فتاویٰ تاتار خانیہ

User Rating: 3 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar InactiveStar Inactive
 
تعارف کتب فقہ آخری قسط
فتاویٰ تاتار خانیہ
مفتی محمد یوسف﷾
مؤلف کا طرز تحریر:
علامہ عالم بن العلاء الحنفی رحمہ اللہ نے فتاویٰ تاتار خانیہ کو جس اسلوب سے مرتب فرمایا وہ نہایت دلنشین،سہل اور عام فہم ہے،پیچیدگی اور الجھن سے دور ہے۔پڑھنے والا روانی اور تسلسل کے ساتھ پڑھتا چلا جاتا ہے،ذہن پر بوجھ پڑتا ہے نہ آنکھ تھکتی ہے۔فاضل مؤلف نے سہولت کے پیش نظر مختلف عنوانات قائم کرکے مسائل کو ان کے تحت ذکر کیا ہے۔
سب سے پہلے لفظ ”کتاب“ کے ساتھ”بنیادی لفظ“جوڑ کر ”مرکزی عنوان“قائم کرتے ہیں۔مثلاًکتاب الطہارۃ،کتاب الصلوٰۃ،کتاب الزکوٰۃ،کتاب الصوم وغیرہ۔اس کے بعد مذکورہ عنوان کا لغوی معنیٰ کبھی تو اپنی طرف سے بیان کرتے ہیں اور کبھی کسی دوسری کتاب کے حوالے سے نقل فرمادیتے ہیں۔
تیسرے نمبر پر ”الخلاصہ"کا عنوان قائم کرتے ہیں۔اس کے تحت مذکورہ موضوع سے متعلق اہم مسائل وجزئیات کو ذکر کرتے ہیں۔اس سے فراغت کے بعد وہ مرکزی عنوان جتنی ”فصول"پر مشتمل ہوتا ہے،اس کی تعداد بتلاتے ہیں۔پھر ”الفصل الاول،الفصل الثانی“ کا عنوان باندھتے ہیں اور ہر ہر فصل کے تحت جتنے مسائل ہوتے ہیں انہیں انواع پر تقسیم کرکے بیان کرتے ہیں۔مثلاً کتاب الطہارۃ کی ترتیب اس طرح ہے۔
کتاب الطہارۃ،المضمرات:الطہارۃ فی اللغۃ النظافۃ،وفی الشرع، عبارۃ عن غسل اعضاء مخصوصۃ بصفۃ مخصوصۃ،الخلاصۃ،اعلم بان الطہارۃ شرط جواز الصلوۃ۔۔۔۔۔۔ ہذا الکتاب یشتمل علیٰ تسعۃ فصول،الفصل الاول فی الوضوء وہو یشتمل علیٰ انواع،نوع منہ فی بیان فرائضہ،فنقول فرض الوضوء غسل الوجہ۔۔۔۔۔۔نوع منہ فی تعلیم الوضوء۔۔۔۔۔نوع منہ فی بیان سنن الوضوء وآدابہ۔۔۔۔۔الخ
کبھی کبھی فاضل مؤلف مرکزی عنوان کی لغوی واصطلاحی تعریف ذکر کیے بغیر آگے بڑھ جاتے ہیں اور اس مرکزی عنوان سے متصل بعد یہ بتلا دیتے ہیں کہ یہ کتاب اتنی اتنی فصول پر مشتمل ہے۔پھر چند ایک اہم جزئیات بیان کرنے کے بعد حسب سابق پہلے ”فصل“ پھر ”نوع“ کا عنوان قائم کرکے مسائل ذکر کرتےچلے جاتے ہیں۔مثلاً کتاب الصلوٰۃ کو اس طرز پر تحریر فرمایا ہے۔
کتاب الصلوۃ: ہذا الکتاب یشتمل علیٰ خمسۃ وثلاثین فصلاً،فی الخلاصۃ، الصلوات الخمس فریضۃ علی المسلمین العاقلین البالغین من الرجال والنساء دون الحائض والنفساء فی المواقت المعروفۃ۔۔ الفصل الاول فی المواقیت۔۔ ہذا الفصل یشتمل علیٰ انواع ،الاول فی بیان اول المواقیت وآخرہا۔۔نوع آخر فی بیان فضیلۃ الاوقات۔۔۔۔۔الخ
مذکورہ تفصیل کی بنیاد پر یہ شبہ نہ کیا جائے کہ فتاویٰ تاتار خانیہ میں ہر فصل کے تحت لازمی طور پر نوع کا عنوان ہوتا ہے کیونکہ ایسے مسائل کی بھی کمی نہیں جنہیں علامہ مرحوم نے صرف فصل کے تحت ہی ذکر کیا ہے۔اس کے تحت نوع وغیرہ کا عنوان قائم نہیں کیا۔
مصادر ومراجع:
فتاویٰ تاتارخانیہ کی تالیف کے وقت فاضل مؤلف کے پیش نظر فقہ حنفی کی درجنوں اہم اور قابل ذکر کتابیں تھیں۔جن میں سے تیس کتابوں کا ذکر خود مؤلف نے کتاب کے مقدمہ میں کیا ہے۔
ان تمام کتابوں کا کامل احاطہ اور مکمل تعارف تو ممکن نہیں البتہ اس سلسلے میں یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے چند معروف کتابوں کا مختصراً تعارف پیش کردیا جائے۔
1:فتاویٰ خانیہ
اسے فتاویٰ قاضی خان بھی کہتے ہیں امام فخرالدین حسن بن منصور اوزجندی رحمہ اللہ (592ھ) کی تصنیف ہے۔مصنف قاضی خان کے نا م سےمشہور ہیں فتاویٰ خانیہ ایک مشہور ومقبول کتاب ہے۔علماء فقہ حنفیہ کے بیشتر فتاویٰ کا مرجع یہی ہے۔یہ ان تمام مسائل کا مجموعہ ہے جن کی اکثر ضرورت پیش آتی ہے۔اس میں تقریبا ہر فقہی مسئلے کا مأخذ [اصل حوالہ]بتایا گیا ہے۔اور جس مسئلے میں متاخرین فقہاء کے اقوال زیادہ ہیں ان میں سے ایک یا دو قول ذکر کرکے زیادہ واضح قول کو ترجیح دی گئی ہے۔علامہ قاسم بن قطلوبغا رحمہ اللہ (879ھ) تصحیح القدوری میں فرماتے ہیں: ”قاضی خان جس بات کی تصحیح کردیں اسے دوسروں کی تصحیح پر مقدم سمجھا جائے گا“۔
[بحوالہ:الفوائد البہیۃ ص65]
2: الفتاویٰ النسفیہ
اس کے مؤلف علامہ نجم الدین عمر بن محمد نسفی رحمہ اللہ م(537ھ) ہیں جو علامہ سمرقندی کے نام سے مشہور ہیں۔یہ کتاب ان فتاویٰ کو محیط ہے جو انہوں نے اپنے معاصرین کے سوالات کے جواب میں تحریر کیے تھے۔علامہ ممدوح بہت بڑے فقیہ،محدّث اور مفسر تھے۔فقہ کے بارے میں ان کی مشہور تصنیف ”کتاب المنظومہ“ ہے۔اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ فقہ کی پہلی کتاب ہے جو بصورت ِنظم ضبط ِتحریر میں لائی گئی۔
3:المبسوط
یہ کتاب امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ (150ھ) کے مایہ ناز شاگرد امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ(189ھ) کی تصنیف ہے اور کتاب الاصل کے نام سے مشہور ہے۔اس کو "اصل"اس لیے کہا جاتاہے کہ امام محمد رحمہ اللہ نے سب سے پہلے اسی کو تصنیف کیا۔ اس میں فاضل مصنف رحمہ اللہ نے سینکڑوں مسائل سے متعلقہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے فتاویٰ جات جمع کیے ہیں۔ نیز ایسے مسائل بھی ذکر کیے ہیں جو ان کے اور امام ابویوسف رحمہ اللہ (182ھ) کے درمیان اختلافی ہیں۔اور جس مسئلے میں امام محمد رحمہ اللہ نے اختلاف ذکر نہیں کیا وہ سب کا متفقہ ہوتاہے۔
4:ہدایہ
شیخ الاسلام برہان الدین علی بن ابوبکر مرغینانی رحمہ اللہ(593ھ) کی تصنیف ہے۔یہ فقہ حنفی کی نہایت اہم اور معروف کتاب ہے اور درحقیقت اسی مصنف رحمہ اللہ کی ایک اور تصنیف "بدایۃ المبتدی"کی شرح ہے۔ اس کتاب کی فقہی اہمیت کے پیشِ نظر اس کی مختلف زبانوں میں کئی شروحات لکھی گئی ہیں اور علماء کرام نے مختلف اندا زسے اس پر بہت کام کیا ہے۔
5:الکافی
اس نام کی فقہیات سے متعلق کئی کتابیں ہیں جو چاروں مسالک[مسلک حنفی،مالکی،شافعی،حنبلی]پر مشتمل ہیں۔لیکن یہاں "الکافی فی فروع الحنفیہ "مراد ہے۔یہ کتاب امام محمد بن محمد (334ھ) کی تصنیف ہے جو امام حاکم شہید کے نام سے معروف ہیں۔مصنف رحمہ اللہ نے اس کتاب میں امام محمد بن حسن رحمہ اللہ کی کتابوں کے اہم فقہی مسائل سلیقے سے جمع کردئیے ہیں۔یہ کتاب اپنے مندرجات کے اعتبار سے قابل اعتماد ہے۔
6:کنز الدقائق
فقہ اسلامی کی یہ کتاب آج بھی مسلمانوں میں بہترین اور قابل اعتماد تصور کی جاتی ہے۔اور دینی مدارس کے نصاب میں داخل ہے۔اس کتاب کو ابوالبرکات علامہ عبداللہ بن احمد النسفی رحمہ اللہ (710ھ)نے تصنیف فرمایا۔فقہ حنفی کے جتنے بھی متون لکھے گئے ہیں ان میں سے مقبول ترین اور منفرد یہی کنزالدقائق ہے۔ اختصار اور جامعیت کی وجہ سے یہ کتاب اپنی مثال آپ ہے۔
فتاویٰ پر مزید علمی وتحقیقی کام:
وقتِ تالیف سے لے کر اب تک فتاویٰ تاتار خانیہ پر تین مرحلوں میں کام ہوا ہے۔ابتدائی دو مراحل میں یہ کام پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا،البتہ آخری مرحلہ میں کام کافی حد تک مکمل ہوگیا۔اب تک اس فتاویٰ پر جو کام کسی بھی شکل میں ہوا اس کی تفصیل یہ ہے۔
شیخ ابراہیم حلبی کی محنت:
دسویں صدی ہجری کے معروف عالم دین شیخ ابراہیم بن محمد الحلبی رحمہ اللہ نے سب سے پہلے اس فتاویٰ کے مخصوص مسائل کو ایک جلد جمع کیا۔جن مسائل کا شیخ نے انتخاب فرمایا وہ ایسے نادر یا کثیر الوقوع تھے جو عام کتب میں موجود نہ تھے۔ مسائل ذکر کرتے وقت شیخ مرحوم نے حوالہ جات نقل کرنے کا اہتمام بھی فرمایا۔چنانچہ حاجی خلیفہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ثم إن الإمام : إبراهيم بن محمد الحلبي المتوفى : سنة ست وخمسين وتسعمائة لخصه في مجلد وانتخب منه : ما هو غريب أو كثير الوقوع وليس في الكتب المتداولة والتزم بتصريح أسامي الكتب،
کشف الظنون ج1ص253
قاضی سجاد بجنوری کی کاوش:
شیخ ابراہیم حلبی کے بعد 500سو سال تک تقریباً کسی نے بھی فتاویٰ تاتارخانیہ پر کام نہیں کیا۔پندرھویں صدی ہجری میں مدرسہ عالیہ دہلی کے رئیس مولانا قاضی سجادحسین بجنوری رحمہ اللہ نے اس پر محققانہ طرز پر قلم اٹھانے کا عزم کیا۔انہوں نے یہ کام اپنے مخلص دوست پروفیسر خلیق احمد کے توجہ دلانے پر شروع کیا۔قاضی صاحب نے”کتاب الطہارۃ“ سے اپنی تحقیق کا آغاز فرمایا۔جب آپ ”کتاب البیوع“ کے باب ”بیع التلجئہ“ تک پہنچے تو آپ کی زندگی کا چراغ گل ہوگیا۔جس کی وجہ سے یہ تحقیقی منصوبہ نامکمل رہ گیا۔
مفتی شبیر احمد قاسمی کا کارنامہ:
فتاویٰ تاتارخانیہ پر جو علمی وتحقیقی کام مفتی شبیراحمد قاسمی صاحب نے کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔مفتی صاحب موصوف ہندوستان کے معروف دینی ادارہ جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد کے شیخ الحدیث ہیں۔آپ نے تین برس تک شب وروز مسلسل محنت وجستجو کے بعد یہ عظیم علمی کارنامہ سرانجام دیا۔مفتی صاحب کا یہ تحقیق شدہ نسخہ 23جلدوں پر محیط ہے جسے مکتبہ فاروقیہ کوئٹہ نے شائع کیا ہے۔فاضل محقق نے کتاب کی تحقیق وتعلیق میں مخطوطات یعنی قلمی نسخوں کی طرف مراجعت کا خصوصی اہتمام کیا۔دوران تحقیق فاضل محقق کے پیش نظر درج ذیل نسخہ جات تھے۔
1: سالار جھنگ میں محفوظ مخطوطہ
2: مخطوطہ قسطنطنیہ
3: مکتبہ رضا کانپور انڈیا میں محفوظ مخطوطہ
4: مخطوطہ نشاشیبی
5: مکتبہ خدا بخش پٹنہ،بہار میں محفوظ مخطوطہ
6: قاضی سجاد حسین بجنوری کا تحقیق شدہ نسخہ
مذکورہ چھ نسخوں میں سے فاضل محقق نے مخطوطہ قسطنطنیہ کو بنیاد بنا کر اس عظیم کام کا بیڑا اٹھایا۔کیوں کہ اس کی کتابت صاف ستھری اور واضح ہے۔یہ مکمل مخطوطہ آٹھ ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔فاضل محقق نے دوسرے نمبر پر قاضی صاحب کے تحقیق شدہ نسخہ سے ہر ممکن حد تک نفع اٹھایا۔اس کے علاوہ بقیہ مخطوطات ناقابل فہم حد تک باریک کتابت،بےڈھنگے الفاظ اور کثرت اغلاط کی وجہ سے فائدہ مند ثابت نہ ہوسکے۔
مخطوطات کی مراجعت کے علاوہ محقق موصوف نے درج ذیل امور پر خاص توجہ دی۔
1:اہم مسائل پر نمبر لگانے کا اہتمام کیا ہے۔
2:جو مسائل قرآن وسنت سے صراحتاً ثابت تھے ان پر آیات قرآنیہ،احادیث نبویہ اور آثار صحابہ پیش کیے۔
3:کتاب میں جتنے اسماء یا کتب کا ذکر آیا ہے،ان کا تعارف کرایا ہے۔
4:آغاز میں ایک جامع مقدمہ لکھا ہے جو درج ذیل سات فصول پر مشتمل ہے۔
1:الفصل الاول۔۔۔۔ فی ترجمۃ المولف ،اس فصل میں صاحب کتاب علامہ عالم بن العلاء الحنفی رحمہ اللہ کے حالات زندگی کو ذکر کیا ہے۔
2:الفصل الثانی۔۔۔۔فی تراجم الفقہاء قبل المولف،مولف کے زمانہ سے پہلے جو فقہاء کرام تھے اس میں ان کا تعارف پیش کیا ہے۔ان کی تعداد 53ہے۔
الفصل الثالث۔۔۔۔فی تراجم الفقہاء بعد المولف،
اس فصل میں مولف سے بعد والے 16فقہاء کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
الفصل الرابع۔۔۔۔فی ترجم المحدثین،
اس میں تقریبا76محدثین کرام کے حالات کو بیان کیا ہے۔
الفصل الخامس۔۔۔۔فی تاریخ الفقہ الحنفی،
اس میں فقہ حنفی کے آغاز اور اس کے عروج کے مراحل پر سیر حاصل گفتگو فرمائی ہے۔
الفصل السادس۔۔۔فی مراحل الخدمات لمخطوطات الفتاویٰ التاتار خانیہ۔
فتاویٰ تاتارخانیہ کے قلمی نسخوں پر مختلف ادوار میں جو علمی کام ہوتا رہا، اس فصل میں اس پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
الفصل السابع۔۔۔فی الکتب اللتی نقل عنہا المولف ولم یذکرہا فی مقدمتہ،
جن کتب کو فاضل مولف علامہ عالم بن العلاء الحنفی نے دوران تالیف زیر مطالعہ رکھا مگر مقدمہ میں ان کا تذکرہ نہیں کر سکے۔مذکورہ فصل میں مفتی صاحب موصوف نے ان کتابوں کا تعارف پیش کیا ہے۔