سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
تذکرۃ الفقہاء
سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ
مولانا محمد عاطف معاویہ
رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے معروف اور جانثار صحابی ہیں ، غزوہ بدر کے دن اسلام قبول کیا۔ آپ کا نام عویمراورکنیت ابودرداء تھی۔
فضائل ومناقب:
معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ کرام نبی کریم کے ہی فیض یافتہ ہیں لیکن بعض ایسے بھی جنہوں نے آپ سے علم کا بہت سا حصہ پایا ،امام ذہبی رحمہ اللہ نے تذکر ۃ الحفاظ میں لکھا ہے کہ حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کریم حفظ کیا۔
وحفظ القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم
)تذکرۃ الحفاظ ج1ص23(
جہاں آپ نے سینے میں قرآن کریم کو محفوظ کیا وہاں آپ نے امت مسلمہ پر احسان عظیم فرماتے ہوئے قرآن کریم کو جمع کرنے میں بھی پیش پیش رہے۔ آپ اس کے عظیم الشان کارنامے کو تاریخ نے اپنے اندر ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
مات النبي صلى الله عليه وسلم ولم يجمع القرآن غير أربعة أبو الدرداء ومعاذ بن جبل وزيد بن ثابت وأبو زيد۔
)صحیح بخاری رقم الحدیث 5004 باب القراء من أصحاب النبی صلى الله علیہ وسلم(
یعنی حضور کی رحلت کے وقت جن چارخوش نصیبوں کو جمع قرآن کی سعادت حاصل ہوئی ان میں حضرت ابودرداء اول نمبر پر ہیں۔
آپ کی ساری زندگی اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے وقف تھی ،غزوہ احد کے دن حضرت ابودرداءرضی اللہ عنہ نے اسلام کے دفاع وسربلندی کے لئے بڑی جرات وبہادری کے ساتھ کفار کا مقابلہ کیا آپ کی بہادری کو دیکھ کر حضور علیہ السلام نے فرمایا
نعم الفارس عويمر وقال هو حكيم أمتي۔
)الاصابہ ج4ص747، تہذیب التہذیب ج8ص157(
اس مختصر سے جملہ میں آپ علیہ السلا م نے حضرت ابو درداء کو بہترین شاہسوار اور امت محمدیہ کا سمجھ دار انسان قراردیاہے۔
علمی وفقہی مقام :
1: مشہورفقیہ صحابی حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کے وقت لوگوں کو جو نصیحت کی ہے وہ اس طرح ہے کہ
فالتمسوا العلم عند أربعة رهط : عند عويمر أبي الدرداء وعند سليمان الفارسي وعند عبد الله بن مسعود وعند عبد الله بن سلام۔
) اسد الغابہ ج1ص619(
یعنی اگر کوئی علمی مسئلہ در پیش ہو تو ان صحابہ کی طرف رجوع کرنا حضرت ابو درداء،حضرت سلمان فارسی ،حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنھم۔
معلوم ہوا حضرت معاذ؛ سیدنا ابو درداء کو جید علماء میں شمار کرتے تھے۔
2: آپ کی علمی حیثیت کی گواہی دیتے ہوئے حضرت مسروق رحمہ اللہ فرماتے ہیں
"وجدت علم أصحاب محمد صلى الله عليه وآله وسلم انتهى إلى ستة: إلى عمر، وعلي، وعبد الله، ومعاذ، وأبي الدرداء، وزيد بن ثابت رضي الله عنهم.
)تذکرۃ الحفاظ ج1ص23(
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے علوم سمٹ کر جن خوش نصیبوں کا مقدر بنے وہ یہ ہیں حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت معاذ ،حضرت ابو درداءاور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنھم۔
3:آپ کا تعارف امام ذھبی ان الفاظ میں کراتے ہیں
" الإمام الرباني۔۔۔۔ وكان عالم أهل الشام ومقرئ أهل دمشق وفقيههم وقاضيهم."
)تذکرۃ الحفاظ ج1ص23(
آپ اپنے دور میں ملک شام کے عالم وفقیہ اور قاضی تھے۔
4:آپ کی فقاہت کی گواہی دیتے ہوئے امام ابن اثیر جزری فرماتے ہیں ۔
وكان من أفاضل الصحابة وفقهائهم۔
)اسد الغابہ ج1ص883(
5:امام ذھبی نے یہ بات بھی نقل کی ہے کہ جب آپ تشریف لاتے تو لوگ مسائل پوچھنے کے لئے یوں ساتھ ہوتے جیسے بادشاہوں کے ساتھ لوگ ہوتے ہیں
)تذکرۃ الحفاظ ج1ص23(
آپ کی مجتہدانہ شان :
آپ کو یہ شرف حاصل ہے کہ حضور علیہ السلام کی موجودگی میں آپ کی اجازت سے اجتہاد فرمایا اور آپ علیہ السلام نے اس کی تردید نہیں فرمائی۔
ترک قرات خلف الامام کا مسئلہ :
چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں۔
سئل رسول الله صلى الله عليه و سلم أفي كل صلاة قراءة؟ قال نعم فقال رجل من الأنصار وجبت هذه فقال لي رسول الله صلى الله عليه و سلم وكنت أقرب القوم إليه ما أرى الإمام إذا أم القوم إلا كفاهم۔
)سنن دار قطنی باب ذكر قولہ صلى الله علیہ و سلم من كان لہ إمام فقراءة الإمام لہ قراءة رقم 29(
کسی صاحب نے حضور سے پوچھا یا رسول اللہ کیا ہر نماز میں قرات کرنی چاہیے ؟ آپ نے فرمایا جی ہاں بالکل۔
آپ کا جواب سن کر ایک صحابی رسول رضی اللہ عنہ نے کہا پھر تو قرات واجب وضروری ہوئی۔ اس پر حضور حضرت ابو دردا ء رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئےتو انہوں نے اپنے اجتہاد سے آپ کے اس فرمان کی تخصیص کرتے ہوئے فرما یا میری رائے یہ ہے کہ اگر آدمی باجماعت نماز پڑھ رہا ہو تو امام کی قرات ہی کافی ہے یعنی مقتدی قرات نہ کرے تب بھی نماز ہوجاتی ہے۔
نوٹ : [آپ کے اس اجتہا د سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جن روایات میں نمازی کو قرآن پڑھنے کا ذکر ہے اس سے مراد منفرد ہے مقتدی نہیں ]
ہر صاحب عقل اس حدیث کو سامنے رکھ کر سوچ سکتا ہے کہ آپ اجتہاد کے کتنے بلند مقام پر فائز تھے۔
اسفار بالفجر کا مسئلہ:
آپ کا نظریہ یہ تھا کہ صبح کی نماز میں اسفار یعنی صبح روشن کرکے ادا کرنی چاہئے چنانچہ آپ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو فرمایا
أَسْفِرُوا بِهَذِهِ الصَّلاَةِ ، فَإِنَّهُ أَفْقَهُ لَكُمْ۔ )مصنف ابن ابی شیبہ(
وفات :
آپ کی وفات 32 ھ میں ہوئی۔
)الاستیعاب (