اسم ذات کی محبت

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
مجلس الشیخ:
اسم ذات کی محبت
ترتیب و عنوانات: مفتی شبیر احمد حنفی
5جولائی 2012ء بروز جمعرات حضرت الشیخ متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ نے خانقاہ اشرفیہ اختریہ مرکز اہل السنۃ و الجماعۃ 87 جنوبی سرگودھا میں منعقدہ ماہانہ مجلسِ ذکر سے خطاب فرمایا، جس میں ’’ اللہ کے نام کی محبت ‘‘ کے عنوان پر پُر اثرگفتگو فرمائی۔ بیان کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔
الحمد للہ وحدہ لا شریک لہ والصلوۃ و السلام علٰی من لا نبی بعدہ اما بعد فَاَعُوْذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ:
وَالَّذِيْنَ آمَنُوْا أَشَدُّ حُبًّا لِلّهِ .
سورۃ البقرۃ:165
و قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ حُبَّكَ أَحَبَّ الْأَشْيَآءِ إِلَيَّ.
کنز العمال، رقم الحدیث 3648
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔
محبت انسان کی فطرت ہے
دنیا میں ہر وہ شخص جس کو اللہ رب العزت نے دل عطا فرمایا ہے وہ بندہ دنیا میں محبت بھی کرتا ہے۔ اللہ رب العزت نے جس انسان کو دل دیا ہے اس کے دل میں محبت بھی رکھی ہے۔ انسان محبت اپنی ماں سے بھی کرتا ہے اس نے جنا ہے، ماں کا حق ہے۔ اپنے والد سے بھی کرتا ہے، والد نے تربیت کی ہے، باپ کا حق ہے۔ اپنے استاذ سے محبت کرتا ہے استاذ نے اس کو حیوانیت سے انسانیت سکھائی ہے استاذ کا حق ہے۔ اپنی اولاد سے محبت کرتا ہے، اولاد اس کے جسم کا حصہ ہے۔ آدمی اپنے اعضاء سے پیار کرتا ہے انہی اعضاء کا نام انسان ہے۔
آدمی اپنی دولت سے پیار کرتا ہے اور شریعت نے دولت سے پیار کرنے سے منع نہیں فرمایا بلکہ اللہ نے جو انسانی فطرت بیان کی ہے اس میں ﴿وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ﴾[اور وہ مال کی محبت میں بہت پکا ہے] اللہ نے یہاں مال کو ”خیر“ فرمایا ہے۔اللہ نےدولت کو کیا فرمایا؟ خیر! معلوم ہوا دولت ”شر“ نہیں ہے،دولت کاغلط استعمال یہ ”شر“ ہے۔ دولت شر نہیں ہے، مال شر نہیں ہے بلکہ مال کا غلط استعمال شر ہے۔ اگر ایک بندے کے پاس قرآن کی دولت ہے، تو قرآن تو خیر ہے لیکن اس قرآن کے ذریعے دنیا کماتا ہے پھر قرآن خیر نہیں اس بندے کےلیے شر ہے۔ اللہ کا نام لینا بہت بڑا کام ہے اللہ کا نام لے کر اس کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنائے تو پھر خدا کا نام لینا اس کے لیے خیر نہیں یہ شر ہے۔
میں یہ بات سمجھا رہا تھا کہ قرآن کریم نے دولت کو کیا فرمایا؟ خیر!، اگر آپ کے پاس دولت نہیں ہے تو بتائیں لباس کیسے ہو گا، جوتی کیسے ہو گی، مکان کیسے ہو گا، خوراک کیسے ہو گی؟ یہ سارے اسباب اللہ نے بندے کو عطا فرمائے اور قرآن کریم میں ہے: ﴿إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ﴾ اگر کوئی بندہ مرے اور ”خیر“ چھوڑ کر مرے تو وصیت بھی کر سکتا ہے، یہاں بھی اللہ نے دولت کو کیا فرمایا ؟خیر!
میں بات یہ سمجھا رہا تھا کہ دولت سے محبت انسان کی فطرت ہے، اولاد سے محبت انسان کی فطرت ہے، والدین سے محبت انسان کی فطرت ہے، اپنےمکان کی محبت انسان کی فطرت ہے۔
وطن تو وطن ہے:
حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکہ سے مدینہ منورہ آئےہیں اور مکہ مکرمہ میں ان پر ظلم ہوتا ہے، مکہ مکرمہ میں مار پڑتی ہے مکہ مکرمہ میں ان کو تپتی تپتی ریت پر لٹایا جاتا ہے مکہ میں کافر ان پر ظلم کرتے لیکن مکہ سے مدینہ منورہ آئے ہیں احادیث میں حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکہ کی گھا س کا نام لے کر تذکرہ کرتے، کبھی مکہ کی پہاڑیوں کا ذکر کرتے،کیوں؟ وطن تھا ناں! تو وطن تو یاد آتا ہے۔ باوجود اس کے کہ مکہ مکرمہ میں مار پڑی ہے مدینہ میں سہولتیں ملی ہیں، مکہ میں غلام تھے مدینہ میں آقا بن کر زندگی گزارتے۔ خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
ھذا سیدنا بلال
مستدرک حاکم، رقم الحدیث 5240
کہ بلال ہمارا سردار ہے۔ یہ خوشیاں بھی ملی ہیں لیکن مکہ پھر بھی دل سے بھولتا نہیں ہےکیونکہ وطن جو ہے۔ یہ انسانی فطرت ہےکہ انسان امریکہ جائے، کینیڈا جائے، انگلینڈ جائے دنیا میں کسی بھی جگہ پر چلا جائے لیکن اپنی آبائی جگہ پر جولطف آتا ہے، وہ دنیا کے بڑے بڑے محلات میں بھی نہیں آتا۔ یہ انسانی فطرت ہے۔
اللہ کی محبت پر سب محبتیں قربان
دولت سے محبت فطرت ہے، اولاد سے محبت فطرت ہے، ماں باپ سے محبت فطرت ہے، اپنے مکان سےمحبت فطرت ہے اور اچھی خوبصورت چیز سے محبت انسانی فطرت ہے۔مگر اللہ کیا فرماتے ہیں؟ شریعت کی منشاء کیا ہے ؟
وَالَّذِيْنَ آمَنُوْا أَشَدُّ حُبًّا لِلّهِ
سورۃ البقرۃ:165
اس آیت کو سمجھیں: ﴿وَالَّذِيْنَ آمَنُوْا أَشَدُّ حُبًّا لِلّهِ ﴾ [اور جو لوگ ایمان لا چکے ہیں وہ اللہ ہی سے سب سے زیادہ محبت رکھتے ہیں]فرمایا۔ یہ مومن کی صفت ہے کہ محبت ماں سے بھی کرتا ہےمگر اللہ کی نسبت کم کرتا ہے۔ یہ باپ سے محبت کرتا ہے لیکن جو خدا سے محبت ہے اس سے کم کرتا ہے۔ اولاد سے محبت کرتا ہے لیکں جو خدا سے محبت ہے اس سے کم کرتا ہےدولت سے محبت کرتا ہے لیکن جو خدا سے محبت ہے اس سے کم کرتا ہے۔ کیا معنی؟ دولت سے پیار کرنا چاہیے لیکن اگر دولت کا پیار اور شریعت کا پیار آ جائے تو دولت کو چھوڑ کر خدا سے پیار کرے۔ والدین سے پیار کرنا چاہیے، جب شریعت اور والدین آ جائیں پھر والدین کے بجائے شریعت ہے۔ اولاد سے پیار ہونا چاہیے، اگر اولاد اور خدا آ جائیں پھر اولاد نہیں پھر خدا ہے، پھر اولاد نہیں پھر پیغمبر ہے۔
میں بات کیا سمجھا رہا تھا کہ شریعت نے محبت سے منع نہیں فرمایا۔ کیسے بہترین الفاظ قرآن نے دیے ہیں، فرمایا:
﴿وَالَّذِيْنَ آمَنُوْا أَشَدُّ حُبًّا لِلّهِ ﴾۔
ایمان والے وہ نہیں ہیں جو دولت سے پیار نہیں کرتے، ایمان والے وہ نہیں ہیں جو مکان سے پیار نہیں کرتے، ایمان والے وہ نہیں ہیں جو اولاد سے پیار نہیں کرتے، ایمان والے وہ نہیں ہیں جو رشتہ داروں سے پیار نہیں کرتے۔ ناں ناں بلکہ رشتہ دار تو نعمت ہیں اور اتنی بڑی اتنی بڑی نعمت ہیں کہ آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ حضرت لوط علیہ السلام اللہ نبی ہیں، آپ کی قوم نےجب آپ کو بستی سےنکالنے کا فیصلہ کیا تو آپ نے فرمایا:
لَوْ أَنَّ لِيْ بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِيْ إِلٰى رُكْنٍ شَدِيْدٍ
سورۃ ھود، 80
اے کاش آج میرے پاس طاقت ہوتی یا کوئی میرا خاندان مضبوط ہوتا تو تم یہ جرأت کبھی نہ کرتے جو آج تم نے میرےساتھ کی ہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم ان کو ان کے قبیلے کی وجہ سے کچھ کہہ نہ سکی، الفاط دیکھیں:
وَلَوْلَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنَاكَ
سورۃ ھود، 91
کہ اے شعیب !اگر تیرا قبیلہ نہ ہوتا تو ہم تجھے پتھر مار مار کر مار ڈالتے۔
تو شعیب علیہ السلام نے فرمایا :
يَا قَوْمِ أَرَهْطِي أَعَزُّ عَلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ
سورۃ ھود، 92
کہ تم خدا سے نہیں ڈرتے میری برادری سے ڈرتے ہو؟ میری قوم سے ڈرتے ہو؟ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اہل و عیال اور قوم سے کتنا پیار تھا، اہل بیت سے کتنی محبت تھی؟ قرآن کریم میں ہے:
لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى
سورۃ الشوری، 23
حضور نے کتنی تڑپ سے فرمایا ہو گا! فرمایا: مکہ والو! تم مجھے مال تو نہ دو، مال نہیں مانگتا، دولت تو نہیں مانگتا اس بات کی حیا کرو میں تمہارا رشتہ دار ہوں، میں تمہاری برادری ہوں، تمہارے خاندان کا بندہ ہوں، اپنے خاندان ہونےکا تو حیا کر لو۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے غمزدہ لہجے میں جملہ فرمایا ہو گاکہ میں تمہارا رشتہ دار ہوں۔
خیر میں یہ بات سمجھا رہا تھا کہ مومن وہ نہیں جو اولاد سے پیار نہ کرے بلکہ میں کہتا ہوں خدا قسم کافر اتنا اولاد سے پیار نہیں کرتا جتنا مومن کرتا ہے۔ مومن وہ نہیں ہے جو دولت سے پیار نہ کرے، کافر دولت سے پیار کم کرتا ہے مومن زیادہ کرتا ہے۔لیکن شریعت کی منشا کیا ہے کہ دولت سے پیار کرو لیکن جب اللہ کا حکم آ جائے تو دولت کی محبت کو خدا کی محبت پر قربان کردو۔ قرآن کریم میں ہے:
وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهِ مِسْكِيْنًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا
سورۃ الدھر، 8
قرآن نے مومنین کی تعریف کیا فرمائی ہے: ﴿ وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا﴾۔ مومن کون ہے؟! اللہ کی محبت ہوتی ہے تو پھر مال مسکین کو بھی دیتے ہیں، یتیم کو بھی دیتے ہیں، قیدی کو بھی دیتے ہیں۔ اور بعض مفسرین علماء نے کہا ہے " وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهِ ای علی حب المال"باوجود اس کے کہ ان کو مال سے پیار ہے لیکن اپنا مال پھر بھی کبھی قیدی کو دیتے ہیں کبھی یتیم کو دیتے ہیں کبھی مسکین کو دیتےہیں۔
یہ بات سمجھنا! کہ اگر بندے کو دولت سے پیار ہی نہ ہو تو دولت اللہ کے راستے میں دینے پر اجر کیوں ملے گا؟ بتائیں، کیوں اجر ملے گا؟ اگر کسی بندے کو دولت سے پیار ہی نہیں ہے تو دولت دینے پر اجر کیسے ملے گا؟ اسی لیے اجر ملے گا کہ پیار ہے۔ ایک بندے کا بیٹا فوت ہوتا ہے اب بیٹے سے محبت تو ہے اگر بیٹے سے محبت ہی نہ ہوتی تو جانے پر صدمہ کیسے ہوتا؟ اب چونکہ محبت ہے صدمہ ہوا ہے اس صدمہ پر برداشت کرے گا تو اللہ اس برداشت کرنے پر بھی جنت عطا فرمائیں گے۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس نے محبت کے باوجود برداشت جو کیا ہے۔
کھا لیں، ہم نے تو پھینک ہی دینا ہے!
اصل نیکی تو یہ ہے کہ محبوب مال خرچ کریں، اورجو چیز ردی ہو، آپ کے مطلب کی نہ ہو اس کو باہر پھینک دیں۔ میں ایک مرتبہ1993ء کی بات ہے نیروبی افریقہ میں سفرپر تھا، ایک شہر ہے ممباسا، وہاں ایک گھر میں میری دعوت تھی۔ اب تو وہ میزبان فوت ہو گیا اس کا نام تھا ”شیخ سراج“۔ رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کی طرف سے مبعوث تھے وہاں نیروبی میں۔ خیر ممباسا میں انہوں نے ایک پھل رکھا کہ یہ پھل کھائیں۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس پھل کا نام مونکی فروٹ ہے، خیر، رکھا؛ جی کھا لیں! اب مجھے پھل پسند نہیں آیا۔ ان کا ایک بیٹا تھا جس کا دماغ تھوڑا تھا، عقل اس کی تھوڑی تھی ، شیخ سراج صاحب کہتے ہیں: مولانا! کھائیں میں نے کہا جی نہیں، جزاک اللہ، تو بیٹا کہتا ہے: مولانا صاحب! کھا ہی لیں، ہم نےتو پھینک ہی دینا ہے۔ بیٹا کیا کہتا ہے کہ کھا لیں ہم نےتو پھینک ہی دینا ہے۔تو ویسے تو مجھ سے پیار کرتا تھا، لیکن عقل کم تھی ناں، اب وہ بڑی محبت میں مجھے کہہ رہا ہے کہ آپ کھا لیں ورنہ ہم نے تو پھینک ہی دینا ہے۔ باپ نے اس کو بہت ڈانٹا کہ پاگل کیسی بات کرتا ہے۔
محبوب مال خرچ کریں
اب جو بات میں سمجھا رہا ہوں کہ جو چیز آپ نے پھینکنی ہے وہ کسی کو دیں اس پر کیا اجر ہو گا؟ اس میں کیا ثواب ملنا ہے؟ قرآن کریم میں کیا ہے:
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ
سورۃ آل عمران، 92
دیکھو نیکی اس کانام ہے جو تم کو پسند ہے وہ خرچ کرو، جس سے محبت ہے وہ خرچ کرو، اب مال خرچ کرنا چاہیے ناں؟ جب یہ آیت اتری تو حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ آئے، انہوں نے کہا یا رسول اللہ! ، صحابی رضی اللہ عنہ کا مزاج دیکھو! فرماتے ہیں: اللہ کے نبی! یہ میرا باغ ہے، یہ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے ، اسے میں اللہ کے راستے میں دیتا ہوں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا سارا باغ؟ کہا: جی سارا باغ اللہ آپ کو مسجد نبوی دکھائے، مدینہ منورہ لے جائے۔ مسجد نبوی میں باب عبدالمجید سے داخل ہوں تو بائیں طرف جہاں صفیں شروع ہوتی ہیں وہاں تین نشان لگے ہیں، لیکن اس کے اوپر قالین بچھے ہیں۔ کبھی آپ جائیں میں فون نمبر دوں گا کہ بھائی فلاں بندے کو مدینہ منورہ ملیں۔ وہ پوری مسجد کی جگہیں آپ کو اندر سے دکھائیں گے۔ تو قالین اٹھائیں تو اس کے نیچے تین نشان لگے ہیں، یہ کنوئیں تھے جو حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے باغ کے اندر تھے۔ یہ باغ تھا انہوں نے کہا: حضور! میں پورا باغ وقف کرتا ہوں، کیوں؟ کہ مجھے یہ بہت پسند ہے اور بعض روایات میں یوں بھی ہے کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے کہ باغ میں ایک چڑیا اڑی اور باغ میں پھنس گئی، اس کو دیکھ رہے تھے تو بعد میں خیال آیا کہ اس باغ کی وجہ سے میری نماز میں خلل آیا ہے، تو کہا کہ حضور! میں پورا باغ صدقہ کرتا ہوں۔
اب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج سن لیں۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ سارا باغ؟ تو کہا: جی سارا باغ۔ تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یوں نہ کرو، تم کسی اور کو دینے کی بجائے اپنے رشتہ داروں کو دے دو۔ کیوں؟ کہ جب تم رشتہ دار کو دو گے تو تمہیں دوہرا اجر ملے گا؛ صدقہ کا بھی اور صلہ رحمی کا بھی۔ اس لیے فقہاء نے مسئلہ لکھا ہے کہ اگر آپ کے رشتہ داروں میں کوئی مستحق ہو تو پہلے زکوٰۃ اسے دو، پہلے صدقہ اپنے گھر میں دو، پھر صدقہ رشتہ داروں میں جوقریب ہیں ان کودو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک ارشاد فرمایا :
حتى ما تجعل في في امرأتك
مؤطا امام محمد، رقم الحدیث 735
کوئی بندہ اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالتا ہے تو یہ بھی صدقہ ہے۔اور یہ بھی ارشادفرمایا:
ولو أن تلقى أخاك بوجه طلق
صحیح ابن حبان، رقم الحدیث523
کوئی بندہ اپنے بھائی کو ہنس کرملتا ہےتو یہ بھی صدقہ ہے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی سہولتیں عطا فرمائی ہیں کہ بندہ بولے، مسکرا کرملے یہ بھی صدقہ ہے لیکن دل میں بغض نہ ہو پھر دیکھیں اس پر اللہ کیا عطا فرماتے ہیں۔ دو مسلمان بھائی آپس میں ہاتھ ملائیں، ان کے ہاتھ الگ نہیں ہوتے کہ اللہ ان کے سارے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔
جامع الترمذی: رقم الحدیث 2651
لیکن محض مروت سے سلام نہ ہو کہ میں سلام نہ کروں تو یہ بندہ محسوس کرے گا، چلو مل ہی لیں۔ دیکھیں! یوں نہ کریں، اللہ اور اللہ کے پیغمبر کی رضاکے لیے سلام کیا کریں۔
خیر میں عرض یہ کر رہا تھا کہ مال سے محبت کرنا کوئی برا ہے؟ بولیے [نہیں، سامعین]، اولاد سے محبت؟[نہیں، سامعین] لیکن بات یہ ہے کہ اولاد سے محبت کرو، جب اللہ اولاد مانگے تو دے دو، اللہ اولاد مانگے تو دے دو۔
ایک صحابیہ تھیں، حضور کی خدمت میں آئیں اور عرض کرنے لگیں: حضور! میرے بچے کو لے لیں، فرمایا: اس کو لے کرکیا کریں گے؟ انہوں نے عرض کی: اللہ کے نبی! آپ کے صحابہ جہاد میں جائیں گےتو کسی کے پاس اگر دشمن کی تلوار روکنے کے لیے ڈھال نہ ہو تو میرا بیٹا دے دیں، تلوار آئے گی میرا بیٹا کٹ جائے گا تمہارا صحابی بچ جائے گا۔ اب دیکھو بیٹا دیا ناں!
نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ آئے ہیں۔ ام سلیم رضی اللہ عنہانے کہا :حضور ! لوگوں نے آپ کی خدمت میں ہدیے پیش کیے ہیں، غریب عورت ہوں میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے، یہ میرا انس آپ لے لیں، یہ میرا انس لے لیں ، یہ آپ کی خدمت کرے گا۔ یہ بات آج کسی کو سمجھ نہیں آتی۔
خدمت اور عقیدت سے سب ملتا ہے
میں تخصص کے طلبہ سے بھی کہتا ہوں کہ پڑھو !پڑھو! بڑے شوق سے پڑھو! لیکن جو خدمت سے ملنا ہے وہ پڑھنے سے نہیں ملنا۔ اللہ کی قسم جو عقیدت سے ملنا ہے وہ پڑھنے سے نہیں ملنا۔ یہ بات میں کیسے سمجھاؤں؟! عقیدت سے جو ملتا ہے ویسے نہیں ملتا۔ مجھے ایک عالم بتا رہے تھے، حضرت مولانا حسن عباسی دامت برکاتہم، مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کے آخری خلیفہ، ”شاہ پور“ جگہ کانام ہے سانگھڑ ضلع میں، میں دو تین مرتبہ ان کی خدمت میں گیا ہوں ،میں نے ان کی زیارت کی ہے۔
کسی نے بتایا کہ وہ بیعت تھے حضرت احمد لاہوری سے، رات کو شیراں والا باغ تشریف لائے تو مولانا لاہوری نے فرمایا کہ تم یہاں ٹھہرو میں آتا ہ۔ حضرت لاہوری گھر گئے تو بھول گئے۔ صبح فجر کی نماز کے لیے نکلے تو مولانا باہر کھڑے تھے۔حضرت نے فرمایا: تم سوئے نہیں؟ تو انہوں نے کہا: آپ نے فرمایا تھا کہ تم ٹھہرو میں آتا ہوں، تو میں کیسے سوتا؟حضرت لاہوی نے کہا: تم بیٹھے کیوں نہیں؟ انہوں نے کہا کہ آپ نے فرمایا تھا کھڑے رہو، تو میں بیٹھتا کیسے؟ اب کوئی بندہ سوچ سکتا ہے پوری رات کھڑے رہے کہ میرے شیخ نے فرمایا ہے کہ تم کھڑے رہو میں آتا ہوں۔ اب بتاؤ فیض کیسے نہیں ملے گا؟ میں نے آپ سے گزارش کی ہے کہ بندہ گناہ چھوڑ دے، اذکار کم کرے، جو عقیدت سے ملتا ہے کسی اور چیز سے قطعاً نہیں ملتا، آپ یقین فرمالیں۔
بس مجھے دیکھتے رہو!
میں نے آپ کو بتایا تھا کہ کراچی کے ایک لڑکے نے مجھے خط لکھا۔ مجھے اس نے کہا کہ میرےاندر مرض ہے ،میں لڑکوں کو دیکھتا ہوں، لڑکوں سے پیار کرتا ہوں، اس کا علاج بتائیں۔ میں نے کہا :تم یہاں میرے پاس سرگودھا آؤ، آ گیا، کہتاہے: جی کیا کروں؟ میں نے کہا: تم کچھ بھی نا کرو، بس فرض نمازیں پڑھو اورایک ہفتہ یہاں بیٹھ کر بس مجھے دیکھتے رہواور تمہیں کچھ بھی نہیں کرنا۔ بس مجھے آتے جاتے دیکھتے رہو۔ ہفتہ بعد چلا گیا، کہتا ہے: اس کی برکت سے میرا یہ مرض ختم ہو گیا۔
میں- اللہ کی قسم- کیسے تمہیں کیسے بتاؤں کہ عقیدت سے کیا چیز ملتی ہے۔ عقیدت سے بہت کچھ ملتا ہے۔ خیر میں آپ سے عرض کر رہا تھا کہ اولاد سے محبت کریں، لیکن اللہ جب اولاد مانگے تو اولاد اللہ کے لیے پیش کر دیں، مال سے محبت کریں لیکن جب اللہ مانگ لے بس پھر دے دیں، پھر مت روکیں۔
">﴿وَالَّذِيْنَ آمَنُوْا أَشَدُّ حُبًّا لِلّه﴾

اللہ نے ایمان والوں کی صفت کیا بتائی ہےکہ اللہ سے بہت پیار کرتے ہیں، اللہ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ مخلوق سے کرتے ہیں لیکن جب اللہ آ جائے تو سب کچھ چھوڑ دیتے ہیں۔

کشتی سمندر میں چلتی ہے، کشتی پانی میں ہو فرق نہیں پڑتا لیکن جب کشتی میں پانی داخل ہو جائے تو کشتی ڈوب جاتی ہے۔ پیار ہونا چاہیے دل میں داخل نہ ہو، دل میں اللہ کا پیار ہو، باقی محبتیں ضرورت کی ہوں، اللہ کی قسم بندہ کبھی ناکام نہیں ہوگا۔
میں آخری بات کہتا ہوں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.
اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ حُبَّكَ أَحَبَّ الْأَشْيَآءِ إِلَيَّ.
کنز العمال، رقم الحدیث 3648
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےاس دعا میں یہ نہیں فرمایا کہ مجھے دنیا کی چیزوں سے محبت نہیں، بلکہ فرمایا: اے اللہ! دنیا کی چیزوں سے مجھے پیار ہے لیکن اپنی محبت ان سب پر غالب فرما دے، اپنی محبت ان سب پر غالب فرما دے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اوردعا بھی مانگی ہے:
اللَّهُمَّ إنِّي أسْألُكَ حُبَّكَ ، وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ ، وَالعَمَلَ الَّذِي يُبَلِّغُنِي حُبَّكَ
جامع الترمذی: 3490
اللہ میں تجھ سےتیری محبت بھی مانگتا ہوں ،اللہ ان کی محبت بھی مانگتا ہوں جو تجھ سے پیار کریں، اللہ وہ عمل بھی مانگتا ہوں جو تیری محبت کے قریب کر دے۔
پھر فرمایا:
اللَّهُمَّ اجْعَلْ حُبَّكَ أحَبَّ إلَيَّ مِنْ نَفْسِي ، وأهْلِي ، وَمِنَ الماءِ البارِدِ
جامع الترمذی: 3490
اللہ مجھے اپنی جان سے پیار ہے لیکن اپنا پیار مجھے میری جان سے زیادہ دے دے، اللہ مجھے گھر والوں سے محبت ہے لیکن اپنی محبت گھر والوں کی محبت سے زیادہ دے دے، اے اللہ سخت گرمی کے موسم میں ٹھنڈا پانی مجھے بہت محبوب ہے لیکن اپنی محبت مجھےٹھنڈے پانی سے زیادہ دے دے۔
اللہ کی محبت کیسے ملے گی؟
ہمارے شیخ حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم نے عجیب بات فرمائی ہے، فرمایا :حضور صلی اللہ علیہ و سلم نےکتنی چیزیں مانگیں؟ [۱] اللہ تیری محبت مانگتا ہوں، [۲] اولیاء کی محبت مانگتا ہوں اور [۳] اچھے عمل کی محبت مانگتا ہوں۔ اصل تو محبت اللہ کی ہے اور اللہ کی محبت ملتی ہے اچھے اعمال سے۔ یہ درمیان میں ”اولیاء“ کو کیوں لائے ہیں؟ فرمایا: اس لیے کہ محبت اللہ کی چاہیے اور اللہ کی محبت اچھے اعمال سے ملتی ہے اور اچھا عمل اللہ کے ولی کی صحبت سے ملتا ہے، اور میں خدا کی قسم کھا کر یہ بات کہتا ہوں آدمی جو صحبت سے بنتا ہے کسی اور چیز سے نہیں بنتا۔
لیکن صحبت بھی عقیدت سے ہو، عقیدت نہیں ہو گی تو ہزاروں سال پڑا رہے ذرہ بھی نفع نہیں ہوگا۔ عقیدت ہو گی تو ایک منٹ میں آئے گا اور بہت کچھ پا جائے گا۔ ابوجہل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہے عقیدت نہیں تھی تو اس ظالم کو کچھ نہیں ملا اور ایک صحابی حضرت اصیرم بن الاشہل رضی اللہ عنہ لمحہ بھر کے لیے آیا ہے، ایک نماز بھی نہیں پڑھی، اللہ کے راستے میں جان دی، پوری امت کی اربوں نمازیں ایک طرف ہو جائیں تو اس ایک کے برابر بھی نہیں کیونکہ وہ عقیدت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آکر صحابی بنا۔ اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
اولیا کے وجود کی برکت
ملا علی قاری فرماتے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں ایک حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
فإن عند ذكرهم تنزل الرحمة فضلا عن وجودهم وحضورهم
مرقاۃ المفاتیح، ج8 ص 300
اولیاء اللہ کا نام لیں تو خدا کی رحمت برستی ہے، "فضلا عن وجودہم وحضورھم" جہاں ولی خود رہتا ہو گا وہاں کتنی رحمت برستی ہو گی؟ جن کے نام لینے سے رحمتیں آتی ہیں جہاں وہ ولی خود رہتا ہو گا وہاں کتنی رحمت برستی ہوں گی؟ بھائی یہ دعا فرمائیں کہ اللہ ہم پر اپنی محبت غالب فرمائیں۔ اللہ اپنی محبت غالب فرما دے اللہ، اللہ اپنی محبت غالب فرما دے، اللہ اپنی محبت غالب فرما دے، پھر چاہے دنیا سےپیار ہے کوئی مسئلہ نہیں، جب اللہ کی محبت غالب ہو، اور دنیا چھوڑ کر بندہ مرے تو دل پریشان نہیں ہوتا، دل پریشان نہیں ہوتا ،کیوں؟ کہ اب ”حَبِیْب“ سے ”اَحَبّ“ کی طرف جا رہا ہے، ادھر پاکستان میں پیسے ہیں بڑا پیار ہے لیکن ڈالر زیادہ پیارے ہیں نا، اگرکوئی تمہیں کہے کہ سو روپیہ نہیں سو ڈالر دیں گے تو بندہ فوراً امریکہ جائے گا، کیوں؟ حبیب سے احب بلا رہا ہے۔ تمہاری تنخواہ یہاں دس ہزار ہے، سعودی عرب تمہیں پانچ ہزار ریال دیں گے فوراً جائے گا، کیوں؟ پاکستانی پیسے کی بنسبت ریال سے زیادہ پیار ہے۔ بالکل اسی طرح اللہ کی محبت زیادہ ہوگی تو پھر مرتے وقت بیوی کو چھوڑنا مشکل نہیں ہے، اولاد کو چھوڑنا مشکل نہیں ہے، مکان کو چھوڑنا مشکل نہیں ،ہے کیوں؟ اب وہاں جا رہا ہے جس سے محبت سب سے زیادہ ہے، جس سے محبت سب سے زیادہ ہے۔
دعا کریں اللہ ہمیں اپنے نام کی لذت عطا فرمائے،اللہ ہمیں اپنے نام کی محبت عطا فرمائے، اولیاء کی محبت نصیب فرمائے اور نیک اعمال کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین