فضائل اعمال پر اعتراضات کا علمی جائزہ

User Rating: 3 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط نمبر4: ضعیف حدیث سے متعلق
فضائل اعمال پر اعتراضات کا علمی جائزہ
…………متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ حدیث او ر اصول حدیث کے خوگر تھے اس لیے وہ ”علم حدیث “ اور” اصولِ حدیث “کی باریکیوں سے بھی خوب خوب واقف تھے۔ قرآنی آیات ، ذخیرہ احادیث، صحابہ کرام کے فتاویٰ اور محدثین کے قواعد وضوابط جرح وتعدیل کے اقوال اور علماء اصولیین کے اصول وغیرہ آپ کی نظر میں ہمہ وقت رہتے اور آپ ان کی رعایت فرما کر اپنا تصنیفی وتالیفی کام کرتے تھے۔ حدیث کے موضوع پر آپ کے ہاتھوں سے لکھی ہوئی متعددعربی اور اردو کتب اس کا واضح ثبوت ہیں۔
کتب فضائل اعمال بھی حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے انہی اصول وقواعد کو سامنے رکھ کر ترتیب دی ہیں لیکن جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ حضرت شیخ الحدیث نے یہ رسائل فضائل اعمال عوام کی عقلی سطح ملحوظ رکھ کر لکھے ہیں۔ اس لیے اس میں عالمانہ مباحث اور تدقیقات سے اجتناب کیا ہے۔ چنانچہ کتب فضائل اور ان کے جوابات از شیخ الحدیث مولانا زکریا میں ہے:
فضائل کی روایات کے متعلق اصلاً یہ ذہن میں ہے کہ فضائل معمولی ضعف قابل اغتفار ہے ( یعنی قابل معاف ہے۔ از ناقل ) اس لیے جن روایات کو ذکر کیا گیا ہے ان میں اس اصول کی رعایت کی گئی ہے اور جن روایات پر کسی نے کلام کیا ہے اس کو ظاہر کر کے ضعیف کی دلیل بھی ظاہر کر دی گئی ہے۔ اس چیز کا تعلق چونکہ عوام سے نہیں تھا بلکہ اہل علم سے تھا اس لیے اس کو عربی میں لکھا گیا کہ عوام کے عقول(عقل کی جمع۔ از ناقل) سے یہ چیزیں بالاتر تھیں۔ )کتب فضائل پر اشکالات کے جوابات ص 39 (
بعض معاصرین اور حاسدین کی تحریروں میں مختلف عنوانات سے ایک اعتراض کو بڑے شد و مد سے اچھالا گیا ہے کہ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ نے اپنی کتاب فضائل اعمال میں ضعیف احادیث کوذکر کیا ہے۔ گویا معترضین اس کو جرم بنا کر پیش کرتے ہیں۔ آئیے ہم ضعیف حدیث کے حوالے سے محدثین کرام کا نقطہ نظر آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کا طرز محدثین کرام سے ہٹ کر نہیں بلکہ عین انہی کے مطابق ہے۔
سب سےپہلے ضعیف حدیث کی تعریف ، اس پر عمل کی شرائط ، چند محدثین کرام کی کتب حدیث کا تذکرہ ہے )جن میں ضعیف احادیث ہیں اور مسلمانوں کی کثیر تعداد اس سے فائدہ حاصل کر رہی ہے(اور ضعیف حدیث کا ضعف کب ختم ہوتا ہے ؟
ہم یہ سب کچھ اس لیے عرض کر رہے ہیں کہ ایک عام سادہ مسلمان جو دین کی بنیادی بنیادی باتوں سے بھی بے خبر ہے اس بیچارے کو ضعیف حدیث کا معنیٰ کیا خاک آئے گا جبکہ آج کے اس فتنوں کے دور میں نام نہاد وہ لوگ بھی ضعیف حدیث کا معنیٰ اور اس کا شرعی حکم نہیں جانتے جو خود اپنی نسبت حدیث کے نام سے جوڑے ہوئے ہیں۔ بے شمار لوگ بلکہ اردو خواں لوگوں کا بہت بڑا طبقہ تو ضعیف حدیث کو اردو والا ”ضعیف“ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ محدثین کرام کی خاص اصطلاح ہے۔ اس لیے اس کی وضاحت آپ کے سامنے کی جاتی ہے۔
ضعیف حدیث کسے کہتے ہیں ؟
خیر الاصول فی حدیث الرسول میں کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ
ہو ما اتیٰ فی سندہ راو لا یحمل شرائط الصحیح والحسن
)خیر الاصول فی حدیث الرسول ص9(
ترجمہ: وہ حدیث ہے جس کے راوی میں حدیث صحیح وحسن کے شرائط نہ پائی جائیں۔
حدیث صحیح اور حدیث حسن کی شرائط کو مدنظر رکھتے ہوئے حدیث ضعیف کی تشریح یوں ہوگی کہ ضعیف حدیث وہ ہے :
1: جس کا راوی عادل نہ ہو یعنی اس پر جرح موجود ہو۔
2: جس کے راوی کا ضبط ناقص ہو مثلا ً احادیث میں خلط کردیتا ہے،حافظہ کمزور ہے۔ وغیرہ وغیرہ
3: سند میں انقطاع ہو یعنی سند کا راوی گرا ہوا ہو۔[خیرالقرون کا انقطاع حدیث
نبوی خیر الناس قرنی ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم
کی وجہ سے مقبول ہے]
4: اس حدیث میں کوئی پوشیدہ علت ہو جو عام لوگوں کی نظر سے اوجھل ہو،اسے صرف ماہر فن جانتا ہے۔
5: اس حدیث میں راوی اگرچہ ثقہ ہو لیکن ایک ایسی جماعت کی مخالفت کرتا ہو جو اس سے زیادہ ثقہ ہے۔
6: حدیث کا راوی ضعیف ہوکر جماعت ثقہ کی مخالفت کرتا ہو۔
7: حدیث میں ایسا اختلاف پایا جائے جس کی تطبیق ممکن نہ ہو۔

ان شقوں کو سمجھنے سے ضعیف حدیث کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔
ضعیف حدیث پر عمل کی شرائط:
حافظ شمس الدین سخاوی رحمہ اللہ نے القول البدیع (ص:159) میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے۔

1.

یہ کہ ضعف غیر شدید ہو، چنانچہ وہ حدیث جس کی روایت تنہا کسی ایسے شخص کے واسطے سے ہو جو کذاب یا مُتّہم بالکذب یا فاحش الغلط ہو، خارج ہوگی۔
)یعنی ضعف زیادہ نہ ہو ، اس شرط کا فائدہ یہ ہے کہ ایسی احادیث جس کو کسی ایسے شخص نے اکیلے روایت کیا جو جھوٹ بولتا ہو ، یا اس پر جھوٹ بولنے کی تہمت ہو یا وہ حدیث روایت کرنے میں بڑی بڑی غلطیاں کرتا ہو،وہ حدیثِ ضعیف قابل عمل نہیں ہوگی۔ (

2.

اس کا مضمون قواعد شرعیہ میں سے کسی قاعدہ کے تحت آتا ہو چنانچہ وہ مضمون خارج از عمل ہوگا جو محض اختراعی ہو، اصول شرعیہ میں سے کسی اصل سے میل نہ کھاتا ہو (ظاہر ہے اس کا فیصلہ جلیل القدر فقہاء اور محدثین کرام ہی کر سکتے ہیں ہر شخص کے بس کی بات نہیں)

3.

اس پر عمل کرتے وقت اس کے ثبوت کا عقیدہ نہ رکھا جائے)یعنی اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ سمجھا جائے( بلکہ صرف قواعد شرعیہ کے تحت داخل ہونے کی وجہ سے اس کے ثواب کی امید کی جائے،اور حدیث ضعیف کو محض تائید کے درجے میں مانا جائے مبادا آں حضرت کی جانب ایک بات جو واقع میں آپ نے نہ فرمائی ہو، اس کا آپ کی طرف منسوب کرنا لازم آجائے۔
علامہ عبد الحئ لکھنوی رحمہ اللہ نے اس میں ایک اور شرط کا اضافہ بھی فرمایا ہے اور وہ یہ کہ اس مسئلہ کے متعلق اس سے قوی دلیل معارض موجود نہ ہو۔ پس اگر کوئی قوی دلیل کسی عمل کی حرمت یا کراہت پر موجود ہو اور یہ ضعیف اس کے جواز یا استحباب کی متقاضی ہو تو قوی کے مقتضا پر عمل کیا جائے گا۔
نوٹ: امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح البخاری میں باب ما ذکر عن بنی اسرائیل رقم الحدیث 3461 کے تحت فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حدثوا عن بنی اسرائیل ولا حرج۔ بنی اسرائیل سے روایت کرو اس میں کوئی حرج نہیں۔ معلوم ہوا جب بنی اسرائیل سے روایت کر سکتے ہیں تو پھر ضعیف احادیث ذکر کرنا کیوں غلط ہوگا؟
فضائل اعمال میں ضعیف احادیث پر عمل :
جلیل القدر محدثین کرام کے ہاں کسی عمل کی فضیلت کو ثابت کرنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے، کسی نیک کام کی ترغیب اور برے کام سے روکنے کے لیے ، وعظ و نصیحت کے لیے ، واقعات کو بیان کرنے کے لیے ضعیف حدیث کومندرجہ بالا چند شرائط کے ساتھ قبول کیا جاتا ہے اور ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہوتا ہے۔ اختصار کے ساتھ چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں:
1: مجموع الفتاویٰ کا حوالہ ::

إذَا جَاءَ الْحَلَالُ وَالْحَرَامُ شَدَّدْنَا فِي الْأَسَانِيدِ؛ وَإِذَا جَاءَ التَّرْغِيبُ وَالتَّرْهِيبُ تَسَاهَلْنَا فِي الْأَسَانِيدِ؛ وَكَذَلِكَ مَا عَلَيْهِ الْعُلَمَاءُ مِنْ الْعَمَلِ بِالْحَدِيثِ الضَّعِيفِ فِي فَضَائِلِ الْأَعْمَالِ•

(مجموع الفتاوٰی لابن تیمیہ : ج18، ص65)
ترجمہ : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ [م241ھ] فرماتے ہیں: جب حلال و حرام کامعاملہ آن پڑے تو ہم احادیث کی اسانید کی چھان پھٹک میں سختی سے کام لیتے ہیں اور جب ترغیب و ترہیب کا باب ہو تو اسانید کی تحقیق میں تساہل برتتے ہیں اسی طرح ہمارا موقف ضعیف احادیث پر عمل کے بارے میں وہی ہے جو دیگر علماء کرام کا ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا درست ہے۔
2:المستدرک علی الصحیحین کا حوالہ :

إذا روينا عن النبي صلى الله عليه و سلم في الحلال و الحرام و الأحكام شددنا في الأسانيد و انتقدنا الرجال و إذا روينا في فضائل الأعمال و الثواب و العقاب و المباحات و الدعوات تساهلنا في الأسانيد •
(المستدرک للحاکم: ج1ص490)
ترجمہ : امام حاکم رحمہ اللہ امام عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں :جب ہم حلال و حرام ار احکام سے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث روایت کرتے ہیں تو اسانید میں شدت اختیار کرتے ہیں اور رجال کی تحقیق میں خوب تفتیش سے کام لیتے ہیں اور جب فضائل اعمال ، ثواب و عقاب ، مباحات اور دعاؤں کی احادیث بیان کرتے ہیں تو تساہل سے کام لیتے ہیں۔
3:الکفایۃ فی علم الروایۃ کا حوالہ :

قال ابو زکریا یحیٰ بن محمد العنبری : الخبر إذا ورد لم يحرم حلال ولم يحل حراما ولم يوجب حكما وكان في ترغيب أو ترهيب أو تشديد أو ترخيص وجب الاغماض عنه والتساهل في رواته•

(الکفایۃ فی علم الروایہ: ص213)
ترجمہ : امام حافظ ابو زکریا العنبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :اگر حدیث ترغیب، ترہیب میں شدت یا رخصت کے باب میں مروی ہو تو اس کے راویوں کی چھان پھٹک اور اسانید کے جرح و تعدیل میں چشم پوشی سے کام لے کر تساہل اختیار کیا جاتا ہے۔
4: کتاب الاذکا ر کا حوالہ:

قال الامام النووی رحمہ اللہ فی کتاب الاذکار : قال العلماء من المحدثين والفقهاء وغيرهم رحمہم اللہ : يجوز ويستحب العمل في الفضائل والترغيب والترهيب بالحديث الضعيف ما لم يكن موضوعا. وأما الأحكام كالحلال والحرام والبيع والنكاح والطلاق وغير ذلك فلا يعمل فيها إلا بالحديث الصحيح أو الحسن إلا أن يكون في احتياط في شئ من ذلك ، كما إذا ورد حديث ضعيف بكراهة بعض البيوع أو الأنكحة ، فإن المستحب أن يتنزه عنه ولكن لا يجب.

(کتاب الاذکار: ص8)
ترجمہ: امام نووی رحمہ اللہ [م676ھ] فرماتے ہیں:محدثین فقہاءنے کہا ہے کہ فضائل اور ترغیب و ترہیب میں ضعیف حدیث پر عمل جائز اور مستحب ہے بشرطیکہ وہ موضوع نہ ہو جہاں تک حلال و حرام ، بیع،نکاح اور طلاق وغیرہ جیسے احکام کا تعلق ہے تو ان میں حدیث صحیح اور حسن کے بغیر عمل نہیں کیا جائے گا ہاں مگر یہ کہ اس میں سے کسی معاملہ میں احتیاط مطلوب ہو جیسے بعض بیوع اور نکاحوں میں کراہت کے بارے میں کوئی ضعیف حدیث ہو تو مستحب یہ ہے کہ اس سے بچا جائے لیکن یہ واجب نہیں۔
5:المجموع للنووی کا حوالہ :

قال الامام النووی: وقد قدمنا اتفاق العلماء علی العمل بالحدیث الضعیف فی فضائل الاعمال دون الحلال والحرام۔

)المجموع للنووی ج 3 ص 218(
ترجمہ : امام نووی رحمہ اللہ)م676 ھ(فرماتے ہیں :ہم پہلے یہ بات بیان کر چکے ہیں کہ فضائل اعمال میں تو ضعیف حدیث پر عمل کرنے پر علماء کا اتفاق ہے۔ البتہ حلال و حرام کے معاملے میں نہیں۔
6:تبیین العجب کا حوالہ :

وقال الحافظ ابن حجر العسقلاني؛ اشتہر ان اھل العلم یتسامحون فی ایراد الاحادیث فی الفضائل وان کان فیھا ضعف مالم تکن موضوعۃ۔
) تبيین العجب بما ورد فی شھر رجب :ج 1 ص2(
ترجمہ : امام ابن حجر عسقلانی شافعی رحمہ اللہ )م 852 ھ(فرماتے ہیں :اہل علم )محدثین کرام (کے نزدیک مشہور یہی ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کیا جائے گا ، موضوع حدیث پر نہیں۔
7:فتح القدیر کا حوالہ :

قال الإمام إبن الهمام: الاستحباب يثبت بالضعيف غير الموضوع۔
) فتح القدیر ج 2 ص 133(
ترجمہ : امام ابن ھمام حنفی رحمہ اللہ)م 861 ھ(فرماتے ہیں :کسی عمل کا مستحب ہونا ضعیف حدیث سے ثابت ہوجاتا ہے موضوع حدیث سے نہیں۔
8:کشف القناع کا حوالہ :

قال الجلال الدین المحلی؛ انہ روی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم من طرق فی تاریخ ابن حبان وغیرہ وان کانت ضعیفۃ للعمل بالحدیث الضعیف فی الفضائل الاعمال۔

)کشف القناع ج 1 ص 103(
ترجمہ : امام جلال الدین محلی رحمہ اللہ )م 864 ھ([ایک حدیث کو ذکر کرنے کے بعد] فرماتے ہیں :یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تاریخ ابن حبان وغیرہ میں دوسری اسناد سے بھی مروی ہے اگرچہ حدیث ضعیف ہے لیکن فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کیا جاتا ہے۔
9:القول البدیع کا حوالہ :

وقال الحافظ السخاوي فیحصل ان فی الضعیف ثلاثۃ مذاہب۔۔۔۔ثالثھا ھو الذی علیہ الجمہور یعمل بہ فی فضائل الاعمال دون الاحکام کما تقدم بشروطہ۔

) القول البديع فی الصلاة على الحبيب الشفيع: ص256(
ترجمہ : امام حافظ شمس الدین محمد بن عبدالرحمٰن سخاوی شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ )م902 ھ( فرماتے ہیں : حاصل کلام یہ ہے کہ ضعیف حدیث کے بارے میں تین مذاہب ہیں ……تیسرا مذہب )جمہور محدثین جس کے قائل ہیں ، وہ یہ ہے کہ (فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پراس کی شرائط کے ساتھ عمل کیا جائے گا ، احکام میں نہیں۔
10:الفتح المبین کا حوالہ :

وقال الإمام إبن حجر الهيتمي:اتفق العلماء على جواز العمل بالحديث الضعيف في فضائل الأعمال۔

) الفتح المبین شرح الاربعین ص 32(
ترجمہ : امام ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ)م 974 ھ(فرماتے ہیں :علماء محدثین کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے۔
11:مرقاۃ المفاتیح کا پہلا حوالہ :

وقال العلامة علي القاري:وقد اتفق الحفاظ علی جواز العمل بالحدیث الضعیف فی فضائل الاعمال۔

) المرقاة: ج 2ص183(
ترجمہ : امام ملا علی قاری رحمہ اللہ )م 1014ھ( فرماتے ہیں :حفاظ محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے۔
12:مرقاۃ المفاتیح کادوسرا حوالہ :

وقال العلامة علي القاري: ومن المقرر ان الحدیث الضعیف یعمل بہ فی فضائل الاعمال۔

) المرقاة: ج 2ص94(
ترجمہ : امام ملا علی قاری رحمہ اللہ )م 1014 ھ(فرماتے ہیں :پکی بات ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کیا جائے گا۔
13:الفتوحات الربانیہ کا حوالہ :

وقال الإمام محمد إبن علان الصدیقی : ويبقى للعمل بالضعيف شرطان : أن يكون له أصل شاهد لذالك كاندراجه في عموم أو قاعدة كلية ، وأن لا يُعتقد عند العمل به ثبوته بل يُعتقد الاحتياط۔

)الفتوحات الربانيۃ: ج 1ص84(
ترجمہ : امام محمد ابن علان صدیقی رحمہ اللہ )م 1057 ھ(فرماتے ہیں :ضعیف حدیث پر عمل کرنے کی دو شرطیں ہیں : پہلی یہ کہ اس کی کوئی اصل موجود ہو اور وہ کسی قاعدہ کلیہ کے تحت بھی ہو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اس کے ثبوت کا نظریہ نہ رکھا جائے بلکہ احتیاط کا پہلو ذہن میں رکھا جائے۔
14:الاجوبۃ الفاضلۃ کا حوالہ :

قال عبدالحیی اللکنوی رحمہ اللہ؛ فان الحدیث الضعیف معتبر فی فضائل الاعمال عند جمیع العلماء من ارباب الکمال۔

)الاجوبۃ الفاضلۃ ص 37(
ترجمہ : علامہ عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ)م 1204ھ(فرماتے ہیں :ارباب علم و دانش اور اصحاب فضل و کمال تمام علماء محدثین فضائل اعمال میں ضعیف حدیث کا اعتبار کرتے ہیں یعنی اس کو معتبر مانتے ہیں۔
15:حواشی الشروانی کا حوالہ :

ان الحدیث الضعیف یعمل بہ فی فضائل الاعمال۔

)حواشی الشروانی ج 1 ص 52(
ترجمہ : شیخ عبدالحمید المکی الشروانی رحمہ اللہ)م 1301 ھ(فرماتے ہیں :فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کیا جائے گا۔
16:انموذج العلوم کا حوالہ :
محقق جلال الدین دوانی رحمہ اللہ ”انموذج العلوم “میں رقم طراز ہیں :

اتفقوا علی ان الحدیث الضعیف لا تثبت بہ الاحکام الشرعیہ ثم ذکروا انہ یجوز بل یستحب العمل بالاحادیث الضعیفۃ فی فضائل الاعمال۔
)بحوالہ قواعد التحدیث من فنون مصطلح الحدیث ص 75 (
ترجمہ: محدثین کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ ضعیف حدیث سے احکام شرعیہ ثابت نہیں ہوتے پھر محدثین ایک قاعدہ بیان کرتے ہیں کہ فضائل اعمال میں احادیث ضعیفہ پر عمل کرنا جائز بلکہ مستحب ہے .
17:محاضرہ کا حوالہ :

وقال الشيخ صالح بن عبدالعزيز آل الشيخ أما في فضائل الأعمال فيجوز أن يستشهد بالحديث الضعيف في فضائل الأعمال۔

)محاضرة بعنوان وصايا عامۃ (
ترجمہ : شیخ صالح بن عبدالعزیز آل شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :فضائل اعمال میں ضعیف حدیث سے استدلال کرنا جائز ہے۔
18:تیسیر مصطلح الحدیث کا حوالہ :

وقال الشيخ محمود الطحان يجوز عند أهل الحديث وغيرهم رواية الأحاديث الضعيفة والتساهل في أسانيدها من غير بيان ضعفها۔
)تيسير مصطلح الحديث:ج 1 ص33(
ترجمہ : محمود طحان فرماتے ہیں : ضعیف احادیث کو روایت کرنا اور ان کی اسناد میں نرمی والا پہلو اختیار کرنا یعنی ضعف کو بیان نہ کرنا محدثین کرام کے ہاں جائز ہے۔
امام نووی رحمہ الله نے محدثین اور فقہاء کےاس اتفاق کونقل کیا ہے کہ وہ فضائل اعمال اور ترغیب و ترہیب میں ضعیف حدیث کو قبول کیا جاتا ہے۔ یہی نظریہ دیگر کبار محدثین کرام کا بھی ہے چند محدثین کے نام ذیل میں درج ہیں۔
امام طيبی،امام سراج الدين البلقينی، امام ابن جماعۃ ،حافظ زين الدين ابو الفضل العراقی اورامام ابن دقيق العيد رحمہم اللہ بلکہ آج کے دور کے سلفی علماء کی کتب سے ان کا نظریہ بھی یہی ملتا ہے کہ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ فضائل اعمال اور ترغیب و ترہیب میں ضعیف حدیث کو قبول کیا جاتا ہے اور اس پرچند شرائط کے ساتھ عمل کیا جاتا ہے: مثلاً شيخ بن باز ،شيخ صالح الفوزان ،شيخ صالح آل الشيخ ،شيخ علی حسن الحلبی اورشیخ صالح اللحيدان وغیرہ۔
چند محدثین اور ان کی کتب کا تذکرہ:
قارئین کرام !چونکہ صفحات کا دامن تنگ ہے اس لیے ہم تفصیل کی بجائے اختصار کے ساتھ ذیل میں ہم چند جلیل القدر محدثین کرام رحمہم اللہ کی ایسی کتب کا تذکرہ کرتے ہیں، جن میں ضعیف احادیث اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔
کتاب کا نام
مصنف کا نام
ضعیف احادیث کی تعداد
کتاب السنۃ
حافظ ابو بکر الضحاک متوفیٰ287ھ
298
کتاب السنۃ
امام احمد بن محمد حنبل متوفیٰ 290 ھ
303
صحیح ابن خزیمہ
امام ابن خزیمہ متوفی ٰ 311ھ
352
صحیح ابن حبان
امام ابو حاتم محمد بن حبان م354ھ
294
کتاب الشریعہ
امام ابی بکر الآجری متوفی 360 ھ
657
المستدرک
امام حاکم متوفیٰ405ھ
907
الاسماء والصفات
حافظ ابی بکر البیہقی متوفیٰ 458ھ
329
الاحادیث المختارہ
ضیاء الدین المقدسی م 643ھ
606
خلاصۃ الاحکام
امام نووی متوفی ٰ 676ھ
654
کتاب المنتقیٰ
امام ابن تیمیہ متوفیٰ728ھ
262
بلوغ المرام
حافظ ابن حجر عسقلانی م852ھ
117
اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہم نے چند محدثین کرام اور ان کی کتابوں کے نام ذکر کیے ہیں ورنہ اہل علم اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ سینکڑوں نامور محدثین کا یہی طریقہ رہا ہے کہ وہ اپنی کتابوں میں وعظ ونصیحت ، ترغیب و ترہیب اور فضائل اعمال میں ضعیف احادیث ذکر فرماتے ہیں۔ بلکہ امیر المومنین فی الحدیث امام محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ نے بھی صحیح بخاری کے علاوہ اپنی دیگر کتب میں ضعیف احادیث لائے ہیں۔ مثلاً جز رفع الیدین ، جزء القراۃ ، الادب المفرد ، تاریخ کبیر اور خلق افعال العباد وغیرہ۔
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ فضائل اعمال میں ایک مقام پر ذکر فرماتے ہیں :اس امر پر تنبیہہ بھی ضروری ہے کہ حضرات محدثین رضی اللہ عنہم اجمعین کے نزدیک فضائل کی روایات میں توسع ہے اور معمولی ضعف قابل تسامح۔ باقی صوفیاء کرام رحمہم اللہ کے واقعات تو تاریخی حیثیت رکھتے ہی ہیں اور ظاہر ہے کہ تاریخ کا درجہ حدیث کے درجہ سے کہیں کم ہے۔
)فضائل اعمال ص 384/ فضائل نماز ص 96(
ایک اورمقام پر فرماتے ہیں : البتہ بعض روایات پر ضعیف کا حکم لگایا گیا ہے مگر اول تو فضائل اعمال میں ایسی روایات کو جائز قرار دیا ہے۔
)کتب فضائل پر اشکالات اور ان کے جوابات مکتوب نمبر 32 کا جواب(
اس بحث میں شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کے فتویٰ کا اقتباس نقل کرتے ہیں۔ فتاویٰ عثمانی میں ہے :
سالتم عن رائی الحنفیۃ فی قبول الاحادیث الضعیفۃ فی فضائل الاعمال وما ذکر الامام اللکنوی رحمہ اللہ تعالیٰ من ثلاثہ شروط لقبول الحدیث الضعیف ، فھوالمختار عند جمع کبیر من الحنفیۃ ومن اھم ھذہ الشروط ان الحدیث الضعیف لا یثبت بہ حکم جدید ،حتی الاستحباب علیٰ سبیل الحتم وانما معنیٰ قبولہ ان یتاکد بہ حکم ثبت سابقا بنص صحیح او حسن او ان یعمل بہ علیٰ سبیل الاحتیاط و الاحتمال دون الحتم بالقول بسنیتہ او استحبابہ وھناک جمع من العلماء الحنفیۃ یقبلون الحدیث الضعیف حتی لاثبات حکم جدید فی الفضائل۔ وان مشائخی الذین شرفنی اللہ بالتلمذ علیہم کانوا یختارون الرائی الاول فمثلاً حدیث صوم السابع و العشرین من رجب لم یثبت فی حدیث صحیح ولذالک انکر الشیخ اشرف علی التھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ سنیۃ ھذا الصوم او استحبابہ ولکن اجاز ان یصوم احد علیٰ سیبل احتمال الاستحباب۔
اما اذا تاید الحدیث الضعیف بتعامل العلماء فانہ یمکن عند الحنفیۃ ان یثبت لہ حکم جدید۔
)فتاویٰ عثمانی ج 1 ص 230 فتویٰ نمبر 64/347(
ترجمہ: آپ نے ضعیف احادیث کو فضائل اعمال میں قبول کرنے کےمتعلق احناف کی رائے پوچھی ہے ،سو عرض ہے کہ علامہ عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ نے ضعیف حدیث کو قبول کرنے کی بارے میں جو تین شرائط ذکر کی ہیں یہی احناف کے بڑے بڑے ائمہ کے نزدیک مختا رمذہب ہے۔ منجملہ ان شرائظ میں سے اہم شرط یہ ہے ضعیف حدیث سے کوئی نیا حکم ثابت نہیں ہوتا حتیٰ کہ یقینی طور پر استحباب بھی ثابت نہیں ہوتا۔ لہٰذا ضعیف حدیث کو قبول کرنے کا مطلب محض یہ ہوتا ہے کہ جو حکم پہلے سے صحیح یا حسن دلیل ثابت ہے ضعیف حدیث کا وہ حکم مزید پختہ ہوجاتا ہے یا اس کا مطلب یہ ہے کہ درجہ احتیاط اور احتمال میں ہم اس پر عمل کرتے ہیں۔ حتمی طور پر اس کی سنیت یا استحباب کا اعتقاد نہیں رکھتے۔ حنفی علماء کی ایک بڑی جماعت ایسی ہے جو ضعیف حدیث کو قبول کرتے ہیں حتی کہ فضائل میں نئے حکم کو ثابت بھی کرنے کےلیے بھی قبول کرتے ہیں لیکن جن اکابر کا شرف تلمذ اس بندہ کو حاصل ہے انہوں پہلی رائے کو اختیار کیا ہے۔ مثال کے طور پر ستائیس رجب کا روزہ کسی صحیح حدیث میں ثابت نہیں اسی وجہ سے شیخ مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ اس روزے کی سنت یا مستحب ہونے کا انکار کرتے ہیں لیکن استحباب کے احتمال کی وجہ سے اسے جائز قرار دیتے ہیں۔
ہاں اگر حدیث ضعیف علماء امت کے تعامل کے ساتھ مل جائے تو ممکن ہے حنفیہ کے ہاں اس سے حکم جدید ثابت ہوجائے۔ جیسے 15 شعبان کے دن صلوٰۃ التسبیح کی فضیلت سے متعلق احادیث اور اس کی مثالیں اس کے علاوہ اور بہت ہی ہیں۔
ضعیف حدیث اور مویدات :
محدثین،ائمہ جرح و تعدیل اورماہرین اصول حدیث کا ایک ضابطہ ہے کہ کسی ضعیف حدیث میں جو مضمون بیان کیا گیا ہے اگر دیگر روایات میں بھی آجائے تو اس سے اس کے مضمون کی تائید ہوجاتی ہے اور اس میں قوت پیدا ہو جاتی ہے۔
1: علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ)م861ھ( لکھتے ہیں:
فَهَذِهِ عِدَّةُ أَحَادِيثَ لَوْ كَانَتْ ضَعِيفَةً حُسِّنَ الْمَتْنُ فَكَيْفَ وَمِنْهَا مَا لَا يَنْزِلُ عَنْ الْحَسَن۔
(فتح القدیر: ج 1ص 172)
ترجمہ: یہ چند احادیث ہیں، اگر ضعیف بھی ہوں تب بھی اس کا متن حسن درجے کا ہے اور یہ کیوں نہ ہو کہ اس میں بعض وہ روایات بھی ہیں جو درجہ حسن کے کم درجہ کی نہیں ہیں۔
2: حافظ عبدالوہاب شعرانی رحمہ اللہ )م973ھ(فرماتےہیں:
وقد احتج جمہورالمحدثین بالحدیث الضعیف اذاکثرت طرقہ والحقوہ بالصحیح تارۃً والحسنِ اخریٰ۔
(المیزان الکبریٰ :ج1 ص68 )
ترجمہ: جمہور محدثین نے ضعیف حدیث سے استدلال کیا ہے جب اس کئی طرق ہوں اور کبھی اس کو صحیح اور کبھی حسن کے ساتھ ملایا ہے۔
3: علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ)م774ھ( فرماتے ہیں:
قال الشيخ أبو عمر: لا يلزم من ورود الحديث من طرق متعددة أن يكون حسناً، لأن الضعف يتفاوت، فمنه ما لا يزول بالمتابعات، يعني لا يؤثر كونه تابعاً أو متبوعاً، كرواية الكذابين والمتروكين، ومنه ضعف يزول بالمتابعة، كما إذا كان راويه سيء الحفظ، أو روي الحديث مرسلاً فان المتابعۃ تنفع حینئِذ و یرفع الحدیث عن حضيض الضعف إلى أوج الحسن أو الصحة.
(اختصار فی علوم الحدیث: ص5)
ترجمہ: شیخ ابو عمرو فرماتے ہیں: حدیث متعدد طرق سے مروی ہو تو وہ ہمیشہ حسن نہیں ہوتی کیونکہ ضعف میں فرق ہوتا ہے۔ بعض ضعد ایسے ہوتے ہیں جو متابعات سے زائل نہیں ہوتے یعنی اس کا تابع یا متبوع بننا نافع نہیں ہوتا جیسے کذابین اور متروکین کی روایات، اور بعض ضعف ایسے ہوتے ہیں جو متابعات سے زائل ہو جاتے ہیں جیسے روایت کے راوی کا حافظہ کے اعتبار سےکمزور ہونا یا حدیث کو مرسل نقل کرنا، تو اس وقت متابعت نفع دے گی اور حدیث درجہ ضعف سے حسن درجہ تک پہنچ جائے گی۔
ساری بحث سے معلوم ہوا کہ ضعیف حدیث کو ترغیب و ترہیب کے وقت اورفضائل اعمال میں ذکر کر سکتے ہیں۔ بالخصوص جب اس مضمون کی دیگر روایات میں تائید بھی موجود ہو۔ یہی بات ہم نے شروع میں کہی تھی کہ چونکہ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ علم حدیث اور اصول حدیث سے بخوبی واقف تھے تو انہوں نے بھی اپنی کتاب میں اس کو ذکر کیا ہے۔
قارئین کرام !ضعیف حدیث کے متعلق بنیادی بنیادی باتیں آپ نے ملاحظہ فرما لیں ہیں ان شاء اللہ آئندہ چند صفحات میں ہم ان شاء اللہ اولیاء کرام کے واقعات کی شرعی حیثیت پر روشنی ڈالیں گے۔
)جاری ہے(