علم کے بحر بیکراں …….سیدنا عکرمہ رحمہ اللہ

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
تذکرۃ المحدثین قسط نمبر 1
علم کے بحر بیکراں …….سیدنا عکرمہ رحمہ اللہ
مولانا محمد اکمل راجنپوری حفظہ اللہ
نام عکرمہ کنیت ابوعبداللہ نسلاً بربری اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام ہونے کی وجہ سے ہاشمی کہلاتے تھے۔آپ کا شمار تابعین کے اس طبقہ میں ہوتا ہے جو جبال علم اور مجمع البحرین مانے جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو علوم عالیہ شریفہ میں حظ وافر عطا فرمایا،چنانچہ آپ کو علم تفسیر،علم حدیث،علم فقہ اور علم مغازی وغیرہ میں کمال حاصل تھا۔
ان علوم پر یدطولیٰ کیوں نہ ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جس ہستی اور شخصیت کے دامن تربیت میں رکھا اس کو دنیا مفسر اعظم،محدث اجل اور حبر الامۃ [سیدنا ا بن عباس رضی اللہ عنہما]کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے آپ کی تعلیم وتربیت کا ان پر یہ اثر ہوا کہ علم کے بحر بیکراں بن گئے۔ان کو دیکھ کر بڑے بڑے شرفاء رشک کیا کرتے تھے۔کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ پر علوم کے دروازے کھول دیے۔جس کا تذکرہ آپ ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ میں بازار سے گزرتے ہوئے کسی سے کوئی کلمہ سنتاہوں تو اس سے میرے لیے علم کے پچاس دروازے کھل جاتے ہیں۔
تذکرۃ الحفاظ مترجم ج1ص94،ابن خلکان ج1ص319
حضرت عکرمہ رحمہ اللہ میں یہ علمی استعداد اور اس کا ذوق وشوق فطری تھا،چنانچہ چالیس سال تک تعلیم حاصل کرنے کے باوجود علم کی تشنگی ختم نہ ہوئی۔
تذکرۃ الحفاظ ج1ص94
حضرت عکرمہ رحمہ اللہ نے جن اصحاب علم حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے علم کی بہاریں سمیٹی ان میں سے
چند شیوخ کے اسماء گرامی:
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ
سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما
سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
جس شخصیت نے ایسے اصحاب علم سے فیض حاصل کیا ہو اس کا علمی پایہ کتنا بلند اور مضبوط ہوگا اس کا اندازہ آپ نیچے کی تحریر سے لگا سکتے ہیں۔
1:علم تفسیر
سیدنا حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما تفسیر کے اتنے بڑے عالم اور ماہر تھے کہ صحابہ کرام میں بہت کم ان کے مقابلے کے ہوں۔ چنانچہ حضرت عکرمہ رحمہ اللہ اتنے بڑے کتاب کے عالم کے زیر تعلیم رہے آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عکرمہ رحمہ اللہ کو انتہائی توجہ اور کوشش سے کلام اللہ کی تفسیر پڑھائی۔
ابن سعد ج5ص212

چنانچہ حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اعلم التابعین چار ہیں ان چاروں میں عکرمہ تفسیر کے سب سے بڑے عالم ہیں۔
تذکرۃ الحفاظ ج1ص94

حضرت امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں عکرمہ سے زیادہ کتاب اللہ کو جاننے والا باقی نہیں جب تک حضرت عکرمہ رحمہ اللہ بصرہ میں رہتے تھے تو حضرت امام حسن بصری رحمہ اللہ تفسیر بیان نہیں کرتے تھے۔
تہذیب التہذیب ج7ص266
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما حضرت عکرمہ رحمہ اللہ کا امتحان بھی لیتے تھے اور جواب پر بہت خوش ہوتے تھے۔چنانچہ ایک مرتبہ آپ نے یہ آیت: وَإِذْ قَالَتْ أُمَّةٌ مِنْهُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا اللَّهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا قَالُوا مَعْذِرَةً إِلَى رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ۔
پڑھ کر فرمایا کہ اس آیت میں جن لوگوں کی طرف اشارہ ہے،معلوم نہیں کہ انہوں نے نجات پائی یا ہلاک ہوگئے۔حضرت عکرمہ رحمہ اللہ نے وضاحت سے ثابت کیا کہ انہوں نے نجات پائی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ان کے اس جواب پر اتنا خوش ہوئے کہ ان کو حلہ )ایک قیمتی لباس (پہنایا۔
تہذیب لابن حجر ج4ص549،ابن سعد ج5ص212
2:علم حدیث
تفسیر میں اتنی مہارت اور کمال کے باوجود آپ رحمہ اللہ کا خاص اور محبوب فن حدیث تھا اس کے آپ بحر بیکراں تھے۔علم حدیث کے حصول کے لیے آپ نے بہت سے اصحاب اور شاگردان پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیے۔ان میں سےچند نامور علماء کے اسماء گرامی اوپر ذکر کیے گئے تھے لیکن ان میں سے زیادہ تر آپ نے حبر الامۃ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے فیض پایا چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ کی مرویات جن کی تعداد 1660ہے۔
سیراعلام النبلاء ج4ص180
حضرت عکرمہ رحمہ اللہ علماء امت کی نظر میں:
سلاطین علم اور جماعت محدثین ان کی صداقت اور کمالات علمی کی معترف تھی۔چنانچہ

حضرت شہر بن حوشب کہتے ہیں کہ ہر قوم کا ایک حبر ہوتاہے اس امت کا حبر سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا غلام ہے۔
تہذیب ج7ص265

حضرت ابن جریج رحمہ اللہ حضرت عکرمہ رحمہ اللہ کے علمی کمال کے اتنے معترف تھے کہ انہوں نے ایک مرتبہ یحییٰ بن ایوب مصری سے پوچھا کہ لوگوں نے عکرمہ سے کچھ لکھا ہے؟انہوں نے کہا نہیں،تو ابن جریج نے فرمایا تم نے دو تہائی علم ضائع کردیا
تہذیب التہذیب ج7ص265

سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ سے بڑا عالم بھی ہے ؟ تو جواب دیا ہاں عکرمہ مجھ سے بڑا عالم ہے۔
تذکرۃ الحفاظ ج1ص94، تہذیب التہذیب ج7ص266

ابو الشعثاء فرماتے ہیں کہ ا بن عباس کے غلام عکرمہ سب سے بڑے عالم ہیں۔
تذکرۃ الحفاظ ج1ص94

امام ابن راہویہ فرماتے ہیں عکرمہ ہمارے نزدیک ساری دنیا کے امام ہیں۔
تہذیب التہذیب ج7ص272

امام ابن مدائنی فرماتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلاموں سے عکرمہ سے زیادہ وسیع العلم دوسرا نہ تھا۔
سیر الصحابہ ج3ص194

حضرت جابر بن زید فرماتے ہیں کہ عکرمہ وہ شخص ہے جن کے سرچشمہ علم سے اہل علم نے ساری دنیا میں حدیث اور فقہ پھیلائی ہے۔
تہذیب التہذیب ج7ص273

علامہ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں کہتاہوں کہ بلا شبہ یہ امام علم کا سمندر ہے۔علامہ ذہبی رحمہ اللہ ایک اور مقام پر حبر العالم کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔حضرت عکرمہ وہ ہستی ہیں کہ جن کی علمی پرواز اور بلندی کے یہ جبال علم شیوخ بھی قائل ہیں۔
تذکرۃ الحفاظ ج1ص95،سیر الصحابہ ج3ص191
متلاشیانِ علوم کا ہجوم:
آپ رحمہ اللہ کی ذات مرجع خلائق تھی طالبان اور متلاشیان حدیث دور دراز سے ان کے پاس استفادہ کے لیے آتے تھے۔اور آپ جہاں سے گزرتے تو شائقین کا جم غفیر جمع ہوجاتا تھا۔چنانچہ امام ایوب رحمہ اللہ کا بیان ہے میں نے یہ ارادہ کیا کہ عکرمہ دنیا کے جس حصہ میں بھی ہوں گے ان سے جا کر ملوں گا۔ ایک دن بصرہ کے بازار میں مل گئےان کے گرد لوگوں کا ہجوم ہوگیا۔میں بھی قریب ہو گیا۔ لیکن ہجوم کی کثرت سے کچھ پوچھ نہ سکا۔یہ دیکھ کر میں ان کی سواری کے پہلو میں کھڑا ہو گیا لوگ ان سے جو کچھ پوچھتے تھے اور وہ جو جوابات دیتے تھے میں ان کو یاد کرتا جاتا تھا۔
سیرالصحابہ ج3ص192
ایک مرتبہ عکرمہ کے پاس لوگوں کا اتنا ہجوم ہوگیا کہ انہیں مجبور ہوکر چھت پر جانا پڑا۔
ابن سعد ج5ص213