اسلام میں اجماع کی حقیقت

User Rating: 3 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar InactiveStar Inactive
 
)آثار التشریع(
اسلام میں اجماع کی حقیقت
علامہ خالد محمود۔ پی۔ ایچ۔ ڈی لندن
اللہ تعالیٰ نے اس امت ( حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ) کو مجموعی طور پر برباد ہونے اور باطل پر جمع ہونے سے محفوظ رکھا ہے۔ اس امت کا کسی چیز پر متفق ہو جانا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ بات صحیح ہے ، اسلام میں امتِ محمدیہ کا اجماع معصوم تسلیم کیا گیا ہے۔ اس امت کا پہلا طبقہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین تھے یہ سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تزکیہ قلب کی دولت پائے ہوئے تھے اس لیے ان کا کسی بات پر متفق ہوجانا ( جیسے کہ یہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امامت اور خلافت پر جمع ہوگئے یا مسلیمہ کذاب کے مقابلہ میں انکارِ ختم نبوت کے کفر ہونے اور لائق جہاد ہونے پر جمع ہوگئے تھے) اس کے حق ہونے کا نشان ہے۔
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے بعد امت میں ہرطرح کے اچھے بُرے لوگ پائے گئے (گوتابعین کے دور میں بُرے بہت کم لوگ ہوں گے ) اس لیے اب ان ادوار میں ہر کہ ومہ کی رائے کا اعتبار نہ ہو گا اب اجماع کی اصطلاحی تعریف یہ کی جائے گی :”کسی زمانے کے تمام معتمد علمائے مجتہدین کا کسی امر پر متفق ہونا۔ “
یہ امت کسی ایک دور میں بھی باطل پر جمع نہیں ہو سکتی اس لیے علمائے مجتہدین کسی ایک دور میں بھی کسی بات پر جمع ہوجائیں تو اجماع امت منعقد ہو جاتا ہے جسے بعد کا کوئی اختلاف ( گوکسی بڑے سے بڑے آدمی کا ہو ) نہیں توڑ سکتا۔
جیسے ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقوں پر تمام ائمہ مجتہدین کا اجماع ہے کہ یہ تینوں ہی واقع ہوتی ہیں۔ اسلام کی پہلی چھ صد یوں میں اس پر کسی مجتہد کا اختلاف نہیں ملتا۔ سو بعد میں حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا اس سے اختلاف اس پہلے اجماع کو نہ توڑ سکے گا۔ اس لیے اب تک اجماع امت وہی شمار ہوتا ہے۔
اجماع کےلیے ضروری نہیں کہ سب اہل علم کسی ایک مجلس میں شریک ہوں یا اس میں تمام بلاد کی نمائند گی ہو یا ایک ہی دن میں سب اہل علم نے اس پر اتفاق کیا ہو ، اگر کسی جگہ عامہ اہل علم کسی بات پر متفق ہوجائیں یہاں تک کہ تمام بلاد ِ اسلامیہ اسے امت کا فیصلہ تسلیم کرلیں اور پھر یہی نہیں کہ اس پر کوئی مختصر لمحہ اوقات گزرے سالوں تک اس پر کوئی نقد نہ ہو پھر صد ہا سال مسلمانو ں کا یہی موقف سمجھا جائے تو تسلیم کرنے سے چارہ نہ رہے گا کہ یہ ”اجماعِ امت“ ہے اور امت کے معتمد علمائے مجتہدین سب اسی رائے پر جمع ہیں مجتہدین کی انفرادی آراء میں خطاء کا احتمال رہتا ہے لیکن مجتہدین کے اجماع میں احتمال خطا نہیں ہوتا۔ اس اتفاق کی وجہ سے اس رائے میں اللہ تعالیٰ کی رضا سامنے آجاتی ہے اب یہ جو فیصلہ ہے اس سے اللہ راضی ہے۔
سبیل المو منین کا خلاف جہنم کی راہ ہے :
”ومن یشاقق الرسول من بعد ماتبین لہ الھدیٰ ویتبع غیر سبیل المومنین نولہ ماتولیٰ ونصلہ جھنم وساءت مصیرا“
(سورۃ النساء)
ترجمہ: ”جو شخص اس رسول کی مخالفت کرے گا بعد اس کے کہ ہدایت کی راہ اس کے سامنے کھل گئی تھی اور وہ چلا سبیل مومنین کے خلاف تو ہم اسے ادھر ہی پھیر یں گے جدھر وہ خود پھرا اور اسے جہنم میں پہنچائیں گے اور وہ بُرا ٹھکانا ہے۔ “
امام طحاوی رحمہ اللہ ایک مقام پر اجماع کی قوت اس طرح بیان کرتے ہیں۔
” فدل اجماعھم علیٰ نسخ ما قد تقدمہ من قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لان اللہ عزوجل لم یکن لیجمعھم علیٰ ضلال۔“
)طحاوی شریف جلد ا ص142(
ترجمہ: ” پس ان کا اجماع اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ اس سے پہلے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث گزری ہے وہ منسوخ ہو گئی تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ انہیں(امت کو ) گمراہی پر جمع نہیں ہونے دیتے۔ “
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس امت کے خیر اور حق پر ہونے کی روایات اس قدر ہیں کہ محدثین نے ا ن کے تواتر کا دعویٰ کیا ہے۔ حافظ ابن کثیرمتوفیٰ 774 ھ لکھتے ہیں :” مفسرین کا اتفاق ہے کہ اس آیت میں سبیل المومنین سے مراد ”اجماع “ہے۔ “
مولانا عبد الحلیم لکھنوی نور الانوار کے حاشیہ پر لکھتے ہیں ۔
”وفائدۃ الاجماع بعد وجود السند مسقط البحث وصیر ورۃ الحکم قطعیا“
)نور الانوار ص 222(
ترجمہ: ”جب کوئی بات سند سے پائی گئی اور اس پر اجماع ہو گیا تو اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ آئندہ اس پر بحث نہ ہو سکے گی اور وہ حکم ( جو اجماع سے پہلے قطعی نہ تھا) اب قطعی ہوجائے گا۔ “
ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی واقع ہوتی ہیں۔ ائمہ اربعہ اور ا ن کے پائے کے دوسرے علماء( جیسے حضرت سفیان ثوری ، امام اوزاعی رحمہم اللہ وغیرہ ) کے اتفاق کے باعث اب یہ ایک قطعی مسئلہ شمار ہوگا اور اس اجماع کے بعد کا کسی عالم کا کوئی اختلاف اس اجماع کو توڑ نہ سکے گا۔
اجماع کی مختلف قسمیں

1

صریح
سب اہل علم مل کر کسی قول یا فعل کو اختیار کریں۔

2

سکوتی
کچھ اہل علم کسی بات کو ا ختیار کریں اور دوسرے اہل علم اس پر کسی قسم کا انکار نہ کریں اس سکوت کے حجت کے لیے کچھ شرطیں ہیں:
:1 سکوت کرنے والوں سے موافقت یا مخالفت کسی چیز کا صدور نہ ہو۔
2: جب انہیں پہلے طبقہ کی فیصلہ کی اطلاع ملے انہیں اس پر غور کرنے کےلیے مناسب وقت ملے۔
3: مسئلہ زیرِ غوروہ ہو جس میں کتاب وسنت کی صراحت نہ ہو اس میں اجہتاد کی گنجائش ہو۔
4: اسے سکوت سے تسلیم کرنے والے علماء مجتہدین ہوں۔
تاریخی لحاظ سے اجماع کے دو درجے ہیں۔
1: اجماع صحابہ 2: اجماع علماء ما بعد
اگر کسی مسئلے میں صحابہ رضی اللہ عنہم کا اختلاف ہو ( جیسے مسئلہ وتر میں اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم ایک طرف اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ دوسری طرف ) اور بعد از دور صحابہ رضی اللہ عنہم تمام مجتہدوں کا اس میں کسی بات پر اجماع ہوجائے تو پہلا اختلاف اس اجماع کو نہ توڑ سکے گا۔
نوٹ: دین کے وہ مسائل یا عقائد جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تواتر کے ساتھ منقول ہوں اور ادوار مابعد میں ان میں اہل علم کا کسی قسم کا اختلاف نہ ہوتو یہ متواترات دین میں اجماع سے زیادہ قوت رکھتے ہیں۔
)1) اجماع ان مسائل میں ہوتا ہے جو مجتہد فیہ ہوں ان میں اجتہاد کی گنجائش ہو اور متواتر وہ امور بھی ہو سکتے ہیں جو کتاب و سنت میں مذکور ہوں۔ ختم نبوت اور نزول مسیح کا عقیدہ اسلام میں متواتر چلا آ رہا ہے۔
(2( حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کا ہر مدعی نبوت کا فر یا مرتد ہے یہ مسئلہ اجماعی ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معتمد صحابی ہیں یہ مسئلہ متواترات میں سے ہے لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ کی خلافت اجماعی منصوص نہیں محسوس ہے۔
اجتہاد:
جس مسئلے کا حکم کتاب وسنت اور اجماعِ صحابہ میں نہ ملے کتاب و سنت کے اصولوں میں غور وفکر کر کے اس مسئلے کا حکم دریافت کرنا یہ اجتہاد ہے۔ مسئلہ پیش آمدہ کی نظیر کتاب وسنت میں مل جائے تو اس مسئلے کو اپنی نظیر کی طرف لوٹانا اور اس کا حکم معلوم کرنا یہ بھی اجتہاد ہے اس رد النظیر الی النظیر کو استنباط بھی کہہ دیتے ہیں
اجتہاد کے تین مرحلے:
اجتہاد سے اصل کو فرع تک لانے کےلیے علت کو تین مرحلوں سے گزرنا پڑے گا۔
)1) پہلے یہ دیکھا جائے گا کہ کتاب وسنت کے اس حکم میں کون کون سے وصف علت بن سکتے ہیں ؟
(2( پھر ان اوصاف کی تنقیح جو علت نہیں بن سکتے اس سے وہ وصف جو علت بن سکتا ہے متعین ہو جائے گا۔
(3) پھر اس متعین وصف کو اس صورت حال میں تلاش کرنا جس کے لیے اجتہاد عمل میں لایا جا رہا ہے پہلی صورت کو ”تخریج المناط اور دوسری کو ” تنقیح المناط “ اور تیسری کو ”تحقیق المناط “ کہتے ہیں۔
مثال : ایک بدو روزے کی حالت میں اپنی بیوی کے پاس گیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روزہ ٹوٹ گیا۔ قضاء اور کفارہ دونوں لازم ہیں اس صورت حال میں یہ اوصاف قابل غور ہیں۔
)1) غلطی کرنے والا بدو ہے جو مسئلہ نہیں جانتا۔
(2( اپنی بیوی کے پاس گیا ہے جو روزے سے نہ تھی۔
(3) ارتکا ب صحبت جس کی روزے میں ممانعت ہے۔
(4) اس بدو کو اپنے روزے کا پتہ تھا مسئلے کا پتہ نہ تھا۔
ان سب امور کو جاننا ”تخریج المناط “ہے۔
ان اوصاف میں وہ وصف متعین جس پر روزہ ٹوٹا صرف صحبت ہے یہ اس حکم کی علت ہے باقی اوصاف چھا نٹ دئیے گئے یہ” تنقیح المناط“ ہے۔ اب اگر کسی پیش آمدہ مسئلہ میں اس شخص نے روزے کی حالت میں صرف عمداً پانی پیا تو اس واقعہ کا حکم اس واقعہ کے لیے ایک نظیر ہوگا اور وہ علت اس نئے پیش آمدہ مسئلے میں تحقیقاً اترے گی اسے ”تحقیق المناط “کہتے ہیں۔
مجتہد کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان تین مراحل سے گزرے پھر اسے ایک صورت کو دوسری پر قیاس کرنے کا حق ہوگا۔
شرائط اجتہاد :
اجتہاد کرنے کا حق ہر کسی کو نہیں دیا جا سکتا۔ اہل اجتہاد وہی ہیں جن میں اجتہاد کی مندرجہ ذیل شرائط پائی جائیں:
)1) عربی زبان کا پورا علم کیونکہ قرآن وحدیث کی اصل زبان یہی ہے۔
(2( قرآن وحدیث کا پورا پوراعلم۔
(3) آیاتِ احکام اور احادیث ِ احکام پر خصوصی نظر۔
(4) پہلے جو اجتہاد ( مثلاً خلفائے راشدین اور دیگر فقہا ء صحابہ کے) ہو چکے ہیں ان پر پوری نظر ہو۔
(5) اجتہاد کے اصول وقواعد کا پورا علم۔
مراتب اجتہاد :
1 اجتہاد مطلق 2 اجتہاد درمذہب
3 اجتہاد در تخریج 4 اجتہاد درمسائل 5: اجتہاد در ترجیح
فقہ حنفی میں تیسرے درجے کے مجتہد شمس الائمہ سرخسی، فخر الاسلام بزودی اور قاضی خان تھے۔ چوتھے درجے کےمجتہد حافظ ابوبکر الجصاص ،الرازی اور ابو الحسین کرخی اور پانچویں درجے کے مجتہد علامہ قدوری اور علامہ برہان الدین صاحب ہدایہ معروف ہستیاں گزری ہیں۔
اجتہاد کی چار معروف راہیں:
1 قیاس 2 استحسان 3 استصلاح 4 استصحاب
ان میں سے مجتہد جس راہ سے مسئلہ آمدہ کا حکم پالے وہ مسئلہ شریعت ہی کی دریافت سمجھا جائے گا مجتہدین مسائل کے موجد نہیں ہوتے صرف مظہر ( انہیں دریافت کرنے والے) ہوتے ہیں۔ مجتہد کے لیے سب سے اہم مرحلہ کتاب وسنت میں اس علت کو تلاش کرنا ہے جو کسی حکم میں موجود ہو اورنئے پیش آمدہ مسئلہ میں وہ و صف خارجی اس کے حکم میں موثر ہو اور اس میں یہ بھی ضروری ہے کہ قیاس کی صحت کے تمام شرائط پائے جائیں۔
قیاس
قیاس اصول فقہ کی اصطلاح ہے اور لفظ اس عام معنی میں نہیں جس میں عوام ا سے استعمال کرتے ہیں عوام کے خیال میں قیاس اپنے تجربات اور مشاہد ات کی روسے کوئی خیال قائم کرتا ہے اس رائے کی اساس محض اپنے خیالات اور ضرورات ہیں۔ اصول فقہ میں قیاس کی بنیاد اپنے خیالات و تجربات نہیں کتاب وسنت میں مسئلہ پیش آمدہ کا حکم کتاب وسنت میں اور اقوال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں نہ ہو تو اسے ایسے کسی دوسرے منصوص مسئلے پر قیاس کرنا بشر طیکہ اس قیاس کی صحت کی تمام شرطیں پائی جائیں۔
سو جو لوگ قیاس سے نفرت کرتے ہیں وہ عوام میں سے ہوتے ہیں اور قیاس کو وہ اس طرح سوچتے ہیں جو عوام کا ذہن ہوتاہے اصول فقہ پڑھے ہوتے ہیں ان کے ہاں قیاس مجتہد کوئی معمولی بات تھیں مسائل غیر منصوصہ کا حکم دریافت کرنے کی ایک اصل عظیم ہے۔
قرآن کریم میں قیاس کرنے کا حکم
قرآن کریم میں حکم ہوا کہ اگر تم کسی امر میں باہم اختلاف میں پڑ جاؤ تو اس امر کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی کی طرف لوٹاؤ دو یہ اس کی کے لیے بہترین دریافت ہوگی۔
” فان تنازعتم فی شیء فردوہ الی اللہ والرسول ان کنتم تومنون باللہ و الیوم الاٰخر ذٰلک خیر واحسن تاویلاً“
(پ النساء)
ترجمہ: سو اگر تم کسی چیز میں اختلاف کرو تو اس معاملے کو لوٹاؤ اللہ ورسول کی طرف اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ بہتر ہے اور انجام کار اچھی بات۔
ظاہر ہے کہ یہ حکم قیامت تک کے لیے ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دنیوی زندگی میں تو نئے پیش آمدہ مسئلہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹایا جا سکتا تھا اب اس پر کیسے عمل کیا جائے؟
اب اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹانا اسے کتاب وسنت کی طرف لوٹانا ہوگا کہ نئے پیش آمدہ مسئلہ کی نظیر کتاب وسنت میں معلوم کی جائے اور پھر نئے پیش آمدہ مسائل کو ان کی نظائر کی طرف لوٹا کر ان کا شرعی حکم دریافت کیا جائے ، یہ رد النظیر الیٰ النظیر ہے اور یہی قیاس ہے جو مجتہد کی ذمہ داری ہے۔
جس آیت یا سنت سے اسے قیاس کیا جائے اسے اصل کہتے ہیں اور جو چیز بذریعہ قیاس معلوم کی جائے اسے فرع کہتے ہیں۔ اصل اور فرع میں ایک علت جامعہ ہوتی ہے جو دونوں کو جمع کرتی ہے اور پھر دونوں میں جو حکم ملتاہے اسے جامع کہتے ہیں حکم جامع وہ حکم ہے جو علت جامعہ کے سبب اصل میں موجود ہوتا ہے۔ اگر وہ حکم اصل کے ساتھ خاص ہو تو پھر اسے آگے نہیں پھیلا یا جاتا۔
کوئی چیز جو نشہ آور ہو گو وہ شراب نہ ہو اسے نشہ کی علت جامعہ کے سبب شراب پر قیاس کیا جائے گا اور اسے حرام سمجھا جائے گا۔
(2( قرآن کریم میں ہے :
فاعتبرو ا یا اولی الا بصار
(پ 28 الحشر )
ترجمہ: اے آنکھوں والا تم عبرت حاصل کرو۔
کسی واقعہ سے اپنے لیے عبرت حاصل کرنا اس واقعہ کی اپنی طرف لوٹانا ہے قبر کسی دوسرے کی ہے اسے دیکھ کر اپنی قبر کا دھیان آنا اور اپنی آخرت کو یاد کرنا یہ وہ سبق ہے جو ہمیں اس کی قبر سے ملا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بھی فرمایا۔
عبرت کی حقیقت یہی ہے کہ کسی سابق چیز کو اس جیسے اور واقعہ کی طرف لوٹایا جائے اور یہی قیاس ہے لیکن قیاس ہر کسی کا معتبر نہیں یہ حق مجتہد کا ہے اور وہی قیاس کی ساری شرطوں پر نظر رکھے ہوتا ہے۔
ہاں قیاس کی علت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منصوص ہو جیسا کہ مذکورہ حدیث میں مذکور ہوئی تو اسے ہم بھی علت کہہ سکتے ہیں اور جو علت مستنبط ہو تو وہ اسی صورت میں حجت ہو سکے گی کہ اس کا استنباط کرنے والا وہ مجتہد ہو جس کے مجتہد پر اکثر علمائے امت کا اجماع ہو جیسے امام ابو حنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین۔
علت تین راہوں میں کسی راہ سے بھی معلوم ہو وہ علت جامعہ ہوسکتی ہے خواہ ) 1)نص سے معلوم ہو یا(2(اجماع سے یا(3) استنباط سے جس قیاس کی طرف ذہن جلدی منتقل ہوجائے اسے قیاس جلی کہتے ہیں اور جس پر ذہن اول وہلہ میں نہ آئے وہ قیاس خفی ہے جو لوگ جلی اور خفی میں فرق نہ کر سکیں وہ دین کو کیا سمجھیں گے……جلی اور خفی کے احکام پہچاننا ہر کسی کا کام نہیں یہ کامل مجتہدین اور راسخین فی العلم پر ہی کھلتے ہیں کسی ایک کے تمسک میں نہ رہ جانا دونوں سے تمسک ضروری ہے۔
نوٹ: قیاس اور دلالۃ النص بظاہر ایک سے معلوم ہوتے ہیں لیکن بات یوں نہیں قیاس میں علت جامعہ کی تلاش ہوتی ہے جس کے لیے کتاب وسنت کے پورے علم کے ساتھ عقل وفکر کی ضرورت ہوتی ہے جس سے اس پیش آمدہ مسئلے کا حکم دریافت ہو سکے مگر دلالۃ النص کی بنیاد لغت پر ہوتی ہے۔
1: قیاس کا حق صرف مجتد کو ہوتا ہے اور دلالۃ النص کو ہر صاحب لغت جان سکتاہے۔
2: قیاس میں صواب وخطا دونو ں کا احتمال رہتا ہے۔ مگر دلالۃ النص قطعی اور اس کا اعتبار متفق علیہ ہوتاہے۔