فضائل اعمال پر اعتراضات کا علمی جائزہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط نمبر 3: کرامت سے متعلق
فضائل اعمال پر اعتراضات کا علمی جائزہ
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
اس کے بعد دوسری چیز” کرامت “ہے:
کسی متبع شریعت ولی اللہ کے ہاتھ پر کوئی خلاف عادت کام ظاہر ہوجانے کو ”کرامت“ کہتے ہیں۔
شرح فقہ اکبر کا حوالہ :
ملا علی قاری رحمہ اللہ م1014ھ فرماتے ہیں :
”والکرامۃ خارق للعادۃ الا انھا غیر مقرونۃ بالتحدی وھی کرامۃ للولی“
) شرح فقہ اکبر ص(79
)ولی کی (کرامت ایسے خلاف عادت کام کو کہتے ہیں جو بغیر چیلنج کے ہو۔
عقیدہ واسطیہ کا حوالہ :
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ عقیدہ واسطیہ میں فرماتے ہیں۔
ومن اصول اھل السنۃ التصدیق بکرامات الاولیاء۔
) العقیدۃ الواسطیہ ص 156 (
اہل السنت کے اصولوں میں سے ایک اصول یہ ہے کہ اولیاء اللہ کی کرامات کی تصدیق کی جائے کہ وہ درست اور ٹھیک ہیں۔
کتاب التعریفات کا حوالہ :
علامہ جرجانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ظہورامرخارق للعادۃ من قبل شخص غیرمقارن لدعوی النبوۃ بشرط ان یکون مقرونابالایمان والعمل والصالح۔
(کتاب التعریفات للجرجانی ص129)
خلاف عادت کام کاایسے شخص سے صادرہوناجودعویٰ نبوت نہ کرتا ہو ’’کرامت‘‘ کہلاتاہے‘ بشرطیکہ یہ شخص صاحبِ ایمان ہواورعملِ صالح بھی کرتاہو۔
خوارق العادات فی القرآن کا حوالہ :
عبدالرحمان ابراہیم الحمیضی لکھتے ہیں ۔
”الامر الخارق للعادۃ یجریہ اللہ علیٰ ید عبد صالح لہ متبع للشریعۃ۔“ [خوارق العادات فی القرآن الکریم ص57]
اللہ تعالیٰ کسی متبع سنت اپنے بندے کے ہاتھ پر کوئی خلاف عادت کا ظاہر فرما دیں اس کا نام کرامت ہے۔
ضروری بات:
اولیاء اللہ سےکرامتوں کا ظاہر ہونا کوئی ضروری نہیں یعنی یہ نہیں سمجھنا چاہیے جس سے کرامت ظاہر نہیں ہوئی یانہیں ہوتی، وہ ولی ہی نہیں۔ کیونکہ یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص حقیقت میں متبعِ شریعت ہواللہ کاولی ہواور ساری زندگی اس سے کوئی کرامت ظاہرنہ ہوئی ہو۔
النبراس علی شرح العقائد کا حوالہ :
” ظہورالکرامۃ لیس من لوازم الولی ولا فی استطاعتہ۔“
)النبراس علی شرح العقائد ص 55(
کرامت کا ظاہر ہونا ولی ہونے کیلیےلازمی نہیں اور نہ ہی یہ اس کی طاقت میں ہوتا ہے۔
جامع کرامات الاولیاء کا حوالہ :
> لم یکن للولی کرامۃ ظاھرۃ علیہ فی الدنیا لم یقدح عدمہا فی کونہ ولیا۔
جامع کرامات الاولیاء ، ج 1 ص 28 از امام یوسف النبہانی
اگر کسی ولی سے دنیا میں کرامت ظاہر نہ ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ولی ہی نہیں۔ یعنی ولی کے لیے کرامت کا ظاہر ہونا لازمی نہیں۔
﴿چند کرامات آیاتِ قرآنیہ کی روشنی میں﴾
حضرت مریم علیہا السلام کی کرامت:
”کلما دخل علیہا زکریا المحراب وجد عندھا رزقا قال یٰمریم انیٰ لک ھذاقالت ہو من عند اللہ۔“
)اٰٰ ل عمران آیت 37(
جس وقت آئے اس کے پاس زکریاحجرے میں‘ توان کے پاس کچھ کھانا پایا تو فرمایا :مریم! یہ تیرے پاس کہاں سے آیا؟تومریم بولی یہ اللہ کی طرف سے ہے۔
اصحاب کہف کی کرامت:
”ولبثوافی کھفھم ثلث مائۃ سنین واذدادواتسعا۔“
(کہف:25)
وہ غارمیں رہے تین سوسال اورنوسال اوپر۔
تخت بلقیس لانے کی کرامت:
”قال الذی عندہ علم من الکتاب انااٰتیک بہ قبل ان یرتد الیک طرفک فلما راٰہ مستقرا عندہ۔“
)النمل آیت 40(
وہ شخص جس کے پاس کتاب کاایک علم تھابولاکہ میں آپ کے پاس لاتاہوں وہ (تخت)آپ کی آنکھ جھپکنے سے پہلے پھرجب دیکھاتواپنے پاس پڑاہواپایا۔کہا:یہ میرے رب کا فضل ہے۔
سورۃ الکہف میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اورحضرت خضر کاواقعہ جس میں بہت سی کرامات کاذکر ہے ، حضرت ذوالقرنین کا واقعہ بھی اسی سورۃ میں ہے۔
اسی طرح دیگر بھی کئی کرامات قرآن وسنت سے منقو ل ہیں۔
النبراس کا حوالہ :
شرح عقائد کے شارح علامہ پرہاڑوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
پتھروں کابولنا‘بے زبان جانورکاگفتگوکرناجیساکہ اصحاب کہف کاکتا بولا تھا ، حضرت عمررضی اللہ عنہ کادورسے ’’یاساریۃ الجبل‘‘کہنااورلشکروالوں کاوہ آواز سننا، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کازہرکی بوتل(شیشی)پی لینا‘حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خط سے دریائے نیل کاجاری ہوپڑناوغیرہ سب کرامات ہیں۔
(النبراس شرح العقائد ص296ص299ملخصاً)
کرامات پرجیسے آیات قرآنیہ موجود ہیں اسی طرح احادیثِ شریفہ بھی بکثرت ملتی ہیں۔ اب ہم آتے ہیں اس بات کی طرف کہ کرامت کی حقیقت پر اہل السنۃ والجماعۃ کے محققین کااجماع ہے اس کاانکارنہیں کیاجاسکتا۔
کرامت پر اجماعِ امت :
علامہ پرہاڑوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”اجمع المحققون من اہل السنۃ علی حقیقۃ الکرامات……… لایمکن انکارہ“
)نبراس ص296(
سنی محققین کا کرامت کی حقیقت پر اجماع ہے…. اس کا انکارممکن نہیں۔
کرامت کی شرعی حیثیت :
اسی سے معلوم ہوگیاکہ جولوگ کرامات کایکسر انکار کرتے ہیں وہ قرآن کریم اور احادیث شریفہ کو نہیں جانتے ، اتنی بات یقینی ہے کہ جو کرامات دلائل قطعیہ سے ثابت ہیں ان کا انکار کرنا کفر ہے۔
) النبراس علی شرح العقائد ص 296(
شرح اصول بزدوی کا حوالہ :
ومن انکر ھذا فقد سفہ نفسہ واضل عقلہ
)کشف الاسرار شرح اصول البزدوی ج 3 ص 694(
جو دلائل ظنیہ سے ثابت ہیں ان کا انکار پاگل پن اور بے وقوفی ہے یعنی گمراہی ہے۔
نزہۃ البساتین کا حوالہ :
بعض علماء سے کسی نے اولیاء اللہ کی کرامات کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا کہ ایسا کون ہوسکتا ہے جو اس کا انکار کرے ؟کرامت کے اثبات کے لیے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کا یہ فرمان ہی کافی ہے کہ ان اللہ یفعل ما یرید۔ اللہ تعالیٰ جو چاہے کر سکتا ہے۔
نزہتہ البساتین اردو ترجمہ روض الریاحین ص 44
کیونکہ کرامت میں ولی کی طاقت کی بجائے اللہ کی قدرت کا دخل ہوتا ہے جو ولی کے ہاتھ پر خلاف عادت چیز کو ظاہر فرما دیتے ہیں۔

روض الریاحین کا حوالہ : امام یافعی یمنی رحمہ اللہ ”روض الریاحین “میں فرماتے ہیں :”بہت زیادہ تعجب ہے اس پر جو شخص کرامات اولیاء اللہ کا انکار کرتا ہےکیونکہ اس بارے میں قرآن پاک کی بہت سی آیات ،احادیث صحیحہ ، مشہور آثار اور اسلاف و اخلاف سے بہت ساری حکایات ملتی ہیں ،جو شمار سے باہر ہیں۔ )بحوالہ جامع کرامات الاولیاء ص 37 ( کرامت سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا: ان سب کے باوجود کرامت سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا ، مثلاً اگر کسی بزرگ کو کشف کے کسی بات کا علم ہوگیا تو اس سے علم غیب کا عقیدہ ثابت نہیں ہو گا۔ ………………….جاری ہے