فتاویٰ تاتار خانیہ

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
تعارف کتب فقہ: دوسری قسط:
فتاویٰ تاتار خانیہ
مفتی محمد یوسف حفظہ اللہ
اصل نام کیا ہے؟
فیروز شاہ تغلق کے ایک باصلاحیت وزیر اور فوجی جرنیل امیر تاتارخان کی فرمائش پر تحریر کیے جانے والے فتاویٰ تاتار خانیہ کے اصل نام کے بارے میں مختلف اقوال موجود ہیں:
1:علامہ حاجی خلیفہ رحمہ اللہ نے دو جگہ اس کتاب کا تعارف پیش کیا ہے ایک جگہ لکھتے ہیں.
” وذكر أنه أشار إلى جمعه الخان الأعظم تاتار خان ولم يسم ولذلك اشتهر به وقيل : إنه سماه زاد المسافر“
کشف الظنون ج1ص253
”یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ یہ کتاب خان اعظم تاتار خان کی فرمائش اور ایماء پر مرتب کی گئی ہے کتاب چونکہ کسی نام سے موسوم نہیں کی گئی تھی اس لیے ”فتاویٰ تاتار خانیہ “کے نام سے مشہور ہوگئی۔یہ بھی کہا جاتاہے کہ فاضل مصنف نے اس کتاب کا نام ”زاد المسافر“ رکھا تھا“۔
علامہ حاجی خلیفہ دوسرے مقام پر تحریر فرماتے ہیں.
” زاد المسافر في الفروع وهو المعروف بالفتاوى التاتارخانية“
[کشف الظنون ج2ص4]
یعنی زادالمسافر فقہ کے موضوع پر مشتمل ہے اور فتاویٰ تاتارخانیہ کے نام سے معروف ہے۔
محقق العصر علامہ عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق زیر بحث کتاب کا اصل نام” زاد السفر “ہے۔
2:علامہ لکھنوی رحمہ اللہ کے الفاظ یہ ہیں.
الشیخ الامام العالم الکبیر فرید الدین عالم بن العلاء الحنفی الاندرپتی۔۔۔۔۔۔لہ الفتاویٰ التاتارخانیۃ فی الفقہ المسمیٰ بزادالمسافر صنفہ فی سنۃ سبع وسبعین وسبع مائۃ للامیر الکبیر تاتارخان،وسماہ باسمہ،وکان فیروز شاہ یرید ان یسمیہ باسمہ فلم یقبلہ لصداقۃ کانت بینہ وبین تاتارخان“
[نزہۃ الخواطر: ج2ص69]
نیز مذکورہ عبارت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فاضل مؤلف اور امیر تاتار خان کے درمیان علمی سطح کے تعلقات تھے جو رفتہ رفتہ گہری دوستی اور پرخلوص یارانے میں بدل گئے ان دوستانہ مراسم کی وجہ سے مصنف نے یہ عظیم الشان کتاب ان کے نام منسوب کردی۔
3:مدرسہ عالیہ دہلی کے رئیس،محقق العصر مولانا قاضی سجاد حسین بجنوری رحمہ اللہ نے فتاویٰ تاتارخانیہ کے ابتداء میں 43صفحات پر مشتمل ایک جاندار اور جامع مقدمہ تحریر فرمایا ہے۔ موصوف نے اس میں بہت سے اہم نکات پر روشنی ڈالی ہے۔ فتاویٰ تاتارخانیہ اور اس کے مصنف سے متعلق علماء کے آٹھ اقوال نقل کیے ہیں۔اس کے بعد تمام بحث کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں.
”وانی استوعبت قراءۃ المقدمۃ للکتاب بدقۃ وامعان نظر فوجدت فیہا ان المرتب بنفسہ یقول:اشار الی تاتارخان…ان اتشمر لجمع کتاب…وسمیتہ بالفتاویٰ التاتارخانیۃ… فہذہ العبارۃ تدل بصراحۃ ان تاتارخان ہوالذی اشار الیٰ ترتیب ہذا الکتاب وان المرتب ہو عالم بن العلاء وانہ سماہ بالفتاویٰ التاتار خانیۃ ولیس بزاد السفر ولا بزاد المسافر“
[مقدمۃ فتاویٰ تاتارخانیہ ج1ص27]
درج بالا عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ میں نے فتاویٰ تاتارخانیہ کے شروع میں مصنف کا تحریر کردہ مقدمہ کا باریک بینی اور انتہائی گہری نظر سے مطالعہ کیا تو میں اس نتیجے پر پہنچا کہ کتاب کا اصل نام ”فتاویٰ تاتارخانیہ “ہی ہے نہ کہ زادالسفر یا زاد المسافر، کیونکہ فاضل مصنف مقدمۃ الکتاب میں خود لکھتے ہیں:وسمیتہ الفتاویٰ التاتارخانیۃ یعنی میں نے اس کتاب کا نام ”فتاویٰ تاتارخانیہ“ رکھا ہے۔
بہرحال! تمام بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کتاب کا اصل نام ابتداء میں جو تھا سو تھا مگر اب یہ عظیم علمی وفقہی سرمایہ عرب وعجم اور بلادِ شرق وغرب میں الفتاویٰ التاتارخانیہ کے نام سے جاناپہچانا جاتاہے۔
کتاب لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
فتاویٰ تاتارخانیہ کی تالیف کا سبب اور وجہ بیان کرتے ہوئے مصنف رحمہ اللہ لکھتے ہیں.
فقد اشار الیّ من اشارتہ حکم وطاعتہ غنم وامرہ یتلقی…ان اتشمر لجمع کتاب جامع الفتاویٰ والواقعات حاوی الروایات مغنی الناس عن الرجوع الی المطولات والمختصرات…………الخ،
[مقدمۃ الفتاویٰ التاتار خانیہ ص49تا51]
یعنی مجھے امیر تاتارخان نے حکم دیا کہ ایک ایسی کتاب لکھی جائے جو فقہ حنفی کے تمام مسائل کو سمیٹ لے اور اس قدر جامع ہو کہ خلق خدا کو دیگر چھوٹی بڑی کتابوں سے مستغنی وبے نیاز کردے۔لہٰذا میں نے حکم کی تعمیل میں اس عظیم کام کا بیڑا اٹھایا اور فقہ حنفی کی چھوٹی بڑی درجنوں کتابوں کو سامنے رکھ کر یہ مجموعہ تیار کیا۔
کتاب کی ترتیب:
کتاب کے شروع میں مصنف عالم بن علاء رحمہ اللہ نے پندرہ صفحات پر مشتمل نہایت عمدہ مقدمہ تحریر کیا ہے۔ابتداء میں حمد وثناء کے بعد کتاب لکھنے کی وجہ وسبب وغیرہ بیان کیا ہے۔اس کے بعد درج ذیل سات فصول قائم کی ہیں:
الفصل الاول:فی تعریف العلم،
پہلی فصل میں علم اور علم فقہ کی تعریف ذکر کی ہے۔
الفصل الثانی:فی فضیلۃ العلم،والفقہ، والعالم، والتعلم، والتعلیم،
والمتعلم،
اس فصل میں علم کی ،علماء کی،علم سیکھنے اور سکھانے کی فضیلت کو بیان کیا گیا ہے،جس کا انداز مصنف رحمہ اللہ نے یہ اختیار کیا ہے کہ ہر ایک عنوان کی فضیلت میں بالترتیب پہلے آیات مبارکہ پھر احادیث شریفہ اور تیسرے نمبر پر صحابہ کرام وبزرگان دین کے اقوال نقل فرمائے ہیں۔
الفصل الثالث:فی فرض العین وفرض الکفایۃ من العلوم،
اس فصل میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ کن علوم کا سیکھنا فرض عین ہے اور کن کا سیکھنا فرض کفایہ۔
الفصل الرابع:فی آفۃ العلم،
چوتھی فصل میں علم کی تباہی وآفت کے اسباب مثلاً دنیوی غرض،ریاکاری وبدعملی وغیرہ کو بیان کیا گیا ہے اور اسی مناسبت سے احادیث وآثار کو نقل کیا گیا ہے۔
الفصل الخامس:فی بیان السنۃ والجماعۃ،
اس فصل میں اہل السنۃ والجماعۃ کی فضیلت اور اس کی علامات کو بیان کیا گیا ہے۔
الفصل السادس:فی من یحل لہ الفتاویٰ ومن لایحل لہ،
فتویٰ دینا،خلق خدا کو شرعی احکام ومسائل سے آگاہ کرنا بچوں کا کھیل نہیں،بلکہ یہ ایک اہم ذمہ داری ہے۔لہذا اس اہمیت کے پیش نظر مصنف رحمہ اللہ نے اس فصل میں یہ بتایا ہے کہ کن لوگوں کے لیے فتویٰ دینا جائز ہے اور کن کے لیے جائز وحلال نہیں۔
الفصل السابع:فی آداب المفتی والمستفتی،
اس فصل میں مصنف رحمہ اللہ نے مسئلہ پوچھنے والے اور جواب بتانے والے کے آداب کو بیان کیا ہے۔ نیز فتویٰ کی شرائط کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔
چند قابل ذکر امور:
فقہ حنفی کی بیسیوں کتب کو کھنگال کر مختلف موضوعات سے متعلق مسائل نقل کرکے ایک عظیم مجموعہ تیار کرتے وقت فاضل مصنف نے چند امور کا بطور خاص اہتمام کیا:
1:جن جن کتب سے مسائل نقل کیے ہیں ان کے نام صراحۃً ذکر کیے ہیں۔
2:صرف مسائل نقل کرنے پر اکتفاء کیا ہے۔نصوص ودلائل ذکرکرنے کا اہتمام نہیں کیا۔
3:بعض اوقات ایک مسئلے کو مختلف کتابوں سے ذکر کرتے ہیں تو اس صورت میں ہر کتاب کا نام بھی تحریر کرتے ہیں۔
4:مسائل نقل کرنے میں فاضل مصنف نے علامہ برہان الدین محمود بن احمد مازہ بخاری المتوفیٰ 616ھ کی کتاب ”محیط برہانی“کو اصل بنیاد بنایا ہے۔ اس وجہ سے اس کتاب کاحوالہ مسائل کے ذکر کرنے میں بکثرت آتاہے۔باربار پورا نام لکھنے کے بجائے اس کی طرف اشارہ کرنے لیے ”م“ کی علامت استعمال کرتے ہیں۔
5:فاضل مصنف رحمہ اللہ نے فتاویٰ تاتار خانیہ کے مسائل وابواب کی ترتیب ”ہدایہ“کے مطابق رکھی ہے۔چنانچہ لکھتے ہیں.
ورتبت ابوابہ علیٰ ترتیب الہدایۃ.
مقدمۃ الفتاویٰ: تاتارخانیہ ص51
[جاری ہے۔]