لطائف و معارف سورۂ فاتحہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
خزائن السنن:
لطائف و معارف سورۂ فاتحہ
مفتی شبیر احمد حنفی
”سورۃ الفاتحہ“ کو ام القرآن اور خلاصۃ القرآن ہونے کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے دقیق مضامین، دلنشین فرامین اور لطائف و معارف ایک عظیم شان کے مالک ہیں۔عارف باﷲ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے عالی ذوق پر اس کی تشریح فرمائی ہے، وقتاً فوقتاً ہم اسے ہدیہ قارئین کرتے رہیں گے۔
حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختررحمہ اللہ نے فرمایا:”الحمد ﷲ“ کے معنیٰ ہیں کہ سب تعریفیں اﷲ کے لیے خاص ہیں۔ میرے شیخ حضرت شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ نے مجھے تفسیر پڑھاتے ہوئے فرمایا تھا کہ تعریف کی چار قسمیں ہیں:
(1) بندہ اﷲ کی تعریف کرے۔ (2) اﷲ بندہ کی تعریف کرے۔
(3) بندہ بندے کی تعریف کرے۔(4) اﷲ خود اپنی تعریف کرے۔
اور یہ چاروں قسمیں اﷲ کے لیے خاص ہیں، کوئی مخلوق اس لائق نہیں کہ اس کی تعریف کی جائے، اگر کسی کی تعریف کی جاتی ہے تو وہ دراصل اﷲ ہی کی تعریف ہے کیونکہ بندہ میں اگر کوئی خوبی ہے بھی تو وہ اﷲ ہی کی عطا ہے، اگر کسی بھیک منگے کو بھیک کے پیالے میں کوئی ایک کروڑ کا موتی دے دے تو اس میں بھیک منگے کا کیا کمال ہے، یہ تو دینے والے کاکمال ہے۔ ہمارے پاس جو نعمتیں اور خوبیاں ہیں یہ سب اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی بھیک ہے، اﷲ تعالیٰ کی عطا ہے ہمارا کمال نہیں۔ اس لیے تعریف کے قابل صرف اﷲ تعالیٰ کی ذات ہے، سب کمالات اﷲ کے لائق ہیں، اﷲ پاک نے ہمیں ”أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ“ فرمایا ہے، ہم تو ان کے رجسٹرڈ فقیر ہیں، جب ہم فقیر ہیں تو ہماری ہر چیز بھیک ہے، آنکھ کی بینائی، کان کی شنوائی، زبان کی گویائی وغیرہ تمام نعمتیں اﷲ کی دی ہوئی ہیں یہی وجہ ہے کہ جب چاہتے ہیں واپس لے لیتے ہیں، ہم اپنے جسم وجان کے مالک نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنے اعضاء کو مرضی الٰہی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے اگر کوئی شخص کرتا ہے تو وہ مجرم ہے اور اسی وجہ سے خود کشی حرام ہے کیونکہ کوئی شخص اپنی جان کامالک نہیں ہوتا لہٰذا اس کو اجازت نہیں ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی جان میں تصرف کرے۔
">”الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ“

کے معنیٰ ہیں کہ سب تعریفیں اﷲ کو لائق ہیں جو پالنے والا ہے ہر ہر عالَم کا، ”عالمین“ جمع ہے ”عالَم“ کی اور عالَم”علَم“ سے ہے جس کے معنیٰ ہیں نشان۔ چونکہ عالم کا ذرّہ ذرّہ اﷲ کے وجود کی نشانی ہے، ہر چیز اﷲ کے وجود پر دلالت کرتی ہے اس لیے اس کو عالم کہا جاتا ہے اور عالمین جمع ہے کیونکہ مخلوقات کی ہر جنس کا الگ الگ عالَم ہے جیسے عالَمِ انسان، عالَمِ جنات، عالَمِ نباتات، عالَمِ جمادات، عالَمِ ناسوت، عالَمِ لاہوت، عالَمِ ملکوت اور عالَمِ جبروت وغیرہ ہزاروں عالم ہیں اور سارے عالموں کا پالنے والا اﷲ ہے۔

عالَمِ لاہوت پر ایک لطیفہ یاد آیا۔ ایک بدعتی پیر اپنے مریدوں پر رعب جما رہا تھا کہ میں عالَمِ لاہوت، عالَمِ ملکوت اور عالَمِ جبروت کی سیر کررہا ہوں، اس مجلس میں ایک صحیح العقیدہ بزرگ بھی موجود تھے، ان سے اس پیرنے پوچھا کہ آپ کس عالم میں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں تو عالم کھاہوت میں رہتا ہوں یعنی خوب کھاتا ہوں اور یہ دراصل انہوں نے اس پر چوٹ کی کیونکہ جعلی پیروں کا مقصد کھانا پینا اور پیسے بنانا ہے۔
خیر یہ تو ایک لطیفہ کی بات تھی۔ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خیال ہوا کہ اﷲ تعالیٰ سارے عالم کو کیسے پالتے ہیں؟! اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے موسیٰ! سامنے جو پتھر کی چٹان سے اس پر لاٹھی مارو۔ آپ نے لاٹھی ماری تو پتھر کی ایک چٹان اُڑ گئی، حکم ہوا کہ اور مارو دوسری بار لاٹھی ماری تو چٹان کی ایک اور تہہ اُڑ گئی پھر حکم ہوا کہ اور مارو تیسری بار پوری چٹان ٹوٹ گئی تو دیکھا کہ اندر ایک چھوٹا سا کیڑا بیٹھا ہوا ہے جس کے منہ میں تازہ گھاس کا ہرا پتہ ہے اور وہ یہ تسبیح پڑھ رہا تھا۔
سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ وَیَسْمَعُ کَلاَمِیْ وَیَعْرِفُ مَکَانِیْ وَیَرْزُقْنِیْ وَلاَ یَنْسَانِیْ
پاک ہے وہ اﷲ جو مجھے دیکھ رہا ہے اور جو میری بات کو سن رہا ہے اور جومیرا گھر جانتا ہے اور جو مجھ کو رزق پہنچاتا ہے اور جو مجھ کو کبھی نہیں بھولتا۔ یہ واقعہ تفسیر روح المعانی
میں ﴿وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا﴾
کی تفسیر کے ذیل میں لکھا ہوا ہے۔
سوال یہ ہے کہ سب تعریفیں اﷲ ہی کے لیے ہیں لیکن ہم کو اﷲ کی پہچان کیسے ہوگی؟ کیونکہ ا ﷲ کو ہم دیکھ نہیں سکتے تو آگے فرماتے ہیں کہ
﴿رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾
میں سارے عالم کا رب ہوں،میری ربوبیت سے مجھے پہچانو۔ رب کے معنیٰ ہیں؛ تربیت کرنے والا، پرورش کرنے والا۔
اَلَّذِیْ یَجْعَلُ النَّاقِصَ کَامِلاً شَیْئاً فَشَیْئاً اَیْ عَلٰی سَبِیْلِ التَّدْرِیْجِ
جو ناقص کو آہستہ آہستہ کامل بنا دے، بچہ چھوٹا سا پیدا ہوتا ہے اﷲ تعالیٰ کی ربوبیت سے آہستہ آہستہ پندرہ سال کا جوان ہو جا تا ہے، زمین میں آپ درخت کا بیج ڈالتے ہیں جس سے چھوٹا سا پودا نکلتا ہے جو آہستہ آہستہ پورا درخت بن جاتا ہے اسی طرح سلوک میں ترقی آہستہ آہستہ ہوتی ہے، بعض لوگ چاہتے ہیں کہ آج ہی سلسلہ میں داخل ہوئے اور آج ہی جنید بغدادی بن جائیں اس لیے جلد بازی اور تعجیل مناسب نہیں۔ اﷲتعالیٰ رب الاجسام بھی ہیں اور رب الارواح بھی ہیں خالق الارزاق البدنیۃ بھی ہیں اور خالق الارزاق الروحانیہ بھی ہیں یعنی ہمارے جسم کو بھی غذا دیتے ہیں اور ہماری روح کو بھی غذا دیتے ہیں، جسمانی غذا ماں باپ کے ذریعہ دیتے ہیں اور روحانی غذا انبیاء اور اولیاء کے ذریعہ دیتے ہیں اور وہ ذکر و عبادت ہے جس سے رفتہ رفتہ تربیت ہوتی ہے، جس طرح جسم پندرہ سال میں بالغ ہوتا ہے تو روح کے بالغ ہونے میں بھی کچھ زمانہ لگے گا۔ یہی شانِ ربوبیت ہے اور یہی اﷲ کے اﷲ ہونے کی دلیل ہے۔
الحمدﷲ کی دلیل رب العٰلمین ہے اگر کوئی بچہ پوچھے کہ کیا دلیل ہے کہ آپ ہمارے اماں ابا ہیں تو ماں باپ کہیں گے کہ ہم تمہیں پال رہے ہیں یہ پالنا ہی دلیل ہے کہ ہم تمہارے اماں ابا ہیں، اﷲ تعالیٰ کی پہچان رب العٰلمین ہے کہ میں تمہیں پال رہا ہوں، تمہارے پالنے کے لیے میں نے زمین وآسمان چاند سورج بادل اور ہوائیں سارا نظامِ کائنات پیدا کیا ہے اور ساری کائنات کو تمہاری خدمت میں لگا دیا ہے، ایک لقمہ جو تمہارے منہ تک پہنچتا ہے اس میں زمین وآسمان چاند اور سورج بارش اور ہوائیں غرض پوری کائنات خدمت میں لگی ہے تب ایک لقمہ تیار ہوا ہے۔
لہٰذا میری ربوبیت دلیل ہے میری الوہیت کی، تمہیں پالنا دلیل ہے کہ میں تمہارا اﷲ ہوں تمہاری پرورش میں پوری کائنات کو میں نے تمہارا خادم بنا دیا تو سوچوکہ تم کس لیے ہو؟ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کاارشاد ہے۔
اِنَّ الدُّنْیَا خُلِقَتْ لَکُمْ وَاَنْتُمْ خُلِقْتُمْ لِلْآخِرَۃِ
(تخریج احادیث الاحیاء، رقم الحدیث3187)
یعنی ساری دنیا تمہارے لیے پیدا کی گئی ہے اور تم آخرت کے لیے پیدا کیے گئے ہو۔
[خزائن القرآن:ص 19تا21 ]