کیا فقہاء حدیث دان بھی ہوتے ہیں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
آثار التشریع:
علامہ خالد محمود ، لندن
کیا فقہاء حدیث دان بھی ہوتے ہیں ؟
حدیث بیان اور حدیث دان؛ دو علیٰحدہ علیٰحدہ منصب ہیں۔مگر ضروری نہیں کہ جو حدیث بیان کرے وہ حدیث دان بھی ہو،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود اس میں فرق بتلا چکے ہیں:
وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ.
)رواہ الشافعی مشکوٰۃ ص35(
ہاں فقہاء حدیث دان ضرور ہوتے ہیں ،حدیث نہ جاننے والا کیسے فقیہ بن سکتا ہے؟صاحبِ ہدایہ م593ھ ہی کو لیں، حافظ جمال الدین زیلعی رحمہ اللہ م762ھ جیسے جلیل القدر محدث ان کی روایات تلاش کرتے کرتے تھک جاتے ہیں،حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ م852ھ کئی جگہ سپر انداز ہوتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں کہ یہ حدیث مجھے نہیں مل سکی۔معلوم نہیں صاحبِ ہدایہ نے کہاں سے لی ہے۔
علامہ علاؤالدین صاحبِ دُر ِمختارم1088ھ کس درجے کے اونچےفقیہ ہیں مگر دیکھئے وہ ساتھ ساتھ صحیح بخاری کے شارح بھی ہیں۔علامہ عینی رحمہ اللہ م855ھ جہاں ہدایہ کے شارح ہیں وہیں صحیح بخاری کے شارح کی حیثیت سے بھی معروف و مشہور ہیں۔علامہ شامی رحمہ اللہ م1252ھ صاحب در مختار کے بارے میں لکھتے ہیں۔
وَلَهُ تَعْلِيقَةٌ عَلَى صَحِيحِ الْبُخَارِيِّ تَبْلُغُ نَحْوَ ثَلَاثِينَ كُرَّاسًا وَعَلَى تَفْسِيرِ الْبَيْضَاوِيِّ.
)رد المحتار للشامی ج1ص13(
ترجمہ: آپ کی صحیح بخاری پر تعلیقات ہیں جو تیس اجزاء میں ہیں اور تفسیر بیضاوی پر بھی آپ کے حواشی ہیں۔
حدیث اور فقہ میں محل خطر کہاں ہے؟:

1.

فقہ کی عبارت حدیث کی نسبت زیادہ سلیس ہوتی ہے۔

2.

فقہ اپنے موضوع میں تدریجی مراحل سے نہیں گزری۔حدیث اپنے موضوع میں تدریجی مراحل سے گزری ہے اور اس نے 23سال میں مکمل تکمیل پائی ہے۔

3.

حدیث میں ناسخ ومنسوخ کی بحث چلتی ہے۔لیکن فقہ میں کوئی ناسخ ومنسوخ کے فاصلے نہیں۔

4.

حدیث میں غلطی لائق درگزر نہیں فقہ میں نادرست اجتہاد پر بھی ایک اجر کا وعدہ ہے۔
اس صورت حال میں آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں کہ حدیث اور فقہ میں محل خطر کہاں ہے؟فقہ کے آزاد مطالعہ میں خطرے کم ہیں،جب کہ حدیث کے آزاد مطالعے میں خطرے زیادہ ہیں۔علماء نے ”فقہ السنۃ“ میں تو محنت کی ہے اور اس عنوان پر کتابیں لکھیں ہیں۔لیکن” سنۃ الفقہ“ کا عنوان کہیں نظر سے نہ گزرا ہوگا۔
حضرت سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ م198ھ کس پائے کے محدث ہیں؟ اسے حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی زبانی سنیے:
آپ امام،حجت،حافظ حدیث،وسیع العلم اور جلیل القدر انسان تھے۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اگر امام مالک رحمہ اللہ اور سفیان بن عیینہ رحمہما اللہ نہ ہوتے تو حجاز سے علم حدیث ختم ہوجاتا۔
امام عبدالرحمان مہدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کہ ابن عیینہ رحمہ اللہ اہل حجاز کی حدیث سب لوگوں سے زیادہ جانتے ہیں۔
امام ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
کہ میں نے امام بخاری رحمہ اللہ سے سنا ہے فرماتے تھے:ابن عیینہ رحمہ اللہ حماد بن زید سےبڑے حافظ حدیث ہیں۔
امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
میں نے ان سے زیادہ حدیث کا جاننے والا کوئی نہیں دیکھا۔
)تذکرۃ الحفاظ ج1ص211اردو(
آپ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ م256ھ اور حضرت امام مسلم رحمہ اللہ م261ھ دونوں کے استاد ہیں فرماتے ہیں:الحدیث مضلۃ الاللفقہاء.
)تذکرۃ الحفاظ ج1ص211اردو(
ترجمہ: ”حدیث میں بہک جانے کی بہت راہیں ہیں مگر فقہاء کے لیے یہ خطرہ نہیں“
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی فرماتے ہیں:
ما أنت بمحدث قوما حديثا لا تبلغه عقولهم إلا كان لبعضهم فتنة.
) صحیح مسلم ج1ص9(
ترجمہ: تم کسی قوم کے پس کوئی حدیث بیان کرو جو ان کی سمجھ سے بالا ہو تو وہ ان میں سے بعض کے لیے ضرور فتنہ بن جائے گی۔
بعض کے لیے کیوں کہا؟وہ ان سب کے لیے جو اسے نہ سمجھتے ہوں فتنہ کیوں نہ بنے گی؟یہ اس لیے کہ ہوسکتا ہے کہ وہ بعض اس پر براہ راست عمل نہ کریں۔وہ فقہ کے سائے میں چلنے والے ہوں اور کسی فقیہ کی پیروی میں وہ اس فتنہ سے بچ جائیں اور بعض براہ راست عمل بالحدیث کے قائل ہوں وہ اس گڑھے میں آگریں۔کسی فقیہ کی رہنمائی میں چلنا وہ عیب سمجھتے ہوں۔
کیا ا بن مسعود نے حدیث کو فتنہ کہا ہے؟:
بعض حضرات جو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس لیے ناراض ہیں کہ وہ نماز میں رکوع کے وقت رفع الیدین نہ کرتے تھے ان پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے حدیث کو ”فتنہ“ کہا ہے۔
نہیں ایسا نہیں ہے،انہوں نے حدیث کو فتنہ نہیں کہا بلکہ اس شخص کے عمل بالحدیث کو فتنہ کہا ہے جو علم نہ رکھتا ہو اور جہاں اسے کوئی حدیث ملے وہ اس پر عمل کرنے لگے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ اسے فقیہ درجے کے علماء کی طرف رجوع کرنا چاہیےاور ان سے پوچھے بغیر وہ ظاہر حدیث پر عمل پیرا نہ ہو،اس میں بقول حضرت سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ اس کے گمراہ ہونے کا بہت اندیشہ ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: امام مالک رحمہ اللہ سے کہا گیا کہ سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کے پاس کئی ایسی احادیث ہیں جو آپ کے پاس نہیں۔آپ نے کہا اگر میں لوگوں کو وہ تمام احادیث روایت کروں جو میں نے سنیں تو میں احمق ہوں گا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں انہیں گمراہ کر رہا ہوں۔آپ نے فرمایا :
إني أريد أن أضلهم إذاً ولقد خرجت مني أحاديث لوددت أني ضربت بكل حديث منها سوطاً، ولم أحدث بها.
)ترتیب المدارک ج1ص188(
ترجمہ: سو اس صورت میں ان کو گمراہ کرنے والا بنوں گا مجھ سے کئی ایسی احادیث بیان ہوچکی ہیں کہ میں چاہتا ہوں کہ مجھے ایک ایک کے بدلے ایک کوڑا لگ جاتا اور میں نے انہیں روایت نہ کیا ہوتا۔آپ کے شاگرد محمد بن عیسیٰ الطباع رحمہ اللہ کے بیان سے امام مالک رحمہ اللہ کے اصول کا پتہ چلتا ہے:
كل حديث جاءك عن النبي صلى الله عليه وسلم لم يبلغك أن أحدا من ألصحابۃ فعله فدعه.
)الفقیہ والمتفقہ للخطیب ج1ص132(
ترجمہ : ہر حدیث جو تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے اور اس پر کسی صحابی کا عمل نہ ہو اسے چھوڑ دو۔
مجتہد علماء کے لیے امام مجتہد کی پیروی ضروری نہیں:
مجتہد اپنے سے بڑے مجتہد کی پیروی کرے،یہ جائز ہے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کس اونچے درجے کے مجتہد تھے،مگر آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی پیروی میں چلتے تھے۔ان کے اجتہاد کے سامنے اپنے اجتہاد کو چھوڑ دیتے تھے۔امام ابویوسف رحمہ اللہ اور امام محمد رحمہ اللہ خود مجتہد تھے مگر زیادہ تر حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی پیروی میں چلتے تھے یہ جائز ہے لیکن اگر کوئی ایسا نہ کرے تو ہم اسے ملزم نہ گردانیں گے۔
قاسم بن محمد الاندلسی القرطبی رحمہ اللہ م276ھ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کے پیرو تھے۔جب فقہ میں مہارت حاصل کرلی اور امامت اور اجتہاد کے منصب پر فائز ہوئے تو تقلید چھوڑ دی لوگوں کو امام شافعی رحمہ اللہ سے ہٹانے کے لیے ”کتاب الایضاح فی الرد علی المقلدین“ لکھی۔حضرت علامہ محمد بن جریر الطبری رحمہ اللہ م310ھ بھی شافعی المذہب تھے۔آپ نے اجتہاد کے دائرہ میں قدم رکھا تو کسی خاص مسلک کی تقلید سے کنارہ کش ہوگئے لیکن اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا کہ غیرمجتہد بھی کسی امام مجتہد کی پیروی سے نکلنے کا مجاز ہے۔کیونکہ اندیشہ ہے کہ ظاہر حدیث پر عمل کرنا اس کے لیے فتنہ بن جائے۔حدیث علم کا خزانہ ہے اور کھرا سونا ہے،فقہ اس کے کھرا رکھنے اور غلط آلائش سے بچانے کی علمی ضمانت ہے،حدیث اور فقہ میں تو اول درجہ حدیث کا ہے مگر محدثین اور فقہاء میں فقہاء پہلے ہیں اور بقول امام ترمذی رحمہ اللہ وہ حدیث کے معنیٰ سمجھنے میں محدثین سے آگے نکل گئے ہیں۔
تاہم یہ بات علی وجہ البصیرت کہی جاسکتی ہے کہ محدثین اور فقہاء میں کوئی علمی،فکری اور اعتقادی فاصلہ نہیں۔تاریخ میں ہردو طبقے ساتھ ساتھ چلے ہیں۔ابن حزم ظاہری کے بعد آٹھ سو سال تک کسی نے فقہ کی ضرورت کا انکار نہیں کیا۔پہلا شخص جس نے برٹش انڈیا میں فقہ کے خلاف آواز اٹھائی وہ ”ہری چند کھتری“ تھا جو پہلے ہندو تھا اور معلوم نہیں کس ارادے سے مسلمانوں میں گھس آیا تھا۔
فقہاء اور محدثین کی پوری تاریخ اسلام میں ساتھ ساتھ چلے ہیں علم میں دونوں سے استناد رہے تو انسان بھٹکتا نہیں،ورنہ بلافقہ جانے مطالعہ حدیث میں خطرے ہی خطرے ہیں۔امام ابن وہب رحمہ اللہ امام مالک رحمہ اللہ کے جلیل القدر شاگرد ہیں کیا پتہ کی بات کہہ گئے:
کل صاحب حدیث لیس لہ امام فی الفقہ ضال ولولا أن الله استنقذنا بمالك والليث لضللنا.
) ترتیب المدارک ج2ص427(
ترجمہ: ہر اہل حدیث جو فقہ میں کسی امام کا پیرو نہیں، رستے سے بھٹکا ہوا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ ہمیں امام مالک اور لیث بن سعد مصری کے ذریعہ اس مشکل سےنہ نکالتے تو ہم بھٹک جاتے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ گہری بصیرت سے نصیحت فرماتے ہیں:
ایاک ان تتکلم فی مسئلۃ لیس لک فیہا امام۔
)فتاویٰ ابن تیمیہ ج10ص320،سیر اعلام النبلاء ج11ص296(
ترجمہ: خبردار!اس سے بچنا کہ تم کوئی مسئلہ بتاؤ اور اس میں تمہارا کوئی پیش رو نہ ہو۔
کئی ایسی احادیث بھی ہیں جن پر فیصلہ نہیں دیا جاسکتا۔امام سفیان الثوری رحمہ اللہ م161ھ فرماتے ہیں:
قد جاءت احادیث لایوخذ بہا۔
) شرح العلل ج1ص29(
جو مجتہد نہیں وہ اجتہادی مسائل میں تقلید کرے:
ہر ایک شخص مجتہد درجے کا ہو ،یہ عادۃ ًمحال ہے۔ اس سے دوسرے سب کام رک جائیں گے اور یہ فطرت کے خلاف ہے۔شیخ شنقیطی لکھتے ہیں:
ولو كلف الناس كلهم الاجتهاد وأن يكونوا علماء فضلاء لضاعت مصالح العباد، وتعطلت السنن والمتاجر وكان الناس كلهم علماء مجتهدين وهذا مما لا سبيل إليه شرعاً والقدر قد منع من وقوعه۔
)أضواء البيان فی إيضاح القرآن بالقرآن للشنقیطی ج7ص503(
ترجمہ: اگر لوگ سب کے سب اجتہاد کے مکلف ٹھہرائے جائیں اور یہ کہ وہ سب عالم فاضل بنیں تو اس سے تمام مصالح عباد جاتی رہیں گی اور رفتار عمل اور کاروبار کی منڈیاں سر پڑ جائیں گی اور سب لوگ بس مجتہد ہی ہوں گے اس کا نہ شرع تقاضا کرتی ہے اور قضاء قدر نے ایسا ہونے بھی نہیں دیا۔
قرآن پاک میں صرف ایک طبقے کو مجتہد بننے کے لیے کہا گیا ہے۔اس کا تقاضا ہےکہ باقی سب لوگ ان کی تقلید کریں:
فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ……… و هذا تقليد منهم للعلماء۔
)أضواء البيان فی إيضاح القرآن بالقرآن للشنقیطی ج7ص503(
ترجمہ: یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہر طبقے سے کچھ لوگ دین میں فقہ کی تعلیم کے لیے نکلیں یہ ان طبقوں کی طرف سے ان اہل علم کی تقلید ہے۔
یعنی جب وہ فقہ کی تعلیم لے کر آئیں تو پھر اپنی قوم کو اللہ کے خوف سے ڈرائیں اور انہیں شریعت کے احکام بتائیں اور یہ ان کے پیچھے چلیں۔