اقبال اور مُلَّا

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
اقبال اور مُلَّا
……… مولانا عابد جمشید رانا
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
علامہ اقبال مرحوم کی شاعری میں استعمال شدہ ”ملّا“ اور مجاہد کی اصطلاح کافی معروف ہے۔ مرحوم کی شاعری میں ملّا پر سخت تنقید ملتی ہے۔ لیکن جہاں پر بھی علامہ نے ملّا پر طنز یا تنقید کی ہے اس کے سیاق و سباق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ کس وجہ سے ملّا پر نالاں ہیں۔ ایک جگہ پر علامہ اقبال ملّا کو مجاہد کے ضد کے طور پربھی پیش کرتے ہیں۔ ملّاکے سلسلے میں علامہ کے کچھ اشعارملاحظہ ہوں:
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں
 
لیکن
 
ملّا کی اذاں اور مجاہد
 
کی اذاں اور
مزید ملاحظہ ہو:
وہ مذہب مردان خود آگاہ و

خدا مست

یہ مذہب ملّا و جمادات و

نباتات

مزید ملاحظہ ہو:
ملّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی

اجازت

ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام
 
ہے آزاد
ایک نظم” ملّائے حرم“ میں یہ فرماتے ہیں:
عجب نہیں کہ خدا تک تری

رسائی ہو

تری نگہ سے ہے پوشیدہ آدمی

کا مقام

تری نماز میں باقی جلال ہے، نہ

جمال

تری اذاں میں نہیں ہے مری

سحر کا پیام

ہماری سعی پیہم کی کرامت ہے

کہ آج

صوفی و ملّا ملوکیت کے بندے

ہیں تمام

ملّا کی مستی گفتار پر یہ ارشاد ہے:
صوفی کی طریقت میں فقط مستی

احوال

ملّا کی شریعت میں فقط مستی

گفتار

ان اشعار سے ملّا کی اندھی مخالفت کے بجائے اس بات کی وضاحت ملتی ہے کہ علامہ اقبال کیوں ملّا سے ناراض ہیں۔ دین میں جمود، اپنے اور آدمیت کے مقام کا ادراک نہ کرنا، اجتماعی زندگی سے دین کو الگ رکھ کر صرف عبادات تک محدود رکھنا، ظلم وناانصافی کے آگے جھکنا، دین پر عمل کرنے کے بجائے صرف زبانی نصیحتوں پر اکتفا کرنا وغیرہ۔
اس سب کے باوجود علامہ مرحوم ایسے ملّا کی قدر بھی کرتے تھے جو مسلمانوں میں ملی غیرت باقی رکھنے میں کوشاں ہوں۔ ابلیس کی زبان سے علامہ یوں کہلوا رہے ہیں :
افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے

یہ علاج

ملّا کو ان کے کوہ دمن سے

نکال دو

الغرض علامہ کلی معنوں میں ملّا کے مخالف نہیں تھے۔دراصل پچھلی کچھ صدیاں علمی اعتبار سے مسلمانوں کے زوال کی صدیاں رہی ہیں اور یہ زوال سب سے زیادہ اس گروہ پر آیا جو دین کا محافظ اور نگران سمجھا جاتا تھا بلکہ اگر یہ زوال اس گروہ میں نہ آیا ہوتا تو مسلمانوں کو زوال دیکھنا ہی نہ پڑتا۔ حالات اور وقت کی تبدیلیوں کی قیادت یورپ کے ہاتھوں میں تھی۔ مسلمان ان تبدیلیوں کے چیلنج کا مقابلہ تو در کنار ان تبدیلیوں کو سمجھ ہی نہ سکے۔بدلتے ہوئے چیلنج کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہمارا روایتی دینی حلقہ ان کامقابلہ کرنے کے قابل نہ ہوسکا۔
ایک طرف مسلمانوں کی قیادت علماء کے ہاتھوں سے نکل رہی تھی اور دوسری طرف پڑھا لکھا مسلمان مغرب کا اثر لے رہا تھا اور پھر اس دینی حلقہ کو کچھ ادراک ہی نہ تھا کہ یہ تبدیلی کس طرح کی ہے۔ایسی کیفیت میں ان دین دار حلقوں نے جس طرح کارویہ اختیار کیا اس کی وجہ سے دینی حلقے اور تعلیم یافتہ حلقوں میں بُعد بلکہ مخالفت پیدا ہوگئی۔ وہ تعلیم یافتہ حلقہ جو کسی بھی طرح سے دین کی ترویج کی راہ نکال کر دے رہاتھا اُس سے بھی اس کی نہ بنی اور علماء اپنے ذہنی جمود کی وجہ سے اپنے اندر کوئی تبدیلی اور ڈائنا مزم نہیں لا سکے۔
علامہ اقبال کی ملّا پر تنقید اسی جمود پر رد عمل ہے۔
اصولی طور پر کسی پر اگر لعن طعن کرنا ہو تو اس کی وجہ واضح ہونی چاہیے۔ بے معنیٰ اور لغو طعن کسی بھی طرح سے اخلاق کے دائرے میں نہیں آتا۔
لیکن آج کے دورمیں ملّا اس لیے نشانہ بن رہا ہے کیوں کہ اس نے علامہ اقبال سے سبق سیکھ کر اپنے اندر تبدیلی پیدا کردی۔بلکہ آج کے اس دور میں ملّا پر لعن طعن کرتے ہوئے یہی بات واضح نہیں ہے کہ ملّا سے یہاں کیا مراد ہے؟ کیا کسی مدرسے کا مولوی؟ یا کوئی دیندار شخص، یا ترقی پسند تحریک کا مخالف، منٹو اور عصمت چغتائی کے طرز تحریر کا نقاد، سیکولرزم اور جدت پسندی کو دلائل سے پچھاڑ دینے والا؟ سوال یہ ہے کہ ملّا کو ملّا ہونے پر نشانہ بنایا جارہا ہے یامجاہد ہونے پر؟ ملّا کوظلم کا غلام بننے پر نشانہ بنایا جارہا ہے یا استعمار مخالفت پر؟ ملّا کو دین کی انفرادی تعبیر پر نشانہ بنایا جارہا ہے یا دین کی اجتماعی تعبیر پر؟ ایک ابہام ہے اور اس ابہام کے پردے میں اندر کا پورا کا پورا بغض اتارنے کی پوری آزادی۔
حقیقت یہ ہے ملّا کے طعنے دلیل کا متبادل بن گئے ہیں۔ ایک طرف علامہ اقبال فرسودگی، جمود اور ملوکیت کی غلامی پر ملّا پر تنقید کر رہے ہیں اور آج وہ حلقہ جو مغرب سے درآمد شدہ فرسودگی، اور مغرب کے شکست خوردہ فکری اور معاشی نظریات کی اندھی تقلید کا قائل ہے وہ ملّا پر طعن کرتا نظر آتا ہے۔یعنی بات بالکل الٹ ہوگئی ہے۔ دینی حلقوں میں روایتی علماء کی جگہ اپنی تمام خامیوں کے باوجود ایسا حلقہ موجود ہے جو وقت کے چیلنج کو سمجھ کر ڈٹا ہوا ہے۔ لیکن یہ مغربی نظریات کے گند میں آلودہ بوسیدہ ذہن ملّا کے پیچھے پڑا ہوا ہے اس کی وضاحت کے بغیر کہ اس سے کون سا ملّا مراد ہے؟
حقیقت یہی ہے علامہ اقبال جس ملّا کو مخاطب کر رہے ہیں اس کا متبادل آج کے دور کی وہ بوسیدہ ذہن نسل ہے جس نے ایک عمر سرخ سویرے کے انتظارمیں گزاردی اور جب یہ سرخ سویرا افغان ملّا کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچ گیا تو ادب کے نام پر اس ملّا کے پیچھے پڑا ہے جس کی ضربوں نے ان کے خوابوں کی حقیقت ان کو دکھلادی۔ اس ملّا کا متبادل وہ ذہن بھی ہے جو ایک عرصے سے مغرب کے سماجی و سیاسی نظریات کو عقیدے کا حرف آخر سمجھتا رہا اور اب جا کر پتہ چلا ہے کہ یہ سخت جان ملّا ان نظریات کے پرخچے اُڑا سکتا ہے۔کوشش کے باوجود یہ سرخ اور مغربی ملّا اپنی تمناؤوں اور حسرتوں کی لاش سے اُٹھتے ہوئے تعفن کو چھپا نہیں پاتا۔
پچھلے دور کے ملّا کا بھی یہ المیہ تھا کہ ایک عرصہ تک ایک مخصوص سوچ کے ساتھ گزارنے کے بعد اور کچھ مخصوص اساتذہ کی تعلیمات کو حرف آخر سمجھنے کے بعد ان کواپنے آپ کو تبدیل کرنا ناممکن ہوگیاتھا۔ بالکل یہی مسئلہ اس فرسودہ ذہن نسل کا بھی ہے کہ ایک رخ پر اتنی دورچلنے کے بعد کسی طرح بھی اپنے آپ کو پلٹنے پر آمادہ نہیں کرپاتے۔ بقول شاعر
کعبہ کس منہ سے جاؤ

گے غالب

شرم تم کو مگر نہیں آتی
حیرت کی بات یہ ہے ابلاغی میدان میں ملّا کے طعنے ان کے لیے بھی دھڑادھڑ استعمال ہورہے ہیں جو وقت کے چیلنج کا سامنا بڑی جواں مردی سے کر رہے ہیں۔کہنے کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ آج کے دور میں ایسے ملّا نہیں پائے جاتے جن کو علامہ اقبال نے نشانہ بنایا تھا۔ لیکن اقبال کی نظیر کو پیش کرکے اس طرح سے ملّا پر اعتراض کرنا کہ یہ پتہ بھی نہ چلے کہ کس قسم کے ملّا پر اور کیوں اعتراض کیا جارہا ہے کسی بھی طرح معقول طرز عمل قرار نہیں دیا جاسکتا اور ان کی طرف سے ملا پر فقرے کسنا جو کہ اقبال کی فکر سے غیر اعلانیہ طور اپنے اندر پر شدید بغض پال رکھے ہوں اپنے میں ایک عجیب تناقض ہے۔
پرانی شاعری میں واعظ، زاہد وغیرہ کی اصطلاحات پر اور آج کے دور میں مولوی پر بھی ادب کے نام پر پھبتی کسی جاتی ہے۔ غالب وغیرہ کی پرانی شاعری پڑھنے سے یہ لگتا ہے کہ اپنی اخلاقی بے راہ روی کو جواز فراہم کرنے کے لیے اردو شاعری میں اس طرح کی چیزیں پائی جاتی تھیں۔ اگرچہ کہ یہ اخلاقی اعتبار سے انتہائی پست چیز ہے لیکن اردو ادب میں یہ روایت بن چکی ہے اور یہ کوشش عبث ہے کہ اردو ادب کو اس سے پاک کیا جائے۔ مقبول عام پرانی شاعری میں شاعر اپنی کسی ادبی کمزوری کو چھپانے کے لیے اس طرح کی حرکت کرتا نہیں پایا جاتا تھا۔ بلکہ انتہائی معیاری شاعری میں ایک آدھ اس طرح کے اشعار پائے جاتے ہیں اور شعراء کے کلام کے مجموعے میں اس کا تناسب انتہائی کم نظر آتا ہے اور ملّا پر جس طرح پھبتیاں کسی جاتی تھیں اس میں ادبی معیار کا بھی لحاظ رکھا جاتا تھا کہ اس کا نشانہ بننے والے خود اس سے لطف اندوز ہوں۔لیکن اس روایت کا فائدہ اٹھا کر ماشاء اللہ اب ایسے شعراء کی افزائش بھی ہورہی ہے جو شاعری کے بجائے تک بندی بلکہ نثر بندی کرتے ہیں اور انہیں شعر لکھنے کے لیے کوئی موضوع نظر نہیں آتا تو مولوی بے چارہ نشانہ بن جاتا ہے اور وہ بھی ایسے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ مولوی کی کس بات پر اس کو مشق ستم بنایا جارہا ہے۔
چونکہ کچھ وجوہات کی بنا پر آج بھی ایک پڑھا لکھا شخص اپنے آپ کو ”مولوی“ یا ”مولویت“ سے متعلق پیش نہیں کرنا چاہتا اس لیے یہ ایک انتہائی آسان نسخہ ہے بلکہ اگر کوئی سرپھرا مولویت کا دفاع کرتا نظر بھی آئے تو اس کو ایک تنگ نظر کے طور پر پیش کرنا انتہائی آسان ہے۔
اس سے ایک بہت بڑا فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ ادب جس میں مولوی کو نشانہ بنایا گیا ہے اس کے معیار کی جانچ ہی نہیں ہوپاتی۔ آپ جتنا بھی بے تکا بھونڈا اور لغو ادب پیش کریں کہیں نہ کہیں سے داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے والے نظر آہی جاتے ہیں۔ ایسے میں ایک ادبی ذوق رکھنے والے شریف انسان کو خاموشی میں ہی عافیت نظر آتی ہے۔
اس طرح کے نیچ ادب کے ساتھ وہ فرسودہ نسل بھی ساتھ ہوجاتی ہے جوملّا کی غیرت اور بیداری کی وجہ سے اپنے خوابوں کی تعبیر نہیں دیکھ سکی اور نہ ہی دیکھنے کا کوئی امکان پاتی ہے۔