حدیث جبرائیل کی تشریح

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
مجلس الشیخ:
حدیث جبرائیل کی تشریح
ترتیب و عنوانات: مفتی شبیر احمد حنفی
5 - اکتوبر2012ء بروز جمعہ حضرت الشیخ متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ نے جامع مسجد87 جنوبی سرگودھا میں خطبہ جمعہ میں ’’حدیث جبرائیل‘‘ کی تشریح فرمائی۔اس خطبہ کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔
الحمد للہ الذی وحدہ والصلوۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم﴿ وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ۔﴾ عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال : بينا نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم إذ طلع علينا رجل شديد بياض الثياب شديد سواد الشعر لا يرى عليه أثر السفر ولا يعرفه منا أحد حتى جلس إلى النبي صلى الله عليه وسلم فأسند ركبتيه إلى ركبتيه ووضع كفيه على فخذية وقال : يا محمد أخبرني عن الإسلام قال : " الإسلام : أن تشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتصوم رمضان وتحج البيت إن استطعت إليه سبيلا " . قال : صدقت . فعجبنا له يسأله ويصدقه . الحدیث
جامع سورۃ اور جامع حدیث:
قرآن کریم کی اس سورت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے قسم کھا کر ایک مضمون ارشاد فرمایا ہے
: وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ
: قسم ہے زمانے کی بے شک تمام لوگ خسارے میں ہیں، وہی انسان کامیاب ہوگا
: إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا
: جس کا عقیدہ درست ہو
: وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ
: اعمال نیک کرتا ہو
: وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ:
صحیح عقیدے اور نیک اعمال کی دعوت دیتا ہو
: وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ
: اور اگر اس دعوت پر کبھی مشکل آجائے تو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرتا ہو۔
اور جس حدیث مبارکہ کی میں نے تلاوت کی ہے یہ حدیث مبارکہ مشکوٰۃ شریف کتاب الایمان کی پہلی حدیث ہے، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے نمبر کے جانشین، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سسر، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس حدیث کے راوی ہیں۔
جو سورۃ مبارکہ میں نے تلاوت کی اس سورت مبارکہ کے بارے میں حضرت محمد بن ادریس امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت پورے قرآن کو نازل کرنے کی بجائے اس ایک مختصر سی سورۃ کو نازل فرمادیتے تو امت کی رہنمائی کے لیے کافی تھی۔ یعنی بنیادی اصول اور بنیادی چیزیں حق جل مجدہ نے اس نے اس سورۃ میں بیان فرمادیں۔
جو حدیث مبارکہ میں نے تلاوت کی ہے اس حدیث مبارکہ کو محدثین ام السنۃ بھی کہتے ہیں اور ام الحدیث بھی کہتے ہیں۔ اس حدیث مبارکہ کا مشہور نام حدیث جبرائیل ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی میں 10ھ حضور صلی اللہ نے جو حج فرمایا ہے، حجۃ الوداع، اس حج سے کچھ دن قبل یہ حدیث مبارک حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی ہے۔
شان ورود:
ہوا یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین سے ارشاد فرمایا کہ تم جو مجھ سے پوچھنا چاہتے ہو پوچھو،کوئی بات پوچھ لو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رعب کی وجہ سے پوچھ نہ سکے۔ اللہ رب العزت نے غیب سے ایک اور انتظام فرمایا کہ ایک شخص سوال کر رہا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو جواب دے رہے ہیں اور صحابی کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس پوری حدیث کو سن رہے ہیں۔ سوال بھی سنتے ہیں اور جواب بھی سنتے ہیں۔اس حدیث مبارکہ کو اُم السُّنۃ کیوں کہتے ہیں؟ سنت کا معنی ٰ دین ہے اور ام کا معنی ٰ خلاصہ ہے۔ اس حدیث مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے دین کا خلاصہ بیان فرمادیا ہے۔بلکہ محدثین نے لکھا ہے جس طرح قرآن کریم کی 114 سورتوں میں سے پہلی سورۃ سورۃ الفاتحہ کو ام الکتاب کہتے ہیں احادیث پیغمبر میں سے اس حدیث کو ام السنۃ کہتے ہیں۔ سورۃ الفاتحہ پورے قرآن کریم کا خلاصہ ہے اور یہ حدیث مبارکہ پورے ذخیرہ احادیث کا خلاصہ ہے۔ اس کتاب یعنی مشکوۃ شریف کے مصنف امام بغوی رحمہ اللہ نے سب پہلے اس حدیث کو لائے ہیں۔ بعض محدثین نے لکھا ہے کہ جس طرح قرآن کریم کو ام الکتاب سے شروع کیا ہے امام بغوی نے اپنی اس کتاب کو ام السنۃسے شروع فرمایا ہے۔ لیکن سورۃ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیمہے تو اس حدیث سے پہلے تو وہ اس حدیث سے پہلے حدیث النیۃ کو لائے ہیں جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاانماالاعمال بالنیاتتو یہ حدیث مبارکہ بمنزلہ بسم اللہ کے ہیں اور یہ حدیث مبارکہ بمنزلہ سورۃ الفاتحہ کے ہے قرآن کریم کے لیے۔
پورے دین کا خلاصہ:
اس حدیث مبارک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے دین کا خلاصہ بیان فرمایا۔ اگر آدمی میں فہم اور بصیرت اور کچھ شعور موجود ہو تو دین کو سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ اس دین کی خوبی یہ ہے کہ یہ دین پڑھے لکھے لوگوں کا بھی ہے اور دین اَن پڑھ لوگوں کا بھی ہے اور اللہ نے مقتدیٰ اس امت کا سب سے بڑا اس کو بنایا ہے جس کا دنیا میں کوئی استاذ نہیں۔ کوئی بندہ یہ نہ کہہ سکے کہ حضور علیہ السلام پر میرا یہ احسان ہے کہ عربی مجھ سے سیکھی ہے گرائمر مجھ سے سیکھی ہے یہ تو میرا شاگرد ہے۔ اگر چہ بسا اوقات شاگرد کا علم زیادہ ہوتا ہے، شاگرد کی شہرت زیادہ ہوتی ہے، شاگرد کو جاننے والے زیادہ ہوتے ہیں لیکن بحیثیت استاذ جو مقام استاذ کا ہوتا ہے شاگرد کا کبھی نہیں ہوتا۔ اس حیثیت کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔
زم زم کا معجزہ:
اس سے ایک بات سمجھیں۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں ایک بات معروف ہے ادھر ان کو کعبہ کے پاس چھوڑ کے ان کی والدہ حضرت حاجرہ دور گئی ہیں۔ پانی مل نہیں رہا تھا اور حضرت اسماعیل پانی کی وجہ سے کی وجہ سے بیتاب تھے۔ بیتاب پانی کی وجہ سے نہیں تھے، ماں پانی پیے گی تو دودھ اترے گا۔ ماں خوراک کھائے گی تو دودھ اترے گا۔ اب ماں کو پانی نہیں ملتا بچے کو دودھ نہیں ملتا۔ حضرت اسماعیل نے ان حالات میں بیتاب ہو کر جیسے بچہ اپنی ایڑیوں ٹانگوں کو ہلاتا ہے، ہلایا۔ ایڑی لگی ہے اور وہاں سے سے زم زم کا پانی نکلا ہے۔
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب معراج کے لیے آسمانوں پر جانے لگے تو سب سے پہلے جبرائیل امین علیہ السلام نےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ام ہانی کے گھر سے جو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی چچا کی بیٹی ہیں، وہاں سے جگایا۔ وہاں سے اٹھے ہیں زم زم کے کنویں کے پاس آئے۔
شق صدر کی حکمت:
جبرائیل امین نے سونے کا بنا ایک تشت نکالا، تشت یعنی تھال جو جنت سے لائے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک سینے کو شق فرمایا جسے ہم آپریشن کہتے ہیں، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک سینہ نکالا اور اس کو سونے کے تھا ل میں رکھا اور زم زم کے پانی کے ساتھ دھویا پھر واپس رکھا۔ بغیر اوزار کے سینے کا آپریشن ہو رہا ہے لوگ کہتے ہیں دل کا آپریشن بڑا مشکل ہے اللہ کے لیے جو دل کا خالق ہے مشکل نہیں ہے۔ دل نکالا اور پھر دل واپس رکھ دیا نہ کوئی نشان ہے نہ کوئی خون ہے نہ کوئی درد ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دل کو شق فرمایا کیوں ؟نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا دل نورانی تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ظلمت کا تصور بھی نہیں تھا لیکن حضور جس ماحول میں رہ رہے تھے یہ ماحول تو ظلمت والا تھا نا؟
آپ دیکھیں یہ مسجد بالکل صاف ہے لیکن جب ہوا چلتی ہے تو مسجد کے اندر مٹی آتی ہے مٹی کو صاف کرتے ہیں تو مسجد پھرچمک جاتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کا قلب اطہر تو نورانی تھا اس میں تو ظلمت کا تصور بھی نہیں ہے لیکن جس ماحول میں رہتے تھے وہ ماحول ٹھیک نہیں تھا تو چونکہ آسمانوں اور عرش پر جانا تھا تجلیات الہیہ کو لینے کے لیے تو زم زم کے پانی سے اس دل کو صاف کیا۔ دل کے اندر تو نور ہی نور تھا لیکن جو باہر سے مٹی پڑتی تھی اس کو بھی صاف کیا تاکہ معراج کا سفر بہت آسان ہوجائے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو زم زم کے پانی کے ساتھ دھویا۔ایک شخص کہنے لگا میں اس کو نہیں مانتا میں نے کہا کیوں نہیں مانتا ؟
ہمارے نبی کا مقام :
کہنے لگا اس لیے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کا مقام کم ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام زیادہ ہے زم زم کا پانی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایڑی سے نکلا ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ جس نبی کا مقام چھوٹا ہو اس کے پاؤں سے نکلنے والے پانی سے بڑے نبی کے دل کو دھویا جائے۔کیونکہ جسم میں ایڑی کا مقام کم ہوتا ہے اور دل کا مقام سب سے زیادہ ہوتا ہے اسماعیل علیہ السلام کا مقام کم ہے، حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا مقام زیادہ ہے۔ اسماعیل علیہ السلام کی ایڑی سے نکلنے والے پانی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دل کو دھویا جائے دل نہیں مانتا۔ اس لیے میں اس حدیث کو نہیں مانتا۔ میں نے کہا: بات سمجھنے کی کوشش کرو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایڑی کو اسماعیل کی ایڑی نہ سمجھو یہ پیغمبر کے والد کی ایڑی ہے اسماعیل علیہ السلام کی ایڑی نہیں بلکہ پیغمبر کے والد کی ایڑی ہے تو والد کا مقام خواہ چھوٹا ہو، وہ ہے تووالد ہی ناں!
اسماعیل علیہ السلام کی ایڑی مانا اسماعیل علیہ السلام کی ہے لیکن جب اسماعیل علیہ السلام کو اس میں دیکھو گے تو ان کا مقام زیادہ نہیں ہے لیکن نبی علیہ السلام کے باپ اسماعیل دیکھو گے تو ان کا مقام بلند ہے۔ میں یہ بات اس لیے سمجھا رہا ہوں اگر بیٹا ہو اس کے پاس دولت ہو بیٹے کے پاس منصب بھی ہو بیٹے کا جاہ وجلال اور شہرت بھی ہو وہ باپ کو کراس نہیں کرسکتا۔ باپ تو باپ ہی رہتا ہے۔ آدمی جس مقام پر پہنچے شاگرد شاگرد ہی رہتا ہے اللہ کے پیغمبر کا دنیا کوئی استاذ نہیں بنایا اللہ براہ راست نبی کا استاذ ہوتاہے۔ جبرائیل ان کا استاذ نہیں جبرائیل اللہ اور نبی کے درمیان واسطہ ہے۔ واسطہ اور ہوتا ہے معلم اور ہوتا ہے۔
یہ بالکل ایسے ہوتا ہے جیسےا ستاذ درسگاہ میں بیٹھ کر پڑھا رہا ہو اور شاگرد پڑھ رہا ہو استاذ اس کو کہے کہ یہ کتاب فلاں طالبعلم کو کو دے دے۔ وہ کہے کہ دیکھو میں استاذ ہوں، میں نے اسے کتاب دی ہے۔ ہم کہتے ہیں کتاب تو نے نہیں دی کتاب دینے والا اور ہے اور جس کو دی ہے وہ اور ہے تو درمیان میں واسطہ بنا ہے۔ قرآن دینے والا خدا ہے، لینے والے پیغمبر ہیں اور درمیان میں واسطہ جبرائیل علیہ السلام ہیں۔ واسطے کا درمیان کبھی بلند نہیں ہوا کرتا۔
نبی کا استاذ نہ ہونے کی وجہ :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دنیا میں کوئی استاذ نہیں، کیوں ؟ اگر نبی کا استاذ کوئی بشر ہوتا تو تو بندہ استاذ کسی وقت بھی کہہ سکتا تھا کہ تو میرا شاگرد ہو کر مجھے تبلیغ کرتا ہے؟ میرا شاگرد ہو کر مجھے دین سمجھاتا ہے؟ اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دنیا میں کوئی استاذ نہیں رکھا۔ نبی کا دین ان پڑھوں کے لیے بھی ہے اور پیغمبر کا دین پڑھے لکھوں کے لیےبھی ہے۔ پڑھے لکھوں سے مراد کالج اور سکول کی تعلیم بھی ہے اور میں ایک بات اپنے تجربے کی بنیاد پر کہتا ہوں جو میں نے ملک اور بیرون ملک اس دنیا میں گھوم کر دیکھا ہے۔ آپ پوری دنیا میں گھومو جو گمراہ طبقہ ہوگا عموماً ان پڑھ طبقہ نہیں ہوگا۔
ان پڑھ طبقہ گمراہ نہیں ہوتا، عموماً لکھا پڑھا گمراہی کا شکار ہوتا ہے۔ اس کی وجہ اس کے پاس مطالعہ ہوتا ہے اس کے پاس فن ہوتا ہے اپنے بڑوں پر اعتماد نہیں ہوتا۔ ان پڑھ کے پاس تو کچھ بھی نہیں ہوتا اس کو اپنے عالم پر اعتماد ہوتا ہے اس کو گمراہ کرنا بڑامشکل ہے۔ یہاں آپ کے گاؤں میں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے اللہ رب العزت کا بڑا احسان ہے میرے اللہ کا بہت احسان ہےالحمد للہ ہمارا گاؤں اور ہمارے آس پاس کے دیہات کئی ایک فتنوں سے خالی ہیں۔ کوئی باہر سے آنے والا بندہ کئی بار سوچتا ہے کہ جی فلاں جگہ جاؤ گے فلاں عالم ہے فلاں ادارہ ہے۔
اللہ رب العزت کا یہ احسان معمولی نہیں اگر اللہ نے زندگی دی تو کوئی آپ کو غلط مسئلہ نہیں بتا سکتا اس کو پتہ ہے کہ ہم یہاں رہتے ہیں۔ ہم لڑنے اور جھگڑنے کی بات نہیں کرتے لیکن دلیل کی دنیا میں کوئی بندہ پریشان نہیں کرے گا۔ان شاء اللہ ثم ان شاءاللہ۔ اس پر آپ بڑے سکون سے رہیں۔ میں کبھی ساتھیوں سے کہتا ہوں کہ ہم دن ہے یا رات، صبح ہے یا شام، دوڑتے ہیں۔ مجھے ایک آدمی کہتا ہے کہ تم اتنی محنت کیوں کرتے ہو؟ میں نے کہا زندگی جو تھوڑی ہے!
امام محمد رحمہ اللہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی کے بہت بڑے شاگرد ہیں۔ امام محمد رحمہ اللہ رات کو جاگ رہے ہیں ساری رات جاگتے رہتے تھے ان کی بیٹی نے کہا ابو آپ پوری رات جاگتے ہیں، لوگ تو سوئے پڑے ہیں۔ امام محمد رحمہ اللہ فرمانے لگے لوگ اس لیے سوئے ہوئے ہوئے ہیں کہ تیر ا باپ جاگ رہا ہے۔ لوگ اس لیے سو رہے ہیں کہ امام محمد جاگتا ہے جب جب پریشانی بڑھے گی دروازے پر دستک دیں گے ہمیں مسئلہ مل جائے گا۔ خیر میں کہتا ہوں اللہ کا بڑا احسان ہے " الحمدللہ " ہمارے قرب وجوار میں بھی کوئی نہیں آتا ان کو پتہ ہے کہ علماء کی بہت بڑی جماعت یہاں پر موجود ہے۔ اور آپ یقین کریں یہ ایک اعزاز جو خدا نے آپ کو دیا ہے دنیا میں تلاش کرنے سے اعزاز نہیں ملتا جو اللہ نے آپ کے اس گاؤں کو دیا ہے۔ دور دور سے علماء کس طرح اپنی پیاس بجھانے کے لیے تشریف لاتے ہیں۔ اللہ ان کو جزاء خیر عطاء فرمائے۔
الیاس ویکھ لے گا!
جو بات میں سمجھا رہا ہوں کہ نبی ان پڑھ لوگوں کے بھی نبی ہیں میری بات پہ آپ ناراض نہ ہوں سنجیدگی سے غور کریں۔ عموماً یوں ہوتا ہے نبی دین پیش کرتا ہے غریب آدمی جلدی قبول کرتا ہے مالدار قبول نہیں کرتا۔ اس کو اپنی طاقت اپنی دولت اپنے خاندان اپنی اکڑ پہ ناز ہوتا ہے اور غریب اشاروں کی تلاش میں ہوتا ہے کہ نبی جنت کی بات کرتا ہے۔ غریب نبی کے قدموں میں گر جاتا ہے اور یہی بات دنیا میں ہے کوئی عالم جب دین کی دعوت دے گا پہلے اس کے ماننے والے غرباء اور کمزور ہوں گے غریب آدمی بہت جلدی دین قبول کرتا ہے۔
اور اسی طرح آپ دنیا میں گھوم کر دیکھ لیں وہ آدمی جس کے پاس کچھ دنیاوی علم ہوگا اس کو گمراہ کرنا بہت آسان ہوگا اور جس کے پاس علم نہیں اس کو گمراہ کرنا بڑا مشکل ہے۔ اس کی وجہ ؟وہ اپنے عقیدے پر پکا ہے یہاں کوئی بندہ آجائے کہے کہ کتاب لو ان پڑھ بندہ کہے گا کہ "کتاب سانوں دے، اسی جا کے الیاس نوں دیندے آں او پڑھ لے گا ویکھ لے گا " ) یہ کتاب ہمیں دو، ہم جا کر مولانا الیاس صاحب کو دیتے ہیں، وہ خود دیکھ لیں گے اور پڑھ لیں گے) لیکن جو پڑھا لکھا ہے وہ کتاب پڑھ کر کہے گا مولانا میں رات کتاب پڑھی ہے، میں سی ڈی دیکھی، میں نے رات ڈاکٹر ذاکر نائیک کو سنا، میں نے جاوید غامدی کو سنا، میں نے چینل پر دیکھا ہے آپ کے مسئلے لیں یا ان کے؟
لیکن ان پڑھ بندہ اپنی رائے پر قائم ہے اور دائم ہے اس کو بدلنا بڑا ہی مشکل ہے۔ دنیا میں مرزائیت کا فتنہ پھیلا ہے، قادیانیت کو قبول کرنے والے ان پڑھ بہت کم ہیں، پڑھا لکھا بہت زیادہ طبقہ ہے۔ پڑھا لکھا ہونا عیب نہیں ہے بلکہ دنیا پڑھ کے دینی معاملات میں دخل دے تو یہ عیب ہے۔ دنیا پڑھ کر دنیا میں دین کو بند کرنے کی بات کرے تو یہ عیب ہے۔ پڑھا لکھا ہوا عیب نہیں بلکہ پڑھا لکھا ہونا کمال ہے۔ اللہ ہم سب کو کمال والا علم عطاء فرمائے۔
اسلام؛ آسان دین ہے:
خیر جو بات میں سمجھا رہا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دین اتنا آسان ہے پڑھے لکھے سے پڑھا لکھا بھی سمجھتا ہے ان پڑھ سے ان پڑھ بھی سمجھتا ہے۔ آپ اس سے اندازہ لگاؤ قرآن کریم عربی زبان میں اترا ہے ہماری عربی زبان نہیں ہے وہ لڑکا جو کالج پڑھا ہے اس کو قرآن پڑھا ؤ وہ بھی پڑھے گا اوروہ جو ایک دن کالج نہیں گیا اس کو قرآن پڑھاؤ وہ بھی پڑھے گا۔ دونوں قرآن پڑھ لیں گے پڑھنے میں کسی کو دقت نہیں ہوگی۔ قرآن کا ترجمہ ایک اسکول میں جانے والے کو سمجھاؤ وہ بھی سمجھتا ہے جو کبھی نہیں گیا اس کو سمجھاؤوہ بھی سمجھتا ہے۔ شریعت کا مسئلہ کالج والے کو دو وہ بھی سمجھتا ہے جو ایک دن کالج نہیں گیا وہ بھی سمجھتا ہے۔ شریعت اتنی آسان ہے اتنی آسان ہے اور پھر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اس انداز میں شفقت اور محنت سے مسئلے سمجھاتے ہیں اگر آدمی پیغمبر کی زندگی کو دیکھے خدا کی قسم اس نبی کے قدموں کو چومنے کو جی چاہتا ہے شریعت اتنی آسان ہے اور شفقت اور محنت کا معاملہ دیکھ کر بندہ دنگ رہ جاتا ہے۔
نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام کی حکمت عملی:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں ہیں پیغمبر کے صحابہ بھی ہیں، ایک شخص آیا وہ دیہاتی تھا بدو تھا اعرابی تھا وہ دور سے آیا تھا مسجد میں تھا اس کو پیشاب آگیا تو مسجد میں کھڑا ہو کر اس نے پیشاب کرنا شروع کر دیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے فرمایا "مہ مہ" رک جا رک جا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لاَ تُزْرِمُوهُ" چھوڑو پیچھے ہٹ جاؤ۔ صحابہ کو پیچھے ہٹا لیا و ہ کھڑے ہو کر پیشاب کرتا رہا اور جب فارغ ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھایا کہ بیٹا یہ مسجد نماز کے لیے ہے پیشاب کے لیے نہیں ایسا نہ کیا کرو۔ اس نے تو بہ کر لی۔
اب بتاؤ اس کو یوں نہ سمجھایا جاتا ڈانٹ دیتے تو پہلے ایک جگہ پیشاب تھا پھر پوری مسجد میں پیشاب جاتا تو نبی نے پوری مسجد کو بچا لیا۔اس میں بھی حکمت عملی ہے یا نہیں؟اور اگر ایک مرتبہ اس کو ڈانٹ دیتے وہ بندہ مسجد سے دوڑ جاتا اور وہ پھر مسجد کا نام نہ لیتا کہ میری اس مسجد میں بے عزتی ہوئی ہے لیکن نبی نے حکمت عملی سے مسجد گندی ہونے سےبھی بچائی اور وہ بندہ دین پر بھی قائم رہا۔
میں اونچا سنتا ہوں!
ایک بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں امام حاتم۔ ان کا لقب اَصَم ہے۔ حضرت حاتم اصم۔ اصم عربی زبان میں بہرے کو آدمی کو کہتے ہیں وہ بہرے نہیں تھے لیکن ان کو اصم کیوں کہتے ہیں؟ ان کو بہرہ کہنے کی وجہ ؟ وجہ صرف یہ تھی حضرت حاتم بیٹھے ہیں ایک عورت آئی اور مسئلہ پوچھا۔ اب مسئلہ پوچھ رہی ہے اس عورت کی ہوا نکل گئی ، انسان ہے انسان سے ایسا ہو جاتا ہے امام حاتم نے سن لیا۔ توجہ رکھنا، اس عورت کو کتنی شرمندگی ہوئی ہوگی؟ امام حاتم نے فرمایا کیا مسئلہ پوچھا ؟ دوبارہ بتاؤ۔ "ذرا اُچی کہہ کی مسئلہ آکھدی ایں تو ں؟" تاکہ اس کو یہ پتہ نہ چلے کہ اس کو میری کمزوری کا پتہ چل گیا ہے اس کے بعد مرتے دم تک امام حاتم یوں رہے جیسے بہرہ آدمی ہو۔ اس ایک عورت کی عزت نفس کو بچانے کے لیے کہ یہ کیا کہے گی۔
اب یہ پیغمبر کا مزاج ہے جو پیغمبر کے محدثین اور وارثین نے لیا ہے۔ ہم تلاش کرتے ہیں کہ کوئی عیب ملے ہم بیان کریں کوئی کمزور ی ہو اس کو بیان کریں، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج کیا تھا؟ فرمایا
من ستر مسلما ستره الله في الدنيا والآخرة
سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث 2544
جو دنیا میں کسی مسلمان کے عیب پر پردہ ڈالے گا اللہ قیامت کے دن اس کے عیب پر پردہ ڈالے گا۔ پیغمبر کی ترتیب یہ ہے اللہ ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اسلام کیا ہے:
خیر میں بات یہ سمجھا رہا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری عمر ہے فرمایا مسئلہ پوچھنا ہے تو پوچھو۔ کسی کی ہمت نہیں ہو رہی تھی نبی کی رعب کی وجہ سے جرات نہیں کرتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھیں۔ اللہ کے پیغمبر بیٹھے تھےحضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:"اذطلع علینا رجل" اچانک ایک آدمی آیا "شدید بیاض الثیاب " کپڑے اس کے خوب سفید ہیں "شدید سواد الشعر" بال اس کے خوب کالے ہیں۔ اور کپڑوں کو دیکھیے تو "لایری علیہ اثر السفر" یوں معلوم ہوتا ہے مدینے کا رہنے والا ہے بالکل قریبی ہے "لایعرفہ منا احد" اس بندے کے سفید کپڑے دیکھو تو یوں لگتا ہے کہ یہیں کا ہے اور حقیقت میں اجنبی ہے کوئی بندہ ہم میں سے اس کو پہچانتا نہیں ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اجنبی ہے دور سے آیا ہے۔ صحابہ تعجب میں تھے۔ تو وہ شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا اپنے ہاتھ اس نے رانوں پر رکھ لیے اس نے کہا حضور مجھے ایک مسئلہ بتائیں "اخبرنی عن الاسلام" بتائیں حضور اسلام کیا ہے؟ فرمایا:"ان تشھد ان لاالہ الا اللہ وان محمد رسول اللہ" اپنی زبان سے کلمہ پڑھنا "وتقیم الصلوۃ" نماز کی پابندی کرنا "وتصوم رمضان" رمضان کے روزے رکھنا "وتؤتي الزکوٰۃ" زکواۃ ادا کرنا "وتحج البیت ان استطعت الیہ سبیلا" اگر طاقت ہو تو بیت اللہ کا حج کرنا۔ یہ کلام ہے نبی پاک کا۔ کتنی مختصر سی بات فرمائی، زبان سے کلمہ پڑھنا، نماز کی پابندی کرنا ، روزے رکھنا، زکوٰۃ ادا کرنا اور فرض ہوجائے تو حج ادا کرنا یہ تیرا اسلام ہے۔ اس آدمی نے کہا "صدقت" آپ نے سچ فرمایا۔
ایمان کیا ہے؟
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں "فعجبنا لہ یسئلہ ویصدقہ" کہ جب سوال کیا تو یوں معلوم ہوتا ہے اسے مسئلے کا پتہ ہی نہیں ہے اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسئلہ بتا دیا کہتا ہے "آپ نے سچ فرمایا"۔ اس سے معلوم ہوا اس کو پہلے مسئلے کا پتہ تھا، بات سمجھ آگئی اس نے سوال کیا تو کیا معلوم ہوا اس کو مسئلے کا پتہ نہیں اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسئلہ بتا دیا کہتا ہے آپ نے بالکل ٹھیک بتا یا اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کو مسئلے کا پہلے سے علم تھا۔ تعجب ہے ، خود ہی سوال اور خود ہی تصدیق! ہم اسی شش وپنج میں تھے اس نے دوسرا مسئلہ پوچھا "اخبرنی عن الایمان" اللہ کے پیغمبر بتاؤ ایمان کیا ہے؟ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان تؤمن باللہ"اللہ کو دل سے مان "و ملئکتہ" ملائکہ کو مان "وکتبہ" کتابوں کو مان "ورسلہ" رسولوں کو مان "والیوم الآخر" قیامت کے دن کو مان "وتؤمن بالقدر خیرہ وشرہ "تو یہ بات بھی مان لے کہ اچھی تقدیر ہے تو بھی حق ہے اچھی نہ ہو تو بھی حق ہے۔ اچھی تقدیر ہو تو بھی بر حق اور اگر اچھی نہ ہو تو بھی برحق ہے۔
اچھی بری تقدیر کا مطلب:
تقدیر اچھی ہونے اور اچھی نہ ہونے کا مطلب کیا ہے؟ ذرا سمجھ لو اللہ کے کھاتے ہم بری تقدیر نہ پھینک دیں۔ اس کا مطلب یہ ہے ایک آدمی نے کسی کو قتل کردیا عدالت میں گیا تو بتاؤ قاتل کو سزا کون سی ہونی چاہیے ؟بتاؤ ناں بھائی اس کی سزا کیا ہے ؟ سزائے موت! اب بندہ قتل کیا عدالت میں گیا جج نے سزائے موت دی۔ فیصلہ ٹھیک ہے یا غلط؟ )عوام: ٹھیک ہے( لیکن جن کے بیٹے کو سزائے موت ہوئی ہے وہ خوش ہیں؟ ان کو کہو جی مبارک ہوا جج نے ٹھیک فیصلہ سنایا ہے۔ یار کچھ شرم کر یہ مبارک کی بات ہے ؟ جج نے فیصلہ غلط دیا ہے یا ٹھیک؟ اب فیصلہ ٹھیک ہے لیکن ہمیں اچھانہیں لگ رہا اللہ کا فیصلہ بالکل ٹھیک ہو گا ہمیں اچھا نہیں لگے گا۔ گناہ کیا ہے سزا ملی ہے تو سزا کس کو اچھی لگتی ہے؟ تو اچھی اور بری تقدیر کا مطلب یہ ہے بندہ سمجھتا ہے کہ اچھی بری تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے فیصلے اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی ہوتے ہیں وہ فیصلے جو تمہیں اچھے لگیں اور وہ فیصلے جو تمہیں اچھے نہ لگیں ہر حال میں سمجھیں کہ اللہ کا فیصلہ ہر حال میں اچھا ہے۔
مشاہدہ اور مراقبہ:
پھراس نے کہا "
یارسول اللہ اخبرنی عن الاحسان "
بتائیں احسان کیا ہے ؟ فرمایا
"ان تعبد اللہ کانک تراہ
" عبادت یوں کر کہ تو خدا کو دیکھتا ہو "فان لم تکن تراہ فانہ یراک" اگر یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی پھر عبادت یوں کر کہ اللہ تجھے دیکھتا ہے۔ توخدا کو دیکھے اسے مشاہدہ کہتے ہیں اور خدا تجھے دیکھے اسے مراقبہ کہتے ہیں۔ اسے کیا کہتے ہیں ؟ مراقبہ! یقین کریں کئی مرتبہ میرا دل کرتا ہے میں اپنے ذوق پر دلائل دوں اور پھر بیان کروں۔
لیکن جب میں اٹھوں گا تو کئی لوگوں نے کہنا ہے "ایہہ مسئلہ اتھے دسن د ی کی لوڑ سی؟ ایہہ دلیل ایہنے کی دِتّی؟ سانوں سمجھ نئیں آئی " )یہ مسئلہ یہاں بتانے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ کیا دلیل دی؟ ہمیں تو سمجھ نہیں آئی( بیان اتنی رفتار میں تھا بیان کا فائدہ کیا ہوا؟ میں کبھی چک84، چوکیرہ، چک85 جاتا ہوں بیان کے لیے تو لڑکے کہتے ہیں "جیہڑی سی ڈی ویکھی اے نا او بیان تے تُسی نئیں کیتا" )جو علمی بیان سی ڈی میں آپ نے کیا تھا وہ یہاں کیوں نہیں کیا؟( "تے جے او بیان میں پنڈ کیتا ناں تے تُسی کہناں اے ایہدی لوڑ کی سی؟" )اور اگر میں نے وہ علمی بیان یہاں کردیا تو آپ نے کہنا ہے کہ یہاں اس بیان کی ضرورت کیا تھی؟(
قدر پُھلاں دی بلبل جانے!
میں اس پر ایک مثال دیتا ہوں سمجھانے کے لیے۔ ایک شاعر تھا شاگرد تیار کیا شاعر بنا شاگرد نے شعر پڑھا استاذ نے کہا " پتر تیرا شعر اِنّا قیمتی اے لکھ دا وی اس دا مل نئیں بندا، لکھ تووی مہنگا اے" ) بیٹا تمہارا یہ شعر ایک لاکھ سے بھی زیادہ قیمتی ہے) وہ بڑا خوش ہوا، شعر لیا اور بازار چلا گیا۔ جی مجھے دو کلو آلو دے دیں، سو شعر سناؤں گا۔اس نے کہا بھائی مجھے تو سو روپیہ چاہیے، شعر اپنے پاس رکھو۔ اسے سوچا کہ اسے شعر کی قیمت کا اندازہ نہیں، جوتے بیچنے والے کے پاس گیا، جی مجھے ایک جوتا دے دیں، پچاس شعر سناؤں گا۔ اس نے بھی یہی کہا مجھے تو پیسے چاہییں شعر نہیں۔ وہ بڑا دل برداشتہ ہوا، استاذ سے جا کر کہنے لگا جی اس شعر کے تو دو کلو آلو، ایک جوتا بھی نہیں آتے، آپ کہہ رہے تھے ایک لاکھ سے بھی قیمتی ہے۔ استاذ نے پوچھا تم گئے کہاں تھے؟ اس نے کہا دکان پر۔ استاذ نے کہا دکان پر نہیں بادشاہ کے دربار میں جاکر شعر پڑھ پھر پتہ چلے گا تیرے شعر کی قیمت کیا ہے۔
یقین کریں بڑی حسرت سے بات کہتا ہوں میرا دل کرتا ہے میں دلائل دوں لیکن جب میں نے ویسی گفتگو کی نا جو میں باہر کرتا ہوں تو آپ نے کہنا ہے اتنی تیز بات کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ اس لیے میں آہستہ کرتا ہوں۔ اللہ کرے بات دلائل سے سمجھاؤں۔ اس شخص نے کہا "اخبرنی عن الاحسان" احسان کے بارے میں بتاؤ کیا ہے؟ فرمایا "ان تعبد اللہ کانک تراہ"عبادت ایسے کر جیسے تو خدا کو دیکھتا ہے یہ مشاہدہ ہے۔ اگر یہ نہیں ہو سکتا تو ایسے کرکہ خدا تجھے دیکھتا ہے اس کو مراقبہ کہتے ہیں۔ امتی کی عبادت مراقبے والی ہے اور نبی کی عبادت مشاہدے والی ہے۔
خدا نبی کو دیکھتا ہے نبی خدا کو دیکھتا ہے، امتی خدا کو نہیں دیکھتا خدا امتی کو دیکھتا ہے ، اسی لیے نبی ایک سجدہ کر دے امتی کے کروڑ سجدوں سے بہتر ہے نبی نے زندگی میں ایک حج کیا ہے امتی جتنے مرضی حج کر لے نبی کے حج کے برابر نہیں ہوسکتا، کیونکہ وہ حج مشاہدے والا ہے امتی کا مراقبہ اور غیبوبت والا ہے اللہ بات سمجھنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔
قیامت اور اس کی نشانیاں:
پھر پوچھا "اخبرنی عن الساعۃ" قیامت کب آئے گی؟ اللہ کے نبی نے عجیب جواب دیا
"ما المسؤول عنھا بأعلم من السائل
"پہلے تو میرے ہر جواب میں "صدقت"کہا ناں کہ حضور سچ فرمایا۔ لیکن قیامت کب آئے گی اس کا تجھے بھی نہیں پتہ اس کا مجھے بھی نہیں پتہ۔
اس نے کہا حضور یہ بتائیں "اخبرنی عن امارتھا" قیامت کی نشانیاں ہی بتا دیں۔ اب حضور علیہ السلام کی بتائی ہوئی نشانی سنو "ان تلد الامۃ ربتھا "قیامت کی نشانی یہ ہے کہ باندیاں آقا کو جنیں،لونڈیاں آقا کو جنیں ، لونڈیاں مالک کو جنیں کیا مطلب؟ قیامت کی نشانیاں کہ باپ یوں ہوگا جیسے غلام ہے، بیٹا یوں ہوگا جیسے آقا ہو۔ قیامت کی نشانی ہے بیٹی یوں ہوگی جیسے مالکن ہے اور ماں یوں ہوگی جیسے باندی ہے بیٹا باپ کو آرڈر کرے گا باپ کو حق حاصل نہیں ہوگا کہ بیٹے کو کہے۔ ابا تینوں میری گل سمجھ نئیں آندی؛ دو دن سکول پڑھ لیا؛ تینوں میری گل سمجھ نئیں آندی۔
میں نے کہا عقل سے کام لے جب تیرا پیشاب اس نے صاف کیا ہے کھانا اس نے کھلایا ہے تیری فیس یہ دیتا رہا اور جب بے ایمان تو بولنے کے قابل ہوا اب کہتا ہے ابا تینوں میری گل سمجھ نئیں آندی ، توپرانیاں گلاں کرنا ایں، ویاہ میں کرنا اے یا تو کرنا اے؟ کڑی نا ل میں رہنا اے یاتو رہناں اے ؟جتھے میرا دل کرے تیری کیوں مناں؟ لعنت ہے ایسی سوچ پر اس بے حیائی والی سوچ پر پاب کو کہتا ہے ماں کو کہتا ہے ظالم تیری ماں سے زیادہ کوئی تیرا مخلص ہوسکتا ہے؟ پہلے لو ّ میرج کرتے ہیں بعد میں قتل وغارت تک نوبت آجاتی ہے پھر طلاقوں تک نوبت آجاتی ہے پھر کہتے ہیں ابا جی ہن تواڈی گل سمجھ آئی اے۔ ہن کی فائدہ؟ اماں جی گل سمجھ آئی اے۔ فائدہ؟ اب ماں کی بات سمجھنے کا کیا فائدہ؟ اللہ کے پیغمبر نے فرمایا یہ قیامت کی نشانی ہے۔
اچھا حضور کوئی اور نشانی بتائیں اللہ کے پیغمبر نے بڑی عجیب بات کی
"وأن ترى الحفاة العراة العالة رعاء الشاء يتطاولون في البنيان"
فرمایا قیامت کی نشانی یہ ہے پاؤں میں دیکھو تو جوتیاں نہیں ہیں جسم پر کپڑے نہیں ہیں، پیٹ دیکھو تو روٹیاں نہیں ہیں مانگ مانگ کر پیسے جمع کرتا ہے لمبی لمبی بلڈنگیں بنا رہا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،سمجھو قیامت کی نشانیاں ہیں کیا مطلب؟ آدمی کمینہ ہو بڑی بلڈنگ سے کبھی بڑا نہیں بنتا۔ آدمی گھٹیا ہو بڑی گاڑی سے کبھی بڑا نہیں بنتا۔ کردار میں گھٹیا ہو اور بڑا مکان بنا کر یہ کہے کہ میں بڑا بن گیا خود گھٹیا ہو اور سمجھے کہ بڑی گاڑی لے کر بڑا بن گیا اللہ کے پیغمبر نے فرمایا اب سمجھو قیامت آ رہی ہے۔
قدر کردار سے :
قدر مکان سے نہیں ہوتی آدمی کی قدر کردار سے ہوتی ہے آدمی کی قدر گاڑی سے نہیں ہوتی خدا کی قسم آدمی کی قدر آدمی کے کردار سے ہوتی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ بکریوں کے چرواہے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مسواک اٹھا تےحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیاں اٹھاتے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تکیہ اٹھاتے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتے اور کسی نے کہا یہ عبد اللہ بن مسعود اے نکیاں نکیاں لتاں آلا؟ یہ عبداللہ بن مسعود؟ یہ چھوٹی چھوٹی ٹانگوں والا؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ جو تمہیں چھوٹی چھوٹی نظر آتی ہیں خدا کے ہاں احد پہاڑ سے زیادہ وزنی ہیں اللہ کے ہا ں پہاڑ سے زیادہ وزنی ہیں۔
ایک شخص گزر رہا تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بتاؤ اس شخص کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ صحابہ نے کہا یہ اگر سفارش کرے تو کوئی اس کی سفارش کو واپس نہ کرے کسی سے نکاح مانگے تو کوئی اس کا نکاح کو انکار نہ کرے ، چلا گیا۔ ایک غریب آدمی آیا فرمایا اس کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ صحابہ نے کہا یارسول اللہ رشتہ مانگے تو تو کوئی نہ دے ، بات کرے تو کوئی نہ سنے۔ اللہ کے پیغمبر نے فرمایا جو پہلے گیا ہے اس سے پوری زمین خدا کی بھر جائے اس کے برابر نہیں ہوسکتا۔
یہ کب تک ہے ؟ جب تک نبض چل رہی ہے جب تک سانس چل رہی ہے خدا کی قسم تعجب ہوتا ہے ہم کتنے عجیب لوگ ہیں ،کہاں جا رہے ہیں؟ ہسپتال جا رہے ہیں کس کو لے کر ؟ فلاں کو لے کر۔ کیس ہے بڑے سے بڑا وکیل بتاؤ۔ جب تک صحت مند ہوتا ہے نہ قرآن یا د ہے نہ نماز یاد ہے نہ اللہ یاد ہے نہ مولوی یاد ہے نہ حافظ یاد ہے اور ڈاکٹر وں نے جواب دیا فوراً فون؛ السلام علیکم مسجد جا کے کہو کہ قرآن شروع کر دیں کیوں؟ ڈاکٹر نے جواب دے دیا۔
میت کے گھر کا کھانا:
یہ کتنا بڑا ظلم ہے کتنا بڑا ظلم ہے، آکر کہتے ہیں مولوی صاحب بچوں سے کہہ دیں قرآن پڑھ دیں۔ اللہ معاف فرمائے اللہ معاف فرمائے بندے کی سوچ پر افسوس ہوتا ہے۔ آج کوئی فوتگی ہے چک 82 میں۔ ڈاکٹر صاحب نے فون کیا کہ جمعہ کے فوراً بعد جنازہ ہے آپ آجانا، میں نے کہا آجاؤں گا۔ اور جمعہ سے پہلے میں نے مدرسہ میں دیکھا، چک 82 کا ایک لڑکا آیا ہوا ہے۔ مولوی صاحب! میری نانی فو ت ہوگئی ہیں، بچوں سے کہیں قرآن پڑھنا ہے۔ میں نے قاری صاحب کو بلایا، کہا کہ بچوں سے کہہ دیں کہ جو قرآن پاک پڑھا ہے اس کی نانی کو ایصال ثواب کردیں۔ کہتا ہے نہیں آج نہیں پرسوں، میں نے پوچھا کیوں؟ کہتا ہے۔ پرسوں ختم ہے، پرسوں میں آکر لے جاؤں گا۔
میں نے کہا واہ جی واہ، تجھے اپنی نانی سے پیار ہے یا مجھے؟ نانی مر گئی ہے، قبر کے عذاب کا مسئلہ ہے، میں کہہ رہا ہوں ابھی اور تو کہہ رہا ہے پرسوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نانی اور ماں سے پیار نہیں ہے برادری کا مسئلہ ہے، لوگ کس طرح خوش ہوں گے؟ خدا کا بند ہ جو تونے دس دیگیں پکائی ہیں کسی غریب کو دے دو کسی یتیم کو دے کسی دو بیوہ کو دے دو کسی مسکین کو دے دو۔ یقین کرو کبھی کبھی میں سوچتاہوں غصہ تو آتا ہےلیکن اللہ کی قسم مجھے دکھ زیادہ ہوتا ہے خدا کی قسم افسوس ہوتا ہے ماں مر گئی ہے یتیم کو نہیں دیتے باپ مر گیا ہے غریب کو نہیں دیتے۔ تعجب اس پہ ہوتا ہے جس کا کوئی ساتھی گیا ہے "ہاں جی کھانا کھا کر جانا " یار تمہیں شرم نہیں آتی بیٹھتے ہوئے؟
یہاں سے چک 95 گئے ہیں "کھانا کھا کے جانا جی" کس منہ سے میت کےگھر سے کھانا کھاتے ہو؟ باپ کا جنازہ پڑھا ہے بیٹے کا جنازہ پڑھا ہے اور آپ کھانا کھا رہے ہو اور کوئی بندہ دال پکا دے تو کہتے ہیں یار تو نے دال پکائی ہے او تُسی ولیمے تے آئے او؟ شادی پر آئے ہیں آپ؟ میت کے گھر سے کھانا کھانا نہیں چاہیے میت والوں کو کھلانا چاہیے۔ خدا کا بندہ غم خواری کرنا سیکھو دُکھ درد بانٹنا سیکھو۔ میت کے گھر کھانے کی طلب لے کرجانا اللہ مجھے آپ کو ایسی سوچ سے محفوظ فرمائے اور میری بات پہ ناراض نہ ہونا یہ سوچ رکھنے والا غریب نہیں ہوتا یہ سوچ رکھنے والا چوہدری اور مال دار ہوتا ہے۔ "مرنے تے تسی کوئی شئے ای نئیں پکائی" جو چٹنی سے روٹی کھاتا ہے وہ نہیں مانگتا جو روزانہ گھر دیسی گھی سے کھاتا ہے وہ مانگتا ہے۔ اللہ ہمیں سمجھ عطا فرمائے۔
نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ؟کہا جی قیامت کی نشانیاں، اس علم کو سیکھو عمل کو سیکھو ہم نے یہ دنیا چھوڑ جانی ہے اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق دے میری بات یاد رکھو جس کا دنیا میں کوئی نہیں خد اا س کا ہے جس کو دنیا میں کوئی نہ پو چھے خدا اسے پو چھتا ہےاللہ کے پیغمبر نے فرمایا جس کا دل ٹوٹ جائے خدا اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں "ثم انطلق" پھر وہ بندہ چلا گیا "فلبثت ملیا" میں تھوڑی دیر ٹھہرا رہا۔ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا"یا عمر اتدری من السائل؟" اے عمر تو جانتا ہے یہ بندہ کون تھا؟ حضرت عمر رضی اللہ نے عرض کیا "اللہ ورسولہ اعلم" اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "فإنه جبريل أتاكم يعلمكم دينكم" وہ جبرائیل آیا تھا وہ مسئلے پوچھ رہا تھا میں مسئلے بتا رہا تھا تا کہ تمہیں مسئلے پتہ چل جائیں۔ اللہ نے جبرائیل بھیجا ہے تمہیں مسئلے سکھانے کے لیے۔ نوریوں کا سردار آیا ہے تمہیں مسئلے سکھانے کے لیے۔
اب دیکھو یں کیا سمجھا رہا تھا؟ یہ حدیث ام السنۃ ہے پورے دین کا خلاصہ ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجودیکہ دنیا میں کوئی استاذ نہیں ہے، کیسا دین سکھا رہے ہیں۔ اللہ مجھے آپ کو عمل کی توفیق عطافرمائے۔آمین
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین