فضائل اعمال پر اعتراضات کا علمی جائزہ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
قسط نمبر5:
اولیاء اللہ کے واقعات سے متعلق
فضائل اعمال پر اعتراضات کا علمی جائزہ
…………متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
محترم قارئین !اولیاء اللہ کے واقعات کو بیان کرنا شرعاً جائز ہے ، اللہ تعالیٰ شانہ کی کتاب قرآن کریم میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین )احادیث( سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ جس پر ہم آگے چل کر چند آیات کریمہ اور چند احادیث مبارکہ نقل کریں گے۔ اس سے پہلے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لی جائے کہ اولیاء اللہ کے واقعات کو ذکر کرنے کے کئی نیک مقاصد ہیں ، مثلاً

جیسے ان اولیاء اللہ نے ایمانیات کو اپنایا تم بھی اپناؤ۔

جیسے ان اولیاء اللہ میں علم و تقویٰ ، معرفت خداوندی اور اتباع رسول کا جذبہ تھا تمہارے اندر بھی ہونا چاہیے۔

جیسےاولیاء اللہ عبادت گزار تھے تمہیں بھی اپنی عبادات میں اخلاص کی مزید ضرورت ہے۔

جیسے اولیاء اللہ پر مشکل وقت حالات آئے اور انہوں نے صبر و رضا کا دامن نہیں چھوڑا تمہیں بھی مایوسی اور نامرادی کے بجائے ثابت قدمی دکھانی چاہیے۔

جیسے اولیاء اللہ نے اپنے علم و تفقہ سے باطل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر دین کی حفاظت کی اسی طرح تمہیں بھی علمی و عملی فتنوں کو مٹانے کے لیےان کے نقش قدم پر چلنا ہوگا۔

جیسے اولیاء اللہ نے دین کی اشاعت و سربلندی کے لیے اپنی کوششیں صرف کیں اسی طرح تمہیں بھی دین کی اشاعت کے لیے گلی گلی پھرنا ہوگا۔

جیسے اولیاء اللہ نے نبی کی اطاعت و فرمانبرداری سے اپنی آخرت سنواری ہے اسی طرح تم بھی نبی کے اطاعت کر کے ہمیشہ کی نجات حاصل کر سکتے ہو۔
چنانچہ اگر غور سے دیکھا جائے تو سب سے پہلے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر …………مندرجہ بالا امور کو ذہن میں رکھتے ہوئے ………… یہ نظر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو جب قرآنی احکامات کا مخاطب بناتا ہے تو ان لوگوں کے احوال کا ذکر بھی فرماتا ہے جو نیک تھے تاکہ تم سبق حاصل کرو اور ان لوگوں کے احوال کا تذکرہ بھی فرماتا ہے جو بد تھے تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں۔
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں اولیاء اللہ کے واقعات اور ان کی نجات پانے کا ذکر کیا اور وہیں ان لوگوں کا تذکرہ بھی کیا جو اولیاء اللہ سے متضاد نظریے پر قائم تھے اور ان کی ہلاکت کا ذکر کیا۔ قرآن کریم کی بعض سورتوں کا ذکر کرتے ہیں جن میں اولیاء اللہ کے واقعات کو بیان کیا گیا ہے۔اگرچہ پورے قرآن میں یہ مضمون ہے۔
سورۃ فاتحہ
سورۃ بقرۃ
سورۃ آل عمران
سورۃ نساء
سورۃ یونس
سورۃ ھود
سورۃ یوسف
سورۃ ابراہیم
سورۃ بنی اسرائیل
سورۃ الکہف
سورۃ مریم
سورۃ الانبیاء
سورۃ مومنون
سورۃ النور
سورۃ الشعراء
سورۃ النمل
سورۃ القصص
سورۃ روم
سورۃ لقمان
سورۃ الاحزاب
سورۃ السباء
سورۃ ص
سورۃ الزمر
سورۃ المومن
سورۃ محمد
سورۃ واقعہ
سورۃ المجادلہ
سورۃ ممتحنہ
سورۃ جمعہ
سورۃ التحریم
سورۃ نوح
سورۃ عبس
اب چند آیات کریمہ کو اختصار کے ساتھ ہم ذکر کرتے ہیں۔
آیت نمبر 1:
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (6) صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ۔
) سورۃ فاتحہ(
ترجمہ : ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما۔ ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام کیا ہے۔ نہ کہ ان لوگوں کے راستے کی جن پر تیرا غضب نازل ہوا اور نہ ان کے راستے کی جو بھٹکے ہوئے ہیں۔
آیت نمبر 2:
لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُمْ بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا۔
) سورۃ البقرۃ:273(
ترجمہ: )مالی امداد کے بطور خاص ( مستحق وہ فقراء ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو اللہ کی راہ میں اس طرح مقید کر رکھا ہے کہ وہ )معاش کی تلاش کے لیے (زمین میں چل پھر نہیں سکتے چونکہ وہ اتنے پاک دامن ہیں کہ کسی سے سوال نہیں کرتے اس لیے ناواقف آدمی انہیں مال دار سمجھتا ہے تم ان کے چہرے کی علامتوں سے ان )کی اندرونی حالت (کو پہچان سکتے ہو )مگر(وہ لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے۔
آیت نمبر3:
مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ يَتْلُونَ آيَاتِ اللَّهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ (113) يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَأُولَئِكَ مِنَ الصَّالِحِينَ۔
)سورۃ آل عمران:113 ، 114(
ترجمہ : اہل کتاب ہی میں وہ لوگ بھی ہیں جو )راہ راست پر (قائم ہیں۔ جو رات کے اوقات میں اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں اور جو )اللہ کے آگے (سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اچھائی کی تلقین کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نیک کاموں کی طرف لپکتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کا شمار صالحین میں ہے۔
فائدہ : یہاں اہل کتاب سے مراد وہ اہل کتاب ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے تھے مثلاً یہودیوں میں سے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ۔
آیت نمبر4:
وَمَنْ یُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا (69) ذَلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللَّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ عَلِيمًا۔
)سورۃ النساء:69،70(
ترجمہ : اور جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کریں تو وہ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا یعنی انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور صالحین۔ اور وہ کتنے اچھے ساتھی ہیں۔ یہ فضیلت اللہ کی طرف سے ملتی ہے اور )لوگوں کے حالات سے ( پوری طرح باخبر ہونے کے لیے اللہ کافی ہے۔
آیت نمبر 5:
يَاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللہُ بِقَوْمٍ یُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ۔
)سورۃ المائدۃ:54(
ترجمہ :اے ایمان والو!اگر تم میں سے کوئی دین سے پھر جائے گا تو اللہ ایسے لوگ پیدا کر دے گا جن سے وہ محبت کرتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے۔
آیت نمبر 6:
أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (62) الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ (63) لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ۔
)سورۃ یونس:62تا 64(
ترجمہ : یاد رکھو !جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کوئی خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کیے رہے۔ ان کے لیے خوشخبری ہے دنیوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اللہ کی باتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی یہی زبردست کامیابی ہے۔
آیت نمبر 7:
إِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ۔
)سورۃ الحجر:42(
ترجمہ : یقین رکھ کہ جو میرے بندے ہیں ان پر تیرا کوئی زور نہیں چلے گا۔
فائدہ : میرے بندوں سے مراد وہ بندے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم پر چلنے کا پختہ عزم رکھتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں ایسے لوگوں پر شیطان کا زور نہ چلنے کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ شیطان انہیں بھی گمراہ کرنے کی کوشش تو کرے گا لیکن وہ اپنے اخلاص اور اللہ تعالیٰ کےفضل سے اس کے دھوکے میں نہیں آئیں گے۔
آیت نمبر8:
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوٰہُ وَکَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا.
)سورۃ الکہف:28(
ترجمہ : اور اپنے آپ کو استقامت سے ان لوگوں کے ساتھ ساتھ رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو اس لیے پکارتے ہیں کہ وہ اس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں۔ اور تمہاری آنکھیں دنیوی زندگی کی خوبصورتی کی تلاش میں ایسے لوگوں سے نہ ہٹنے پائیں۔ اور کسی ایسے شخص کا کہنا نہ مانو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر رکھا ہے اور جو اپنی خواہشات کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور جس کا معاملہ حد سے گزر چکا ہے۔
آیت نمبر 9:
وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ .
)سورۃ العنکبوت:69(
ترجمہ : اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے ہم انہیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے اور یقیناً اللہ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
آیت نمبر10:
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ۔
)سورۃ احزاب:23(
ترجمہ : انہی ایمان والو ں میں وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے اللہ جو عہد کیا تھا اسے سچا کر دکھایا۔
آیت نمبر 11:
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ (30) نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ (31) نُزُلًا مِنْ غَفُورٍ رَحِيمٍ۔
) سورۃ فصلت:30 تا 32 (
ترجمہ : )دوسری طرف ( جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے تو ان پر بیشک فرشتے )یہ کہتے ہوئے ( اتریں گے کہ نہ کوئی خوف دل میں لاؤ نہ کسی بات کا غم کرو اور اس جنت میں خوش ہو جاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ ہم دنیا والی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی تھے اور آخرت میں بھی رہیں گے اور اس جنت میں ہر وہ چیز تمہارے ہی لیے ہے جس کو تمہارا دل چاہے اور اس میں ہر وہ چیز تمہارے لیے جو تم منگوانا چاہو۔ یہ سب کچھ اس ذات کی طرف سے پہلی پہلی میزبانی ہے جس کی بخشش بھی بہت ہے ، جس کی رحمت بھی کامل ہے۔
نوٹ: آیات قرآنیہ کے ترجمہ اور فوائد میں ہم نے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کے آسان ترجمہ قرآن سے استفادہ کیا ہے۔
چند احادیث مبارکہ:
احادیث کریمہ پیش کرنے سے قبل قارئین کرام کی خدمت میں حضرت سیدنا امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کا فرمان نقل کیا جاتا ہے ، آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عند ذکر الصالحین تنزل الرحمۃ۔ اولیاء کرام کا ذکر خیر کرنے سے اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے)جامع بيان العلم وفضلہ،أبی عمر يوسف بن عبد الله النمری القرطبی ج2ص314(
اگرچہ اس موضوع پر ذخیرہ احادیث سے ہزاروں احادیث پیش کی جا سکتی ہیں لیکن مختصرا ہم چند کا تذکرہ کرتے ہیں تاکہ ایک عام سادہ آدمی کو یہ بات بخوبی معلوم ہوجائے کہ اولیاء کرام کے واقعات بیان کرنے کوئی جرم نہیں۔ اگر کتاب اللہ ہو ، رسول اللہ ہو لیکن رجال اللہ[ اولیاء اللہ ] نہ ہوں تو ہم تک دین کیسے پہنچے گا ؟
صحیح البخاری کا پہلا حوالہ:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمْ اللَّهُ فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ الْإِمَامُ الْعَادِلُ وَشَابٌّ نَشَأَ فِي عِبَادَةِ رَبِّهِ وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي الْمَسَاجِدِ وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِي اللَّهِ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ فَقَالَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ أَخْفَى حَتَّى لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ۔
) صحیح البخاری رقم الحدیث :660(
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : سات اشخاص ایسے ہیں کہ جن کو اللہ تعالیٰ اس دن اپنے عرش کا سایہ نصیب فرمائے گا کہ جس دن اس عرش کے سائے کے علاوہ کوئی اور سایہ نہ ہوگا۔

1.

عادل حکمران۔

2.

ایسا شخص جس نے ساری زندگی اللہ کی عبادت کر کے گزاری ہو۔

3.

جس شخص کا دل مسجد سے جڑا رہتا ہو۔

4.

ایسے دو شخص جو اپنی محبت اور جدائی اللہ کے لیے رکھتے ہوں۔

5.

ایسا شخص جسے کوئی خوبصورت اور صاحب حیثیت عورت بدکاری اور برائی کے لیے اپنی طرف بلائے اور وہ یہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔

6.

ایسا شخص جو اللہ کے راستے میں چھپ کر صدقہ دے۔

7.

ایسا شخص جو اللہ تعالیٰ کو تنہائی میں یاد کرے تو اسکی آنکھوں سے آنسو نکل پڑیں
صحیح البخاری کا دوسرا حوالہ :
حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ اللَّيْثِيُّ أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُ قَالَ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ النَّاسِ أَفْضَلُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُؤْمِنٌ يُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ قَالُوا ثُمَّ مَنْ قَالَ مُؤْمِنٌ فِي شِعْبٍ مِنْ الشِّعَابِ یَعْبُدُ رَبَّہُ وَفِیْ رِوَایَۃٍ يَتَّقِي اللَّهَ وَيَدَعُ النَّاسَ مِنْ شَرِّهِ۔
)صحیح البخاری رقم الحدیث 2786(
ترجمہ : صحابی رسول حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سے زیادہ فضیلت والا کون ہے ؟ اس کا جواب دیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ایسا مومن جو اللہ کے راستے میں اپنی جان اور مال کے ساتھ جہاد کرے۔ لوگوں)صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ( نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد کون زیادہ فضیلت والا ہے ؟ اس کا جواب دیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایسا صاحب ایمان شخص جو لوگوں سے چھپ کر اللہ کی عبادت کرے اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ سے ڈرے اور لوگوں کو اپنی تکلیف دہ کاموں سے بچائے۔
صحیح البخاری کا تیسرا حوالہ:
عَنْ سَهْلٍ قَالَ مَرَّ رَجُلٌ عَلىٰ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا تَقُولُونَ فِي هَذَا قَالُوا حَرِيٌّ إِنْ خَطَبَ أَنْ يُنْكَحَ وَإِنْ شَفَعَ أَنْ يُشَفَّعَ وَإِنْ قَالَ أَنْ يُسْتَمَعَ قَالَ ثُمَّ سَكَتَ فَمَرَّ رَجُلٌ مِنْ فُقَرَاءِ الْمُسْلِمِينَ فَقَالَ مَا تَقُولُونَ فِي هَذَا؟ قَالُوا حَرِيٌّ إِنْ خَطَبَ أَنْ لَا يُنْكَحَ وَإِنْ شَفَعَ أَنْ لَا يُشَفَّعَ وَإِنْ قَالَ أَنْ لَا يُسْتَمَعَ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا خَيْرٌ مِنْ مِلْءِ الْأَرْضِ مِثْلَ هَذَا۔
)صحیح البخاری:5091(
ترجمہ : حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گزر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے پوچھا : تمہارا اس شخص کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جواباً عرض کیا کہ یہ اس لائق ہے کہ کہیں پیغام نکاح بھیجے تو اس کا پیغام قبول کیا جائے ،اگر کسی کی سفارش کردے تو وہ بھی مان لی جائے۔ راوی حدیث کہتے ہیں کہ تھوڑی دیر کے بعد مسلمان فقراء میں سے ایک شخص کا اسی جگہ سے گزر ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے وہی سوال کیا کہ اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواباً عرض کیا کہ یہ شخص اس لائق ہے کہ اگر کہیں پیغام نکاح بھیجے تو لوگ اس کی بات پر توجہ ہی نہ دیں اگر کسی کی سفارش کرے تو اس کی بات نہ مانی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس پہلے جیسے شخص سے ساری زمین بھی بھر تو بھی دوسرا شخص اس پہلے سے بہتر ہے۔
صحیح البخاری کاچوتھا حوالہ:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ قَالَ مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ۔
) صحیح البخاری:رقم:6502(
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جو شخص میرے ولی )دوست (سے نفرت کرتا ہے دشمنی رکھتا ہے میرا اس سے اعلان جنگ ہے۔
صحیح مسلم کا حوالہ :
عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال رب أشعث مدفوع بالأبواب لو أقسم على الله لأبره.
) صحیح مسلم:رقم الحدیث 2622(
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ بہت سے ایسے لوگ ہیں کہ جن کی شکل و صورت بظاہر خوب نہیں ہے لوگ ان کو اپنے دروازوں سے پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔ لیکن اللہ کے ہاں ان کا مقام اس قدر بلند ہے کہ اگر وہ کسی بات پر اڑ جائیں اور اللہ کی قسم اٹھا لیں تو اللہ ان کی قسم کو ضرور پورا فرماتے ہیں۔
قارئین کرام! آپ غور فرمائیں کہ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں صالحین اولیاء اللہ اور نیک لوگوں کا تذکرہ اور ان کی فضیلت کس انداز میں بیان کی جا رہی ہے۔ یہی بات ہم کہتے ہیں کہ صالحین کا ذکر کرنا جائز ہے۔ جیسے ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ ان واقعات کو بیان کرنے کے کئی نیک مقاصد ہیں انہی مقاصد کے حصول کے لیے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب فضائل اعمال میں مستقل ”حکایاتِ صحابہ “ کے نام سے ایک رسالہ لکھا ہے۔ باقی کتاب میں بھی اولیاء کرام کے واقعات کو لکھا ہے۔
ہاں البتہ ایک بات جس کو ملحوظ رکھنا بہت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ان واقعات کی جتنی حیثیت ہے ہم فقط اتنی مانتے ہیں اگر اولیاء اللہ کے واقعات کا تذکرہ محض تاریخ کی کتابوں سے ملے تو ان کو اسی درجہ میں رکھیں گے چنانچہ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ فضائل اعمال میں لکھتے ہیں :
”باقی صوفیاء کرام رحمہم اللہ کے واقعات تو تاریخی حیثیت رکھتے ہی ہیں اور ظاہر ہے کہ تاریخ کا درجہ حدیث کے درجہ سے کہیں کم ہے۔ “
)فضائل اعمال ص 384 / فضائل نماز ص 96(
غور فرمائیں!حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے کس قدر دیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اصل صورتحال کو اپنی کتاب فضائل اعمال میں درج کر دیا ہے اس کے باوجود بھی مفسدین اور گمراہ لوگوں کایہ کہتے رہنا کہ فضائل اعمال میں قرآن وحدیث کی بجائے بزرگوں کے من گھڑت واقعات ہیں کس قدر ناانصافی اور ظلم کی بات ہے۔
امام یافعی رحمۃ اللہ علیہ متوفیٰ 755 ھ فرماتے ہیں کہ ”حکایات [ اولیاء ] احادیث نبویہ کی طرح قوی سندوں پر موقوف نہیں کیونکہ اس سے کوئی شرعی حکم ثابت نہیں ہوسکتا بلکہ یہ محض وعظ و نصیحت پر مبنی حکایات و واقعات ہیں مناسب یہ ہے کہ ان حکایات سے فیض حاصل کیا جائے اور ان کا انکار نہ کیا جائے کیونکہ مشائخ عظام فرماتے ہیں کہ ان حکایات اولیاء کے انکار کرنے والی کی کم سے کم سزا یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اولیاء اللہ کی برکات سے محروم فرما دیتے ہیں۔ او ر ایسے شخص کے بارے میں جو ان حکایات اولیاء کا انکار کرنے والا ہو خاتمہ بالایمان سے محرومی کا اندیشہ ہے۔ “
) روض الریاحین از امام یافعی رحمہ اللہ (
اس لیے اہل السنت والجماعت؛ اولیاء اللہ کے واقعات وحکایات کے ذکر کرنے کو جائز بھی سمجھتے ہیں اور امید رکھتے ہیں۔
احب الصالحین ولست
 
منہم
 
لعل اللہ یرزقنی

صلاحا

میں اولیاء اللہ سے محبت کرتا ہوں اگرچہ میں خود ولی نہیں ہوں شاید اللہ تعالیٰ ان کی بدولت مجھے بھی نیک بنا دے۔ )جاری ہے(