اساس الفقہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
آثار التشریع:
…… علامہ خالد محمود ، لندن
اساس الفقہ
اسلام میں فقہ کی بنیاد کیسے قائم ہوئی اور وہ کون سے عوامل تھے جنہوں نے نصوص کے ہوتے ہو فقہ کی ضرورت پیدا کی۔اس کے لیے ہمیں اسلامی قانون عمل کو مختلف زاویوں سے دیکھنا ہوگا۔
آنحضرتﷺ کی زندگی میں صحابہ کا اجتہاد:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بصورت عدم نص اجتہاد کی اجازت دے رکھی تھی اور انہیں صواب اور خطا دونوں صورتوں میں اجر کا یقین دلایا تھا کہ انہیں دو اجر یا ایک اجر ضرور ملے گا۔ دین میں کی گئی اتنی محنت بھی ضائع نہیں جاتی۔صواب [فہم صحیح] پالیں تو دو اجر اور بصورت خطا ایک اجر اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا کہ دو پہلو برابر رہیں۔
نماز عصر بنی قریظہ میں:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خندق کے موقع پر صحابہ رضی اللہ عنہم کو ایک جگہ روانہ فرمایا اور کہا عصر کی نماز بنو قریظہ میں پڑھنا !بڑی تاکید سے فرمایا
لَا يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّا فِي بَنِي قُرَيْظَةَ۔
)صحیح بخاری ج 2 ص591(
ترجمہ: تم میں سے کوئی عصر کی نماز پڑھے تو بنی قریظہ جا کر پڑھے۔
اتفاق ایسا ہوا کہ عصر کی نماز کا وقت رستے میں ہوگیا،عصر کہاں پڑھیں؟ اس پر صحابہ رضی اللہ عنہم کی دو رائیں ہوگئیں۔ بعض کہتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کی پابندی کریں اور کچھ کہتے تھے علتِ حکم پر نظر کریں آپ کا منشاء تھا کہ اتنی جلدی پہنچو کہ عصر تمہیں بنوقریظہ میں آئے۔یہ نہ تھا کہ رستے میں عصر کا وقت ہوجائے تو بھی وہاں نہ پڑھنا۔
کچھ لوگوں نے رستے میں نماز پڑھ لی اور دوسروں نے الفاظ کی پابندی کرتے ہوئے نماز عصر بنوقریظہ میں جاکر پڑھی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس واقعہ کی خبر دی گئی تو آپ نے کسی کی بھی سرزنش نہ کی ظاہر ِالفاظ سے تمسک اور علتِ حکم پر نظر ہر دو طرف مجتہد تھے۔
فلم یعنف واحداً منہم۔
)بخاری ج1ص591(
ترجمہ :آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو رائے رکھنے والوں میں سے کسی کو نہ جھڑکا۔
الفاظ کی پابندی کرنے والوں کو اگر ہم ”اہلحدیث“ کہیں تو رستے میں پڑھنے والوں کو ”اہل الرائے“ کہیں گے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں” اہل الرائے“ بننے پر کوئی نکیر نہ فرمائی۔دیکھئے اس دور اول میں اہل حدیث اور اہل الرائے کس طرح ساتھ ساتھ چلتے تھے۔
علتِ حکم پالینے سے ظاہر حدیث پر عمل نہ کرنا:
ایک شخص ایک لونڈی [ام ولد] سے متہم تھا۔ بتلانے والے اس قدر تھے کہ انکار نہ ہوسکتا تھا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس کے قتل کرنے کا حکم دیا۔ آپ اس کے ہاں گئے تو کیا دیکھتے ہیں۔
فاذا ہو فی رکی یتبرد فقال لہ علی اخرج فناولہ یدہ فاخرجہ فاذاہو مجبوب لیس لہ ذکر۔
)صحیح مسلم ج2ص368(
ترجمہ: وہ ایک چھوٹے کنویں میں اترا ٹھنڈک لے رہا ہے آپ نے اسے باہر نکلنے کا کہا اور اس کا ہاتھ پکڑا، آپ کیا دیکھتے ہیں کہ اس میں مرد ہونے کی علامت نہیں۔
آپ نے اسے قتل نہ کیا علتِ حکم پر نظر رکھی اور آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی۔آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس اجتہاد کو پسند فرمایا اور فرمایا جو سامنے والا دیکھ سکتا ہے وہ پیچھے والا نہیں دیکھ سکتا۔یعنی تم وہاں موجود تھے اسے دیکھ پائے میں وہاں نہ تھا اس لیے نہ دیکھ سکا۔
الشاہد یریٰ مالا یراہ الغائب رواہ احمد.
) البدایہ والنہایہ ج5ص204 [
ترجمہ: حاضر وہ کچھ دیکھ پاتا ہے جو غائب نہیں دیکھ سکتا۔
پانی ملنے پر تیمم سے پڑھی نماز نہ لوٹانا:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو صحابی کہیں سفر میں تھے کہ نماز کا وقت ہوگیا،پانی نہ ملا تو انہوں نے تیمم سے نماز پڑھ لی۔نماز کا وقت باقی تھا کہ پانی مل گیا،ایک صحابی نے وضو کیا اور نماز پھر سے پڑھی۔دوسرے نے اس پہلی نماز کو کافی سمجھا اور نماز نہ دہرائی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر دونوں نے اپنا ماجرا سنایا جس نے نماز نہ لوٹائی آپ نے اسے فرمایا۔
أَصَبْتَ السُّنَّةَ وَأَجْزَأَتْكَ صَلاَتُكَ۔
)سنن ابی داود ج1ص55،سنن نسائی ج1ص75(
ترجمہ: تو نے صحیح بات پالی اور تجھے تیری نماز کافی ہوگئی۔
اور دوسرے سے فرمایا:
لَكَ الأَجْرُ مَرَّتَيْنِ
،تجھے دو اجر ملیں گے۔یعنی نماز پہلے ہوگئی تھی اب اس کو پھرسے پڑھنے پر نفلوں کا ثواب ملے گا۔آپ نے اجتہاد کرنے پر ان دونوں میں سے کسی پر سرزنش نہ کی۔
زچگی کی حالت میں سزا کو روک لینا:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو ایک زانیہ باندی کو درے لگانے کا حکم دیا۔آپ اس کے پاس گئے تو دیکھااس کے ہاں بچہ پیدا ہوا ہےآپ نے اس پر حد جاری نہ کی اور واپس آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں صورت حال عرض کردی۔آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس اجتہاد کی تحسین کی اور فرمایا۔
احسنت وزادہ فی روایۃ اتركها حتى تماثل۔
)صحیح مسلم ج2ص71،ترمذی ج1ص174(
ترجمہ: تم نے اچھا کیا اس پر حد موخر رکھو یہاں تک کہ بچہ بڑا ہوجائے۔
آپ کا یہ اجتہاد بظاہر نص کے مقابلہ میں تھالیکن مجتہد کی نظر علت سبب اور حالت تینوں پر ہوتی ہے۔آج کل کا دور ہوتا تو کئی مولوی کہہ دیتے کہ دیکھو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حدیث پر عمل نہ کیا اور اپنی رائے حدیث میں داخل کی۔اہل فقہ یہ کیا کرتے ہیں؟
نص کے مقابل حالات کی رعایت:
قرآن کریم میں چور کی سزا وہ مرد ہو یا عورت قطع ید [ ہاتھ کاٹنا ]ہے۔قرآن کریم کا حکم ہے۔
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ۔
) سورۃ المائدہ:38(
ترجمہ: اور چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت کاٹ ڈالو ان کے ہاتھ سزا میں یہ ان کے عمل کا بدلہ ہے جو انہوں نے کمایا۔
اس حکم الہٰی میں کوئی قید اور شرط نہیں۔مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے موقع پر اس سزا کے جاری کرنے سے منع فرمایا۔کیوں؟ اس لیے کہ کہیں چور اس پریشانی اور تکلیف میں ذہنی توازن نہ کھودے اور کافروں سے نہ جا ملے۔ ایک مسلمان کے ایمان کی حفاظت کے لیے آپ نے اس موقع پر حد جاری کرنے سے منع رکھا۔حضرت بسر بن ارطاۃ کہتے ہیں۔
نہی ان تقطع الایدی فی الغزو۔
)ابوداود ج2ص249(
ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ جنگ کے موقع پر ہاتھ کاٹے جائیں۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حالات کی اس رعایت میں” قحط سالی“ کو بھی داخل کیا۔یہ آپ کا اجتہاد تھا۔
ان عمر بن الخطاب اسقط القطع عن السارق عام المجاعۃ۔
) الجنہ ص64[
ترجمہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قحط سالی کے سال میں چور کے ہاتھ کاٹنے کی سزا ساقط فرمادی تھی۔
آپ نے اس موقع پر اس پر مال کی دوگنی قیمت ادا کرنے کی تعزیر جاری کی۔
)اعلام الموقعین ج3ص8(
حضرت امام احمد رحمہ اللہ کے ہاں اگر ثابت ہوجائے کہ کسی نے بھوک سے لاچار ہوکر چوری کی ہے تو وہ معذور سمجھا جائے اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے۔یہ رعایت اور حالات پر نظر رکھنا نص کا مقابلہ نہیں۔مجتہدین کی نظر علت سبب اور حالات تینوں پر ہوتی ہے۔خدا کا شکر ہے کہ اس دور کے غیرمقلد اس دور میں نہ تھے۔ورنہ پروپیگنڈہ کرتے کہ صحابہ اور ائمہ؛ نص کے مقابلہ میں قیاس سے کام لے رہے ہیں۔صحابہ اور ائمہ کا یہ فیصلہ ہرگز نص کے خلاف نہیں ہے۔نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں۔
لیس فی ہذا مایخالف نصًا ولا قیاسًا ولا قاعدۃ من قواعد الشرع۔
) الجنہ ص64(
ترجمہ: اس میں کوئی ایسی بات نہیں جو کسی نص پر یا اس پر مبنی کسی قیاس کے خلاف ہو،نہ یہ بات قواعد شرع میں سے کسی قاعدہ سے ٹکرا رہی ہے۔
اجتہاد میں کوئی صورت قطعی نہیں ہوتی:
دادا کی وراثت کے بارے میں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی رائیں مختلف تھیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی رائے کا اظہار اپنی خلافت کے آخری دنوں میں کیا تھااور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا آپ مجھ سے اتفاق کریں۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔
إن نتبع رأيك فهو رشد وإن نتبع رأي الشيخ قبلك فنعم ذو الرأي كان۔
) المستدرک للحاکم ج4ص340(
ترجمہ: اگر ہم آپ کی رائے کی اتباع کریں تو اس میں رشد ہے اور اگر ہم اس میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رائے پر عمل کریں تو آپ بھی بہت اچھی رائے والے تھے۔
معلوم ہوا کسی امام کے اجتہاد پر چلنا عیب نہیں ہے اور کوئی مجتہد کسی دوسرےمجتہد کی پیروی میں چلے تو اس میں بھی کوئی عیب نہیں آجاتا۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بہت بلند پایہ بزرگ تھے مگر وہ اپنے لیے جائز سمجھتے تھے کہ پہلے دو بزرگوں میں سے کسی کی پیروی کر لیں علم رکھنے کے باوجود تقلید اعلم جائز ہے۔
اس روایت سے یہ بھی پتہ چلا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو” اہل الرائے“ کہنا ہرگز کوئی عیب نہ سمجھا جاتا تھا۔
دو مختلف اجتہاد اور ہر ایک کی تصویب:
عَنْ طَارِقٍ أَنْ رَجُلًا أَجْنَبَ فَلَمْ يُصَلِّ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ أَصَبْتَ فَأَجْنَبَ رَجُلٌ آخَرَ فَتَيَمَّمَ وَصَلَّى فَأَتَاهُ فَقَالَ نَحْوَ مَا قَالَ لِلْآخَرِ يَعْنِي أَصَبْتَ۔
) سنن نسائی ج1ص62(
ترجمہ: حضرت طارق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص کو غسل جنابت ضروری تھا اس نے نماز نہ پڑھی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا ماجرا بیان کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے ٹھیک کیا۔ایک اور شخص کو یہی صورت درپیش ہوئی تو اس نے تیمم کرکے نماز پڑھ لی وہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اپنی بات کہی۔اسے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی جواب دیا جو پہلے کو دیا تھا۔
تیمم سے نماز پڑھانے کا اجتہاد:
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں غزوہ ذات السلاسل میں ایک رات جب کہ سردی شدید تھی مجھے نہانے کی حاجت ہوگئی مجھے اندیشہ ہلاکت تھا،اگر میں غسل کروں۔میں نے تیمم کیا اور صبح کی نماز پڑھا دی۔صحابہ رضی اللہ عنہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا۔
يَا عَمْرُو صَلَّيْتَ بِأَصْحَابِكَ وَأَنْتَ جُنُبٌ۔
ترجمہ: اے عمرو![ رضی اللہ عنہ ] تم نے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھا دی اور تو جنابت کی حالت میں تھا؟
میں نے کہا:
إِنِّى سَمِعْتُ اللهَ يَقُولُ (وَلاَ تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا۔
ترجمہ: میں نے اللہ عزوجل کا کلام سنا ہےکہ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو،اللہ تعالیٰ بےشک تم پر بڑا مہربان ہے۔
فَضَحِكَ رَسُولُ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا۔
) سنن ابی داود باب إِذَا خَافَ الْجُنُبُ الْبَرْدَ أَيَتَيَمَّمُ(
ترجمہ: پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہ کہا۔
ایک مسئلے کے دو جواب مختلف حالات میں :
آپ نے اجتہاد کی راہ سے امت کو عجیب رعایت بخشی ہے۔زندگی کے عام مسائل اس کے لیے اتنے آسان کر دیے کہ دین ہر قسم کےحالات کے لیے لائق عمل ہوگیا۔اگر تمام جزئیات قرآن وحدیث میں مذکور اور طے ہوتیں تو یہ وسعت جو امت کو اجتہاد کی راہ سے ملی ہے کبھی قانون کے شامل حال نہ ہوسکتی۔
کسی مسئلے کا حال اور افراد کے ساتھ کیا تعلق ہوتا ہے؟ اسے واقعہ ذیل میں دیکھیں:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور اس نے پوچھا کیا میں روزے کی حالت میں بیوی سے بغلگیر ہوسکتاہوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں!اور ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور یہی سوال کیا۔آپ نے اسے ”نہ“ کہا اور اس چیز کی اجازت نہ دی۔
) سنن ابی داود ج1ص324(
صحابہ رضی اللہ عنہم کا آپ کی صداقت پر پختہ ایمان تھا آج کل کے لوگ ہوتے تو آپ کو تضاد بیانی کا الزام دیتےلیکن انہوں نے ان دونوں سوال کرنے والوں پر غور کیا،پہلا شخص سن رسیدہ تھا اور دوسرا جوان اور آپ کا جواب ہر کسی کے حسب حال تھا۔
قرآن میں اسلامی فقہ کی بنیادیں:
شیخ محمد خضری لکھتے ہیں شریعت نے اسلامی قانون سازی میں تین بنیادی چیزوں کی بطور خاص رعایت کی ہے۔
1:عدم الحرج :
اس میں اس بات کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ لوگوں پر تنگی واقع نہ اور عام زندگی میں کوئی حرج واقع نہ ہو۔
2:تقلیل التکلیف:
یعنی انسان پر شریعت کی وجہ سے جو ذمہ داری آئے اس کے تحمل میں انسان کو بہت کم تکلیف ہو۔
3:تدریج:
کوئی حکم اچانک وارد نہ کیا جائے۔تدریج سے کام لیا جائے۔شریعت اس راہ سے قانون بنے گی۔
قرآن کریم میں عدم الحرج کا بیان:
هُوَ اجْتَبٰكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ
)سورۃ الحج:78(
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے تمہیں چن لیا ہے اور نہیں رکھی تم پر کوئی دین میں تنگی۔ یہ دین تمہارے باپ ابراہیم کا ہے۔
یعنی دین میں کوئی ایسی مشکل نہیں رکھی جس کا اٹھانا کٹھن ہو، احکام میں ہر طرح کی رخصتوں اور سہولتوں کا لحاظ رکھا ہے۔یہ دوسری بات ہے تم خود اپنے اوپر ایک آسان چیز کو مشکل بنالو۔پانی نہ ملے اور وضو نہ کر سکو اس حال میں تیمم کی راہ کھول دی اور فرمایا
مَا يُرِيدُ اللهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ وَلَكِنْ يُّرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ۔
)سورۃ المائدہ:6(
ترجمہ: اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر تنگی ڈالے لیکن چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے۔
)ماخوذ از آثار التشریع ج1 ص158 تا 172(
)جاری ہے (