فتاویٰ تاتار خانیہ

User Rating: 1 / 5

Star ActiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تعارف کتب فقہ
فتاویٰ تاتار خانیہ
مفتی محمد یوسف حفظہ اللہ
صاحب کتاب ایک نظر میں:
یہ بات خلاف حقیقت نہیں کہ فتاوی ٰ تاتار خانیہ جیسی ضخیم فقہی کتاب کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جائے کہ اس کے مصنف مختلف علوم وفنون میں ماہر اور نہایت پختہ عالم دین تھے اور ان کادائرۂعلم وفضل بہت وسیع تھا۔مگر افسوس وتعجب اس پر ہے کہ اتنے عظیم انسان کے تذکرے سے اکثر تاریخی وتاریخی کتابوں کا دامن خالی ہے۔البتہ چند ایک کتب میں فاضل مولف کا مختصر سا تعارف پیش کیا گیا ہے۔جس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
آپ کا اسم گرامی فرید الدین عالم بن علاء تھا مسلکاً حنفی تھے،”اندر پت “سے تعلق رکھتے تھے۔آپ اپنے وقت کے شیخ،امام اور بہت بڑے عالم دین تھے۔ فقہ،اصول فقہ اور عربی ادب میں آپ کو مہارت اور ملکہ تامہ حاصل تھا۔777ھ میں فتاویٰ تاتار خانیہ کی تصنیف سے فارغ ہوئے۔آپ کی وفات 786ھ میں ہوئی۔
[نزہۃ الخواطر ج2ص69،کشف الظنون ج1ص253]
سن وفات اور غلط فہمی کا ازالہ:
صحیح قول کے مطابق فاضل مصنف علامہ عالم بن علاء رحمہ اللہ کی رحلت 786ھ میں ہوئی۔مگر کشف الظنون کے مصنف علامہ مصطفےٰ المعروف حاجی خلیفہ [1067ھ]سے مصنف مرحوم کے سنِ وفات کے بارے غلطی واقع ہوگئی ہے۔ انہوں نے 786ھ کے بجائے سال وفات 286ھ تحریر کیا ہے۔
علامہ حاجی خلیفہ رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
یعنی” زاد المسافر “فقہ کےموضوع پر مشتمل ہے اور فتاویٰ تاتار خانیہ کے نام سے بہت مشہور ہے۔اس کے مصنف عالم بن علاء حنفی ہیں جن کی وفات سن286ھ میں ہوئی۔
کشف الظنون ج2ص4
درج بالا عبارت میں فاضل مؤلف کا سن وفات286ھ قرار دیا گیا ہے جو کہ درست نہیں۔کیونکہ فتاویٰ تاتار خانیہ فیروز شاہ تغلق کے دورحکومت میں لکھی گئی ہے اور فیروز شاہ تغلق مورخین کی تصریح کے مطابق آٹھویں صدی کا بادشاہ ہے۔
تاریخ فرشتہ ج1ص328،تاریخ ہندوستان ج2ص471
سن 786ھ کو 286ھ تحریر کرنا حاجی خلیفہ صاحب رحمہ اللہ کی تحریری لغزش ہے جو بھولے سے ان سے سرزد ہوئی۔ایسا کیوں ہوا؟اس کی وجہ علامہ لکھنوی رحمہ اللہ نے یہ بیان فرمائی ہے
”وانت تعلم ان ماذکرنا من سنۃ وفاتہ،لعلہ التبس علیہ عدد السبع بالاثنین لانہما متقاربان فی الشکل،فالمظنون انہ توفیٰ سنۃ ست وثمانین وسبع ومائۃ“
نزہۃ الخواطر ج2ص70
یعنی مصنف کے سال وفات کے بارے میں[ حاجی خلیفہ صاحب رحمہ اللہ] سبع [سات] اور اثنین[ دو ]کے عدد میں شبہ میں واقع ہوگئے۔کیونکہ یہ دونوں عدد شکل وصورت میں باہم ملتے جلتے ہیں۔ورنہ ظن غالب یہ ہے کہ ان کی وفات 786ھ میں ہوئی۔
امیرتاتار خان کا مختصر تعارف:
امیرتاتار خان مرحوم[جن کی فرمائش پر فتاویٰ تاتارخانیہ تحریر کیا گیا]بہت عمدہ اوصاف اور اچھے اخلاق کا مالک تھا۔علم وفضل سے مالامال،شجاعت و بہادری میں بےمثال اور سخاوت وفیاضی میں لاجواب تھا۔سفر وحضر ہر حالت میں شرعی احکامات پر عمل کرنے کا سخت اہتمام کرتا۔اللہ تعالیٰ کے معاملے میں مخلوق سے خوف زدہ ہوتا نہ ہی کسی کو خاطر میں لاتا۔بڑی سے بڑی شخصیت کو خلافِ شرع کام پر بلاجھجک ٹوک دیتاتھا۔امیر تاتار خان ابھی ایک دن کا بچہ تھا کہ سلطان غیاث الدین تغلق نے اس کو ایک جنگ میں گراہوا پایا اوراٹھالیا۔
بادشاہ تغلق نے اس خوش نصیب بچے کی بڑی شفقت ومحبت سےپرورش کی،اور اس میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ پدری شفقتوں سے بھی محرومی کا احساس نہ ہونے دیا۔چنانچہ اسی شاہی خاندان میں پرورش کا نتیجہ تھا کہ امیر تاتارخان بچپن ہی سے نڈر وبےباک نکلے،اپنے عہد شباب میں فن سپہ گری سے آراستہ ہوکر قائدانہ روپ میں میدان عمل میں اترے اور مختلف جنگوں میں اپنی خدا داد صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔امیر تاتارخان علم دوست انسان تھا۔اس لیے علماء وفضلاء حضرات کی تہہ دل سے قدردانی کرتا۔تفسیر تاتارخان جو نہایت جامع اور بہت سی کتابوں سے بےنیاز کردینے والی ہے،آپ کی کاوش کا نتیجہ ہے۔ [جاری ہے۔]