موزوں پر مسح کرنے

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
فقہ المسائل :
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
موزوں پر مسح کرنے
اور جرابوں پر نہ کرنے کے دلائل
موسم سرما کی آمد آمد ہے اس موقع پر بعض لوگ اپنی سستی اور کاہلی کے باعث باریک موزوں کی طرح اونی اور سوتی جرابوں پربھی مسح کر لیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا وضو ہوگیا حالانکہ اس طرح وضو بالکل نہیں ہوتا۔ ہاں موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں صحیح روایات موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ موزوں پر مسح کرنا جائز ہے۔ اس حوالے سے ایک تحقیقی مضمون حاضر خدمت ہے۔
دلیل نمبر 1………صحیح البخاری کا حوالہ:
عَنِ المُغِيرَةَ بْنِ شُعْبَةَ عَنْ رَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ خَرَجَ لِحَاجَتِهِ فَاتَّبَعَهُ الْمُغِيرَةُ بِإِدَاوَةٍ فِيهَا مَاءٌ فَصَبَّ عَلَيْهِ حِينَ فَرَغَ مِنْ حَاجَتِهِ فَتَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ۔
) صحیح للبخاری ج 1 ص 33 باب المسح علی الخفین (
ترجمہ : حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :” رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قضاء حاجت کے لیے باہر تشریف لے گئے تو میں بھی پانی سے بھرا ہوا برتن لے کر آپ کے پیچھے چلا گیا جب آپ اپنی حاجت سے فارغ ہوئے تو میں نے آپ کو پانی پیش کیا آپ نے وضو کیا اور موزوں پر مسح کیا۔ “
دلیل نمبر 2………صحیح مسلم کا حوالہ:
عَنْ هَمَّامٍ قَالَ : بَالَ جَرِيرٌ ثُمَّ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ فَقِيْلَ : اَتَفْعَلُ هَذَا؟ قَالَ : نَعَمْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَالَ ثُمَّ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ.
)صحیح مسلم ج 1 ص 132 باب المسح علی الخفین (
ترجمہ : حضرت ہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں :”حضر ت جریر رضی اللہ عنہ نے پیشاب کیا اس کے بعد وضو کیا پھر موزوں پر مسح کیا تو حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے اس بارے میں پوچھا گیا کہ آپ) موزوں پر( مسح کرتے ہیں ؟ تو حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے )جواب دیتے ہوئے( فرمایا: ہاں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے پیشا ب کیا پھر وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔ “
دلیل نمبر 3…………صحیح مسلم کا حوالہ:
عَنِ الْمُغِيرَةَ بْنِ شُعْبَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ كُنْتُ مَعَ النَّبِىِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِى سَفَرٍ فَقَالَ : يَا مُغِيرَةُ خُذِ الإِدَاوَةَ فَأَخَذْتُهَا ثُمَّ خَرَجَتْ مَعَهُ ، فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تَوَارَى عَنِّىَ ، فَقَضَى حَاجَتَهُ وَعَلَيْهِ جُبَّةٌ شَامِيَّةٌ ضَيِّقَةُ الْكُمَّيْنِ ، فَذَهَبَ لِيُخْرِجَ يَدَهُ مِنْ كُمِّهَا فَضَاقَتْ ، فَأَخْرَجَ يَدَهُ مِنْ أَسْفَلِهَا ، فَصَبَبْتُ عَلَيْهَا فَتَوَضَّأَ وُضُوءَهُ لِلصَّلاَةِ ، ثُمَّ مَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ ثُمَّ صَلَّى۔
)صحیح مسلم ج 1 ص 133 باب المسح علی الخفین (
ترجمہ : حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ مغیرہ پانی والا برتن لے لے۔ حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے وہ لے لیا اس کے بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلا اتنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم چلتے چلتے میری آنکھوں سے اوجھل ہو گئے قضائے حاجت کر کے واپس تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملک شام میں تیار ہونے والا جبہ زیب تن فرمایا ہوا تھا اس کی آستینیں قدرے تنگ تھیں آپ نے اپنے ہاتھ کو آستین سے نکالنا شروع کیا تو چونکہ وہ تنگ تھیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کو آستین کے اندر والے حصے سے نکالا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پانی پیش کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پانی سے نماز والا وضو کیا پھر اپنے موزوں پر مسح کیا اس کے بعد نماز ادا فرمائی۔
دلیل نمبر 4…………سنن النسائی کا حوالہ :
عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِلَالٌ الْأَسْوَاقَ فَذَهَبَ لِحَاجَتِهِ ثُمَّ خَرَجَ قَالَ أُسَامَةُ فَسَأَلْتُ بِلَالًا مَا صَنَعَ فَقَالَ بِلَالٌ ذَهَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحَاجَتِهِ ثُمَّ تَوَضَّأَ فَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ وَمَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ ثُمَّ صَلٰیّ۔
)سنن النسائی ج 1 ص 31 باب مسح علی الخفین (
ترجمہ: حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ اسواف یعنی حرم مدینہ میں داخل ہوئے تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے اور واپس آئے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت بلال سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کون سا کام کیا ؟ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے اس کے بعد وضو کیا اس میں اپنے چہرے اور ہاتھو کو دھویااور اپنے سر پر مسح کیا اور موزوں پر بھی مسح کیا بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی۔
دلیل نمبر 5……سنن النسائی کا حوالہ:
عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِى وَقَّاصٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ مَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ.
) سنن النسائی ج 1 ص 31(
ترجمہ : حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح کیا۔
دلیل نمبر 6………صحیح مسلم کا حوالہ:
عَنْ شُرَيْحِ بْنِ هَانِئٍ، قَالَ: أَتَيْتُ عَائِشَةَ أَسْأَلُهَا عَنِ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ، فَقَالَتْ: عَلَيْكَ بِابْنِ أَبِي طَالِبٍ فَسَلْهُ، فَإِنَّهُ كَانَ يُسَافَرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْتُهُ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: جَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيْهُنَّ لِلْمُسَافِرِ، وَلَيْلَةً وَيَوْمًا لِلْمُقِيمِ.
)صحیح مسلم ج 1 ص 135 باب التوقیت فی المسح علی الخفین (
ترجمہ : حضر ت شریح بن ہانی فرماتےہیں : میں حضر ت عائشہ کے پاس گیا تاکہ جا کر ان سے موزوں پر مسح کے بارے میں پوچھوں انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ تم حضرت علی سے سوال کرو کیونکہ وہ حضور اکرم ﷺکے سفر کیا کرتے تھے تو حضرت شریح فرماتےہیں کہ ہم نے مسح کی مدت کے بارے میں حضرت علی سے پوچھا آپ نے فرمایا : رسول اللہﷺنے مسافر کے لیے موزوں پر مسح کی مدت تین دن اور تین راتیں جبکہ مقیم کےلیے ایک دن اور رات مقرر فرمائی۔
نوٹ: محترم قارئین!یہاں یہ بات بڑی دلچسپی کا باعث ہے کہ خود فرقہ اہل حدیث کے معتبر علماء کے نردیک اونی ، سوتی باریک جرابوں پر مسح کرنا جائز نہیں ہے۔چند فتاویٰ جات ملاحظہ فرمائیں :
فتاویٰ نذیریہ کا حوالہ :
غیر مقلد عالم نذیر حسین دہلوی لکھتےہیں :
اَلْمَسْحُ عَلَی الْجَوْرَبَۃِ الْمَذْکُوْرَۃِ لَیْسَ بِجَائِزٍ لِاَنَّہُ لَمْ یَقُمْ عَلیٰ جَوَازِہ دَلِیْلٌ وَکُلٌّ مَّا تَمَسَّکَ بِہِ الْمُجَوِّزُوْنَ فَفِیْہِ خَدْشَۃً ظَاہِرَۃً۔
) فتاویٰ نذیریہ ج 1 ص 327(
ترجمہ : مذکورہ جرابوں پر مسح جائز نہیں ہے کیونکہ اس کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے اور ان پر مسح کو جائز قرار دینے والوں نے جن سے استدلال کیا ہے اس میں خدشات کا ہوناظاہر ہے۔
نوٹ: مذکورہ عبارت انہی الفاظ کے ساتھ غیرمقلد عالم ثناء اللہ امرتسری نے اپنےفتاویٰ ثنائیہ ج 1 ص 443 پر بھی موجود ہے۔
تحفۃ الاحوذی کا حوالہ:
غیر مقلد عالم مولوی عبدالرحمٰن مبارکپوری لکھتے ہیں :
وَالْحَاصِلُ اَنَّہُ لَیْسَ فِیْ بَابِ الْمَسْحِ عَلَی الْجَوْرَبَیْنِ حَدِیْثٌ مَّرْفُوْعٌ صَحِیْحٌ خَالٍ عَنِ الْکَلَاْمِ۔
)تحفۃ الاحوذی ج 1 ص 349(
ترجمہ: اس تمام بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جرابوں پر مسح کرنے کے بارے میں کوئی حدیث مرفوع صحیح ایسی نہیں جو کلام سے خالی ہو یعنی جس پر محدثین رحمہم اللہ نے ضعف کا حکم نہ لگایا ہو۔
فتاویٰ ثنائیہ کا حوالہ :
غیر مقلد عالم مولوی ثناء اللہ امرتسری نے جرابوں پر مسح کے جواز میں ایک فتویٰ دیا تھا اس کی تردید کرتے ہوئے ایک غیر مقلد عالم مولوی ابو سعید شرف الدین دہلوی لکھتے ہیں کہ جرابوں پر مسح کرنے کا مسئلہ معرکۃ الآراء ہے مولانا نے جو کچھ لکھا ہے یہ بعض ائمہ امام شافعی وغیرہ کا مسلک ہے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا بھی یہی مسلک ہے مگر یہ مسلک صحیح نہیں اس لیے کہ دلیل صحیح نہیں ہے ……..پھر یہ جرابوں پر مسح والا مسئلہ نہ قرآن سے ثابت ہے نہ حدیث مرفوع صحیح سے نہ اجماع نہ قیاس سے لہٰذا خف چرمی جس پر مسح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کے سوا جورب پر مسح ثابت نہیں ہوا۔
) فتاویٰ ثنائیہ ج 1 ص 441(
مجموعہ فتاویٰ کا حوالہ:
جورابوں پر مسح کرنا حدیث صحیح سے ثابت نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور بعض صحابہ کے مسح کرنے سے جوربین پر یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ مطلق جوربین پر مسح جائز ہے کیونکہ یہ معلوم نہیں کہ وہ جوربین چمڑے کی تھین یا اور چیز کی ہاں اگر کوئی قولی حدیث ایسی ہے جس میں حکم ہو کہ اِمْسَحْ عَلَی الْجَوْرَبَیْنِ پھر تو مطلق جرابوں پر مسح اس سے ثابت ہوجائے گا وَاِذْ لَیْسَ فَلَیْسَ ہاں اگر جوربین اون اور سوت کی ایسی سخت ہوں کہ سختی میں چمڑے کی بربری کریں پس وہ چمڑے کا حکم رکھتی ہیں اور ان پر مسح جائز ہے۔
) مجموعہ فتاویٰ مولوی عبدالجبار ص 102(
فتاویٰ برکاتیہ کا حوالہ:
غیر مقلد عالم ابو البرکات احمد لکھتے ہیں : موزوں پر مسح کرنے والی بہت زیادہ احادیث ہیں لیکن جرابوں پر مسح کرنے کے متعلق کوئی حدیث صحیح نہیں ہے
)فتاویٰ برکاتیہ ص 18(
دستور المتقی کا حوالہ:
غیر مقلد عالم محمد یونس لکھتے ہیں :جرابوں پر مسح کرنا درست ہے جب کہ وہ خف بنی ہوئی ہوں معمولی اور پتلی جرابوں پر مسح کرنا؛ ناجائز ہے۔ مسح جراب کی اکثر حدیثیں ضعیف ہیں امام ابو دائود نے اپنی کتاب میں ضعیف کہا ہے۔
)دستور المتقی فی احکام النبی صلی اللہ علیہ وسلم ص 78 اسلامک پبلشنگ ہاؤس لاہور (