شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
تذکرۃ الاکابر:
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ
مولانا محمدارشد سجاد حفظہ اللہ
برکۃ العصر شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندہلوی رحمہ اللہ کی ذات گرامی عالم اسلام کی عظیم شخصیت ہیں۔ آپ قرآن وسنت کے ماہر، علم حدیث کے زبردست فاضل اور اپنے دور کے بہت بڑے عالم اور ولی تھے۔
عرصہ دراز تک درس حدیث میں مشغول رہے۔ آپ کو یہ سعادت حاصل ہے کہ جب بھی لفظِ”شیخ الحدیث“ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد آپ کی ذات گرامی ہوتی ہے۔ آپ بیک وقت محدث، مفسر،فقیہ،مصنف،عالم باعمل اور مورخ اسلام ہونے کے ساتھ ساتھ راہ سلوک میں بھی بلند مقام رکھتے تھے۔
ولادت باسعادت:
آپ رحمہ اللہ 11رمضان المبارک 1315ھ کو عالم دنیا میں رونق افروز ہوئے۔ اڑھائی سال کی عمر میں اپنے والد گرامی کے ساتھ گنگوہ میں حاضری نصیب ہوئی۔ آٹھ سال کی عمر تک قطب الاقطاب حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ کی بابرکت مجلس اور نظر شفقت میں نشو ونما پائی۔ آپ کی ابتدائی تعلیم بھی سات سال کی عمر میں گنگوہ میں ہی شروع ہوئی۔
تعلیم وتربیت:
حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے حفظ القرآن کے بعد فارسی اور ابتدائی عربی تعلیم اپنے چچا مولانا محمد الیاس صاحب سے حاصل کی اور منطق کی چند کتب سلم، میبذی ، میرزاہد اور امور عامہ مولانا عبدالوحید سے پڑھیں۔ ادب وفقہ اپنے والد ماجد حضرت مولانا محمد یحییٰ کاندھلوی رحمہ اللہ سے، حدیث شریف اپنے والد ماجد اور فخر المحدثین حضرت مولانا علامہ خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ اور علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ سے پڑھی۔تعلیمی سلسلہ 1328ھ تک گنگوہ ہی میں رہا۔ 1333ھ میں حدیث کے علاوہ تمام کتب سے فراغت حاصل کی۔ جب شوال میں حضرت سہارنپوری رحمہ اللہ نے حجاز کا قصد کیا تو دورہ حدیث اپنے والد گرامی سے پورا کیا۔
پھر1334ھ میں دوبارہ بخاری شریف اور ترمذی شریف حضرت علامہ خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ سے پڑھ کر مدرسہ مظاہر العلوم سے ہی سند فراغت حاصل کی۔
مشکوٰۃ شریف پڑھنے کا انوکھا طرز:
حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ اپنے والد ماجد سے مشکوٰۃ شریف پڑھنے کا حال خود تحریر فرماتے ہیں:قانونِ تعلیم یہ تھا کہ ہر حدیث کے بعد یہ بتانا ضروری تھا کہ حنفیہ کے موافق ہے یا خلاف ہے، اگر خلاف ہے تو حنفیہ کی دلیل اور حدیثِ پاک کا جواب، یہ تمام گویا حدیث کا جزوِ لازم تھا جو میرے ذمہ تھا۔ اپنی دلیل نہ بتانا تو یاد نہیں اس لیے کہ ہدایہ اور اس کی شروح اور حواشی اور فقہ کی دوسری کتابیں دیکھنے کی نوبت کثرت سے آتی رہتی تھی، البتہ حدیث کا جواب کبھی کبھی نہیں دے سکتا تھا تو وہ خود بتاتے تھے
[آپ بیتی ج2ص36]
تعلیمی انہماک:
تحصیل علم میں انہماک اور مطالعہ کتب کے ذوق اور اشتغال کا بخوبی اندازہ درج ذیل واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے۔حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں:ایک مرتبہ میرا نیا جوتا اٹھ گیا تھا، تو جہاں تک یاد ہے چھ ماہ تک دوسرا جوتا خریدنے کی نوبت نہیں آئی، اس لیے کہ جمعہ بھی مدرسہ قدیم میں ہوتا تھا اور دار الطلبہ بھی اس وقت تک نہیں بنا تھا اور بیت الخلاء میں بوسیدہ جوتے پڑا رہا کرتے تھے، اس لیے مجھے چھ ماہ تک باہر نکلنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔
آپ بیتی: ج1ص273 ،274
تدریسی خدمات:
تحصیلِ علم سے فراغت کے بعد 1335ھ میں جامعہ مظاہر العلوم سہارنپور میں حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کا بطور مدرس تقرر ہوا اور ابتدائی تدریسی زمانہ میں مختلف علوم وفنون کی کتابیں پڑھانے کا موقع ملا۔ آپ کو جس طرح تحصیل علم کے زمانہ میں مطالعہ کتب میں انہماک واشتغال رہا تھا اسی طرح تدریسی زمانہ میں بھی بڑے انہماک اور محنت کے ساتھ سبق پڑھانے کی تیاری فرماتے حتی کہ بعض ایسی کتابیں بھی پڑھائیں جو سبقاً سبقاً خود نہیں پڑھی تھیں۔
یوں تو حضرت کو چھوٹی بڑی سب کتابوں کے پڑھانے کا موقع ملا ہے لیکن حدیث کے ساتھ خاص شغف تھا۔ چنانچہ آپ رحمہ اللہ نے چھیالیس سال تک حدیث شریف کا درس دیا، جس میں خصوصیت سے بخاری شریف اور ابوداؤد شریف زیر درس رہیں۔چنانچہ آپ رحمہ اللہ نے بخاری جلد اول پچیس مرتبہ، دونوں جلدیں سولہ مرتبہ اور ابوداود شریف تیس مرتبہ پڑھائی۔ ان کے علاوہ کتب حدیث میں سے مشکوٰۃ شریف،سنن نسائی اور موطا امام محمد بھی زیردرس رہیں۔
تدریس کی مقبولیت:
آپ رحمہ اللہ کو رب تعالیٰ نے علم حدیث میں مہارت تامہ عطا کر رکھی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں تشنگان علم دور دراز ممالک سعودیہ ،افریقہ، انگلستان اور افغانستان وغیرہ سے اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے حضرت رحمہ اللہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرتے۔اسی خداد صلاحیت و قبولیت کا نتیجہ تھا کہ مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور میں اٹھارہ سو اکیس طلباء نے حضرت شیخ رحمہ اللہ سے حدیث پاک کا درس لیا۔
تذکرۃ الشیخ :ص31
شیخ الحدیث کا لقب:
فخر المحدثین حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ نے ”بذل المجہود“ شرح ابوداؤدمکمل کرنے کے بعد حضرت شیخ رحمہ اللہ کو مجاز طریقت بنا کر مدینہ منورہ سے واپس کیا اور ”شیخ الحدیث“ خطاب عطا فرماکر اپنے مدرسہ میں بٹھانے کا امر فرمایا، بعض اراکینِ مدرسہ کو کچھ مصالح کی بناء پر ذرا پس وپیش ہوا تو حضرت سہارنپوری رحمہ اللہ نے مدینہ منورہ سے مولانا عاشق الہی المدنی رحمہ اللہ کو ایک خط تحریر فرمایا۔ مولانا عاشق الہی المدنی رحمہ اللہ کی زبانی یہ تذکرہ سنیے:
”بعض اراکین مدرسہ کو بعض مصالح کی بناء پر پس وپیش ہوا تو حضرت نے مدینہ منورہ سے بندہ کو تحریر فرمایا کہ مولوی زکریا ماشاء اللہ اس خطاب کے اہل ہیں اور میں خوب جانتا ہوں کہ حدیث میں ان کو کتنا تبحر حاصل ہے۔لہذا اگر مدرسہ والوں کو اس خطاب کے دینے میں تامل ہو تو تم میری طرف سے یہ خطاب دے دو اور مدرسہ کے انتظامات جزئی وکلی میں ان کی رائے کو دخیل بنا کر مشیر ناظم قرار دو۔
[تذکرۃ الخلیل: ص205]