شیخ التفسیرمولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
تذکرۃ الاکابر:
شیخ التفسیرمولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ
مولانا محمد زکریا پشاوری
پیدائش:
آپ کی پیدائش شہر بھوپال میں 12ربیع الثانی 1317ھ بمطابق 20 اگست 1899ء کو ہوئی آپ کا سلسلہ نسب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملتاہے اس طرح آپ صدیقی النسب ہیں آپ مثنوی مولانا روم کے ساتویں دفتر کے مولف مولانا مفتی الہی بخش کی اولاد میں ہیں۔آپ کے والد ماجد کا نام مولانا حافظ محمد اسماعیل کاندھلوی ہے۔
تعلیم وتربیت:
خاندانی روایات کے مطابق مولانا نے قرآن کریم حفظ کیا۔کاندھلہ میں قرآن کی تکمیل کے بعد آپ کے والد ماجد آپ کو تھانہ بھون لے گئے اور وہاں مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے مدرسہ اشرفیہ میں آپ نے درس نظامی کی ابتدائی کتب پڑھیں۔مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے علاوہ مولوی عبداللہ مولف تیسیر المنطق سے آپ نے کسب فیض کیا۔ مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے مدرسہ میں چونکہ صرف ابتدائی تعلیم کا اہتمام تھا اس لیے اعلیٰ تعلیم کے لیے مولانا نے آپ کو سہارنپور کے مدرسہ عربیہ مظاہر العلوم میں داخل کیا مظاہر العلوم میں آپ نے مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ،مولانا حافظ عبداللطیف رحمہ اللہ اور مولانا ثابت علی رحمہ اللہ جیسے جلیل القدر علماء سے استفادہ کیا اور 19برس کی عمر میں سند فراغت حاصل کی۔مظاہر العلوم سے فراغت کے بعد ذوق پیدا ہوا کہ دارالعلوم دیوبند میں بھی جو عالم اسلام کی مقتدر ہستیوں کا مرکز تھا دورہ حدیث کیا جائے۔چنانچہ مظاہر العلوم سے سند فراغ حاصل کرکے دوبارہ دورہ حدیث کیا اور مولاناعلامہ سید انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ،علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ،میاں اصغر حسین دیوبندی رحمہ اللہ اور مفتی عزیز الرحمان عثمانی رحمہ اللہ جیسے جلیل القدر محدثین کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔
تدریسی زندگی:
1338ھ 1931ء سے آپ کی تدریسی زندگی کا آغاز ہوا۔مفتی محمد کفایت اللہ رحمہ اللہ کے قائم کردہ مدرسہ امینیہ دہلی سے آپ نے تدریس شروع کی اور ایک سال بعد ہی ارباب دارالعلوم دیوبند نے آپ کو دیوبند تدریس کی دعوت دی۔ مولانا نے اس پیش کش کو قبول کیا اور دیوبند چلے گئے۔ دارالعلوم دیوبند میں تدریس کے سال اول ہی میں آپ نے فقہ کی اعلیٰ ترین کتاب الہدایہ ،ادب کی اہم کتاب مقامات حریری جیسی مشکل کتب پڑھائیں۔دارالعلوم دیوبند سے یہ تعلق تقریبا 9 سال رہا۔اس دوران نماز فجر کے بعد نودرہ میں درس دیتے جس میں دارالعلوم کے متوسط اور اعلیٰ درجات کے طلباء حتیٰ کہ بعض اساتذہ بھی شریک ہوتے اسی درس کی بناء پر آپ کو بیضاوی اور تفسیر ابن کثیر پڑھانے کی ذمہ داری بھی سونپی گئی۔1929ء میں دارالعلوم چھوڑ کر حیدر آباد دکن چلے گئے۔
حیدر آباد دکن میں قیام:
حیدر آباد دکن کا9 برس پر مشتمل قیام آپ کی زندگی میں اس اعتبار سے تاریخی ہے کہ وہاں قیام کے دوران آپ نے عظیم الشان کتاب التعلیق الصحیح علی مشکوٰۃ المصابیح تالیف کی۔حیدر آباد دکن میں قیام کے دوران دنیائے علم کے ایک عظیم کتب خانہ آصفیہ میں موجود بعض نادر مخطوطات سے استفادہ کیا جن میں تورپشتی کی المفاتیح شرح مصابیح اہم ہے جس سے آپ نے تعلیق میں استفادہ کیا اور بعض مقامات پر سیرۃ المصطفےٰ میں بھی حوالہ جات موجود ہیں حافظ تورپشتی کی یہ کتاب مصابیح کی ایک بلند پایہ شرح ہے۔جس کا مخطوطہ نسخہ دنیا میں صرف کتب خانہ آصفیہ میں موجود ہے۔
دارالعلوم دیوبند میں:
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ اورمہتمم حضرت مولانا قاری محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند ہوئے تو ان حضرات نے آپ کو بحیثیت شیخ التفسیر دارالعلوم آنے کی دعوت دی جو آپ نے قبول کرلی اور حیدر آباد دکن کے ڈھائی سو روپیہ مشاہرہ پر ستر روپے ماہانہ کی دارالعلوم کی تدریس کو ترجیح دی اور 1939ء میں دوبارہ دارالعلوم آ گئے دارالعلوم میں یہ قیام ہجرت پاکستان تک دس سال رہا اور وہاں آپ نے تفسیر بیضاوی ، تفسیر ابن کثیر،سنن ابی داود اور طحاوی کی مشکل الآثار جیسی اہم کتب پڑھائیں۔
پاکستان ہجرت:
مارچ 1940ء میں لاہور میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی اس کے بعد برصغیر میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ مملکت کے حصول کے لیے بھرپور تحریک شروع ہوگئی۔ آپ دو قومی نظریہ کے زبردست حامی تھے۔سیرۃ المصطفےٰ میں بھی جہاد کی بحث میں دو قومی نظریہ پر مدلل اور علمی گفتگو کی ہے۔1947ء میں پاکستان معرض وجود میں آیا مئی 1949ء میں مولانا نے پاکستان ہجرت کرنے کا ارادہ کرکے بادل ناخواستہ دارالعلوم دیوبند سے استعفیٰ دے دیا۔اس موقع پر آپ کو دارالعلوم آٹھ ہزاری،چاٹگام،مشرقی پاکستان[بنگلہ دیش]کی جانب بحیثیت شیخ الحدیث آنے کی دعوت دی گئی۔لیکن آپ نے مغربی پاکستان آنے کو ترجیح دی۔
جامعہ اشرفیہ لاہور سے تعلق:
1951ء کے اوائل میں مولانا جامعہ اشرفیہ کے سالانہ جلسہ میں تشریف لائے اور یہاں خطاب فرمایا ،مولانا مفتی محمد حسن کی نظر انتخاب نے مولانا کو جامعہ اشرفیہ کے شیخ الحدیث کے طور پر منتخب کرلیا۔ عمر عزیز کے آخری لمحات تک جامعہ اشرفیہ سے اپنا تعلق قائم رکھا۔
تصنیفی خدمات:
آپ کی معرکۃ الآراء تفسیر معارف القرآن اس پر شاہد عدل ہے اس کے علاوہ چند اور کتب کے نام جدول میں دیے جاتے ہیں۔
حجیت حدیث
الفتح السماوی بتوضیح تفسیر البیضاوی
مقدمۃ التفسیر
تحفۃ القاری بحل مشکلات البخاری
خلافت راشدہ
الکلام المفید الموثوق فی ان کلام اللہ غیرمخلوق
علم الکلام
التعلیق الصحیح علیٰ مشکوۃ المصابیح
عقائد اسلام
احسن الحدیث فی ابطال التثلیث
دستور اسلام
سیرۃ المصطفیٰ، وغیرہ
وفات حسرت آیات:
2اگست 1972ء کی شب اچانک ہچکیاں آنی شروع ہوگئیں۔16جولائی 1974ء کو شدید دورہ پڑا اور بےہوشی طاری ہوگئی لیکن جب افاقہ ہوا تو زبان پر کلمہ طیبہ جاری تھااور آیت إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ،تلاوت کرتے ہوئے دنیا فانی سے کوچ کر گئے۔ آپ کے بیٹے مولانا محمد مالک نے بعد نماز ظہر آپ کا جنازہ پڑھایا۔