حقوق اللہ اور حقوق العباد

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
مجلس الشیخ:
حقوق اللہ اور حقوق العباد
ترتیب و عنوانات: مفتی شبیر احمد حنفی
3– فروری 2012ء بروز جمعۃ المبارک حضرت الشیخ متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ نے جامع مسجد 87 جنوبی سرگودھا میں خطاب فرمایا، جس میں ’’حقوق اللہ اور حقوق العباد‘‘ کے عنوان پر پُر اثرگفتگو فرمائی۔
الحمدللہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذباللہ من شرور انفسنا ومن سئیات اعمالنا من یہدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضلل فلاہادی لہ ونشہد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ ونشہد ان سیدنا و مولانا محمدا عبدہ ورسولہ، امابعد۔ فَاَعُوْذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ: وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا۔
الاسراء:23
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔
عبادت خدا کی، ادب والدین کا:
میں نے جو آیت کریمہ تلاوت کی ہے، اس میں اللہ رب العزت نے بظاہر دو حکم بیان فرمائے ہیں:
وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا۔
نمبر 1: سجدہ خدا کو کرو، نمبر2: ادب،احسان اورشکریہ اپنے والدین کا کرو۔
اللہ رب العزت نے سجدہ کو اپنی ذات کے لیے مختص فرمایا ہے۔ ”وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ“ میں عبادت کا ترجمہ میں نے سجدہ کیا ہے جب کہ عبادت کا مفہوم وسیع ہے کہ عبادت میں نماز بھی ہے، روزہ بھی ہے، حج بھی ہے، زکوٰۃ بھی ہے، جہاد بھی ہے، تلاوت بھی ہے، اقرباء و رشتہ داروں، مسلمانوں اور دیگر انسانوں کے حقوق کی ادائیگی بھی ہے۔ لیکن میں نےیہاں عبادت کا ترجمہ سجدہ کیا ہے۔
عبادت کسے کہتے ہیں:
اس کی وجہ یہ ہے کہ عبادت نام ہے خشوع، تواضع، تذلل اور عاجزی کا۔ عبادت کا معنیٰ یہ ہے کہ انسان احکامِ خداوندی کے سامنے اپنی گردن کو جھکا دے۔ اللہ رب العزت جو بات فرمائیں بند ہ اس کو مان لے۔ جسے ہم اپنی زبان میں، آسان لفظوں میں عبادت کہتے ہیں علماء عموماً وہ بعض معمولات جو بندے کو سمجھ نہ آئیں اسے ”امر تعبدی“ سے تعبیر فرماتے ہیں۔
امر تعبدی کا معنیٰ یہ ہوتا ہے کہ یہ وہ حکم ہے جو غلام کو اس کے آقا نے دیا ہے اور غلام اس با ت کا پابند نہیں کہ آقا کی بات کو سمجھے، وہ اس بات کاپابند ہے کہ آقا کی بات پر عمل کرے۔ آقا کے ذمے یہ نہیں کہ اپنے غلام کو بات سمجھائے اس کے ذمہ ہے کہ وہ اپنے غلام کو بات بتائے۔ بات سمجھ میں آئے تو بھی اس کے ذمہ ہے اور سمجھ میں نہ آئے تو بھی اس کے ذمہ ہے۔ اس کا نام ہے ”تعبدی“، اور یہ شریعت کا اصول اور ضابطہ ہے کہ شریعت انسان کو عقل کا پابند نہیں کرتی بلکہ اللہ کے احکام کا پابند کرتی ہے۔
عقل پرستی کا فتنہ:
آج کے دور میں جہاں اور فتنے ہیں ان میں ایک بہت بڑا فتنہ عقل پرستی کا ہے، اسی طرح بہت بڑا فتنہ مادہ پرستی کا ہے لیکن عقل پرستی کا فتنہ مادہ پرستی کے فتنے سے بھی بڑھا ہوا ہے۔ عقل پرستی کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں یہ بات سمجھاؤ کہ یہ شریعت کا حکم کیوں ہے؟ حالانکہ سمجھ میں آئے تو بھی عمل کرناہے، اگر سمجھ میں نہ آئے تو بھی عمل کرناہے۔ میں اس کی چھوٹی سی مثا ل دیتا ہوں، آج کے دور میں بہت سارے احباب وہ ہیں جو کلمہ بھی پڑھتے ہیں، خود کو مسلمان بھی کہلواتے ہیں لیکن شریعت کے بعض واضح احکام پر عمل نہیں کرتے، ان احکام کو بجا لاتے ہوئے جھجک اور شرم محسوس کرتے ہیں۔ مثلاً مردوں کےلیے شلوار کو ٹخنوں سے اوپر رکھنا؛ یہ واجب ہے اور شلوار کو ٹخنوں نیچے کرنا؛ یہ حرام ہے، دو شرطوں کے ساتھ؛ نمبر1: نازلاً ہو، نمبر2:قائماً
نازلاً کامعنیٰ یہ ہے کہ مردنے جو کپڑا پہنا ہو وہ اوپر سے نیچے آئے، چنانچہ آدمی جراب پہنتا ہے تو یہ اوپر سے نیچے نہیں ہے بلکہ نیچے سے اوپر جاتی ہے اس لیے اسے نازلاً نہیں کہیں گے۔ ہاں وہ کپڑا جو آدمی پہنے اور اوپر سے نیچے آئے اس کو کہتے ہیں نازلاً۔قائماً کہ آدمی کھڑا ہو، تو ایسے کپڑے کا ٹخنے سے نیچے کرنا حرام ہے۔ جراب پہنی ہو تو چونکہ یہ نیچے سے اوپر جاتی ہے اس لیے اگریہ ٹخنے کو ڈھانپ لے تویہ حرام نہیں ہے، اسی طرح آدمی بیٹھا ہو یا لیٹا ہو اور شلوار آدمی کے ٹخنے کو ڈھانپ لے تو یہ بھی حرام نہیں ہے، تو شلوار کا ٹخنوں سے نیچے کرنا مرد کےلیے حرام اورناجائزہے۔ دوران نماز پانچے ٹخنوں سے نیچے ہو ں تو ایسی نماز واجب الاعادہ ہے، واجب الاعادہ کامعنیٰ کہ اس نماز کو لوٹانا واجب ہے۔
[فتاویٰ رحیمیہ: ج5 ص145، فتاویٰ محمودیہ: ج6 ص654]
یہ بہت بڑا گناہ ہے، ہم عموماً خیال نہیں کرتے، اللہ رب العزت حفاظت فرمائے کہ آج کے دور میں ایک بالکل الٹا نظام چلا ہے کہ مردوں کی شلواریں ٹخنوں سے نیچے ہیں اور عورتوں کی شلواریں ٹخنوں سے اوپر ہیں، اورشاید آپ کے علم میں ہوگا کہ یہ جو بازار سے ٹیلر سے عورتیں کپڑے سلواتیں ہیں اور شلوار ٹخنوں سے اوپر سلواتی ہیں تو اس ڈیزائن اور فیشن کا نام ہی ان کے ہاں ”ملاں فیشن“ پڑ گیا ہے کہ مولویوں والا ڈیزائن مجھے بنا کے دو۔ اللہ رب العزت ہماری حفاظت فرمائے۔ تو مرد کے ذمے ہے کہ شلوار ٹخنوں سے اوپر رکھیں اور عورتوں کے ذمے ہے کہ ٹخنوں کو شلوار سے ڈھانپ کے رکھیں۔
یہ میرے نبی کا حکم ہے:
عام دیہاتی اور ان پڑھ آد می کو بات سمجھاؤ اسے بات سمجھ آتی ہے، اسے تو اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے:
مَا أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ مِنْ الْإِزَارِ فَفِي النَّارِ۔
صحیح البخاری: رقم الحدیث5787، عن ابی ہریرۃ
کہ شلوار کا وہ حصہ جو ٹخنوں سے نیچے ہو (اور ٹخنوں کو ڈھانپ لے) تو اتنا حصہ جہنم میں جائے گا۔
اس کا معنیٰ یہ نہیں کہ باقی حصہ جنت میں جائے گا۔ نہیں بلکہ پور ا جسم جہنم میں جائے گا۔ ٹخنوں سے نیچے والے حصے کو ذکر کرنےکی غرض یہ ہے کہ جہنم میں جانے کا سبب وہ حصہ بنے گا جو ٹخنوں سے نیچے اور ڈھکا ہوا ہے۔ جیسے آدمی اگر نا محرم عورت کو دیکھے تو اس کی آنکھ جہنم میں جائے گی، اس کا معنیٰ یہ نہیں کہ صرف آنکھ جہنم میں جائے گی، جہنم میں پورا جسم جائےگا اور جانے کا سبب آدمی کی آنکھ بنے گی۔ اگر کوئی انسان کان سے گانا سنے، اس کا معنیٰ یہ نہیں کہ کان جہنم میں جائےگا، اس کا معنیٰ ہے کہ جہنم میں سارا بدن جائےگا لیکن جہنم میں جانے کا سبب انسان کا یہ کان بنے گا۔ اگر کوئی انسان اپنی زبان سے گالی دے، غیبت کرے، بہتان لگائے، چغلیاں کرے تو یہ آدمی جہنم میں جائے گا، صرف زبان نہیں پورا جسم جائے گا، لیکن جہنم میں جانے کا سبب زبان بنےگی۔
عجیب روشن خیالی:
خیر میں بات سمجھا رہا تھا کہ عام آدمی کو اتنی بات سمجھا دینا کافی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے۔ امیروں کی دنیا میں جو خود کو ماڈرن، ترقی پسند اور تعلیم یافتہ حضرات کہتے ہیں ان کے ذہن میں آتا ہے کہ نہیں، یہ حکم اس دور کا ہے جب سنگ مرمر نہیں تھا، جب کارپٹ نہیں تھے اور جب ائیر کنڈیشن کمرے نہیں تھے، یہ اس دور کی بات ہے کیونکہ باہر مٹی ہوتی تھی، گرد وغبار ہوتاتھاتو تہبند اور شلوار ٹخنوں سے نیچے جاتی تو اس سے آدمی کے جسم کے اوپر اس گرد وغبار کی وجہ سے جراثیم آتے تھے جس سے بیماری آتی ہے۔ اب چونکہ یہ ماحول نہیں لہٰذا اب یہ جائز ہے۔ حالانکہ غور کرنے کی بات ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وجہ جراثیم بیان نہیں فرمائی بلکہ یہ تو امر تعبدی ہے، لہٰذا ہماری عقل میں آئے تو بھی ماننا ہے، نہ آئے تو بھی ماننا ہے۔ کیونکہ ہم نے کلمہ عقل نہیں پڑھا ،ہم نے کلمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑھا ہے۔
نماز؛ کمال عاجزی کا مظہر:
تو بات یہاں سے چلی تھی کہ میں سمجھا رہاتھا کہ عبادت نام ہے عاجزی تواضع، انکساری کا۔ آدمی جتنی بھی شریعت کی عبادات ادا کرتا ہے اس میں سب سے زیادہ عاجزی انسان کی نماز میں ہے۔ زکوٰۃ میں عاجزی موجود ہے، اس لیے کہ اگر عاجزی نہ ہوتی تو رب کے ڈر سے زکوٰۃ کیوں دیتا ؟ عاجزی ضرورہے لیکن اس میں غریب کو دولت دیتا ہے تو آدمی کے ذہن میں آسکتا ہے کہ میں نے اس کو پیسے دیے ہیں۔ حج کرنا اگرچہ عاجزی ہے، اگر عاجزی نہ ہوتی تو سوٹڈ بوٹڈ آدمی اپنے لباس کو چھوڑ کے محض دو چادروں میں سر ننگا کرکے کبھی بیت اللہ کا چکر نہ لگاتا اور دیوانہ وار وہاں نہ گھومتا، تو اس میں بھی عاجزی ضرور ہے لیکن اس میں بھی ذہن میں آ سکتا ہے کہ اس کے پاس دولت تھی، پیسہ تھا، دیکھو اتنا لمبا سفر کر کے آیا ہے۔ تو دین کے جتنے معاملات آپ کے سامنے ہیں ان کو اسی طرح سمجھیں لیکن جو عاجزی اللہ تعالیٰ نے نماز میں رکھی ہے یہ دیگر عبادات میں نہیں، جتنا خشوع نماز کے اندر ہے اتنا خشوع دیگر عبادات میں نہیں۔
عاجزی کی انتہاء:
اس کو صرف سمجھانے کےلیے ایک مثال دیتا ہوں تاکہ بات سمجھ میں آئے کہ نماز میں عاجزی کتنی ہے ؟ دنیا میں عاجزی کے مختلف پہلو اور درجات ہیں۔مثلاً اگرکسی بندے کو عاجزکر نا ہو، کسی کو اپنے ماتحت اور تابع بنانا ہو تو عموماً جملہ استعمال ہوتا ہے: ہینڈ زاپ [Hands up] کہ ہاتھ کھڑے کرو، تسلیم ہوجاؤ، گرفتاری پیش کرو۔ تو آدمی جب نما ز پڑھتا ہے تو اس میں سب سے پہلے ہینڈز اپ کرتا ہے۔
ہینڈزاپ کا معنیٰ کہ اِس نے خود کو خدا کے حوالہ کردیا۔ اس کےبعد دنیا میں کسی کو ہلکی سی سزادیتے ہو تو کہتے ہو: کھڑے ہوجاؤ، کان پکڑو۔ اب دیکھو یہ بندہ اللہ کے سامنے ہینڈز اپ بھی کر رہا ہے، کھڑا بھی ہوگیا اور کانوں کو ہاتھ بھی لگا دیے۔ پھر کبھی عموماً مجرم کو بڑے کے سامنے پیش کریں تو اس کے ہاتھ باندھے ہوتے ہیں، کہتے ہیں کہ ہاتھ باندھ دو۔ یہ بندہ بھی ہاتھ باندھ کر رب کے سامنے عاجزانہ کھڑا ہے۔
دنیا میں آدمی نے کسی کو مزید ذلیل کرنا ہو تو کہتے ہیں کہ فلاں شخص کو میں نے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیاتھا۔ اونے میڈے سامنے گوڈے ٹیک ڈتے نیں [اس نے میرے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں]، بندہ نماز میں کھڑا تھا اور اب گھٹنے بھی ٹیک دیے، اب رکوع میں ہے۔
تو اللہ رب العزت بندے سے خوش ہو کر فرماتے ہیں کہ ہم نے تیری اس عاجزی کو قبول کیاہے، اب کھڑے ہو کر اعلان کردے تو پھر آدمی کھڑے ہو کر اعلان کرتا ہے: ”سمع اللہ لمن حمدہ“۔اس کا لفظی ترجمہ مراد نہیں کہ ا للہ نے سن لیا اس کو جس نے اس کی حمد کی ہے، بلکہ ”سمع اللہ لمن حمدہ“ کا معنیٰ یہ ہے کہ اللہ نے قبول کر لیا اس بندے کی بات کو جس نے اس کی تعریف کی ہے۔ جس طرح ہماری زبان میں سننے کا معنیٰ ”قبول کرنا“ ہوتاہے، عربی زبان میں بھی سننے کا معنیٰ کا قبول کرنا ہوتا ہے۔تو گویاآدمی اپنی زبان سے کہتا ہے کہ اے اللہ! میں نے جو حمد بیان کی ہے، تو نے قبول کی ہے۔ پھر بندہ خوشی کا اظہار کرتاہے کہ میں نالائق تھا، آپ نے کرم کیا، میں نجاست کا لوتھڑا تھا، خدا نے مجھے پاک فرمایا۔ ہم اب مسجد میں ہیں، ہمارے معدے میں دیکھو، ہمارے مثانے میں دیکھو، اپنے پیٹ میں دیکھو کتنی غلاظت بھری پڑی ہے، لیکن وضو کیا، اللہ نے فرمایا ہم نے تمہیں پاک کردیا۔ گناہوں سے آلودہ ہوکر مسجد میں آیا اور صرف دل ہی دل میں کہا: اللہ میں نے جرم کیا تھا، معاف کر دے،آئندہ نہیں کروں گا۔ اللہ تعالیٰ فرمانے لگے جاؤ ہم نے تمہیں معاف کردیا ہے۔ تو و ضو کیا ظاہری بدن بھی پاک ہے، اسی انسان نے اپنے دل میں خود کہہ دیا کہ میں آئندہ گناہ نہیں کروں گا تو آدمی باطنی، روحانی، معنوی طور پر بھی پاک ہو جائےگا۔ اب بندہ سجدہ کر کے اللہ کا شکر ادا کرتاہے۔
”سبحان ربی الاعلیٰ“، ”سبحان ربی الاعلیٰ“، ”سبحان ربی الاعلیٰ“
کہ میرارب! تو بہت پاک ہے۔
میرا رب پاک ہے:
میں اس پر ایک نکتہ عرض کیاکرتا ہوں کہ دیکھو بندہ جب نماز میں ہے تو ”سبحان ربی الاعلیٰ“ کہتاہے، ”سبحان ربی العظیم“ کہتا ہے کہ اے میرے رب تو پاک ہے لیکن بندہ نماز سے باہر ”سبحان ربی الاعلیٰ“ نہیں کہتا، ”سبحان ربی العظیم“ نہیں کہتا، بلکہ ”سبحان اللہ“ کہتاہے کہ اللہ پاک ہے۔ ان دونوں میں کیا فرق ہے؟ کہ نماز میں بندہ کہتاہے”میرا رب پاک ہے“ اور نماز سے باہر کہتاہے کہ ”اللہ پاک ہے“، یہ نہیں کہتا کہ میرا اللہ پاک ہے۔ اس بات کو یوں سمجھیں کہ جب آپ یہاں سے نکلیں تو ایک بہت اچھی کوٹھی پر آپ کی نظر پڑی ہے،یا بہت اچھا خوبصوت مکان دیکھا ہے،یا باہر قیمتی گاڑی دیکھی، تو انہیں دیکھ کر بندہ کہتا ہے: سبحان اللہ کتنی اچھی گاڑی ہے، یہ نہیں کہتا کہ سبحان ربی العظیم کتنی اچھی کوٹھی ہے، سبحان ربی الاعلیٰ کتنی اچھی گاڑی ہے۔ کیوں؟ جب اس نے مکان دیکھا تو کہا سبحان اللہ، اس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ یہ گاڑی مجھے چاہیے، یہ مکان مجھے چاہیے۔
لیکن جب آدمی نماز پڑھتا ہے تو کہتا ہے: ”سبحان ربی الاعلیٰ“ کیونکہ یہ گناہوں میں آلودہ تھا، مسجد میں آیا اور نماز میں آیا خود کو پاک کرنے کےلیے، اور ضابطہ یہ ہے کہ جب کوئی چیز لینی ہو تو پھر آدمی مال والے کی نسبت اپنی طرف کرتا ہے۔ میں اس کو سمجھانے کے لیے کہتا ہوں کہ مثلاً ایک غریب آدمی ہے وہ کسی بڑے کے پاس جائے، وہاں جا کر دیکھے کہ اس کے پاس ہزاروں من گندم پڑی ہے اوریہ غریب گندم لینا چاہتا ہو تو وہاں یہ نہیں کہتاکہ آپ کے پاس گندم بہت ہے، بلکہ یہ جملہ یوں کہتا ہے: ہمارے سرداروں کے پاس بہت گندم ہے، ہمارے سرداروں کے پاس اس دفعہ فلاں چیز بہت ہوئی ہے۔ کیوں؟ کہ اس نے گندم لینی ہے تو کہتاہے کہ ہمارے سردار کی بہت چیزیں ہیں، ہمارے فلاں کی بڑی چیزیں ہیں۔ اس طرح جب بندہ گیا نماز میں پاک ہونے کےلیے تو کہتا ہے: ”سبحان ربی الاعلیٰ“ کہ میرا اللہ پاک ہے، کیونکہ اس نے پاکیزگی لینی تھی اس لیے ”سبحان ربی الاعلیٰ “ کہتا ہے۔
جھکا دی ہم نے جبین نیاز :
تو سجدہ میں گر کر کہتا ہے ”سبحان ربی الاعلیٰ “، اپنی ناک کوبھی زمین پر رکھا ہے، اپنی پیشانی کوبھی زمین پر رکھا ہے اور پھر اللہ کی پاکی کا اعلان کرتاہے۔ کھڑا ہوا تویہ بھی عاجزی ہے ،ہاتھ باندھے یہ بھی عاجزی ہے، رکوع میں چلا گیا یہ بھی عاجزی ہے، لیکن عاجزی کا سب سے آخری درجہ کون سا ہے ؟ کہتے ہیں کہ میں فلاں بندے کو ناک رگڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ہماری زبا ن میں کہتے ہیں: میں تے اس دے نک دیاں لکیراں کڈھا دتیاں نیں [میں نے اس کا ناک رگڑوا دیا ہے]یہ آخری درجہ تھا کہ بندہ اپنے ناک کو زمین پہ رگڑ کر کہتا ہے: ”سبحان ربی الاعلیٰ،سحان ربی الاعلیٰ، سبحان ربی الاعلیٰ “ اس کے اوپر تو کوئی مقام ہی نہیں ہے، اس سے زیادہ عاجزی کیا کرتا ؟ ہاتھ کھڑے کر دیے، کانوں کو ہاتھ لگا دیا، ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوا، گھٹنے ٹیک دیے ہیں، اللہ میں نے پیشانی اور ناک کو زمین پر رکھ دیا ہے، اللہ اب تو مجھے پاک فرمادے، اللہ اب تو مجھے پاک فرمادے، اللہ جب اس کی پاکی کا اعلان کرتے ہیں تو یہ دل میں سوچتا ہے کہ اے کاش! زمین پھٹتی اور میں نیچے جاتا اور نیچے جا کے پھر کہتا: ”سبحان ربی الاعلیٰ“، ادھر سے جواب ملتا ہے کہ اور نیچے تو نہیں جا سکتا، تو نے ایک رکعت میں قیام ایک کیا ہے، رکوع ایک کیا ہے، سجدے دو کیے ہیں یہ دوسرا سجد کیوں کیا ہے ؟ کہ بندے کے دل میں تھا کہ میں اور نیچے جاتا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تو اور نیچے تو نہیں جاسکتا چلو ایک اور سجدہ کر لے ایک دفعہ اور چلا جا۔
دوسرا سجدہ کرنا گویا ایسا ہے کہ بندہ جو اور نیچے جانا چاہتا ہے اس کی تمنا کو خدا نے پورا فرمایا ہے۔ تو سب سے اعلیٰ درجہ عبادت کا وہ خدا کے سامنے اپنی پیشانی کو ٹیک کر سجدہ کرناہے۔ تو دیکھیں کہ اس مسجد میں بہت سے شرعی اعمال ہوتے ہیں ، اس میں نماز بھی ہے، اس میں تلاوت بھی ہے، اس میں اذان بھی ہے اقامت بھی ہے، جمعہ بھی ہے، بچوں کو پڑھانے کاعمل بھی ہے، تبلیغی جماعت کا گشت بھی ہےاور بہت سے عمل ہوتے ہیں لیکن اس کو کیا کہتے ہیں: ”مسجد“ مسجد کا معنیٰ کیاہے کہ اس میں خدا کے سامنے اپنی پیشانی اور ناک کو ٹیک کر سجدہ کرنے والی اہم عبادت کی جاتی ہے۔ چونکہ تمام عبادات میں سے اعلیٰ سجدہ ہے، اس لیے اس جگہ کی نسبت ہی سجدہ کی طرف کر کے فرماتے ہیں
وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ۔
[سورۃ الجن:18]
میں صرف یہ سمجھا رہا تھاکہ عبادت میں جو عاجزی، انکساری مطلوب ہے اس کا آخری درجہ سجدہ کرنا ہے، توخدا نے جوحکم دیا ہے: ﴿وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ﴾ اس کا مطلب یہی ہےکہ سجدہ صرف خدا کی ذات کوکرنا ہے، خدا کے علاوہ کائنات میں کسی کو سجدہ کرنے کی گنجائش موجود نہیں ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں قیس بن سعد رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک درخواست پیش کی۔ وہ درخواست کیا تھی؟ عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم مقام حیرہ [عجم] میں گئےتھے، ہم نے وہاں ماحول یہ دیکھا ہے کہ وہاں کے لوگ اپنے بڑے کو سجدہ کرتے ہیں۔ یا رسول اللہ! ہماری نظر میں آپ زیادہ حق دار ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: بتاؤ اگر تم میری قبر کے پاس گزرو تو کیا میری قبر کو سجدہ کرو گے؟ صحابی نے عرض کی: نہیں، تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عجیب جملہ ارشاد فرمایا: ( اے میرے صحابہ یہ بات میری کان کھول کو سن لو کہ) ایسا ہرگز نہ کرنا (کیونکہ اللہ کی ذات کے علاوہ کسی کے لیے سجدہ کرنا جائز نہیں۔) خدا کی ذات کے علاوہ اگر کسی کو سجدہ کرنا جائز ہوتا میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ (وہ اگر اس کو سجدہ نہیں کر سکتی تو میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو سجدہ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔)
)سنن ابی داؤد: باب فی حق الزوج علی المرأۃ(
نذر و نیاز اللہ کے واسطے:
”وَقَضٰى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا“
فرمایا کہ سجدہ ایک خدا کی ذات کو کرنا ہے، خدا کی ذات کی علاوہ کسی اور کو سجدہ کرنا جائز نہیں ہے۔ سجدہ کا معنیٰ ہر گز یہ نہیں ہے کہ بندہ سجدہ تو اللہ کے علاوہ کسی کو نہ کرے لیکن کسی اور کے نام کی نذر مانے، کسی اور کے نام کی نیاز مانے، کسی اور کے نام کی منتیں مانے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنا حرام ہے اسی طرح اللہ کے علاوہ کسی اور کے نام کی منت، نیاز اور نذر ماننا بھی حرام ہے۔آج بہت سارے لوگ اپنی جہالت اور بے علمی کی وجہ سے جملہ کہتے ہیں اور وہ لوگ جو ہمارے گھروں کے باہر بھیک اور چندے مانگنے آتے ہیں اتنا غلط جملہ اپنی زبان سے کہتے ہیں کہ ایمان بھی تباہ کرتے ہیں، نظریہ بھی کھوکھلا کرتے ہیں اور ہم سے بھیک بھی لے کر چلے جاتے ہیں۔ نعرہ لگاتے ہیں: ”نذرِاَللہ، نیازِ حسین“ یہ بات ذہن نشین فرما لیں کہ جس طرح نذر اللہ کے نام کی ہے اس طرح نیاز بھی ا للہ کے نام کی ہے، اللہ کے نام کے علاوہ اگر نذر حرام ہے تو اللہ کے نام کے علاوہ کسی اور کے نام کی نیاز بھی حرام ہے، ایسے بندے کو چندے کا ایک دانہ دینا بھی حرام ہے، اگر اسے کچھ دیا تو قیامت کے دن اللہ پوچھے گا کہ غلط عقیدے کی تبلیغ کرنے والے کو آپ نے چندہ اور فنڈ کیوں دیا ؟
والدین کا ادب:
وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا۔
اللہ پاک نے حکم دیاہے کہ عبادت صرف اللہ کی کرنی ہے اور ادب والدین کا کرنا ہے۔ یہ بات سمجھیں لیں اللہ کی عبادت اس لیے ہے کہ اللہ ہمارے خالق ہیں اور والدین کا ادب اس لیے ہ وہ ہمارے ماں اور باپ ہیں، اللہ کے حکم سے ہمیں وجود ملا ہے اور والدین کی وجہ سے وجود ملا ہے۔ تو اللہ ہمارے خالق ہے اور والدین ہمارے وجود کا سبب ہیں۔ سجدہ خدا کی ذات کو کریں اور ادب واحترام دنیا میں سب سے زیادہ اپنے والدین کا کریں۔ اللہ رب العزت کی ذات ہر حال میں خالق ہوتی ہے، اللہ صحت دے تب بھی خالق ہے، بیماری دے تب بھی خالق ہے، اللہ کی ذات اگر بندے کو دولت دے دے تب بھی خالق ہے، اللہ فقر دے دے تب بھی اللہ کی ذات خالق ہے، ہر حال میں سجدہ اللہ کی ذات کوکرنا ہے، کسی بھی حال میں اللہ تعالیٰ کی ذات کو سجدہ مت چھوڑیں۔
……اور کس در پہ جاؤں؟
ہماری کتب میں مستقل ایک واقعہ درج ہے، کہتے ہیں کہ ایک آدمی نیک تھے، بزرگ تھے، ہر سال وہ حج کےلیے جاتے۔ ایک مرتبہ، دو مرتبہ، تین مرتبہ اور کئی سال تک حج کےلیے جاتے رہے اور ہرسال ان کو یہی آواز ملتی کہ تمہارا حج قبول نہیں ہے، یہ اگلے سال پھر چلے جاتے، آواز آتی کہ تمہارا حج قبول نہیں ہے، آئندہ سال پھر جاتے آواز آتی کہ تمہاراحج قبول نہیں ہے۔ لوگوں نے پوچھا کہ جب تمہاری ہر سال آواز آتی ہے کہ حج قبول نہیں تو آپ آنا چھوڑ دیں۔ اس نے کہا کہ اگر یہاں آنا چھوڑ دوں تو پھر اس کے علاوہ کس در پہ جاؤں؟ اسی در پہ آنا ہے آج قبول نہیں ہے تو کل قبول ہوگا۔ کہتے ہیں کہ غالباً انہوں نے 70 حج کیے، ہر سال یہی آواز آتی کہ تمہارا حج قبول نہیں ہے۔ اگلے سال جب حج کیا تواس وقت غیب سے آواز آئی کہ ہم نے تمہارے سارے حج قبول کر لیے اور اس حج کی وجہ سے جتنے لوگوں نے حج کیا ہے ان کے بھی قبول کرتے ہیں۔
اللہ سے لو لگائے رہیے:
کسی حال میں انسان خدا کو چھوڑے مت، ہم لوگ جلد باز ہیں، بڑی جلدی چھوٹی چھوٹی باتوں پہ پریشان ہوجاتے ہیں۔ اولاد نہیں ملی تو ایک لٹ رکھی ہے کہ میں نے فلاں دربار پہ کٹوانی ہے، کبھی اولاد نہیں ملی تو جب پوچھا جاتا ہے: کہاں جا رہے ہو ؟ میں فلاں دربار پہ جارہاہوں، میں نے منت مانی ہے۔بتاؤ! مسجد سے زیادہ کوئی مقدس جگہ ہوسکتی ہے؟ نماز سے بڑی کوئی عبادت ہو سکتی ہے ؟ آپ منت مانیں کہ اے اللہ! میرا فلاں کام کردے تو آئندہ مسجد کا بِل میں ادا کروں گا، اور مسجد میں روشنی کرنا کوئی چھوٹا کام نہیں ہے۔ مسجد کو روشن کرنا بہت بڑا کام ہے اور میں بعض دفعہ سفر کرتا ہوں تو بعض مسجدوں میں بہت خوبصورت چیزیں لگی ہوتی ہیں، جی! یہ کہاں سے لائے ؟ فلاں بندے نے ہمیں دی تھی، ہم نے کہا کہ مسجد سے بہتر اس کا کوئی محل نہیں ہے۔ عرب میں جائیں-
میں نے کئی بار دیکھا کہ عرب میں لوگ قیمتی خوشبو لے کر کھڑ ے ہوتے ہیں اور اس کا دھواں ایسے پھینک رہے ہیں کہ مسجد میں جانے والا ہر بندہ اسکی خوشبو لے کر جائے، خوشبو لے کر لو گ کھڑے ہیں کہ مسجد میں جانے والے ہر بندے کو خوشبو لگاؤ، تو اللہ توفیق عطاء فرمائے تو منت مانو کہ اس مرتبہ مسجد کا بل میں ادا کروں گا، فلاں چیز میں ادا کروں گا۔ تو سجدہ اور عبادت کس کی کریں گے؟ صرف اللہ کی، اور ادب کس کا ہے؟ والدین کا۔ استاد کا ادب الگ ہے، رشتہ داروں کا ادب الگ ہے، بڑوں کا ادب الگ ہے لیکن خصوصی طورپہ اللہ تعالیٰ نے ماں اور باپ کا ذکر فرمایا کہ ان کا ادب ضرور کرناہے۔
مزیدپانچ حقوق:
ان کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے پانچ حقوق اور بیان فرمائے ہیں، وہ پانچ ذکر کرکے بات کوختم کرتا ہوں:
إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا O وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًاO
پہلی بات کہ ﴿فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ﴾ والدین کو اف بھی نہ کہنا۔ والدین کو اف نہ کہنے کا مطلب ہے کہ اگر دنیوی معاملات میں ماں اور باپ کی وجہ سے کبھی نقصان ہوجائے تو انہیں یہ نہ کہنا کہ اے ابا! اگر آپ میری بات مانتے تو یہ نہیں ہوتا، اپنے والد کو اتنا جملہ بھی نہ کہو، اللہ اتنا جملہ بھی گوارا نہیں کرتا کہ تم اپنے والدین کو اف کہو۔
آگے فرمایا:﴿وَلَا تَنْهَرْهُمَا﴾ اپنے والدین کو ڈاٹنا بھی مت، ان کو جھڑکنا مت۔ ایسا کبھی نہ کرنا۔﴿وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا﴾ والدین سے بات بڑی نرمی سے کیا کرو۔﴿وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ﴾ اپنے والدین کے سامنے اپنے بازوں کو جھکا دو، بازوؤں کو پھیلا دو، ان کے ساتھ کبھی بھی بحث وتمحیص مت کرو بلکہ والدین کی بات مانو۔﴿وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا﴾ اللہ تعالیٰ نے کیسی تعلیم دی ہے، فرمایا کہ تم نے بات بھی نرم کہنی ہے، ڈانٹنا بھی نہیں ہے، اف بھی نہیں کہنا،والدین کا ادب بھی کرنا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کا ادب عمل سے بھی کرو اور ساتھ ساتھ اپنے امی اور ابو کےلیے دعائیں بھی مانگو۔ فرمایا: ﴿وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا﴾یوں دعا کیا کرو کہ اے اللہ! جب میں چھوٹا تھا تو اس وقت انہوں نے میری تربیت کی ہے، اب یہ بوڑھے ہوگئے ہیں میرے اللہ ان کا اب تو خیال فرمانا، میرا انہوں نے خیال کیاتھا ان کا تو خیال کرنا۔
بیٹا! یہ کوا ہے:
ہمارے شیخ عارف باللہ حضرت اقدس شاہ حکیم محمد اختر دامت برکاتہم العالیہ نے ایک واقعہ بہت عجیب سنایا، فرمایا کہ ایک ہندو مالدار تھا اور اس کی دکان تھی، بعض لوگ مستقبل کو ذہن میں رکھ کر کام کرتے ہیں تو ہندو نے بھی ایسا کیا کہ اس کا ایک چھوٹا بیٹاتھا، بچے نے پوچھا: اباجی! یہ کیا ہے؟ ہندونے جواب دیا :یہ کوا ہے، پھر اس نے پوچھا: اباجی! یہ کیا ہے؟ کہا:بیٹا! یہ کوا ہے۔ ہندو نے اپنے منشی سے کہا لکھتے جاؤ۔ اس نے پھر سوال کیا، باپ نے جواب دیا، تقریباً سو مرتبہ بچے نے پوچھا۔ ہندونے منشی سے کہا: یہ جتنے بار پوچھے تو لکھتے بھی جانا اور بتاتے بھی جانا۔ اس نے تو مستقبل کی منصوبہ بندی کی تھی۔
جب ایک وقت آیا تو باپ نے کہا: بیٹا! اس چیز کا بھاؤ بازار سے پوچھنا کتنا ہے؟ اس نے پوچھ کر بتایا، کچھ دیر بعد پھر کہا: اس کا بھاؤ پوچھنا کتناہے؟ اس نے پوچھ کر بتا دیا۔ تیسری بار کہا: بیٹا! اس کا بھاؤ پوچھنا کتنا ہے ؟ تو وہ لڑکا تنگ آکر کہنے لگا: اباجی! دو مرتبہ تو بتادیا اور کتنے بار بتاؤں؟! اس ہندونے اپنے منشی سے کہا کہ وہ رجسٹر لاؤ ذرا، وہ رجسٹر لایا ،تو ہندو نے اپنے بیٹے سے کہا: اس میں دیکھو اور اس کو پڑھو، اس نے دیکھا اور اس کو پڑھا۔ اس میں لکھا تھا: ”یہ کیا ہے ؟یہ کوا ہے،یہ کیاہے؟ یہ کوا ہے۔ یہ کیا ہے؟ یہ کوا ہے۔“ اس میں بار باریہ لکھا تھا۔
اس نے کہا: بیٹا! تونے سوبار پوچھا تھا کہ یہ کیا ہے؟ میں نے بتایا تھا کہ یہ کوا ہے، اور تو تیسری مرتبہ ہی تنگ آگیا ہے، تو نے بچپن میں سوبار سوال کیاتھا، میں بتاتا رہا، اب میں نے تین بار پوچھا تو تو تنگ آگیا ہے۔بتاؤ ایسے ہوتا ہے کہ نہیں ؟ جن کی اولاد نہیں نا ان کو یہ بات سمجھ نہیں آتی، جن کی اولاد ہے ان سے پوچھو کہ ماں پوری پوری رات جاگتی ہے، تھوڑی دیر سوئی، بچہ روپڑا تو جاگ اٹھی، پھر سوئی، بچہ روپڑا، پھر جاگی، مطلب ہے کہ ماں پوری پوری رات جاگتی ہے۔ بتاؤ یہ ماں اور باپ جب بوڑھے ہو جائیں اور ان کےلیے دو راتیں جاگنا پڑے تو کون سی قیامت آجاتی ہے۔
اللہ ہم سب کو اپنی عبادت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور والدین کا ادب کرنے کی توفیق عطائے فرمائے(آمین )
ہدیہ کب لینا جائز ہے؟
حضرت تھانوی رحمہ اللہ نےفرمایا: امام غزالی رحمہ اﷲ نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو ہدیہ بزرگ سمجھ کر دے اور وہ اتنی بزرگی نہ رکھتا ہو جس کا وہ معتقد ہو تو اس کا لینا جائز نہیں ہے۔ مولوی محمد رشید کانپوری نے اس پر عرض کیا کہ اس پر تو کسی کو لینا جائز ہی نہ ہونا چاہیے کیونکہ اپنے کو کون بزرگ سمجھے گا اور اگر ایسا سمجھے گا تو وہ بزرگ نہ ہوگا ان کے جواب میں فرمایا کہ خود اپنا معتقد کون ہوگا۔ مراد امام کی یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس نے یہ کوشش نہ کی ہو کہ مجھ کو کوئی بزرگ سمجھے
مراسلہ: مولانا محمد علی ڈیروی