیا۔
التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ ،
التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ :میری زبانی عبادات آپ کے لیے ہیں، وَالصَّلَوَاتُ :میری بدنی عبادتیں آپ کے لیے ہیں، وَالطَّيِّبَاتُ میری مالی عبادتیں آپ کے لیے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں عبادتیں اللہ کی خدمت میں پیش کی ہیں، زبان بھی آپ کے لیے،بدن بھی آپ کے لیےاور میرا مال بھی اللہ کے لیے۔اللہ رب العزت نے اس کے بدلے میں تین انعامات عطا فرمائے ہیں:
1: التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ ،کے بدلے:” السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ “
2: وَالصَّلَوَاتُ،اس کے بدلے:” وَرَحْمَةُ اللَّهِ “
3:” وَالطَّيِّبَاتُ “اس کے بدلے:” وَبَرَكَاتُهُ“
التحیات للہ:اے نبی ! اگر آپ کی زبانی عبادت میرے لیے ہے تو پھر:” ا
لسَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ “
میرا قولا ًسلام بھی آپ کے لیے ہے۔ وَالصَّلَوَاتُ،اگر بدنی عبادت آپ کی میرے لیے ہے تو : وَرَحْمَةُ اللَّهِ ،اس کے بدلے میں میری رحمت آپ کے لیے ہے۔ وَالطَّيِّبَاتُ،اگر آپ کا مال میرے لیے ہے تو وَبَرَكَاتُهُ: اس مال کی برکات میری طرف سے آپ کے لیے ہیں۔ تو تین چیزیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیں ہیں تو اللہ رب العزت نے تین چیزیں بطور انعام کے دی ہیں۔
الجامع لاحکام القران: تابع سورۃ البقرہ، تفسیر الثعلبی: تحت آیۃ الاسراء
اس لیے جب ہم مسجد میں آتے ہیں تو دعا مانگتے ہیں۔
اللَّهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ،
[مسلم: رقم الحدیث ۷۱۳]
اور جب مسجد سے نکلتے ہیں تو دعا مانگتے ہیں۔
اللَّهُمَّ إِنِّى أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ ،
[سنن ابی داود باب فِيمَا يَقُولُهُ الرَّجُلُ عِنْدَ دُخُولِهِ الْمَسْجِدَ]
یہ دو دعائیں ہیں ،آتی دفعہ یہ دعا کیوں اور جاتی دفعہ یہ دعا کیوں ہے؟مسجد میں آئے ہیں نماز پڑھنے کے لیے اور مسجد سے باہر گئے ہیں اپنے دنیاوی کام کے لیے،اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔
فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ ، [الجمعۃ:10]
جب جمعہ کی نماز پڑھ لو، نماز سے فارغ ہوجاؤ تو باہر نکلو اور اللہ کا فضل یعنی روزی تلاش کرو۔
اللہ کا حکم ہے کہ روزی مسجد سے باہر تلاش کرو۔مسجد میں اللہ سے رزق مانگو لیکن مال کمانے کے لیے مسجد میں کام مت کرو۔یہی وجہ ہے کہ مال تجارت مسجد میں ہو اور پھر آدمی تجارت کرے تو مکروہ ہے اور خلاف سنت ہے۔
جامع الترمذی: باب النہی عن البیع فی المسجد
مسجد میں کیوں آئے؟ نماز پڑھنے کے لیے اور باہر کیوں گئے ہیں؟ اللہ کا رزق تلاش کرنے کے لیے، تو جب مسجد میں آئیں تو دعا مانگتے ہیں
: اللَّهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ،
اے اللہ! حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب عرش پہ گئے تھے تو انہوں نے عرض کیا تھا:وَالصَّلَوَاتُ میری نمازیں تیرے لیے، تو آپ نے فرمایاتھا:”وَرَحْمَةُ اللَّهِ“اے نبی!میری رحمتیں آپ کے لیے تو نبی کی طرف سے نماز ہےاور آپ کی طرف سے رحمت ہے۔ اے اللہ! ہم مسجد میں آئے ہیں نماز کے لیے جو ہماری طرف سے ہے، اب آپ رحمت دیں جو آپ کی طرف سے ہو۔اللہ نے عرش پر اپنے حبیب سے جو وعدہ فرمایا تھا نمازوں پر رحمت دینے کا، ہم مسجد میں آئے ہیں، ہم نے دروازہ کھولا ہے نماز کے لیے،اب آپ اپنے دروازے کھول دیجیے رحمتوں کے لیے۔ ہم نماز پڑھیں گے اور آپ رحمت عطافرمادیں۔
اور جب مسجد سے نکلے ہیں تو:
اللَّهُمَّ إِنِّى أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ ،
اے اللہ! آپ نے قرآن میں اعلان فرمایا ہے
” وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ“
مسجد میں نماز پڑھو اور باہر جاکر فضل تلاش کرو، ہم جانے لگے ہیں اور آپ سے مانگ کر جارہے ہیں۔ مانگنا ہمارے ذمے ہے اور عطا کرنا آپ کےذمے ہے۔
التحیات میں خطاب کی حقیقت:
اس موقع پر اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کیا
:” السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ “
اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں
”السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ“
فرماتے ہیں تو سامنے کسی نبی کو خطاب تو نہیں ہے نا! تو پھر یہ کیوں فرماتے ہیں؟پتہ یہ چلا
” السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ “
جب نماز میں نبی نے پڑھا ہے تو کسی نبی کو خطاب نہیں کیا بلکہ جو عرش پر اللہ نے فرمایا
:” السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ “ا
س عرش والے خدا کے کلام کو نبی نے فرش پر نقل فرمایا ہے اور جب صحابہ نے
” السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ“
کہا تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب نہیں کیا بلکہ اسی خطاب کو آگے نقل کیا ہے اور آج جب ہم کہتے ہیں
” السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ“
ہم نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب نہیں کرتے بلکہ اللہ کے خطاب کو نقل کرتے ہیں۔
ہم ناقل حکم خداوندی ہیں:
اسی طرح قرآن کریم میں آیا ہے:
يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ؀قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا
[سورۃ المزمل:1،2]
اے نبی اٹھیں اور تہجد پڑھیں۔ ہم بھی کہتے ہیں:
يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ؀قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا،
اے نبی اٹھیں اور تہجد پڑھیں۔ہم اللہ کے نبی کو حکم تو نہیں دیتے۔
قرآن میں ہے۔
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ
[سورۃ الاحزاب:59]
کہ اے نبی!آپ پردے کا حکم دیں اپنی بیویوں کو، اپنی بیٹیوں کواور ایمان والی عورتوں کو ،جب ہم قرآن پڑھتے ہیں۔
” يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ“
تو ہم نبی کو حکم تو نہیں دیتے کہ آپ بیویوں سے کہیں کہ پردہ کریں، ہم حکم کیسے دیں گے؟ہم اللہ کے حکم کو نقل کریں گے۔
خطاب کرنےاور نقل کرنے میں فرق:
تو بڑے کا خطاب کرنا اور ہوتاہے اور نقل کرنا اور ہوتاہے۔ تو جب ہم پڑھتے
ہیں ” السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ“
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب نہیں کرتے بلکہ اللہ کے خطاب کو نقل کرتے ہیں اور یہ جو اذان سے پہلے ”
الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ“
کہتے ہیں وہ نبی کو خطاب کرتے ہیں دور سے نبی کو خطاب کرنا خلاف ادب ہے اور بڑے کے خطاب کو نقل کرنا یہ عین ادب ہے۔اس لیے ہم خطاب تو نہیں کرتے البتہ اللہ جل شانہ کے خطاب کو نقل کرتے ہیں۔
تجھ جیسا امام نہیں:
">” التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ“

پر میں ایک واقعہ سناتا ہوں، آپ بھی کتب میں پڑھتے ہیں۔اس پر ایک علمی لطیفہ لکھا ہے کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ مجلس میں تشریف فرما تھے، سبق جاری تھا۔ ایک اعرابی آیا اور اس نے آکر حضرت امام اعظم رحمہ اللہ سے پوچھا :ا بواو او بواوین؟امام صاحب نے فرمایا:” بواوین“۔اس نے کہا

:”بارک اللہ فیک کما بارک فی لا ولا “

،امام صاحب نے فرمایا: ”آمین“۔شاگردوں نے پوچھا: حضرت!اس نے سوال کیا، ہمیں وہ بھی سمجھ نہیں آیا اور جو آپ نے جواب دیا ہمیں وہ بھی سمجھ نہیں آیا۔اس نے جو دعا مانگی ہے ہمیں وہ بھی سمجھ نہیں آئی ،آپ نےجو آمین کہا ہے وہ بھی ہمیں سمجھ میں آئی ہے۔حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے التحیات دو قسم کا منقول ہے۔ایک التحیات وہ ہے جس میں” واؤ“ دو ہیں، جو ہم پڑھتے ہیں

: التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ،

۔ یہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والا ہےاور دوسرا التحیات وہ ہے جس میں ”واؤ “ ایک ہے:

التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ الطَّيِّبَاتُ وَالصَّلَوَاتُ لِلّہ

، ظاہر ہے جب دو”واؤ “ہوں گے تو نیکیاں بڑھ جائیں گی،ایک ”واؤ “ ہوگا تو نیکیاں کم ہوجائیں گی، اور دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں۔ اس نے مجھ سے پوچھا: ا بواو او بواوین؟ التحیات کون سا پڑھیں؟ دو ”واؤ “ والا یا ایک ”واؤ “ والا،تو میں نے کہا: بواوین،دو ”واؤ “ والا،اس نے مجھ سے مسئلہ پوچھا ہے میں نے اس کو مسئلے کا جواب دیا ہے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے جیسا علم عطا فرمایا ایسی عقل بھی عطا فرمائی ہے۔بڑی دور کی بات حضرت امام سمجھ جاتے تھے۔ عام بندے کی نگاہ وہاں تک جا بھی نہیں سکتی۔فرمایا :اس نے مسئلہ پوچھا ہے : ا بواو او بواوین؟تو میں نے جواب دیا ہے بواوین کہ التحیات دو ”واؤ “ والا پڑھو ایک والے کی بجائے، پھر اس نے مجھے دعا دی ہے :

بارک اللہ فیک کما بارک فی لا ولا،

اس نے قرآن کی آیت کی طرف اشارہ کیا ہے قرآن کریم میں ہے۔

اللّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ ،
[سورہ النور:35]
اللہ نے اپنے نور کی مثال دی ہے اور قرآن کریم میں زیتون کے درخت کا ذکر ہے
” زَيْتُونَةٍ لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ“
کہ زیتون کا درخت نہ مشرق رخ ہے نہ مغرب رخ۔ اس نے مجھے کہا
: بارک اللہ فیک کما بارک فی لا ولا،
اللہ آپ کے علم اور ذات میں ایسی برکت دے جیسے اللہ نے زیتون والے درخت میں دی ہے۔میں نے کہا آمین۔
بدائع الصنائع: ج۱ ص۴۹۷ بیان کیفیۃ القعدۃ
عصر حاضر کا بڑا فتنہ؛ غیر مقلدیت:
امام صاحب بہت بڑے آدمی تھے اور بڑے آدمی کو سمجھنے کے لیے عقل بھی چاہیے اور دماغ بھی چاہیے۔جتنےوہ بڑے آدمی تھے اور ان کے مخالف اتنے ہی بڑے بد دماغ اور بیوقوف تھے۔حضرت امام صاحب کو سمجھنے کے لیے غیرمقلد کی عقل کافی نہیں ہے اس کے لیے اللہ تقلید والی نعمت عطافرمائے تو پھر بات سمجھ آتی ہے۔ اپنے عنوان پر بہت پختہ اور مضبوط رہا کریں اورغیرمقلدیت سے نفرت کریں جیسے نفرت کرنے کا حق ہے۔جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اچھا نہیں سمجھتا بھلا اسے اچھا مان سکتے ہیں؟ جو ائمہ کو اچھا نہ سمجھے ہم اسے اچھا سمجھ سکتے ہیں ؟ہمارے بس میں نہیں اور ہماری غیرت کا تقاضا ہے حضرت امام اعظم اللہ کے ولی ہیں اور جو اللہ کے ولی سے محبت نہ کرے ہم اس سے کبھی محبت نہیں کرتے اور جو اللہ کے ولی سے پیار کرے ہم اس کے غلام ہیں اور اس کے نوکر ہیں۔ غیرمقلدیت اتنا بڑا فتنہ ہے کہ امام اہل السنۃ شیخ التفسیرو الحدیث مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ ”اس صدی کا سب سے بڑا فتنہ غیرمقلدیت ہے“،اللہ پاک فتنے کو فتنہ سمجھ کر اس فتنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
مضمون دوم: بشریت رسول صلی اللہ علیہ و سلم:
قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرمِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِد “
یہ کلام اللہ کا ہے۔ اللہ نے حکم دیا ہےکہ اے نبی!آپ ان کو فرماؤ کہ میں بشر ہوں انسان ہوں تم جیسا۔لیکن مجھ میں اور تم میں فرق ہے،نبی اور امتی میں امتیاز یہ ہےکہ نبی پر وحی آتی ہے اور امتی پر وحی نہیں آتی۔ یہ دو باتیں کیوں ہیں؟
نبی اور امتی میں فرق:
علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے بہت پیاری بات لکھی ہے کہ:
1:دونوں میں شرکت کیوں ہے؟
2:ان میں امتیاز کیوں ہے؟
فرماتے ہیں۔
إشارة إلى جهة مشاركته للناس وجهة امتيازه ولولا تلك المشاركة ما حصلت الإفاضة ولولا ذلك الإمتياز ما حصلت الاستفاضة
روح المعانی: تحت الآیۃ قل انما انا بشر
عجیب جملہ فرمایا۔ یہ جملہ میں نقل کرتاہوں طلباء اور علماء کے لیے، ان کا ذوق ہوتاہے عربی جملوں کا۔حضرت علامہ آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
ولولا تلك المشاركة ما حصلت الإفاضة ولولا ذلك الإمتياز ما حصلت الاستفاضة۔
کہ اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بشر نہ ہوتے تو امت کو فائدہ پہنچاتے کیسے؟نبی پاک فرماتے: روزہ رکھو! تو لوگ کہتے کہ جی بھوک لگتی ہے۔ حضور فرماتے: مجھے تو بھوک نہیں لگتی میں تو فرشتہ ہوں،لوگ کہتے: آپ کو بھوک نہیں لگتی اس لیے روزہ رکھتے ہیں۔ہمیں تو بھوک لگتی ہے ہم روزہ کیسے رکھیں؟تو فرمایا کہ تم کو بھوک لگتی ہے تو مجھے بھی بھوک لگتی ہے، تمہارے پیٹ پر ایک پتھر ہے تو میرے پیٹ پر دو پتھر ہیں۔کوئی کہتا: حضور!آپ تو اس لیے جہاد پہ جاتے ہیں، اگر آپ کو کوئی مارے تو آپ کو زخم آنا ہی نہیں ہے۔ اگر زخم آگیا تو درد ہونا ہی نہیں ہے۔ آپ تو اس لیے جاتے ہیں، ہم کیوں جائیں؟ہمیں تو زخم بھی آئے گا اور درد بھی ہوگا۔ اللہ نے نبی کو بشر بنایا کہ جیسے تمھیں دکھ آتا ہے میرے نبی کو بھی آتا ہے، تمہیں تکلیف ہوتی ہے تو میرے نبی کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے بشر کیوں بنایا؟تاکہ امت کے لیےفائدہ حاصل کرنا آسان ہو۔
اگلی بات فرمائی
: ولولا ذلك الإمتياز ما حصلت الاستفاضة ،
اور اگر نبی اور امت میں کوئی فرق نہ ہوتا تو لوگ نبی سے فائدہ حاصل ہی نہ کرتے ،کہتے: جیسے یہ ہیں ایسے ہم ہیں، ہم میں اور ان میں فرق ہی کیا ہے؟اللہ فرماتے ہیں:نہیں! ان پر وحی آتی ہے تم نہیں آتی۔ لہذا تم پیغمبر سے فائدہ حاصل کرو۔اس لیے اللہ پاک نے بشر بنایا ہے۔
ذات بشر وصف نور:
حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی آئی ہے اور چونکہ وحی نور ہوتی ہے اس لیے اس وحی کے ثمرات اور اثرات کی وجہ سے پیغمبر کی ذات پر اوصاف نورانیت کا غلبہ ہوتاہے۔ پورے جسم میں اصل خلاصہ انسان کا دل ہوتاہے۔اس لیے حدیث مبارک میں ہے کہ جسم میں ایک ٹکڑا ہے۔ اگر وہ ٹھیک ہوجائے تو پورا جسم ٹھیک ہوجاتاہے، اگر وہ خراب ہوجائے تو پورا جسم خراب ہوجاتاہے
”الا وہی القلب“
فرمایا: وہ دل ہے۔
صحیح البخاری: باب فضل من استبرأ لدينه
اور وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر آتی ہے، نبی کی آنکھ یاکان پر نہیں آتی۔ اصل دل ہے۔ وحی جب قلب پر آتی ہے توقلب نورانی ہوتا ہے اور اس قلب کے نورانی ہونے کی وجہ سے پیغمبر کی آنکھ بھی نورانی ہے، ہاتھ بھی نورانی ہیں اور پیغمبر کا وجود اطہر نورانی ہے لیکن اصل تونبی کا قلب اور بدن بشری ہوتا ہے۔ اس پر وحی آنے سے نورانیت کے اوصاف کا غلبہ ہوتاہے اس لیے ہم کہتے ہیں کہ نبی ذات کے اعتبار سے بشر ہوتاہے اور اوصاف کے اعتبار سے نور ہوتاہے۔
مضمون سوم: اللہ سے ملاقات کا سامان
اللہ فرماتے ہیں۔
فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّه أَحَدًا
تم میں سے جو شخص اللہ سے ملاقات کا ارادہ رکھتا ہے وہ ان باتوں کااہتمام کرے:
1:وہ نیک عمل کرے۔
2: اپنے عمل کے اندر ”ریا“ شامل نہ کرے،اپنے عمل کو خالص رکھے۔
یہ بات بڑی سمجھنے کی ہے ۔
فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا،
جو بندہ اللہ سے ملاقات کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ مجھے اللہ سے ملنا ہے تو وہ ان باتوں کا خیال کرےکہ اپنے نیک اعمال میں ملاوٹ نہ کرے ،اخلاص کے ساتھ نیک عمل کرے۔
نیک عمل کیوں کریں؟
پہلے یہ سمجھیں کہ نیک اعمال کی بات کیوں کی ہے؟دیکھیں !جب کوئی آدمی کسی بڑے کے پاس جائے تو سمجھتا ہے کہ میں بڑے کے پاس کیوں جارہا ہوں او ر اس کو ذہن میں رکھتا ہے کہ جس بڑے کے پاس میں جاتاہوں یہ بڑا کس بات پہ خوش ہوتاہے؟اگر بڑے سے کوئی چیز لینی ہو تو کس چیز سے خوش ہوکر مجھے دے گا ؟اس کے مزاج کا پتہ ہو،پھر بڑے کے پاس جاتا ہے ورنہ بڑے کے پاس نہیں جاتا۔ کائنات میں سب سے بڑا کون ہے؟[اللہ:سامعین]سب کچھ تو اللہ سے لینا ہے، دنیا میں بھی، قبر میں بھی اور حشر میں بھی، فرمایا کہ جس کا یہ ارادہ ہو اور سمجھتا ہے کہ مجھے سب کچھ خدا سے ملنا ہے وہ نیک اعمال کا خیال کرے کیونکہ اللہ رب العزت نیک عمل کرنے سے خوش ہوتے ہیں اور برے عمل سے ناراض ہوتے ہیں۔ خوش ہوتے ہیں تو عطا فرماتے ہیں، جب ناراض ہوتے ہیں عطاؤں کو روک لیتے ہیں۔ اگر خدا کی عطا چاہتے ہو تو برے اعمال کو چھوڑو اور نیک اعمال کرو۔ہمیں نیک اعمال کا اہتمام کرنا چاہیے
نیک عمل کیا ہے؟
نیک عمل کہتے کسے ہیں؟اس کی سب سے آسان تعبیر اور سب سے آسان معنیٰ یہ ہے: ”وہ عمل جو سنت کے مطابق ہو“نیک عمل وہ عمل ہوگا جو سنت کے مطابق ہو گا۔نتیجہ کیا نکلے گا؟اگر اللہ سے ملنے کا ارادہ ہے تو پھر سنت اعمال کا خیال کرنا چاہیے۔ اللہ ہم سب کو اعمال مسنونہ کی توفیق عطا فرمائے۔[آمین]
شرک جلی و خفی:
ساتھ وضاحت فرمادی :
وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا،
آدمی شرک نہ کرے۔ میں نے اس کا معنیٰ کیا ہے:” ریا نہ کرے“۔ اصل تو ”شرک نہ کرے“ ہے۔ علامہ آلوسی رحمہ اللہ یہ دونوں باتیں ارشاد فرماتے ہیں:
إشراكا جليا كما فعله الذين كفروا بآيات ربهم ولقائه ولا إشراكا خفيا كما يفعله أهل الرياء ،
[روح المعانی :سورۃ الکہف تحت ھذہ الآیۃ]
کہ کھلا شرک نہ کرے جیسے مشرک اور کافر کرتاہے اور نہ تو چھپا شرک کرے جیسے ریا کار شرک کیا کرتے ہیں۔ایک شرک جلی ہے اور ایک شرک خفی ہے۔
شرک جلی کیا ہے؟اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود بنانااور شرک خفی یہ ہے کہ اعمال اللہ کے لیے بھی کرے اور ساتھ ساتھ اوروں کی نیت بھی کرے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے حدیث منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے عرض کی: یارسول اللہ! جہاد کرتاہوں خالص اللہ کے لیے اور ساتھ یہ بھی دل میں ہوتا ہے کہ لوگ مجھے بہت دلیر سمجھیں۔ اس پر قرآن کی آیت اتری ہے۔
” فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا“
[مستدرک علی الصحیحین:ج۲ ص۱۲۲، کتاب الجہاد]
اگر اللہ سے ملنا ہے تو پھر اپنے عمل میں کسی کو شریک نہ کرو ،عمل خالص اللہ کی ذات کے لیے کرو، اس کے اندر ریا کو شامل مت ہونے دو۔
یہ ریا نہیں!
لیکن ایک بات ذہن نشین فرمالیں،آدمی عمل تو اللہ کے لیے کرتاہے اور کبھی کسی کو پتہ چل جائے تو بندہ خوش بھی ہوتا ہے یہ خوش ہونا اخلاص کے منافی نہیں ہے۔جامع ترمذی میں روایت موجود ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا: یارسول اللہ! میں گھر میں چھپ کر نماز پڑھتا ہوں، اچانک باہر سے کوئی بندہ میرے گھر میں آتا ہے وہ جب مجھے نماز پڑھتے دیکھتا ہے تو میں خوش ہوتا ہوں کہ اس کو میری نماز کا پتہ چلا ہے۔ یہ شرک تو نہیں ہے،ریا تو نہیں ہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس پر اللہ تمہیں دو اجر عطا فرمائیں گے؛ایک اجر چھپ کر نماز پڑھنے کا اوردوسرا اجر کھلے علانیہ عمل کرنے کا۔ تمہیں دونوں کا اجر ملے گا۔
[جامع الترمذی: باب عمل السر]
کیونکہ جب تم نے نماز شروع کی تھی لوگوں کے لیے نہیں خالص اللہ کے لیے کی،جب کسی کو عمل کا پتہ چل گیا ہے تو تم اس پر خوش ہو یہ ریا نہیں ہے۔اس پر تمہیں خوش ہونا چاہیے۔
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! بسا اوقات ایک بندہ دینی کام کرتا ہے اور اس کے دینی کام کی شہرت ہوتی ہے اور پھر لوگ اس کا تذکرہ کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےبڑا پیارا جواب دیا:
تلك عاجل بشرى المؤمن
۔
[صحیح مسلم باب إذا أثنى على الصالح فهي بشرى ولا تضره]
فرمایا یہ مومن کا نقد انعام ہے جو خدا نے اس کو دنیا میں عطا کیا ہے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
انا للہ و انا الیہ راجعون
جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی کے استاذ الحدیث مفتی عبدالمجید دین پوری کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے شہید کردیا۔
مظفر گڑھ صابر شکور کے چچا جان انتقال کرگئے۔
اتحاد اہل السنۃ والجماعۃ لاہور کے امیر مولانا عبدالشکور حقانی صاحب کے صاحبزادے محمد عبداللہ انتقال کر گئے۔
چک92 جنوبی سرگودہا مولانا امان اللہ کے برادر نسبتی وفات پا گئے۔
اللہ تعالیٰ مرحومین کی مغفرت فرما کر درجات کو بلند فرمائے۔آمین

<