تذکرۃ الفقہاء

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تذکرۃ الفقہاء :
…مولانا محمد عاطف معاویہ
سیدنا مسروق بن اجدع ﷬
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے چندحضرات فقہاء کے تذکرہ کے بعداب چندمشہور تابعین فقہاء کرام رحمہم اللہ کا تذکرہ شروع ہے اس بار سیدنا مسروق بن اجدع رحمہ اللہ کا ایمان افروز تذکرہ آپ کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے آپ اپنے زمانے میں فقہ کے امام اور اجتہادی مسائل میں مرجع خلائق اور نابغہ روزگار شخصیت تھے۔
اکابر صحابہ سے جن حضرات کا خصوصی تعلق تھا ان میں ایک نمایاں نام سیدنا مسروق بن اجدع رحمہ اللہ کا ہے،آپ اپنے دور کے مشہور فقیہہ تھے ،جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زیارت اور ملاقات کا شرف بھی آپ کو حاصل ہے۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپ کے والد کا نام” اجدع“ تھا جس کو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے تبدیل کر کے ”عبدالرحمان“ رکھا۔
)الطبقات لابن سعد ج6ص139(
ام المومنین حبیبۂ حبیب خدا زوجۃ الرسول صدیقہ بنت صدیق سیدہ امی عائشہ رضی اللہ عنہاان کو اپنا بیٹا سمجھتی تھیں۔ چنانچہ مشہور تابعی امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:ان عائشۃ قد تبنت مسروقًا حضرت عائشہ نے ان کو اپنا منہ بولا بیٹا بنایا ہوا تھا۔
) تذکرۃ الحفاظ ج1ص40(
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا آنموصوف سے کس قدر شفقت والا معاملہ تھا اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ امام ابن سعد رحمہ اللہ نے الطبقات میں نقل کیا ہے:” حضرت مسروق رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
اتینا ام المومنین عائشۃ فقامت خوضوا لابنی عسلا۔۔۔۔
) الطبقات ج6ص141(
میرے بیٹے[ مسروق کی ] شہد سےخاطر مدارت کرو۔
سیدنا مسروق بن اجدع رحمہ اللہ بھی امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بےحد ادب اور از حد احترام کرتے تھے جب کبھی آپ ایسی حدیث بیان کرتے جو آپ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنی ہوتی تو جھوم کر فرماتے: حدثنی الصادقۃ بنت الصدیق۔
)المعجم الکبیر (
یہ حدیث میں نے اپنی اس ماں سے سنی جو خود بھی صدیقہ ہیں ،جن کے والد بھی صدیق ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود کے شاگردوں میں آپ کو غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے۔حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے استاد امام علی بن مدینی فرماتے ہیں۔
ما اقدم علی مسروق احدا من اصحاب عبداللہ۔
) تذکرۃ الحفاظ ج1ص40(
حضرت عبداللہ بن مسعود کے تمام شاگردوں میں سے میرے نزدیک حضرت مسروق کو بلند مقام حاصل ہے۔
اسلاف امت کی نظر میں:
کسی شخص کا مقام معلوم کرنے کے لیے اس طبقہ کے افراد کی رائےسے بہتر کوئی اور ذریعہ نہیں ہوسکتا۔ حضرت مسروق رحمہ اللہ کا تعلق چونکہ اہل علم طبقہ سے ہے تو ان کی علمی وفقہی حیثیت کے متعلق علماء کی رائے دیکھنی چاہیے کہ انہوں آپ کے متعلق کیا آراء پیش کی ہیں۔ کتب سیرو رجال کی ورق گردانی سے آپ کا مقام نکھر کر سامنے آجاتا ہے چند اقوال ملاحظہ فرمائیں:
1: مشہور تابعی امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کان اعلم بالفتویٰ من شریح وکان شریح یستشیرہ۔
) تذکرۃ الحفاظ ج1ص40(
فتوے کے معاملہ میں حضرت مسروق رحمہ اللہ کا مقام قاضی شریح رحمہ اللہ سے بھی زیادہ تھا بلکہ قاضی شریح رحمہ اللہ فتاوی کے متعلق آپ سے ہی مشورہ کیا کرتے تھے۔
قاضی شریح جیسا آدمی جس سے مشورہ کر کے بات کرے اس کی علمیت کا کون اندازہ کرسکتا ہے؟؟
2: مشہور محدث امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
بقی مسروق بعد علقمۃ لایفضل علیہ احد۔
)الطبقات الکبریٰ لابن سعد ج6ص145(
حضرت علقمہ رحمہ اللہ کے بعد سیدنا مسروق علمی میدان میں مجھے اکیلا نظر آتا ہے اس کے پائے کا کوئی اور آدمی نہیں۔
3: امام ابن المدینی رحمہ اللہ کا قول گزر چکا ہے وہ آپ کو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں سب سے فائق سمجھتے تھے۔
) تذکرۃ الحفاظ ج1ص40(
4: مشہور محدث اورامام جرح وتعدیل حضرت امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ آپ کے متعلق فرماتے ہیں: لایسئل عن مثلہ۔
)تہذیب التہذیب ج6ص239(
ان جیسا [ فضیلت وعلم میں ]کوئی نہیں ہے۔
5: امام جرح وتعدیل حضرت امام ذہبی اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہما اللہ نے آپ کو ”الفقیہ“ جیسے مقدس لقب سے ذکر کیا ہے۔
)تذکرۃ الحفاظ ج1ص40،تہذیب ج6ص238(
قارئین:یہاں ان تمام اقوال کا احاطہ مقصود نہیں بلکہ بطور مثال کے چند ذکر کر دیے تا کہ اساطین امت کی نظر میں آپ کا کتنا بلند مقام معلوم ہو سکے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے خصوصی تعلق:
آنموصوف کو اصحاب پیغمبر رضی اللہ عنہم کے ساتھ غیرمعمولی تعلق تھا جب کوئی مسئلہ پیش آتا اور عام لوگ اس کی وضاحت صحابہ کرام کی جلالت اور وجاہت کے باعث معلوم کرنے سے جھجکتے اور صحیح طور پر اس تک رسائی نہ کر پاتے تو آپ کی وساطت سے اس مسئلہ کا حل مل جاتا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے فتنوں کے متعلق پوچھا انہوں نے اس کی نشاندہی کی دریں اثناء حضرت حذیفہ نے ایک بات کو کچھ مبہم انداز میں بیان کیا اور لوگوں کو اس کی مکمل تفصیل معلوم نہ ہوسکی۔۔۔ تو انہوں نے حضرت مسروق رحمہ اللہ سے درخواست کی جنہوں نے صحابی رسول حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھ کر مسئلہ حل کردیا۔
) صحیح بخاری رقم 525 باب الصلاۃ کفارۃ(
چند فقہی مسائل:
حضرت مسروق کا شمار پہلی صدی کےجلیل القدر فقہاء میں ہوتا ہے آپ کو یہ سعادت حاصل ہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے آپ کے اجہتادکی تصویب وتائیدفرمائی۔ چنانچہ امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
مسئلہ نمبر 1:
ایک مرتبہ حضرت جندب رضی اللہ عنہ اور حضرت مسروق رحمہ اللہ اس وقت مغرب کی نماز پڑھنے کے لیے آئے جب امام آخری رکعت پڑھا رہا تھا امام نے وہ رکعت مکمل کی اور سلام پھیرا ان دونوں حضرات نے اپنی رہ جانے والی رکعات مکمل کی دونوں کا اجتہاد و طریقہ ایک دوسرے سے مختلف تھا۔ حضرت جندب رضی اللہ عنہ نے دونوں رکعتیں اکٹھی ایک قعدہ کے ساتھ پڑھیں جب کہ حضرت مسروق رحمہ اللہ نے پہلی رکعت پڑھی ،قعدہ کیا اور دوسری میں پھر قعدہ کیا۔ نماز ادا کرکے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس واقعے کا ذکر کیا اور پوچھا کہ ہم میں سے درست مسئلہ کس کا ہے؟تو انہوں نے فرمایا۔
کلاکما اصاب ولو کنت انا لصنعت کما صنع مسروق۔
) المبسوط سرخسی ج1ص348،المعجم الکبیر ج9ص274رقم 9372(
آپ دونوں کی نماز درست ہے اگر مجھے ایسی صورت حال پیش آجاتی تو میرا اجتہاد وہی ہوتا جو اس مسئلہ میں مسروق کا ہے۔
حدیث مذکورپرتجزیہ :
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس فرمان سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں۔
1: ایک مسئلہ میں مجتہدین کا آپس میں اختلاف ہوجائے تو کسی مجتہد کے خلاف غلط رائے قائم کرنے سے احتراز کرنا چاہیے بشرطیکہ اجتہاد کرنے والاحقیقتاً مجتہد ہو۔ جس طرح کہ حضرت جندب اور مسروق میں اختلاف ہوا لیکن سیدنا ابن مسعود نے کسی ایک کو ملامت نہیں فرمائی۔
2: سیدنا مسروق رحمہ اللہ کی اجتہادی حیثیت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان کے اجتہاد کی تصویب فرمائی کہ میرے اجتہاد کے مطابق مسئلہ سیدنا مسروق رحمہ اللہ کا درست ہے۔
مسئلہ نمبر 2:
ہمارے معاشرہ میں اس وقت ایک بہت بڑی بیماری ننگے سر نماز پڑھنے کی ہے بعض لوگ سستی کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں جب کہ بعض نادان اس کو” سنت“ سمجھتے ہیں کہ ان مسائل میں حضرات مجتہدین ہمارے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہیں اس مسئلہ میں ہم جب حضرت مسروق رحمہ اللہ کو دیکھتے ہیں تو آپ کا معمول سر ڈھانپ کر نماز پڑھنے کا نظر آتا ہے ابواسحاق فرماتے ہیں۔
کان مسروق یصلی فی برانسہ
)الطبقات الکبریٰ ج6ص139(
سیدنا مسروق رحمہ اللہ [اپنے سر کو ڈھانپ کر ] یعنی ٹوپی پہن کر نماز پڑھا کرتے تھے۔
مسئلہ نمبر 3:
اگر کوئی شخص فجر کی نماز کے وقت مسجد میں پہنچا جماعت کھڑی ہوچکی تھی اس نے ابھی تک سنتیں ادا نہیں کی تھیں تو مسجد کے کونے میں سنتیں ادا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ اس مسئلہ میں حضرت مسروق رحمہ اللہ کا معمول بھی یہی تھا مشہور محدث امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
کان مسروق رحمہ اللہ یجئی الی القوم وہم فی الصلوۃ ولم یکن رکع رکعتی الفجر فیصلی رکعتین فی المسجد ثم یدخل مع القوم فی صلاتہم۔
) شرح معانی الآثار رقم:2048(
آپ جب کبھی ایسے وقت میں تشریف لاتے کہ نماز فجر کی جماعت ہو رہی ہوتی اور آپ نے ابھی سنتیں ادا نہ کی ہوتیں تو آپ پہلے سنتیں ادا فرماتے اس کے بعد جماعت میں شریک ہوجاتے تھے۔
قارئین کرام !ہمارا مقصد حضرت مسروق رحمہ اللہ کے اجتہادی مسائل کا احاطہ نہیں بلکہ ان کے اجتہاد کا صرف تعارف مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کتنے بلند درجے پر فائز فرمایا تھا۔
وفات:
آپ کی وفات 63 ھ میں ہوئی۔ گلشن ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا مہکتا ہوا پھول دنیا کو اپنی علمی واجتہادی خوشبو سے معطر کر کے خالق حقیقی سے جا ملا۔آپ اپنے دور میں قاضی بھی رہے تھے مگر اس عہدہ پر معاوضہ نہیں لیتے تھے۔ وفات کے وقت بارگاہ خداوندی میں یہ عرض کی کہ
اللهم لا أموت على أمر لم يسنه رسول الله صلى الله عليه و سلم ولا أبو بكر ولا عمر والله ما تركت صفراء ولا بيضاء عند أحد من الناس غير ما في سيفي هذا فكفنوني به
۔)الطبقات الکبری لابن سعد ج6ص144،145(
اے اللہ!میں آپ کے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے جانشین حضرت ابو بکر صدیق وحضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما کے طریقے پر اس جہان سے جا رہا ہوں میں نے کسی انسان کے پاس کوئی سونا چاندی نہیں چھوڑا صرف ایک تلوار چھوڑ کے جارہا ہوں لوگوں کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا میری تلوار بیچ کر مجھے کفن دینا۔
قبر مسروق اور فیض روحانی:
بعض لوگ دنیا سے چلے جاتے ہیں مگر ان کی موت ان کے روحانی فیض کو ختم نہیں کر سکتی لوگ ان کی قبروں کو رحمت خداوندی کے نزول کا ذریعہ سمجھتے ہیں یہ مسئلہ صرف امتیوں کے ساتھ نہیں بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے خود خاتم النبیین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک قبر کی برکت سے رحمت خداوندی کو طلب کیا ہے۔
سنن الدارمی کا حوالہ :
اگر انصاف پسندی سے کام لیا جائے اور تحقیق کی آنکھ سے دیکھا جائے تو سنن دارمی میں یہ روایت موجود ہے کہ حضرت ابوالجوازاء اوس بن عبداللہ رحمہ اللہ م 83ھ فرماتے ہیں۔
قحط اہل المدینۃ قحطا شدیدا فشکوا الی عائشۃ رضی اللہ عنہا فقالت: انظروا الی قبر النبی صلی اللہ علیہ و سلم فاجعلوا منہ کَوًّا الی السماء حتی لا یکون بینہ و بین السماء سقف قال: ففعلوا فمطرنا مطراًحتی نبعت العُشْب و سمنت الابل حتی تفتقت من الشحم۔
(سنن الدارمی: ج1ص56 باب ما اکرم اللہ تعالیٰ نبیہ بعد موتہ، رقم الحدیث 92)
مدینہ منورہ کے لوگ شدید قحط سالی میں مبتلا ہوئے۔ ان لوگو ں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں درخواست پیش کی توآپ رضی اللہ عنہانے فرمایا:نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر مبارک کی طرف دیکھو(یعنی آپ کی قبر پر جاؤ) پھر آسمان کی طرف ایک روشندان بناؤ کہ آپ کے اور آسمان کے درمیان چھت نہ رہے۔ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا، تب بارش سے سیراب ہوئے حتیّٰ کہ سبز گھاس اگی، اونٹ اتنے موٹے ہوئے کہ گویا چربی سے پھٹے جا رہے ہوں۔
تاریخ بغداد کا حوالہ :
امام ابوبکر احمد بن علی خطیب بغدادی رحمہ اللہ علی بن میمون رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو یہ کہتے سنا کہ
اني لأتبرك بأبي حنيفة وأجيء إلى قبره في كل يوم يعني زائرا فإذا عرضت لي حاجة صليت ركعتين وجئت إلى قبره وسألت الله تعالى الحاجة عنده فما تبعد عني حتى تقضى۔
( تاریخ بغداد للخطیب: ج1 ص101 باب ما ذکر فی مقابر بغداد الخ)
میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے وسیلے سے برکت حاصل کرتا ہوں ہر روز ان کی قبر پر زیارت کے لیے حاضر ہوتا ہوں اور اس کے قریب اﷲ تعالیٰ سے حاجت روائی کی دُعا کرتا ہوں۔ اس کے بعد بہت جلد میری دعا پوری ہو جاتی ہے۔
الخیرات الحسان کا حوالہ :
علامہ ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ ’’الخیرات الحسان‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں: واضح رہے کہ علماء اور اہل حاجات ہمیشہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مزار کی زیارت کرتے اور اپنی حاجات براری میں ان کا وسیلہ پکڑتے رہے ہیں۔ ان علماء میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل ہیں۔
(الخیرات الحسان: ص129)
اسی طرح امام مسروق رحمہ اللہ کی قبر سے لوگوں نے ان کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں تو اللہ تعالیٰ نے وہ پوری فرما دیں۔ امام مسروق رحمہ اللہ کی قبر مبارک باران رحمت کے نزول کا سبب بنتی رہی خشک سالی کے موقع پر لوگ بارش کی دعا مانگتے اللہ بارش برسا دیتے۔امام ابن سعد آپ کی وفات کے بعد قحط سالی موقع پر لوگوں کے معمول کا تذکرہ کرتے ہوئے نقل فرماتے ہیں۔
کنا اذا قحط المطر ناتی قبر مسروق وکان منزلہا بالسلسلۃفنستسقی فنسقی.
) الطبقات الکبریٰ ج6 ص 145(
قحط سالی کے وقت لوگ آپ کی قبر پر جا کر اللہ سے بارش طلب کرتےاللہ ان کی برکت سے بارش عطا فرمادیتے۔اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو ان اولیاء کرام کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے روحانی فیض سے مستفیض فرمائے۔