سات فقہاء کا نظریہ حدیث

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
آثار التشریع:
سات فقہاء کا نظریہ حدیث
علامہ خالد محمودمدظلہ
پی- ایچ- ڈی لندن
[2]:حضرت امام محمد بن حسن الشیبانی رحمہ اللہ م189ھ اس بحث میں کہ نماز میں قہقہہ ناقض وضو ہے ،تحریر فرماتے ہیں۔
لولا ما جاء من الآثار كان القياس على ما قال اهل المدينة ولكن لا قياس مع اثر وليس ينبغي الا ان ينقاد للآثار،
[کتاب الحجۃ علیٰ اہل المدینۃ ج1ص204]
ترجمہ:اگر وہ آثار نہ ہوتے جو وارد ہوچکے توقیاس وہی چاہتاہے جو اہل مدینہ کہتے ہیں لیکن حدیث کے ہوتے ہوئے قیاس جائز نہیں اور اس موقع پر اس کے سوا کوئی راہ نہیں کہ احادیث کے سامنے سرتسلیم کردیا جائے۔
اس سے پتہ چلا کہ ائمہ احناف کے ہاں حدیث بہرحال مقدم رکھی جاتی تھی اور اس کے ہوتے ہوئے رائے اور قیاس سے کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتاتھا۔
[3]:حضرت امام مالک رحمہ اللہ
قال معن بن عيسى: سمعت مالكاً يقول: إنما أنا بشر أخطىء وأصيب فانظروا في رأيي فكلما وافق الكتاب والسنة فخذوا به، وما لم يوافق الكتاب والسنة فاتركوه.
[ترتیب المدارک ج1ص184،189]
ترجمہ:معن بن عیسیٰ کہتے ہیں میں نے امام مالک کو کہتے ہوئے سنا میں ایک انسان ہوں اور درست فیصلے بھی کر پاتاہوں اور کبھی چوک بھی جاتاہوں تم میرے فتویٰ پر غور کیا کرو جو کتاب وسنت کے موافق ہو اسے لے لیا کرو[مجتہد کے فیصلے کو لینا کوئی بری بات نہیں]اور جو فیصلہ کتاب وسنت کے موافق نہ ہو تو اسے چھوڑ دیا کرو۔
ابن ابی حاتم حضرت امام مالک رحمہ اللہ سے اور وہ ربیعہ سے نقل کرتے ہیں، آپ نے فرمایا۔
إن الله تبارك وتعالى أنزل الكتاب وترك فيه موضعا للسنة وسن رسول الله صلى الله عليه وسلم وترك فيها موضعا للقیاس
[الدرالمنثور]
ترجمہ:بےشک اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف کتاب مفصل بھیجی اور اس میں سنت کے لیے جگہ رکھ لی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سنتیں قائم کیں اور ان میں اجتہاد کی راہیں رکھ لیں۔
اس سے صاف پتہ چلتاہے کہ فقہاء نے اجتہاد اور قیاس کو بھی سنت کے مقابل نہیں رکھا اسے ہمیشہ سنت کے بعد ہی رکھا ہے۔
[4]:حضرت امام ابویوسف رحمہ اللہ
حضرت امام ابویوسف رحمہ اللہ م182ھ نے خلیفہ ہارون الرشید کو حضرت عمر رضی اللہ کا یہ خطبہ یاد دلایا:
اللہم انی اشہدک علیٰ امراء الامصار فانی انما بعثتہم لیعلموا الناس دینہم وسنۃ نبیہم [ص14] انی لم ابعثہم الا لیتفقوا الناس فی دینہم [ص118]
[کتاب الخراج ص90]
حاصل اینکہ اے امیرالمومنین!اپنے عمال کو حکم دے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی سنت کے مطابق فیصلہ کریں۔
حضرت امام ابویوسف رحمہ اللہ کے اس ارشاد سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کے سامنے حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا وہ خط بھی تھا جو آپ نے خلیفہ وقت ابوجعفر منصور کو لکھا تھا :
”میں پہلے قرآن کے مطابق،پھر سنت کے مطابق،پھر حضرت ابوبکر، حضرت عمر،حضرت عثمان،حضرت علی رضی اللہ عنہم کے فیصلوں کے مطابق فیصلہ دیتاہوں، پھر دوسرے صحابہ کے فیصلوں کے مطابق فیصلہ کرتاہوں۔ان میں اگر اختلاف ہو تو پھر اپنی رائے سے ان میں سےکسی کا قول اختیار کرلیتاہوں۔“
[میزان الشریعۃ الکبریٰ ص62]
[5]:حضرت امام زفر رحمہ اللہ
حضرت امام زفر بن الہذیل رحمہ اللہ م158ھ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردوں میں سے سب سے زیادہ قیاس کے ماہر ہیں۔آپ بھی فرماتے ہیں:
لاناخذ بالرای مادام الاثر واذا جاء الاثر ترکنا الرای۔
[جواہر المضئیۃ ج1ص534،الفوائد البہیہ ص76]
ترجمہ:جب حدیث موجود ہو ہم رائے پر نہیں چلتے اور جب حدیث آجائے تو ہم نے رائے قائم بھی کی ہو تو اسے چھوڑ دیتے ہیں۔
جب امام زفر رحمہ اللہ بھی رائے اور قیاس کو حدیث اور اثر کے مقابل کچھ نہیں سمجھتے تو اور کوئی فقیہ قیاس کو اس سے اونچا درجہ کیا دے سکتاہے؟!
گیارہویں صدی تک یہی آواز سننے میں آرہی ہے کہ حدیث اور اثر کے سامنے رائے اور قیاس کوئی وزن نہیں رکھتی۔ محدث کبیر شارح مشکوۃ مجددد مائۃ دہم ملا علی قاری علیہ رحمۃ ربہ الباری لکھتے ہیں۔
أن مذهبهم القوى تقديم الحديث الضعيف على القياس المجرد الذي يحتمل التزييف نعم من رأي ثاقبهم الذي هو معظم مناقبهم أنهم ما تشبتوا بالظراهر بل دققوا النظر فيها بالبحث عن السرائر
[مرقات ج1ص3]
ترجمہ:فقہائے احناف کا قوی مذہب یہ ہے کہ حدیث ضعیف بھی ہو تو اسے اس قیاس پر جو بےبنیاد ہو مقدم کیا جائے ہاں ان کی روشن رائے یہ رہی ہے اور وہ ان کی بڑی منقبت ہے کہ وہ ظاہر حدیث سے تمسک نہیں کرتے بلکہ اس کے اندر لپٹے معنیٰ پر بھی غور کرتے ہیں اور دقت نظر سے کام لیتے ہیں۔
یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ یہ صرف اکابر ائمہ فقہ کے فیصلے تھے فقہاء مابعد بھی ان کے مطابق ہی چلے ہیں۔ لیجیے اب ہم فقہ حنفی کے مزاج شناس علامہ شامی رحمہ اللہ م1252ھ کے حوالے سے بات آپ کے سامنے رکھتے ہیں، دوسری صدی میں جو کچھ کہا گیا تھا اسی کی آواز گیارہویں اور تیرھویں صدی میں بھی سنی جارہی ہے، ملاحظہ فرمائیے:
نقله العلامة بيري في أول شرحه على الأشباه عن شرح الهداية لابن الشحنة ، ونصه : إذا صح الحديث وكان على خلاف المذهب عمل بالحديث ، ويكون ذلك مذهبه ولا يخرج مقلده عن كونه حنفيا بالعمل به ، فقد صح عنه أنه قال : إذا صح الحديث فهو مذهبي .وقد حكى ذلك ابن عبد البر عن أبي حنيفة وغيره من الأئمة.ونقله أيضا الإمام الشعراني عن الأئمة الأربعة .
[رد المحتار ج1ص358]
ترجمہ:علامہ بیری رحمہ اللہ نے الاشباہ کی شرح کے شروع میں علامہ ابن شحنہ کی شرح ہدایہ سے نقل کیا ہے کہ جب صحیح طریق سے ثابت ہوجائے اور وہ اپنے فقہی مذہب کے خلاف ہو تو عمل حدیث پر کیا جائے گا اور یہی آپ کا مذہب شمار ہوگا اور حدیث پر عمل کرنے سے کوئی شخص حنفی ہونے کے دائرہ سے نہیں نکلتا، کیونکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے صحیح طریق سے یہ بات پہنچی ہے آپ نے فرمایا جو کوئی حدیث صحیح طریق سے ثابت ہوجائے تو اسے ہی میرا مذہب سمجھو، علامہ عبدالبر مالکی رحمہ اللہ نے بھی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور دوسرے ائمہ فقہ سے یہ بات نقل کی ہے علامہ شعرانی یہ بات ائمہ اربعہ سے نقل کرتے ہیں۔
نواب صدیق حسن خاں صاحب لکھتے ہیں۔
وذکر ابن حزم الاجماع علی ان مذہب ابی حنفیۃ ان ضعیف الحدیث اولیٰ عندہ من الرای والقیاس
[دلیل الطالب ص87]
ترجمہ:ابن حزم لکھتے ہیں کہ اس بات پر اجماع ہے کہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ہاں ضعیف حدیث بھی رائے اور قیاس پر مقدم ہے۔
[6]: حضرت امام شافعی رحمہ اللہ
حضرت امام شافعی رحمہ اللہ م204ھ مجتہد مطلق تھے، آپ نے حدیث کی کوئی بڑی کتاب جیسے بخاری شریف اور صحیح مسلم نہیں لکھی مسند امام شافعی رحمہ اللہ ایک چھوٹی سی کتاب ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ امام شافعی رحمہ اللہ علم حدیث میں ان محدثین سے کم تھے، آپ کی زندگی کا موضوع فقہ رہا ہے اس لیے بطور فن کار محدث کے آپ حدیث کی کوئی بڑی کتاب نہ لکھ سکے تاہم آپ کی کتاب ”الام“ میں سینکڑوں احادیث آپ نے روایت کی ہیں۔ آپ ہمیشہ سنت کے علمبردار رہے۔تعامل امت کو آپ نے حدیث کے بعد رکھا ہے۔
حضرت علامہ ذہبی رحمہ اللہ م748ھ آپ کو الامام حبر الامۃ اور ناصر السنۃ لکھتے ہیں۔علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ م852ھ لکھتے ہیں۔
کان اصحاب الحدیث رقودا حتی ایقظہم الشافعی
[توالی التاسیس ص59]
ترجمہ: اصحاب الحدیث سوئے ہوئے ہیں امام شافعی رحمہ اللہ نے انہیں جگا دیا۔
یعنی محدثین روایت حدیث میں مصروف رہے، پڑھنے پڑھانے کا کام فقہاء کرتے رہے امام شافعی رحمہ اللہ نے محدثین کو جگا دیا۔وہ اس فن کے لیے اٹھے اور اس کی باقاعدہ تدوین کی صحیح بخاری اور صحیح مسلم وغیرہ سب کتابیں ان کے بعد لکھی گئی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پہلے علم حدیث کم تھا، پچھلوں نے پہلوں ہی سے علم حاصل لیا ہے نہ اس کا یہ مطلب ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ صرف حدیث کو دیکھتے تھے تعامل امت کو نہ لیتے تھے ایسا ہرگز نہیں، آپ نے بیس رکعت تراویح کا فیصلہ تعامل امت سے ہی تو کیا ہے۔
حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ م279ھ لکھتے ہیں۔
قال الشافعی رحمہ اللہ ہکذا ادرکت ببلدنا بمکۃ یصلون عشرین رکعۃ،
[جامع الترمذی ج1ص139]
ترجمہ:امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: اسی طرح میں نے اپنے شہر مکہ میں لوگوں کو بیس رکعت پڑھتے ہی پایا ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ اپنے زمانے کی بات جس انداز میں لکھ رہے ہیں اس سے پتہ چلتاہے کہ ان سے سالہاسال پہلےبھی مسجد حرام میں بیس تراویح ہی پڑھی جاتی تھیں۔
[7]:حضرت امام احمد رحمہ اللہ
حضرت امام احمد رحمہ اللہ م241ھ نے امام ابویوسف اور امام شافعی رحمہما اللہ کی شاگردی کا شرف پایا ہے۔ آپ امام بخاری رحمہ اللہ امام مسلم رحمہ اللہ اور امام ابوداود رحمہ اللہ کے استاذ تھے، ائمہ اربعہ میں آپ چوتھے امام ہیں۔سعودیہ عرب کے علماء آل شیخ سب ان کے مقلد ہیں۔ آپ کا نظریہ حدیث امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نظریہ حدیث سے ملتا ہے۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ 715ھ لکھتے ہیں:
فتقديم الحديث الضعيف وآثار الصحابة على القياس والرأي قوله وقول الإمام أحمد
[اعلام الموقعین]
وقد قدم الحديث الضعيف على القياس
[اعلام الموقعین ج1ص31]
ترجمہ:حدیث ضعیف بھی ہو تو اسے اور آثار صحابہ کو رائے اور قیاس پرمقدم کیا جائے، یہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ دونوں کا مذہب ہے۔
اس سے صاف پتا چلتاہے کہ دین میں رائے سے کام لینا ہرگز امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا طریقہ نہ تھا۔حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور حضرت امام احمد رحمہ اللہ دونوں کا نظریہ حدیث ایک تھا کہ قیاس اور رائے کو کسی صورت میں حدیث پر مقدم نہیں کیا جاسکتاگو وہ حدیث ضعیف ہی کیوں نہ ہو۔یہ اجلہ فقہاء کا نظریہ حدیث آپ کے سامنے آگیا ہے اب ذرا محدثین کی جوابی روش بھی دیکھ لیں کہ وہ کس طرح فقہاء کے ساتھ مل کر چلے ہیں اور ان کےسایہ میں چلے ہیں۔
[آثار التشریع ج1ص125تا130]