طالب ِدنیا اور طالبِ آخرت

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
مجلس الشیخ:
ترتیب و عنوانات: مفتی شبیر احمد حنفی
طالب ِدنیا اور طالبِ آخرت
5 ستمبر2013ء بروز جمعرات حضرت الشیخ متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ نے خانقاہ اشرفیہ اختریہ مرکز اہل السنۃ و الجماعۃ 87 جنوبی سرگودھا میں منعقدہ ماہانہ مجلسِ ذکر سے خطاب فرمایا، جس میں ’’طالبِ دنیا اور طالبِ آخرت‘‘ کے عنوان پر پُر اثرگفتگو فرمائی اور چاروں سلاسل میں خلق خدا کو بیعت بھی فرمایا۔ اس موقع پر حضرت والا کے بیان کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلهِ نَحْمَدُہُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ،وَنَعُوذُ بِاللهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَهْدِهِ اللّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ ، وَنَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ سَيِّدَنَا مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ،صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلٰى آلِهِ وَصَحْبِهِ وَسَلَّمَ تَسْلِيمًا كَثِيرًا اَمَّابَعْدُ.فَاَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ: مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَنْ نُرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَدْحُورًا ؀ وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُورًا ؀ كُلًّا نُمِدُّ هَؤُلَاءِ وَهَؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُورًا؀
)سورۃ بنی اسرائیل:18تا20(
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔
پارہ15سورۃ بنی اسرائیل کی آیت نمبر18،19،20 تین آیات تلاوت کی ہیں۔ان آیات میں اللہ رب العزت نے دو قسم کے انسانوں کا تذکرہ فرمایا ہے۔
دو قسم کے لوگ:
1: طالبینِ دنیا) جو دنیا کے طالب ہیں(
2: طالبینِ آخرت )جو آخرت کے طالب ہیں(
دنیا کا طالب اور آخرت کا طالب کسے کہتے ہیں؟آسان لفظوں میں یوں سمجھیں کہ جو شخص دنیا میں جیتا ہے ،جینے کے لیے۔ یہ ”طالبِ دنیا“ ہے اور جو شخص دنیا میں جیتا ہے، مرنے کے لیے۔ یہ ”طالبِ آخرت“ ہے۔
بعض لوگوں کا دنیا میں جینے کا مقصد صرف ”جینا“ ہوتا ہے اور بعض لوگوں کا دنیا میں جینے کا مقصد ”مرنا“ ہوتا ہے۔جب انسان جیتا ہے ”جینے کے لیے“ تو اس کے جینے کے انداز اور ہوتا ہے اور جب جیتا ہے” مرنے کے لیے“ تو اس کے جینے کا انداز اور ہوتا ہے۔دو قسم کے طبقوں کا اللہ رب العزت نے تذکرہ فرمایا ہے۔میں ان دو طبقوں میں تھوڑا سا فرق عرض کرتا ہوں تاکہ ہمیں مزید بات سمجھ آئے۔
جو شخص دنیا میں جیتا ہے جینے کے لیے اس کی ہروقت فکر اور تمنا یہ ہوتی ہے کہ میں نے کس کس سے کیا کیا لینا ہے؟اور جو جیتا ہے مرنے کے لیے اس کی ہروقت فکر یہ ہوتی ہے کہ میں نے کس کس کو کیا کیا دینا ہے؟طالبِ دنیا کی فکر ہے کہ میں کس کس سے کیا لے سکتا ہوں؟اور طالبِ آخرت کی فکریہ ہے کہ میں کس کس کو کیا دے سکتا ہوں؟
اب یہ بات سمجھنی کوئی مشکل نہیں ہے۔دنیا میں کئی لوگ ایسے ہیں جن کی چوبیس گھنٹے کی فکر یہ ہے کہ جس سے میں نے کچھ لینا وہ رہ نہ جائے، اس کے لیے

خاندان سے تعلق توڑنا پڑے

اس کے لیے قتل کرنا پڑے

قتل ہونا پڑے

اس کے لیے جیل جانا پڑے

جیل بھجوانا پڑے

اس کے لیے بڑے سے بڑا معرکہ لڑنا پڑے
بس یہ فکر ہے کہ میں نے جس سے لینا ہے اسے کیسے لے سکوں؟اس پر کبھی روڈ بلاک ہوتے ہیں،کبھی احتجاج ہوتے ہیں،کبھی جلوس نکلتے ہیں۔یہ ساری جنگیں اس بات کی ہیں کہ ہمارے حقوق یہ ہیں،ہمارا حق یہ ہے،ہم اپنا حق لے کر رہیں گے۔کبھی آپ نے ایسا احتجاج دیکھا یا سنا ہو کہ لوگ کہیں کہ ہمارے ذمہ فلاں کا دینا تھا وہ نہیں لے رہا ،کبھی آپ نے دیکھا ہو؟ہاں یہ لڑائی تو ہوتی ہے کہ اتنی بجلی ہمارا حق تھا ہمیں نہیں مل رہی۔یہ لڑائی ہو کہ بجلی کا بل دینا تھاہم دو دفعہ گئے ہیں،واپڈا والے وصول نہیں کر رہے،یہ لڑائی نہیں ہوگی۔
سوچ میں فرق:
تو طالبِ دنیا اور ہے اور طالبِ آخرت اور ہے،طالبِ دنیا وہ ہے جو سوچتا ہےکہ میں نے کس کس سے کیا کیا لینا ہے اور طالب آخرت سوچتا ہے کہ میں نے کس کس کو کیا کیا دینا ہے؟اگر ہم نے کسی سے کچھ لینا ہے اور اس دنیا میں نہ لے سکے تو اللہ موت کے بعد ہمیں دلوائے گا اور اگر ہم نے کسی کو دینا ہے اور ہم نہیں دے سکے تو موت کے بعد اللہ ہم سے دلوائے گا۔قیامت کے دن

مال نہیں ہے

دولت نہیں ہے

وہاں دراہم نہیں ہیں

وہاں ودنانیر نہیں ہیں

وہاںسونا نہیں ہے

وہاں چاندی نہیں ہیں

وہاں کرنسی نہیں ہے

وہاں نقدی نہیں ہے

وہاں پیسے نہیں ہیں

وہاں زر نہیں ہے
وہاں صرف اور صرف اعمال ہوں گے۔ اگر دنیامیں کسی سے ہم نے کچھ لینا ہے اور نہ لے سکے تو اللہ اس کے نیک اعمال ہمیں دلوادیں گے اور ہمارے اعمال بد اسے دلوا دیں گےاور اگر ہم نے دینا ہے اور نہ دے سکے تو اللہ ہمارے نیک اعمال اللہ اس کو دلوا دیں گے اور اس کے اعمال بد؛ اللہ ہمیں دلوائیں گے۔
اب آپ بتاؤ کتنا نقصان اور خسارے کی بات ہے،ہمیں اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ جس سے حق لینا ہے لیں لیکن اس کے لیے لڑنا،اس کے لیے جھگڑنا،قتل وغارت کرنا اور خاندانوں کو برباد کرنا یہ بہت بڑی نادانی ،حماقت اور بےوقوفی ہے۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔
أَنَا زَعِيمٌ بِبَيْتٍ فِى رَبَضِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ وَإِنْ كَانَ مُحِقًّا وَبِبَيْتٍ فِى وَسَطِ الْجَنَّةِ۔
) سنن أبی داود :رقم:4802(
ترجمہ : جو شخص حق پر ہوتے ہوئے بھی لڑائی جھگڑا چھوڑ دے اللہ اس کو قیامت کے دن وسط الجنت کی نعمت عطا فرمائیں گے۔
حق ہے لیکن لیتا کیوں نہیں کہ لڑائی ہے،لڑائی کی وجہ سے حق کو چھوڑ دیا ہے تو قیامت کے دن اللہ اس کو جو جنت کا درمیانی حصہ ہے وہ عطا فرمائیں گے۔
غریب کون؟:
شعب الایمان میں امام بیہقی رحمہ اللہ نے اور صحیح مسلم میں امام مسلم رحمہ اللہ نے ایک حدیث مبارک نقل فرمائی میں ہے۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا تم بتاؤ تمہارے ہاں غریب کا معنیٰ کیا ہے؟ صحابہ نے کہا یا رسول اللہ،جس کے پاس مال،سونا،چاندی اور جائیداد نہ ہو یہ غریب ہے۔فرمایا:غریب یہ نہیں ہے،غریب وہ ہے کہ جس کے پاس اعمال موجود ہیں،قیامت کے دن اللہ کے دربار میں آئے اور ایک شخص یہ بات کہے کہ

یا اللہ اس نے مجھے گالی دی تھی،اللہ اس کا نیک عمل اس کو دے دیں۔

اللہ اس نے میری غیبت کی تھی،نیک عمل اس کا اللہ اس کو دے دیں۔

اللہ اس نے میری عزت مجروح کی تھی اللہ اس کے نیک اعمال اس کو دے دیں۔

وہ اور بھی اپنے حقوق کا مطالبہ کرے،اس کے نیک اعمال ختم ہوجائیں۔

اللہ پھر اس کے اعمال بد اس کو دے دیں۔
فرمایا غریب یہ ہے جو اعمال لے کر گیا تھا،لیکن دوسروں کے حقوق کے مطالبے میں نیک اعمال چلے گئے،ان کے اعمال بد اس کی گردن پر ڈال دیے گئے۔وہ جنت میں گیا اور یہ جہنم میں گیا،اعمال ہونے کے باوجود بھی جہنم میں جائے تو غریب یہ شخص ہے۔
دیندار طبقے میں کوتاہی :
ہم بہت سارے دین دار لوگ بھی اس کا اہتمام نہیں کرتے مسجد میں آئے ہیں اپنا جوتا گم ہوگیا،کسی کا پہن لیں گے۔بھئی! آپ کا جوتا گم ہوگیا ہے تو کسی کا جوتا کیوں پہنتے ہو؟ننگے پاؤں گھر کو چلے جاؤ،ننگے پاؤں گھر جانا آسان ہے قیامت کے دن جوتے کے بدلے اعمال دینا مشکل ہے۔ہم اگر کسی جگہ پر گئے اور وہاں پر ہماری چیز چلی گئی تو دوسرے کی چیز اٹھالیتے ہیں ہم دوسرے کی چیز کیوں اٹھاتے ہیں؟اپنے نیک اعمال برباد کیوں کریں۔کسی کے اعمال بد اپنے کھاتے کیوں ڈالیں؟ہمیں اس سے بہت زیادہ بچنا چاہیے۔ایک طالبِ دنیا ہے اور ایک طالبِ آخرت ہے۔طالبِ دنیا کی فکر یہ ہے کہ میں نے دنیا میں کس کس سے لینا ہے کہیں رہ نہ جائے۔اور طالب آخرت کی فکر یہ ہے کہ میں نے کس کس کو دینا ہے وہ رہ نہ جائے۔طالب دنیا لینے کی فکر کرتا ہے اور طالب آخرت اپنے ذمے حقوق ہیں انہیں دینے کی فکر کرتا ہے۔
طالب دنیا اور طالب آخرت میں فرق:
اللہ رب العزت نے اس آیت میں ان دونوں قسم کے طبقوں کا تذکرہ فرمایا ہے کہ بعض طالب دنیا ہیں اور بعض طالب آخرت۔اور دوسرا ان میں فرق کیا ہے؟کہ دنیا کا جو طالب ہے وہ یہ سوچتا ہے کہ اگر میں مر گیا۔

میرے مرنے کے بعد میری اولاد کا کیا بنے گا؟

میری موت کے بعد میری اولاد کہاں سے کھائے گی؟

میری موت کے بعد میری اولاد کہاں ٹھہرے گی؟

میری موت کے بعد میری اولاد کا مستقبل کیا ہوگا؟
اور طالب آخرت سوچتا ہے کہ جب میری اولاد مر گئی تو میری اولاد کا کیا بنے گا؟طالب دنیا کی فکر کیا ہے؟کہ میری اولاد کے مستقبل کا کیا ہوگا اور طالب آخرت کی فکر کیا ہےکہ جب میری اولاد مرگئی تو قبر،آخرت اور حشر کا کیا بنے گا؟
یہی وجہ ہے کہ لوگ اسکول میں بچے کو بڑی خوشی سے اور جلدی بھیج دیتے ہیں۔ کیوں؟

پڑھے گا انجینئر بنے گا۔

یہ پڑھے گا ڈاکٹر بنے گا۔

یہ پڑھے گا پروفیسر بنے گا۔

یہ پڑھے گا کیپٹن بنے گا۔

یہ پڑھے گا اچھے عہدے پر چلا جائے گا۔
میں شاید مرجاؤں تو میری موت کے بعد اس کی دنیا سنور جائے گی اور دعائیں دے گا کہ ابونے بڑا اچھا کام کیا تھا۔اور مدرسے میں کیوں نہیں بھیجتا؟ وہ سمجھتا ہے کہ مدرسہ میں پڑھا ہوا ڈاکٹر نہیں بنتا اس لیے اس کی دنیا کا کیا بنے گا؟یہ میری موت کے بعد میری قبر پر لعنت بھیجےگا کہ میرے باپ نے میری دنیا نہیں بنائی۔
طالب آخرت کی سوچ :
اور جو طالبِ آخرت ہے وہ سکول کی بجائے مدرسے کو ترجیح دیتا ہے،اس کے سامنے اگر ستر سال کی دنیا ہے تو ابدالآباد کی آخرت بھی ہے،اس کو پتہ ہے کہ جب یہ میرا بیٹااعمال بد کی وجہ سے جہنم میں جائےگا تو یہی بیٹا اللہ سے عرض کرے گا:اللہ میرے اس باپ اور میری ماں کو دوگنا عذاب دے،انہوں نے دین کی تعلیم نہیں دی،آج میں جہنم میں جلا ہوں اگر یہ دین پڑھالیتے آج میں جنت میں چلا جاتا وہ سمجھتا ہے کہ اگر میرے بیٹے نے دین نہ پڑھا یہ خود بھی جہنم میں جائے گا اور مجھے بھی جہنم میں گھسیٹ لے گا۔اس لیے وہ آخرت کی فکر کرتے ہیں۔
میری اولاد کا کیا بنے گا ؟:
تو طالب دنیا کون ہے؟جو یہ سمجھتا ہے کہ میری موت کے بعدمیری اولاد کا کیا بنے گا؟ اور طالب آخرت سمجھتا ہے کہ میری اولاد مرجائےگی تو میری اولاد کا کیا بنے گا؟اور آج یہی فکر اور غم ہر بندے کو کھائے جارہا ہے کہ میری دنیا ، میرا مستقبل، میرا کیا بنے گا؟اور باپ اپنے بیٹے کی آخرت کو ذبح کردیتا ہے کہ میرے بیٹے کی دنیا برباد نہ ہوجائے۔حالانکہ یہ بات بالکل بجا ہے کہ جب آدمی اللہ کے لیے خود کو پیش کر دیتا ہے اللہ اس بندے کی دنیا کبھی بھی خراب نہیں فرماتے۔اللہ اس بندے کی دنیا کبھی تباہ نہیں کرتے۔
اللہ کی طرف سے اعزاز:
ہمیں ایک بات پر تعجب ہوتا ہے،آپ سیاسی پارٹی کے لیے دو دن کی جیل کاٹیں اور آپ کا مقام بڑھ جائے اللہ کے لیے کاٹیں اور مقام گر جائے یہ کیسے ہوسکتا ہے آپ کسی سیاسی لیڈر کے لیے کچھ مشقت برداشت کریں وہ آپ کے منصب کا خیال کرے،اللہ کے لیے مشقت برداشت کریں اللہ خیال نہ کرے؟بتاؤ!یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ہماری سمجھ سے باہر ہے۔بات چونکہ چل رہی ہے اس لیے میں درمیان میں ایک بات لطافت کے لیے یا کہہ لیں کہ سمجھانے کے لیے کرتا ہوں۔
اللہ کی طاقت بڑی ہے :
منڈی بہاؤالدین کے علاقے میں کا میرا نجی سفر تھا،کچھ علماء بیٹھے تھے ان میں ایک عالم مجھ سے فرمانے لگے: مولانا صاحب !بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ ایجنسیوں کے ہیں میری عادت ہے کہ میں ذاتیات کے حوالے سے نہ بہت زیادہ پریشان ہوتا ہوں نہ صفائی دیتا ہوں،پریشان ہوں گے تو صفائیاں دیں گے ناں۔جب پریشان ہی نہیں تو صفائی دینے کی ضرورت کیا ہے؟میں نے کہا میں اس سے تو بحث نہیں کرتا کہ میں ایجنسی کا ہوں یا نہیں لیکن آپ کے پاس کوئی دلیل ہو تو پیش فرمائیں! آپ کی دلیل کا جائزہ لے لیتے ہیں،اس نے کہا :جو کہتے ہیں آپ ایجنسیوں کے ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ آپ کے پاس اتنی بڑی گاڑی کہاں سے آئی؟عام مولوی یہ نہیں رکھ سکتے،یہ ایجنسیاں ہی دیتی ہیں۔میں نے کہا اس کے علاوہ کوئی اور دلیل ہو تو پیش کرو اکٹھے دلائل پیش کر دیں تاکہ مجھے بات کہنے میں بڑی آسانی ہو۔کہتا ہے نہیں،بس یہی بات ہے۔میں نے کہا اور ہیں،لیکن آپ پیش نہیں کرتے،کہ اس کا جواب سنیں کیا ملتا ہے،پھر اور بھی پیش کریں گے۔
میں نے کہا اگر کوئی آدمی ایجنسی کے لیے کام کرے تو دنیا کی ایجنسیاں اسے نوازتی ہیں؟کہا :جی بالکل۔میں نے کہا اللہ کے لیے کام کریں تو اللہ نوازتے ہیں؟اس نے کہا :جی بالکل۔میں نے کہا اللہ کی طاقت بڑی ہے یا ایجنسیوں کی بڑی ہے؟اس نے کہا جی اللہ کی طاقت بڑی ہے۔میں نے کہا پھر ایجنسی کے لیے کام کریں گے وہ چھوٹی سی گاڑی دیں گے۔اللہ کے لیے کریں گے تو بڑی دیں گے،تو بڑی گاڑی ہونا اس بات کی علامت ہے کہ یہ اللہ کے لیے کام ہے،اس بات کی نہیں کہ یہ ایجنسی کے لیے کام ہے۔میں نے کہا آپ کا دماغ چونکہ بالکل چھوٹا تھا اس لیے چھوٹی چھوٹی باتوں کو سوچتے ہیں،جن کا دماغ بڑا ہوتا ہے وہ بڑی بڑی باتوں کو سوچتے ہیں۔میں نے کہا: جی اور کوئی دلیل ہو تو پیش کرو! کہتا ہے کہ یہ تو ہم سارے ہی کہتے ہیں کہ باتوں میں آپ سے کوئی نہیں جیت سکتا۔ میں نے کہا ویسے ہی مان لو۔جب آپ سمجھتے ہیں تو پھڈا ڈالنے کی ضرورت کیا ہے؟آپ ویسے ہی بات قبول کر لیں اس میں حرج ہی کیا ہے؟
اللہ کا ہو کر دیکھو:
خیر میں یہ سمجھا رہا تھا مشکوٰۃ شریف کی شرح مرقات میں ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک حدیث میں ہے من كان لله كان الله له۔
)مرقات ج4ص553باب صلاة الضحى(
جب آدمی اللہ کے لیے کام کرتا ہے اللہ اس کی دنیا سنوار دیتے ہیں۔اب دنیا اللہ کے لیے قربان کردو تو اللہ دنیا بھی سنوارتا ہے اور آخرت بھی سنوارتے ہیں۔ایسا ہو نہیں سکتا کہ اللہ پاک نوازیں نہ۔ایسا ممکن نہیں ہے کہ اللہ پاک انسان کے لیے یہ عزتیں اور وسعتیں پیدا نہ کرے ایسا ممکن نہیں ہے۔تو طالب دنیا کی فکر یہ ہے کہ میں مرگیا تو میری اولاد کا کیا بنے گا اور طالب آخرت کی فکر یہ ہے کہ میری اولاد مرگئی تو میری اولاد کا کیا بنے گا۔؟
سکول اور مدرسے کی تعلیم :
ہمارے قریبی عزیز ہیں ان کی بچیاں ہیں ایف اے،بی اے ،ایم اے۔ میں نے ان کو ترغیب دی کہ آپ اپنی ایک بیٹی کو مدرسہ میں داخل کراؤ!چار سالہ کورس کر لے۔اب بیٹیاں جواب دیتی ہیں کہ کیا کالج میں پڑھنا گناہ ہے؟میں نے کہا: میں نے گناہ کی بات ہی نہیں کی، میں نے کہا تم نے ایف اے،بی اے کیا ، اب تین چار سال مدرسے کا کورس کرلیں۔ کہنے لگیں: نہیں آپ یہ بتائیں کالج پڑھنا گناہ ہے؟میں نے کہا ایسی فضول بحث کا فائدہ نہیں ہے، نہ کالج میں پڑھنا گناہ ہے اور نہ ہی مدرسے میں پڑھنا گناہ ہے۔حدودِ شریعت کے مطابق ہو تو کالج عبادت ہے اور حدودِ شریعت کے خلاف ہو تو مدرسہ بھی گناہ ہے۔مسئلہ تو شریعت کا ہے مسئلہ تو کالج یا مدرسے کا نہیں ہے ناں۔
آخر ہمارا مستقبل بھی ہے :
خیر! مجھے وہ کہنے لگیں کہ آخر ہمارا مستقبل بھی ہے، اگر کالج پڑھ کر اپنا مستقبل سنوار یں تو اس میں حرج کیا ہے؟میں نے کہا جس مستقبل کو سنوارنے کے لیے آپ نے 16 سال پڑھا ہے تو اس کی مدت کتنی ہے؟ اس نے کہا جب تک زندہ ہیں۔ میں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس امت کی اوسط مدت عمر 60سے70 سال تک ہے، کوئی 90 سال کا ہے، کوئی40 سال کا ہے، کو ئی100 سال کا ہے،60سے 70 سال تک اوسط عمر ہے۔ میں نے کہا آپ کی عمر کو70 سال مانتا ہوں۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ70 سال کی عمر کو سنوارنے کے لیے16 سال آپ نے پڑھا ہے۔ آپ نے 4 سال کی عمر میں اسکول میں داخلہ لیا۔
اب تو چار کا انتظار کوئی نہیں کرتا اڑھائی تین سال میں ایک کلو کا بستہ کندھے پر لاد دیتے ہیں کہ اب بچہ بولنے کے قابل ہوگیا ہے اب اس کو گھر سے نکال دو اور اس کوا سکول بھیج دو، اب تو تین سال کے عرصہ میں ماں تنگ آکر اسکول بھیجتی ہے اور اس کو سنبھالنے کے لیے تیار نہیں ہوتی ہے۔
لوگوں کی الٹی سوچ :
عجیب بات یہ ہے کہ آپ یہ کہتے ہو تو بچیاں مدرسہ میں بھیج دو تو چوک سے گزر کر کیسے جائیں گی؟ جبکہ گاڑی میں بیٹھ کر کالج جاتی ہیں تو پردے کا مسئلہ نہیں ہے۔میرا بیان سننے کے لیے کچھ عورتیں آئیں تو مجھے کہتی ہیں کہ بازار میں کیسے گزریں گی ،شاپنگ کے لیے بازاروں میں گھومتی رہتی ہیں تو اس پر کوئی اعتراض نہیں، مدرسہ میں بھیج دو تو صبح بچی کے لیے اٹھنا مشکل ہے، نیکر پہنا کے سردی میں اس کو سوزوکی میں بٹھا کر سکول بھیجتے ہیں تو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ہم پانچ سال کا بچہ مدرسہ میں پڑھانے کےلیے مانگیں تو ان کو بات سمجھ نہیں آتی اور وہاں اسکول میں تین سال کا ہو تو بھیج رہے ہیں تو وہاں ان کو بات سمجھ آتی ہے۔
دنیا اور آخرت کی زندگی :
میں نے کہا چلیں اگر4 سال کی عمر میں پڑھنے لگی ہو اور 16 سال پڑھا ہے تو یہ کل 20 سال بنتے ہیں، تو70 سے20 نکال دو تو 50 رہ گئے ،تو اس کا مطلب یہ ہے کہ 50 کا مستقبل سنوارنے کے لیے تمہیں 16 سال پڑھنا پڑا ہے۔ یہ بتاؤ کہ

قبر کی زندگی کی قائل ہو؟ اس نے کہا :جی ہاں بالکل۔

میں نے کہا: ثواب و عذاب ہوتا ہے؟ تو اس نے کہا: بالکل۔

حشر کی قائل ہو؟

جنت کی قائل ہو ؟

جہنم کی قائل ہو؟

اس نے کہا :کیوں نہیں ہم مسلمان ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھا ہے۔
میں نے کہا: چلو یہ بتاؤ کہ یہ جو موت کے بعد آگے جنت جہنم کی زندگی ہے تو اس کی مدت کتنی ہے؟ ایک ہزار سال، لاکھ سال، کروڑ سال، ارب سال مدت کتنی ہے؟اس نے کہا کہ یہ تو غیرمحدود زندگی ہے۔ میں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر 50سالہ زندگی سنوارنے کے لیے 16 سال پڑھنا پڑتا ہے تو غیرمحدود زندگی کا مستقبل سنوارنے کے لیے کتنے سال پڑھنا چاہیے؟ تم خود بتاؤ یہ بھی مستقبل ہے اور وہ بھی مستقبل ہے۔
اسکول اور مدرسہ والوں کا معاملہ:
تو میں نے کہا: ا سکول والوں کا ظلم دیکھو انہوں نے تمہارے 50 سال کے مستقبل کےلیے 16 سال پڑھنا بتایا اور مدرسے والوں کا رحم دیکھو کہ تمہاری غیرمحدود زندگی کے مستقبل کے لیے صرف 4 سال مانگے ہیں، یہ چار سال تو مہنگے نظر آتے ہیں اور 16 سال سستے نظر آتےہیں، وجہ کیا ہے؟آنکھوں کے سامنے دنیا ہے اور آنکھوں کے سامنے آخرت نہیں ہے۔تو ایک طبقہ وہ ہے جو طالب دنیا ہے اور ایک طبقہ وہ ہے جو طالب آخرت ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں طالب دنیا نہ بنائے اور اللہ ہمیں طالبِ آخرت بنائے۔
اخلاقی اور معاشرتی برائیوں سے بچیں :
اس کی بھر پور کوشش کریں دنیا میں کسی کو گالی نہ دیں، اگر دی ہے تو معافی مانگ لیں، اس کی پوری کوشش کریں کہ دنیا میں کسی پر زیادتی نہ کریں۔ اگر کی ہے تو معافی مانگ لیں۔ دنیا کی ذلت آسان ہے اور آخرت کی ذلت بڑی مشکل ہے۔ آج دنیا میں معافی مانگیں گے ایک کے سامنے خلوت میں، تو یہ ذلت بڑی آسان ہے اور حشر میں جب معافی مانگیں گے اربوں انسانوں کے سامنے روزِ محشر میں تو وہ ذلت بڑی مشکل ہوگی۔توسعادت منداور خوش قسمت انسان وہ ہے کہ جو دنیا میں تو اپنی ذلت کو برداشت کرے اور آخرت میں ذلت سے بچنے کی کوشش کرے۔
آیات کا مفہوم:
ان آیات میں اللہ رب العزت نے دونوں کا تذکرہ کیا ہے۔جب طالب دنیا کا ذکر کیا ہے تو اتنی مختصر اور جامع گفتگو کی ہے کہ انسان قرآن کی فصاحت پہ عش عش کرتا ہے۔ فرمایا:
﴿ مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَنْ نُرِيدُ ﴾
کہ جو شخص دنیا کے لیے جیتا ہے تو وہ کان کھول کر سنے!

وہ کماتا ہے۔

وہ محنت کرتا ہے۔

وہ دولت جمع کرتا ہے۔
اس کا خیال یہ ہے کہ

میں زیادہ محنت کروں گا تو زیادہ دولت ملے گی۔

میرے پاس دنیا کےاسباب زیادہ ہوں گے دولت زیادہ ملے گی۔

عقلمند زیادہ ہوا تو دولت زیادہ ملے گی۔

میری برادری کے لوگ زیادہ ہوں گے تو دولت زیادہ ملے گی۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَنْ نُرِيدُ ﴾
ہم دنیا اُسے دیتے ہیں جسے چاہتے ہیں اور اُتنی دیتے ہیں جتنی چاہتے ہیں۔

نہ علم کے مطابق دیتے ہیں۔

نہ طاقت کے مطابق دیتے ہیں۔

نہ عقل کے مطابق دیتے ہیں۔

نہ انسان کے چاہنے کے مطابق دیتے ہیں۔
اتنی دیتے ہیں جتنی چاہتے ہیں اور اس کو دیتے ہیں جس کو چاہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان محنت کرنا چھوڑ دے، محنت کرے مگر ذہن یہ بنائے کہ میری محنت پر دنیا نہیں ہے۔ میرے اسباب میں کو مال کمانے میں دخل نہیں ہے بلکہ یہ مال ودولت محض اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم ہے۔پھر فرمایا ”ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ“ جنت یہ محنت کرتا نہیں تھا اس لیے ہم اسے جنت نہیں دیں گے بلکہ جہنم میں ڈال دیں گے۔ فرمایا” يَصْلاهَا مَذْمُوماً مَدْحُوراً “ کہ یہ جہنم میں جائے گا، ملامت بھی ہوگی اور ذلیل بھی ہوگا، عزت کے ساتھ نہیں بلکہ ذلت کے ساتھ جہنم میں جائے گا۔
طالبین آخرت سے ہمدردی :
مزید فرمایا”
وَمَنْ أَرَادَ الآخِرَةَ وَسَعٰى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُوْلَئِكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُوراً “
اللہ نے کتنی پیاری بات فرمائی ہے اور طالبین آخرت کے ساتھ کتنا ہمدردی کا اظہار فرمایا ہے۔ ایک آدمی طالبِ آخرت نہیں ہے ، محنت بھی نہ کرے اور اس کو آخرت بھی نہ ملے تو یہ تعجب کی بات نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس نے آخرت کےلیے کام کیا ہی نہیں ہے اور اگر بندہ طالبِ آخرت ہو، محنت بھی کرتا ہو او رپھر آخرت نہ ملے تو یہ تعجب کی بات ہے۔
طالبین آخرت کے لیے تین شرطیں :
تو اللہ نے باضابطہ بیان فرمایا
”وَمَنْ أَرَادَ الآخِرَةَ وَسَعٰى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ“
جو آخرت کےلیے کام کرے وہ تین باتوں کا خیال کرے۔
1: اس کی نیت ٹھیک ہونی چاہیے۔
2: عمل سنت کے مطابق ہو۔
3: عقیدہ اس کا ٹھیک ہونا چاہیے۔
اور آخر میں فرمایا
” كُلاًّ نُمِدُّ هَؤُلاء وَهَؤُلاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُوراً“
کہ اے دنیا میں تیرے رب کی عطاء کا تعلق ہے، ہم ان دونوں گروہوں کا نوازتے ہیں،طالب دنیا کو بھی اور طالبین آخرت کو بھی۔ دنیا میں رزق طالب دنیا کو بھی ملتا ہے اور طالبِ آخرت کو بھی ملتا ہے۔ کھاتا یہ بھی ہے اور کھاتا وہ بھی ہے۔ لیکن جہاں تک آخرت کی عطاء او رنعمتوں کا تعلق ہے تو اللہ وہ صرف طالبِ آخرت کو دیں گے ، جس نے ان کےلیے محنت بھی کی ہے۔ طالب دنیا کو صرف دنیا ملے گی اور طالبِ آخرت کو دنیا میں بھی سرفرازی ہوگی اور آخرت میں بھی۔
وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العٰلمین