شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
تذکرۃ الاکابر
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ
مولانا عبداللہ معتصم
تصوف میں حضرت کا معمول:
حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کا اصلاحی تعلق شیخ فخرا لمتکلمین مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ سے تھا۔حضرت سہارنپوری رحمہ اللہ نے آپ کو مروجہ ذکر واذکار میں مشغول نہیں رکھا، بلکہ درس وتدریس اور تصنیف و تالیف کے ذریعے سلوک وتصوف کی منازل طے کرادی۔ حضرت شیخ رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں:”میرے چچا جان مولانا محمد الیاس صاحب قدس سرہ مجھ پر بیعت کے بعد بہت ہی اصرار فرماتے رہے کہ تو ذکر کر لیا کر، مگر میں اپنی نالائقی سے یہ جواب دیا کرتا تھا کہ:
ہر کسے را بہر کارے ساختند
ضربیں آپ لگائیں، سبق میں پڑھاؤں“ ا س قدر علمی ذوق ہونے کے باوجود جب کبھی آپ خانقاہ تھانہ بھون تشریف لے جاتے، تو وہاں اپنا وظیفہ شروع فرما دیتے۔ کئی مرتبہ اپنے مرشد کے حضور درخواست بھی پیش کی کہ کچھ اوراد و وظائف مل جائیں ،لیکن منظور نہیں ہوئی۔مرشد نے فرمایا:”علوم دینیہ کی تدریس اور خدمت تعلیم بھی طرقِ وصول الی اللہ سے ہے، طرقِ وصول ایک شئی میں منحصر نہیں۔“
(تذکرۃ الخلیل)
بعض اہم مسائل میں شیخ الحدیث رحمہ اللہ کا موقف:
ہمارے ہاں نماز کے مسائل میں سے ایک مسئلہ امام کے پیچھے مقتدی کا قرآت کرنا بھی ہے۔ فقہائے احناف کی تحقیق اور ترجیح یہ ہے کہ امام کے پیچھے نماز ادا کرتے وقت مقتدی کو قرآت کی اجازت نہیں۔ بلکہ وہ خاموشی سے کان لگا کر سنے۔ جبکہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنے پر حدیث کا لیبل لگا کر در پردہ بہت سارے مسائل میں وارد شدہ صحیح احادیث کا انکار کر جاتے ہیں۔
ترک قراۃ خلف الامام کے بارے حضرت شیخ نے ”اوجز المسالک“میں بحث کرتے ہوئے لکھا ہے:”جمہور کا مسلک عدم قراءۃ کا ہے،قائلین ِ قراءۃ اس مسئلےمیں منفرد ہیں، اور بعض صورتوں میں یہ حضرات بھی سقوط الفاتحہ عن الماموم کے قائل ہیں،جیسا کہ جوآدمی رکوع میں آکر امام کے ساتھ شریک ہوجائے،تو ایسے شخص کو رکعت کا پانے والا شمار کیا جاتا ہے۔مذاہب اربعہ کا اس بات پر اجماع ہے۔حضرت شیخ کے اس موقف سے عقلی طور پر ترک قراءۃ کاموقف مضبوط اور وقیع ثابت ہو رہا ہے۔
بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تکوینی طور پر معاصی کا ارتکا ب ہوا، جن کو بعض کج فہموں نے صحابہ رضی اللہ عنہم پرطعن وتشنیع کا موجب بنایا۔ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے ان کی ہرزہ سرائیوں کا جواب بڑے احسن انداز میں دیا، اور یہ بات ثابت کردی کہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے ان معاصی کا ارتکاب اللہ تعالی نے امت کی بہتری کے لیے کرایا ،اس میں تشریعی مصلحتیں تھیں۔
سیدالاولین والآخرین صلی اللہ علیہ وسلم امت کو شریعت کی تعلیم قول سے بھی دیتے تھے،عمل سے بھی کر کے دکھاتے تھے،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حدود وتعزیرات زبانی طور پر بتائی تھی،عملی طور پر ان پر عمل کرکے دکھانے کی ضرورت تھی۔قرآن کی آیات ِمبارکہ ہے
” وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا“
[المائدۃ: 38]
کہ چورمرد ہو یا عورت، اس کا ہاتھ کاٹ دو۔
اب اس حکم کو نافذ کرنا تھا ، عملی طور پر دکھانا تھا، تا کہ بعد میں آنے والے احکام اورقضاۃکو اس آیت پر صحیح عمل کرنے کی صورت سمجھ آجائے۔ اس لیے کہ قرآن نے ”ایدیہما“ (دونوں کے ہاتھ) فرمایا ہے، باقی کیفیت کا تذکرہ قرآن میں نہیں کہ کون سا ہاتھ کس جگہ سے کاٹنا ہے۔
اس کے علاوہ دوسرے مسائل جیسے عصمت انبیاء،مشاجرات صحابہ، جنگ جمل وصفین اوران جیسے دیگر مسائل کو حضرت شیخ نقلی وعقلی رنگوں میں بیان کیا ہے اور ان موضوعات کا حق ادا کیا ہے۔
آج کے دور میں سیاسی و مذہبی کشمکش اور اس سے برآمد ہونے والے برے نتائج سے ہم دوچار ہیں۔ مذہبی قیادت کے بارے میں کارکنان میں تنائو کی کیفیت سے معاشرہ عمومی طور پر بدحالی کا شکار ہے۔
اسی طرح کے حالات بلکہ اس سے بھی سخت قسم کے حالات 56 ھ کے اواخر اور57 کے اوئل میں رونما ہوئے تھے۔ جب کانگریس اور لیگ کے مابین اختلافات نے شدت اختیار کی۔ چنانچہ شیخ اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں :
56ھ اور اوائل 57 ھ کانگریس اور لیگ کے اختلافات نے اتنی شدت اختیار کر لی کہ اکابر کی شان میں بے حد گستاخیاں اور بے ادبیاں ہوئیں اور بعض لوگوں نے دوسرے خیال کے امام کو فرائض جمعہ اور عیدین کی نمازوں میں مصلے سے بھی ہٹا دیا اور جس جگہ جس فریق کا غلبہ ہوا اس جگہ دوسرے خیال کے مردوں کے قبرستان میں دفن نہیں ہونے دیا۔
) آپ بیتی ص ج 1 ص 138(
ایسے حالات میں شیخ نے فریقین کے مابین تصفیہ کی غرض سے ایک کتاب لکھی۔ الاعتدال فی مراتب الرجال۔ یعنی لوگوں کو فرق مراتب کا لحاظ رکھ کر اعتدال کے ساتھ رہنا چاہیے۔ آج بھی حضرت کی تعلیمات کو اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔
علماء دیوبند کو سلام
پورے ایشیا میں دارالعلوم دیوبند کی دینی……مذہبی……تالیفی……تصنیفی … قومی…… ملکی……ملی……اصلاحی…… اور فنی خدمات ہر شہر ……ہر قصبہ ……ہر دیہات…… میں دن رات مسلَّم ہے۔
جب ہندستان میں کفرکا طوفان تھا………شرک براجمان تھا………بدعات رسومات رواجات میں مبتلا انسان تھا……… خرافات، ہزلیات،اغلوطات کا شکار مسلمان تھا………اسلام برائے نام تھا………مذہب بدنام تھا………ہر غلط کام تھا………عقیدہ خام تھا………جہالت کا اندھیرا تھا………ظلم کا بسیرا تھا………گمراہی کا ڈیرہ تھا۔
انگریز کی حکمرانی تھی………حکومت شیطانی تھی……ہر طرف حیرانی پریشانی تھی……ہر سو ویرانی تھی………جب علماء کو پھانسی پر لٹکایا گیا……دارورسن پر چڑھایا گیا … دریا ئےشور عبور کرایا گیا………حق گولوگوں کا سر اڑایا گیا………الکفر ملتہ واحدۃ کا سماں تھا… نقشہ الحفیظ والاماں تھا۔
بڑے بڑے جاگیردار سرمایہ دار اور زمیندار حکومت کے وفادار تھے………ملک کے غدار تھے………مذہب سے بیزار تھے………اعلیٰ عہدوں کا طلبگار تھے………اکثر عیار ومکار اور بےکار تھے………مناصب کے نشہ میں سرشار تھے… مسلمان ذلیل وخوار تھے۔
قرآن کے نسخے جلائےگئے………اسلام کے نقشے مٹائے گئے………مجاہدوں پر مقدمے چلائے گئے……… درختوں پر لٹکائے گئے ………کالجوں کی تعلیم تھی……… مسلمانوں میں نہ تنظیم تھی نہ اسلامی تعلیم تھی۔
حق پرستوں کا گروہ برسر پیکار تھا……… ہندوستان میدان کا رزار تھا………سب سے بڑا دشمن انگریز تھا……… جو بڑا شر انگیز…… چالاک اور تیز تھا……… پھر بھی مقابلہ مقاتلہ کا معاملہ کیا گیا……… مسلمانوں کی دینی تنزلی دیکھ کر غیور جاگ اٹھے……… بالآخر انگریز اس ملک سے بھاگ اٹھے۔
جی ہاں!دارلعلوم دیوبند نے ہزاروں مفسر…… محدث……مفتی…… متکلم…… محقق…… مدقق…… مناظر……معلم……مبلغ……مورخ……مدبر……مفکر…… سیاستدان… صحافی… شاعر ……ماہر تیار کیے۔
اور سینکڑوں نہیں ہزاروں فقہاء………علماء……… فضلاء……… فصحاء……… بلغاء……… ادباء…… اتقیاء………اذکیاء………اصفیاء………اکابر………شیوخ پیداکئے۔
ان مدارس کے خیر خواہو جو موجودہ صورت حال پر دل گرفتہ اور پریشان ہیں……یا ان کے بدخواہوں جو آج کل خوشی کے شادیانے بجارہے ہیں۔سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ مدارس دینیہ کوئی پانی کے بلبلے نہیں کہ کسی کے پھونک مارنے سے بیٹھ جائیں"نہ"ہی ریت کے ٹیلوں پر بنے محلات ہیں کہ وقت کی تیز ہوائیں ان کو روند ڈالیں۔
کئی صدیوں کی تاریخ گواہ ہے ملا اور طالب،مدسہ صفحہ دہر پر پتھر کی لکیریں ہیں جنہیں مٹانا آسان نہیں۔ آج سے برسہابرس پہلے اقبال مرحوم نے ابلیس ملعون کا یہ مشورہ اپنے الفاظ میں یوں نقل کیا۔
افغان کی غیرت دین کا ہے یہ علاج ملا کو اس کے کوہ و دمن سے نکال دو