مؤمل بن اسماعیل جرح و تعدیل کے آئینہ میں

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
مؤمل بن اسماعیل
جرح و تعدیل کے آئینہ میں
……مفتی محمدیوسف
منکرین فقہ جب نماز ادا کرتے ہیں تو اپنے ہاتھ سینے پر باندھتے ہیں جبکہ مسنون طریقہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کا ہے۔ منکرین فقہ نام نہاد اہل حدیث حضرات کے اس عمل کو ثابت کرنے کی سب سے وزنی اور مضبوط دلیل صحیح ابن خزیمہ کی ایک روایت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسی مذکورہ روایت میں ایک راوی مومل بن اسماعیل ہے جس کے بارے میں ائمہ جرح و تعدیل اور محدثین کرام کا نظریہ یہ ہے کہ وہ ضعیف ہے۔ اسی بارے میں آئندہ سطور ایک تحقیقی بحث آپ کے سامنے پیش کی جار ہی ہے۔
راویوں پر جرح وتعدیل اور احادیث کی تصحیح وتضعیف کا تعلق خالص اجتہادی رائے کے ساتھ ہے۔مطلب یہ ہے کہ کسی راوی کو ثقہ وقابل اعتماد قرار دینا یا کسی کو مجروح وغیرمعتبر ٹھہرانا نہ تو قرآن کریم میں ہے نہ ہی احادیث مبارکہ میں۔اسی طرح ذخیرہ احادیث میں سے کسی کو صحیح،کسی کو ضعیف،کسی کو حسن، اور کسی کو منکر قرار دینے کا فیصلہ بھی قرآن وحدیث میں قطعاً نہیں ہے۔ایسےامور کا تعلق مجتہدین کے اجتہاد اور ان کے غور وفکر کے ساتھ ہے۔اس پر دو شہادتیں ملاحظہ فرمائیں۔
1: علامہ ابوالولید الباجی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
احوال المحدثین فی الجرح والتعدیل مما یدرک بالاجتہاد ویعلم بضرب من النظر.
) التعدیل والتجریح ج 1ص 280باب معرفۃ الجرح والتعدیل (
جرح وتعدیل کے باب میں محدثین کے احوال اجتہاد اور غوروفکر کے ذریعے معلوم کیے جاتے ہیں۔
2: علامہ ابن عبدالقادر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
ان عبارات الجرح والتعدیل اجتہادیۃ۔
)امداد المنعم شرح الصحیح المسلم ج1ص2067 (
جرح وتعدیل کے اقوال اجتہادی ہیں۔
اب وہ لوگ جو اجتہاد کو نیا دین قرار دیتے ہیں ان کے لیے یہ مقام فکر ہے کہ ایسے مواقع پر جہاں راویوں کی جرح و تعدیل کا معاملہ پیش آجائے تو ان کے پاس نہ تو قرآن کریم کی کوئی آیت موجود ہوتی ہے کہ فلاں راوی ثقہ ہے یا ضعیف اور نہ ذخیرہ احادیث میں سے کوئی حدیث مبارک ان کا ساتھ دیتی ہے کہ فلاں روایت میں فلاں راوی ثقہ ہے یا ضعیف۔
اب آگے دو راستے ہیں کہ ہر طرح کی روایت کو صحیح مان لیں خواہ وہ ضعیف ہو خواہ منکر ہو ، معلل ہو ، شاذ وغیرہ ہو یا پھر ہر طرح کی روایت کا انکار کردیں بھلے وہ صحیح ہی کیوں نہ ہو۔ جب تک ”امتی کی بات“ کو نہیں مانیں گے اس وقت تک ان کی یہ پریشانی ختم نہیں ہو سکتی۔ یعنی اجتہاد کو ماننا ان کی مجبوری ہے۔ اہل حدیث کے دو اصول؛ فرمان خدا فرمان رسول والا نعرہ کھوکھلا ہو جاتا ہے۔
خیر !اس وقت ہمارے پیش نظر صحیح ابن خزیمہ کی ایک روایت ہے:
عن وائل بن حجر رضی اللہ عنہ قال: صلیت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و وضع یدہ الیمنٰی علیٰ یدہ الیسریٰ علیٰ صدرہ۔“
) صحیح ابن خزیمہ ج1ص272(
ترجمہ: حضرت وائل حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر اپنے سینے کے اوپر رکھا۔
نام نہاد اہل حدیثوں کے نزدیک ”نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے“ سے متعلق یہی روایت سب سے زیادہ صحیح اور معتبر ہے۔ اسی روایت کو انہوں نے صحیح مرفوع متصل غیر معلل اور غیر شاذ قرار دیا ہے۔
چنانچہ فرقہ غیر مقلدین کے اپنے مستند”فتاویٰ علمائے حدیث“ میں واضح الفاظ میں مرقوم ہے:” علمائے اہلحدیث نماز میں سینہ پر ہاتھ رکھنے کے ثبوت میں تین حدیثیں پیش کرتے ہیں۔ پہلی حدیث ان کے نزدیک صحیح مرفوع متصل غیر معلل اور غیر شاذ ہے جو صحیح ابن خزیمہ میں بلفظفوضع یدہ الیمنیٰ علیٰ یدہ الیسریٰ علیٰ صدرہمروی ہے۔“
)فتاویٰ علمائے حدیث ج 3 ص 91(
معلوم ہوا کہ مذکورہ حدیث ان کے نزدیک سب سے مضبوط ترین دلیل ہے مگر افسوس کہ ان کی یہ مضبوط ترین دلیل حقیقت میں نہایت کمزور ترین ہے۔ اس کی سند میں ایک راوی”مؤمل بن اسماعیل“ہے جسےمحدثین نے سخت ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔ مگرنام نہاد اہل حدیثوں نے ائمہ جرح و تعدیل اور محدثین کرام کی اس تحقیق پر عدم اعتماد کا اعلان کرتے ہوئے اور خلافِ اصول طریقے سے مؤمل بن اسماعیل کی ثقہ وصدوق، قابل اعتماد ومعتبر ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ راوی مؤمل بن اسماعیل کو زبردستی ثقہ ثابت کرنے والوں میں زبیر علی زئی کا بڑا کارنامہ ہے۔ موصوف نے اپنے ایک رسالہ ” نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام“ میں باقاعدہ ایک عنوان قائم کر کے مؤمل بن اسماعیل کو ثقہ ثابت کرنے کی زحمت گوارا فرمائی ہے۔ اس سے انہیں مؤمل کی ذات سے کوئی ہمدردی نہیں بلکہ دراصل اپنے مخصوص نظریہ” سینے پر ہاتھ باندھنا“ کو سہارا دینا مقصود ومطلوب ہے۔
ذیل میں ہم مؤمل کےبارے محدثین کرام کی آراء پیش کرتے ہیں۔ مگر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ صرف مؤمل کی بات نہ کی جائے بلکہ اس کے ساتھ مؤمل کے شیخ محدث سفیان ثوری رحمہ اللہ اور شیخ الشیخ عاصم بن کلیب رحمہ اللہ کا ذکر خیر بھی کر دیا جائے۔ تاکہ یہ حقیقت عیاں ہوجائے کہ خودنام نہاد اہل حدیث حضرات کی نظر میں مؤمل اور ان کے شیوخ کی کیا وقعت اور حیثیت ہے۔؟
مؤمل بن اسماعیل محدثین کی نظر میں:
1: امام ذہبی رحمہ اللہ اپنی کتاب میزان الاعتدال میں امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے مومل بن اسماعیل کے بارے میں فرمایا یہ” منکر الحدیث “ہے۔
) میزان الاعتدال ج4ص417(
2: امام ذہبی رحمہ اللہ اپنی دوسری کتاب المغنی فی الضعفاء میں امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے مومل بن اسماعیل کے بارے میں فرمایا یہ” منکر الحدیث “ہے۔
) المغنی فی الضعفاء ج2ص446(
3: امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اپنی کتاب تہذیب التہذیب میں امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے مومل بن اسماعیل کے بارے میں فرمایا یہ” منکر الحدیث “ہے۔
)تہذیب التہذیب ج6ص489(
4: امام مزی رحمہ اللہ اپنی کتاب تہذیب الکمال میں امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے مومل بن اسماعیل کے بارے میں فرمایا یہ” منکر الحدیث “ہے۔
) تہذیب الکمال ج10ص211(
امام بخاری کا ضابطہ :
ابن قطان رحمہ اللہ نقل فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں: کل من قلت فیہ منکر الحدیث فلا تحل الروایۃ عنہ یعنی جس راوی کو میں ”منکر الحدیث“ قرار دے دوں اس سے روایت لینا حلال (جائز) نہیں۔
)میزان الاعتدال ج 1 ص 50(
معلوم ہوا کہ خود امام بخاری کے نزدیک بھی مؤمل بن اسماعیل سے روایت لینا جائز نہیں۔ بات بات پر بخاری کا نام لینے والوں کو امام بخاری رحمہ اللہ کا مذکورہ ضابطہ دعوتِ فکر دے رہا ہے۔
5: علامہ شمس الدین الذھبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”حافظ عالم یخطی“ کہ یہ مؤمل حافظ وعالم تو تھا مگر غلطی کرتا تھا۔
) میزان الاعتدال ج4ص417(
ملحوظہ: علامہ شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ نےمومل بن اسماعیل کے بارے میں اپنا نظریہ نقل کرنے کے بعد اسی سے ایک منکر روایت بھی ذکر کی ہے جس سے ثابت ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا مؤمل بن اسماعیل کو ”منکر الحدیث“ قرار دینا بالکل بجا ہے۔
6: اما ابو زرعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”فی حدیثہ خطا کثیر“
)میزان الاعتدال ج4ص417(
نوٹ: یہ اما م ابو زرعہ وہی ہیں جنہیں نام نہاد اہل حدیثوں کے محقق زبیر علی زئی نے اپنی کتاب ”نور العینین“کے ص 144 پرجرح وتعدیل کے معاملے میں ”انتہائی معتدل “ قرار دیا ہے۔
7: امام یعقوب بن سفیان رحمہ اللہ مؤمل بن اسماعیل کی توصیف بیان کرنے کے بعد بطور تنبیہہ فرماتے ہیں:
وقدیجب علیٰ اھل العلم ان یقفوا عن حدیثہ فانہ یروی المناکیر عن ثقات شیوخہ وھذا اشد فلو کانت ھذہ المناکیر عن الضعفاء لکنا نجعل لہ عذراً۔ ) تہذیب التہذیب ج6ص490(
ترجمہ : اہل علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ مؤمل کی حدیث لینے سے رک جائیں۔ کیونکہ مؤمل ثقہ اساتذہ ومشائخ سے منکر روایات نقل کرتا ہے اور یہ (یعنی ثقہ مشائخ سے منکر روایات نقل کرنا) سخت قسم کا عیب ہے۔ ہاں اگر یہ مؤمل ضعیف وکمزور مشائخ سے منکر روایات بیان کرتا ہے تب ہم اسے کسی نہ کسی عذر پر محمول کر لیتے۔
8: علامہ محمد بن نصر المروزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
المؤمل اذا انفرد بحدیث وجب ان یتوقف ویثبت فیہ لا نہ کان سیئی الحفظ کثیر الغلط۔
)تہذیب التہذیب ج6ص490(
ترجمہ: مؤمل جب کسی حدیث میں اکیلا ہو تو اس روایت میں توقف کرنا ضروری ہے کیونکہ اس کا حافظہ خراب تھا اوریہ بہت زیادہ غلطیاں کیا کرتا تھا۔
9: علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وکذٰلک مؤمل بن اسماعیل فی حدیثہ عن الثور ی ضعف۔
) فتح الباری ج9ص297(
ترجمہ : مؤمل کی جو روایت سفیان ثوری رحمہ اللہ کے واسطے سے ہوگی وہ ضعیف ہوگی۔
نوٹ : واضح رہے کہ زیرِ بحث روایت بھی مؤ مل نے اپنے شیخ سفیان ثوری رحمہ اللہ کے واسطے سے بیان کی ہے۔
مؤمل بن اسماعیل خود غیر مقلدین کی نظر میں:
1: غیر مقلدین کےمحقق جناب ناصر الدین البانی لکھتے ہیں:
اسنادہ ضعیف، لان مؤ ملا وھو ابن اسماعیل سئیی الحفظ۔
)صحیح ابن خزیمہ ج1ص272، حاشیہ 479(
ترجمہ : اس حدیث کی سند ضعیف ہے کیوں کہ مؤمل بن اسماعیل کا حافظہ خراب تھا۔
نوٹ : یاد رہے کہ یہ وہی البانی صا حب ہیں جنہیں نام نہاد اہل حدیث عالم زبیر علی زئی نے ”مشہور محدث اور شیخ“کے لقب سے یاد کیا ہے اور ان کی تحقیق کو بطورِ حجت پیش کیا ہے۔
) نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام ص41(
2: غیر مقلدین کے عالم عبدالرحمٰن مبارکپوری لکھتے ہیں : جس روایت کے اندر مؤمل ہو وہ ضعیف ہوتی ہے۔
)ابکارالمنن ص109بحوالہ معیار رد و قبول مولانا غازی پوری (
3: غیرمقلد عالم ابوعبدالسلام عبد الرؤف بن عبد الحنان لکھتے ہیں:یہ سند ضعیف ہے کیونکہ مؤمل بن اسماعیل سیئ الحفظ ہے جیسا کہ ابن حجر نےتقریب (2/290) میں کہا ہے۔ ابو زرعہ نے کہا ہے کہ یہ بہت غلطیاں کرتا ہے۔ امام بخاری نے اسےمنکر الحدیث کہا ہے، ذہبی نے کہا ہے یہ حافظ عالم ہے مگر غلطیاں کرتا ہے۔
)القبول المقبول فی شرح وتعلیق صلوٰۃ الرسول ص 340(
محدث سفیان ثوری رحمہ اللہ علی زئی کی نظر میں:
زبیر علی زئی کا اپنا تاثر سفیان ثوری رحمہ اللہ کے بارے میں یہ ہے : سفیان ثوری رحمہ اللہ ( جو کہ ضعفاء ومجاھیل سے تدلیس کرتے تھے) کی یہ معنعن(عن والی) روایت ضعیف ہے… جناب سفیان ثوری رحمہ اللہ غضب کے مدلس تھے۔
)نور العینین ص127(
زبیر علی زئی دوسرے مقام پر تحریر کرتے ہیں: واضح رہے کہ ثقہ مدلس کی روایت بخاری ومسلم کے علاوہ”عن“کے ساتھ ہو تو ضعیف ہوتی ہے۔
)تسہیل الوصول الیٰ تخریج وتعلیق صلوٰۃ الرسول ص 210(
عاصم بن کلیب غیر مقلدین کی نظر میں:
تیسرے راوی عاصم بن کلیب رحمہ اللہ کے بارے میں بھی غیرمقلدین تردد واختلاف کا شکار ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے۔
معروف غیر مقلد عالم عبدالرحمٰن خلیق اپنی کتاب میں ایک حدیث پر جرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس سند میں ایک راوی عاصم بن کلیب ہے ، باتفاق کبار محدثین سخت درجہ کا ضعیف ہے۔
) بارہ مسائل ص 38،39(
جبکہ زبیر علی زئی زیرِبحث حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں: اس سند میں عاصم بن کلیب اور ان کے والد دونوں جمہور محدثین کےنزدیک ثقہ وصدوق ہیں۔
) نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم ومقام ص38(
پریشانی کا حل :
روای عاصم بن کلیب کے بارے میں آپ نے دونوں اقوال ملاحظہ فرما لیے۔ ایک محقق صاحب فرماتے ہیں : عاصم بن کلیب باتفاق کبار محدثین ( واضح رہے کہ صغار محدثین نہیں فرمایا۔ از راقم) سخت درجے کا (معمولی اور درمیانے درجے کا بھی نہیں فرمایا۔ از راقم) ضعیف ہے۔ جب کہ دوسرے کی تحقیق بالکل اس کے برعکس ہے۔ اب یقینی بات ہے کہ یہ صورت حال غیر مقلدین کے لیے انتہائی تشویش ناک اور پریشان کن ہے کہ وہ بے چارے بیک وقت دو متضاد تحقیقوں پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟ کسی ایک کی تحقیق کو غلط کہہ کر رد بھی نہیں کیا جا سکتا کہ دونوں اپنے مسلک کے نامور ومعتبر محقق ہیں۔ اب کریں تو کیا کریں ؟ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے ؟
ایک شبہ کا ازالہ:
راوی مؤمل بن اسماعیل کے ثقہ ہونے پر یہ دلیل دینا بے سود ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ا لتاریخ الکبیر میں اس کا ذکر کیا ہے مگر جرح نہیں کی۔ یا فلاں محدث نے اپنی کتاب میں اس کا ذکر نہیں کیا۔ کیونکہ غیر مقلدین کے پیشوا جناب زبیر علی زئی نے خودیہ اصول لکھا ہے :یہ بات عام طلباء کو بھی معلوم ہے کہ عدم ذکر سے نفی ذکر لازم نہیں آتا….… یعنی کسی چیز کے عدم ذکر سے اس کا عدمِ وقوع لازم نہیں آتا۔
)نور العینین ص 129(
جب آپ نے خود فرما دیا کہ کسی چیز کا تذکرہ نہ کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ چیز ہی سرے سے وجود نہیں۔ تو بات بالکل واضح ہو گئی کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے مؤمل پر جرح نہ کرنے (بقول آپ کے ) اورضعیف نہ کہنے سے بھی یہ لازم نہیں آئے گا کہ وہ سِرے سے مجروح اور ضعیف بھی نہیں۔ لہٰذا آپ یوں تو کہہ سکتے ہیں کہ اس پر امام بخاری رحمہ اللہ نے جرح نہیں کی ، یوں نہیں کہہ سکتے کہ امام بخاری کاجرح نہ کرنا اس کے ثقہ وصدوق ہونے کی دلیل ہے۔
فیصلہ آپ کریں :
1: فتاویٰ علمائے حدیث ج3ص91 پر لکھا ہے:”حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ (حضرت مولانا عبد الرحمٰن مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ) کے نزدیک بظاہر صحیح ابن خزیمہ کی یہ حدیث حسبِ ذیل سند سے مروی ہے۔
” عن عفان عن ھمام عن محمد بن حجادۃ عن عبد الجبار بن وائل عن علقمۃ بن وائل ومولیٰ لھم عن ابیہ انتہی“
اور اسی سند سے مسلم شریف میں یہ متن بغیر زیادت علی الصدر کے بایں الفاظ مروی ہے
ثم وضع یدہ الیمنیٰ علی الیسریٰ۔“

شیخ صاحب نےصحیح ابن خزیمہ والی روایت کو جو سند بتائی ہے وہ ہمیں تلاش بسیار کے باوجود نہیں ملی۔ البتہ صحیح ابن خزیمہ میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی حدیث کی سند یوں درج ہے۔

”اخبرنا ابو طاہر، نا ابوبکر، نا ابو موسیٰ، نامؤمل ، نا سفیان، عن عاصم بن کلیب ، عن ابیہ عن وائل بن حجر قال۔“
) صحیح ابن خزیمہ ج1ص272(
2: ابو الحسنات علی محمد سعیدی فتاویٰ علمائے حدیث ص 95 کے حاشیہ میں تحریر کرتے ہیں:”حضرت شیخ الشیوخ حضرت عمر بن محمد شہاب الدین سہروردی رحمہ اللہ نے بھی امیر المؤمنین حضرت علی ر ضی اللہ عنہ سے اس آیت کی تفسیر میں نقل فرمایا ہے ”فصل لربک وانحر“دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر سینے پر رکھ۔“

سعیدی صاحب نے لکھنے کو تو یہ بات لکھ دی ہے مگر حقیقت نہیں خلاف حقیقت اور بالکل غلط لکھی کیونکہ عوارف المعارف میں”علی الصدر“ نہیں بلکہ”تحت الصدر“کے الفاظ لکھے ہیں اور ایک ابتدائی طالب علم بھی جانتا ہے کہ ”تحت الصدر“ کا معنی سینے کے نیچے ہوتا ہے نہ کہ سینے پر۔
)دیکھیے عوارف المعارف عربی نسخہ ص 309، اردو مترجم ص 463(
3: مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امر تسری ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:” سینے پر ہاتھ باندھنے اور رفع یدین کرنے کی روایات بخاری و مسلم اور ان کی شروح میں بکثرت ہیں۔ “
) فتاویٰ ثنائیہ ج1ص441(

جبکہ ہماری تحقیق یہ ہے کہ سینے پر ہاتھ باندھنے کی کوئی ایک روایت بھی بخاری ومسلم تو درکنار پوری صحاح ستہ میں نہیں ہے۔ مگر مولانا امرتسری کے اس نئے انکشاف نے ہمیں حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اس لیے ہماری منکرینِ فقہ نام نہاد اہل حدیثوں سے گزارش ہے کہ وہ”بکثرت روایات“ نہ سہی کم از کم صرف ایک روایت ہی بخاری ومسلم سے دکھا دیں۔ اگر واقعتاً بخاری ومسلم بلکہ پوری صحاح ستہ میں کوئی ایسی روایت موجود ہو تواز راہِ کرم ہمیں ضرور آگاہ فرمائیں۔ آپ کی طرف سے ذراسی زحمت ہمارے علم میں اضافے کا سبب بن جائے گی اور اس سے آپ کے ”شیخ الاسلام“ کا بھرم بھی قائم رہ جائے گا۔ دیدہ باید!!
4: علامہ بدرالدین عینی رحمہ اللہ کے بارے میں مولانا ثناء اللہ امر تسری لکھتے ہیں: چنانچہ علامہ عینی حنفی جو اپنے مذہب کی تائید میں بڑے مستعد ہیں ، اپنی شرح بخاری عمدۃ القاری میں اعتراف فرماتے ہیں:
احتج الشافعی بحدیث وائل بن حجر اخرجہ ابن خزیمہ فی صحیحہ قال صلیت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوضع یدہ الیمنیٰ علیٰ یدہ الیسریٰ علیٰ صدرہ ولیستدل لعلمائنا الحنفیۃ بدلائل غیروثیقۃ۔
)فتاویٰ ثنائیہ ج1ص457(

آپ کی اطلاع کےلیے عرض ہے کہ خط کشیدہ عبارت علامہ عینی رحمہ اللہ نے نہیں لکھی ، نہ ہی یہ الفاظ عمدۃ القاری میں موجود ہیں۔ اگر آپ کو کبھی کہیں سے مل جائیں تو ہمیں ضرور بتائیے گا۔
5: مولوی یوسف جے پوری ہدایہ کے حوالے سے لکھتا ہے:مرزامظہر جانِ جاناں سینے پر ہاتھ باندھنے والی روایات کو بسبب قوی ہونے کے ترجیح دیتا تھا اور خود بھی ہاتھ سینے پر ہاتھ باندھتا تھا۔
)حقیقۃ الفقہ ص 193(

یاد رہے کہ صاحبِ ہدایہ علامہ برہان الدین کی وفات 593 ھ میں ہوئی۔ جبکہ مرزا مظہر جان جاناں رحمہ اللہ اُن کے وصال کے 518 سال بعد 1111ھ میں پیدا ہوئے تھے۔ اب اس راز سے پردہ اٹھایا جائے کہ آخر مرزا صاحب کایہ عمل اورقول اپنی ولادت سے 518ھ سال پہلے والی کتاب میں کیسے درج ہوگیا؟؟
مذکورہ بالا دلائل اور تحقیق بحث سے معلوم ہوا کہ منکرین فقہ اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے جس روایت کو بنیاد بناتے ہیں وہ تحقیق کے میدان میں اس قدر کمزور ہے کہ خود منکرین فقہ بھی اس کے معترف ہیں۔