امام اعظم رحمہ اللہ اور علم حدیث

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
فقہ المسائل:
امام اعظم رحمہ اللہ اور علم حدیث
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
سوال:
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے حوالے سے ایک بات کی تحقیق مطلوب ہےکہ ہمارے ہاں بعض لوگوں نے ایک کتاب”حقیقۃ الفقہ“مصنفہ محمد یوسف جے پوری کے حوالے سے یہ بیان کیا ہے کہ تاریخ بغداد میں ہے کہ امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علم حدیث میں یتیم تھے۔
[حقیقۃ الفقہ ص118]
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جب ایک آدمی کو علم حدیث سے مس ہی نہیں اور نہ ہی وہ اس میں مہارت رکھتاہے تو اس کی فقہ پر عمل کیونکر صحیح ہے؟
برائے مہربانی اس کا جواب دے کر ممنون فرمائیں۔
سیدحیدر علی شاہ
حیدرآباد۔سندھ
جواب:
امام ابن مبارک رحمہ اللہ کے قول میں یتیماً فی الحدیث کلمہ جرح نہیں بلکہ کلمہ مدح اور تعریف ہے۔کیونکہ محاورہ میں یتیم کے معنیٰ یکتا،منفرد اور بے مثل کے بھی آتے ہیں۔
1:وکل شئی مفرد یعز نظیرہ فہو یتیم یقال درۃ یتیمۃ
[الصحاح للجوہری ج5ص342،مختار الصحاح للرازی ج1ص745]
ہر اکیلی چیز جس کی مثال کمیاب ہووہ ” یتیم “ہے، جیسے کہاجاتاہے درہ یتیمۃ [نایاب موتی]
2:البیت یتیم ای منفرد لیس قبلہ ولابعدہ شئی
[الزاہر فی معانی کلمات الناس ج1ص118]
”البیت یتیم“ کا معنیٰ ہے منفرد شعر کہ جس کا مثل نہ پہلے ہو نہ بعد میں۔
3:قال الاصمعی:الیتیمۃ الرملۃ المنفردۃ وکل منفرد ومنفردۃ عند العرب یتیم ویتیمۃ
[تہذیب اللغۃ للازہری ج5ص29]
امام اللغۃ اصمعی نے کہا ”یتیم“ ریت کے ایک اکیلے ذرے کو کہتے ہیں،عرب کے ہاں ہر منفرد اور اکیلی چیز کو یتیم کہاجاتاہے۔
ان حوالہ جات کی روشنی میں واضح ہوا کہ امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ امام صاحب حدیث میں بےمثال اور یکتا تھے،آپ کا پایہ علم حدیث میں بلند تھا۔ اس کی تائید خود ابن مبارک رحمہ اللہ کے دوسرے اقوال سے ہوتی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
1: أفقه الناس أبو حنيفة ما رأيت في الفقه مثله وقال أيضا لولا أن الله تعالى أغاثني بأبي حنيفة وسفيان كنت كسائرالناس
[تہذیب التہذیب لابن حجر ج6ص559، 560]
لوگوں میں سب سے بڑے فقیہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہیں، میں نے فقہ میں ان کی مثل کسی کو نہیں دیکھا۔مزید فرماتے ہیں:اگر اللہ تعالیٰ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام سفیان رحمہ اللہ کے ذریعہ میری مدد نہ کرتا تو میں عام لوگوں کی طرح ہوتا۔
2: إن كان الأثر قد عرف واحتيج إلى الرأي فرأي مالك وسفيان وأبي حنيفة وأبو حنيفة احسنهم وادقهم فطنة واغوصهم على الفقه وهو أفقه الثلاثة ،
[تاریخ بغداد ج11ص244]
ترجمہ:اگر اثر وحدیث میں فقہ کی ضرورت پیش آئے تو اس میں امام مالک،امام سفیان اور امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ کی رائے معتبر ہوگی۔امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ان سب میں عمدہ اور باریک سمجھ کے مالک ہیں،فقہ کی باریکیوں میں گہری نظر رکھنے والے اور تینوں میں بڑے فقیہ ہیں۔
3:ہاتوا فی العلماء مثل ابی حنیفۃ والافدعونا ولاتعذبونا
[مناقب موفق مکی ج2ص52]
کہ علماء میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی مثل لاؤ، ورنہ ہمیں معاف رکھو اور عذاب نہ دو۔
امام ابن مبارک رحمہ اللہ کے ان اقوال سے ثابت واضح ہوتا ہے کہ آپ کی نظر میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ حدیث و اثر میں دقت نظر کے مالک ، فقہ میں عدیم المثال اور علماء کے گروہ میں وفور علم کے مالک تھے۔لہذا ”یتیما فی الحدیث “سے جرح سمجھنا امام ابوبکر خطیب بغدادی رحمہ اللہ کی غلطی ہے جسے مؤلف حقیقۃ الفقہ نے محض عناداً پیش کیا ہے۔
مناسب معلوم ہوتاہے کہ حافظ ابوالحسین احمد بن ایبک ابن الدمیاطی رحمہ اللہ م749ھ کا قول نقل کردیا جائےجو اس بات کی حقیقت بیان کرنے میں کافی و وافی ہے، فرماتے ہیں:
هذا بالمدح أشبه منه بالذم فإن الناس قد قالوا درة يتيمة إذا كانت معدومة المثل، وهذا اللفظ متداول للمدح لا نعلم أحدا قال بخلاف، وقيل يتيم دهره، وفريد عصره وإنما فهم الخطيب قصر عن إدراك ما لا يجهله عوام الناس.
[المستفاد من ذيل تاريخ بغدادج2ص93]
ترجمہ:”یتیما فی الحدیث “کا لفظ مدح کے زیادہ مشابہ ہے نہ کہ ذم کے،کیونکہ عام طور پر جب کسی چیز کی مثال کم ملتی ہو تو لوگ ”درۃ یتیمۃ“کا لفظ بولتے رہتے ہیں اور یہ لفظ عام طور پر رائج ہے،ہمیں معلوم نہیں کہ کسی نے اس میں اختلاف کیا ہو جیسا کہ ”یتیم دہر“ اور” فرید عصر “وغیرہ الفاظ بولے جاتے ہیں۔خطیب بغدادی کی فہم اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہی جس سے عوام بھی بےخبر نہیں۔
فائدہ:
حضرات محدثین رحمہم اللہ کی اصطلاح میں سند حدیث کے بدل جانے سے یا راوی حدیث کے بدلنے سے حدیث کی تعداد بدل جاتی ہے۔اگر ایک حدیث پانچ سندوں سے آئی ہے تو اگرچہ وہ ایک متن ہے لیکن محدثین کے ہاں وہ پانچ احادیث شمار ہوتی ہیں۔بعض محدثین سے منقول ہے،وہ فرماتے ہیں کہ اگر ایک حدیث میرے پاس کئی طرق سے نہ پہنچے تو میں اس حدیث کے متعلق خود کو یتیم شمار کرتاہوں۔محدث ابواسحاق ابراہیم بن سعید الجوہری الطبری (244ھ)فرماتے ہیں۔
کل حدیث لایکون عندی من مائۃ وجہ فانا فیہ یتیم
[تذکرۃ الحفاظ ج2ص76]
ترجمہ:ہر وہ حدیث جو میرے پاس سو سندوں کے ساتھ نہ ہو تو مین اس حدیث میں خود کو یتیم خیال کرتاہوں۔
چونکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ خیرالقرون کے ہیں،80ھ میں پیدا ہوئے اور 150ھ میں وفات پائی۔چونکہ کثرت اسانید کا شیوع آپ کے دور میں نہ ہوا تھا اور احادیث کا مجموعہ آپ کے پاس کثرت اسانید سے نہ پہنچا تھا اس لیے امام ابن المبارک رحمہ اللہ کے قول کا مطلب عین ممکن ہے یہی ہو کہ آپ کے پاس احادیث تو کثرت سے تھیں لیکن سو سو سندوں سے نہیں تھیں۔اب اس صورت میں”یتیما فی الحدیث “ کا مطلب بالکل واضح ہے۔
علم حدیث میں مہارت
مناسب معلوم ہوتا ہےکہ چند روایات ایسی نقل کی جائیں جن سےامام صاحب کی علم حدیث میں وسعت اطلاع، وفور علم اور جلالت شان معلوم ہو اور یہ بات واضح ہو جائے کہ آپ کو علم حدیث میں کس قدر مہارت تھی اور نقد روایت میں آپ کا پایہ کس قدر بلند تھا؟!
چند حوالہ جات پیش کیے جاتے ہیں۔
1:امام ابوعبداللہ الصیمری اور امام موفق بن احمد المکی رحمہ اللہ نے اپنی سند سے امام حسن بن صالح سے روایت کیا ہے :
كان ابو حنيفة شديد الفحص عن الناسخ من الحديث والمنسوخ فيعمل بالحديث إذا ثبت عنده عن النبي صلى الله عليه وسلم وعن أصحابه وكان عارفا بحديث أهل الكوفة وفقه أهل الكوفة شديد الاتباع لما كان عليه الناس ببلده وقال كان يقول إن لكتاب الله ناسخا ومنسوخا وإن للحديث ناسخا ومنسوخا وكان حافظا لفعل رسول الله صلى الله عليه وسلم الأخير
[اخبار ابی حنیفہ للصیمری ص11،مناقب موفق المکی ج1ص89،90]
ترجمہ:امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ناسخ احادیث کے پہچان میں بہت ماہر تھے،حدیث جب نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے اصحاب سے ثابت ہوتو اس پر عمل کرتے تھے اور اہل کوفہ [جو اس وقت حدیث کا مرکز تھا]کی احادیث کے عارف تھے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری فعل کے حافظ تھے۔
2:امام موفق بن احمد المکی رحمہ اللہ سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ امام ابویوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔
فربما وجدت الحدیثین او الثلاثۃ فآتیہ بہا فمنہا ما یقبلہ ومنہا مایردہ فیقول ہذا لیس بصحیح او لیس بمعروف۔۔۔۔فاقول لہ وما علمک بذلک؟فیقول انا اعلم بعلم اہل الکوفۃ
[مناقب الموفق ج2ص151،152،مناقب کردری ج2ص103]
ترجمہ:[امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے قول کی تقویت میں]کبھی مجھے دو احادیث ملتیں اور کبھی تین ،میں انہیں امام صاحب کے پاس لاتا تو آپ بعض کو قبول کرتے بعض کو نہیں اور فرماتے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے یا معروف نہیں،تو میں عرض کرتا حضرت آپ کو کیسے پتہ چلا؟فرماتے کہ میں اہل کوفہ کے علم کو جانتاہوں۔
3:امام یحییٰ بن نصر بن حاجب فرماتے ہیں۔
دخلت علی ابی حنیفۃ فی بیت مملو کتبا فقلت ماہذہ ؟قال ہذہ احادیث کلہا، وما حدثت بہ الا یسیر الذی ینتفع بہ[ہذا لفظ ابی نعیم]
[مناقب ابی حنیفہ للنیسابوری بحوالہ مناقب کردری ج1ص151]
ترجمہ:میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان کا گھر کتابوں سے بھراہوا تھا۔میں نے عرض کیا :یہ کیا ہے؟فرمایا یہ ساری احادیث ہیں میں ان میں سے وہ بیان کرتاہوں جن سے [عوام کو]نفع ہو۔ (بقیہ صفحہ31 پر)