فضائل اعمال پر اعتراضات کا علمی جائزہ

User Rating: 2 / 5

Star ActiveStar ActiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط نمبر 6 : کشف سے متعلق
فضائل اعمال پر اعتراضات کا علمی جائزہ
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن ﷾
شیخ الحدیث قطب العصر مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”فضائل اعمال “ میں جہاں اولیاء اللہ کے واقعات درج کیے ہیں، وہاں ان کی کرامات اور کشف وغیرہ بھی ذکر کیے ہیں۔کرامات کی بحث [ معنی ٰ ، ثبوت ، شرعی حکم وغیرہ ] تفصیل کے ساتھ گزر چکی ہے۔ اب چند باتیں” کشف“ سے متعلق تحریر کی جاتی ہیں۔

1)

کشف کا معنیٰ

2)

کشف کی قسمیں

3)

کشف کا ثبوت

4)

کشف کا شرعی حکم
کشف کا معنیٰ:
اولیاء اللہ کو اللہ تبارک وتعالیٰ ایسی باتیں اور چیزیں ، سُجھا ، بتلا یا دکھلا دیں جو بظاہر چھپی ہوئی ہوں اور عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو۔
کشف کی قسمیں:
کشف کی دو قسمیں ہیں: کشف تکوینی اور کشف الہٰی۔
کشفِ تکوینی:
پہلے اس کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے کہ کشفِ تکوینی یا کشف ِ کونی ایسے کشف کو کہتے ہیں جس میں اللہ کی طرف سے کسی اللہ کے ولی کو کسی چیز کا حال معلوم ہوجائے۔ جگہ اور زمانے کی دوری اس کے درمیان حائل نہ ہو۔
کشفِ الہٰی:
اسے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ ولی کے دل پر علوم واسرار، معارف حقائق اور خدا کی ذات وصفات کی حقیقت سے واضح ہوجائے اور یہ چیزیں اس ولی کو مثالی صورت میں دکھائی دیں۔
)باختصار شریعت وطریقت ص 33(
کشف کا ثبوت احادیث مبارکہ سے :
کشف ایک خاص حالت اور کیفیت کا نام ہے جو محض اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے اس کا اس وجہ سے انکار کرنا کہ ہماری عقل میں نہیں آتا سراسر نادانی ہے۔ چونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کار فرما ہوتی ہے اس لیے اس کو ماننے میں تردد سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اب ہم ذیل میں چند حوالہ جات اس کے ثبوت میں ذکر کرتے ہیں۔ جن سے یہ واضح ہوجائے گا کہ کشف کی حقیقت کیا ہے ؟
صحیح بخاری کا حوالہ:
عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ….أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ…….قَالَ يَا سَعْدُ بْنَ مُعَاذٍ الْجَنَّةَ وَرَبِّ النَّضْرِ إِنِّي أَجِدُ رِيحَهَا مِنْ دُونِ أُحُدٍ۔
) صحیح بخاری رقم 2805(
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ان کے چچا حضرت انس بن نضر کا یہ فرمان غزوہ احد کے موقعہ پر منقول ہے کہ انہوں نے حضرت سعد بن معاذ کومخاطب کرتے ہوئے کہا: اے سعد ! قسم ہے میرے پرودگار کی! میں احد پہاڑ کے پیچھے سے جنت کی خوشبو کو سونگھ رہاہوں۔
اس حدیث کے فائدہ کے ذیل میں حکیم الامت مولانا شرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عالم غیب کی اشیاء کا منکشف ہونا ایک حال رفیع(بلند مرتبہ ) ہے جب اتباع شرع( شریعت کی اتباع) بھی ساتھ ہو۔
)التکشف عن مہمات التصوف ص: 576(
صحیح مسلم کا حوالہ:
عن سعد قال رأيت عن يمين رسول الله صلى الله عليه وسلم وعن شمالہ يوم أحد رجلين عليهما ثياب بياض ما رأيتهما قبل ولا بعد یعنی جبرئیل و میکائل۔
) صحیح مسلم رقم: 2306(
ترجمہ: حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جنگ احد کے دوران میں نے اللہ کےنبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں جانب اور بائیں جانب دو شخصوں کو دیکھا جنہوں نے سفید لباس پہن رکھا تھا وہ دونوں اس قدر بے جگری سے لڑ رہے تھے نہ تو میں نے ان سے پہلے ان جیسا کسی کو دیکھا نہ بعد میں یعنی جبرائیل اور میکائیل۔
صحیح بخاری کا حوالہ:
عَنْ أُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ قَالَ بَيْنَمَا هُوَ يَقْرَأُ مِنْ اللَّيْلِ سُورَةَ الْبَقَرَةِ وَفَرَسُهُ مَرْبُوطَةٌ عِنْدَهُ إِذْ جَالَتْ الْفَرَسُ فَسَكَتَ فَسَكَتَتْ فَقَرَأَ فَجَالَتْ الْفَرَسُ فَسَكَتَ وَسَكَتَتْ الْفَرَسُ ثُمَّ قَرَأَ فَجَالَتْ الْفَرَسُ فَانْصَرَفَ وَكَانَ ابْنُهُ يَحْيَى قَرِيبًا مِنْهَا فَأَشْفَقَ أَنْ تُصِيبَهُ فَلَمَّا اجْتَرَّهُ رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ حَتَّى مَا يَرَاهَا فَلَمَّا أَصْبَحَ حَدَّثَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اقْرَأْ يَا ابْنَ حُضَيْرٍ اقْرَأْ يَا ابْنَ حُضَيْرٍ قَالَ فَأَشْفَقْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ تَطَأَ يَحْيَى وَكَانَ مِنْهَا قَرِيبًا فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَانْصَرَفْتُ إِلَيْهِ فَرَفَعْتُ رَأْسِي إِلَى السَّمَاءِ فَإِذَا مِثْلُ الظُّلَّةِ فِيهَا أَمْثَالُ الْمَصَابِيحِ فَخَرَجَتْ حَتَّى لَا أَرَاهَا قَالَ وَتَدْرِي مَا ذَاكَ قَالَ لَا قَالَ تِلْكَ الْمَلَائِكَةُ دَنَتْ لِصَوْتِكَ وَلَوْ قَرَأْتَ لَأَصْبَحَتْ يَنْظُرُ النَّاسُ إِلَيْهَا لَا تَتَوَارَى مِنْهُمْ۔
) صحیح بخاری رقم :5017(
ترجمہ: حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایک رات سورۃ البقرہ کی تلاوت کر رہے تھے ان کو گھوڑا پاس بندھا ہوا تھا۔ اچانک گھوڑا اچھلا ( اس کے اچھلنے کودنے کی وجہ سے ) میں نے تلاوت روک دی۔ گھوڑا بھی ٹھہر گیا، میں نے پھر تلاوت شروع کی تو گھوڑا پھراچھلنے لگا پھر میں نے تلاوت روکی گھوڑا ٹھہر گیا۔ پھر تلاوت شروع کی ان کا بیٹا یحیٰ جوان کے قریب تھا وہاں سے اسے ہٹا لیا۔ پھر نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی تو ایک سائبان نظر آیا۔ جس میں چراغوں کی طرح معلوم ہوئیں۔ صبح کو یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوبتایا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ فرشتے تھے۔ جب تم تلاوت کررہےتھے توتمہاری آواز کے قریب آ گئے تھے۔ اگر تم پڑھتے (ہی) رہتے تو صبح تک یہ فرشتے یہاں رہتے حتی کہ لوگ ان کو اپنی سر کی آنکھوں سے دیکھ لیتے۔
کشف کا شرعی حکم :
جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے کسی ولی کو ایسی بات یا چیز بتلا یا دکھلادیتے ہیں ، جو عام لوگوں سے اوجھل ہوتی ہے چونکہ اس میں بندے کا اختیار نہیں بلکہ اللہ کی قدرت کار فرماہوتی ہے اس لیے اس کو ماننے میں کوئی قباحت نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کو تسلیم کرنا ہے۔
وضاحت:
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ سے بعض لوگوں نے سوال کیا کہ ” بعض اولیاء اللہ کے بارے میں یہ جو کہا جاتا ہے کہ فلاں اللہ کا ولی ”صاحبِ کشف “ہے تو اس کا معنیٰ کیاہے ؟وہ بندہ اپنے ارادے اور اختیار سے مخفی اور حالات سے باخبر ہوجاتاہے، یا اللہ کے فضل وکرم اس کے ارادے میں شامل حال ہوجاتاہے۔؟ اس کے جواب میں حضرت رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کشف کبھی تو بندے کے ارادہ سے حاصل ہوتاہے کبھی بغیر ارادے کے اور کبھی اس کے ارادے اور کوشش کے باوجود بھی حاصل نہیں ہوتا۔ مختصر یہ کہ کشف وکرامات بندے کے اختیار میں نہیں ہوتے۔ ہاں ایسے ہوتا ہے کبھی بندے نے کشف کےلیے ارادہ کیا اور اس وقت اللہ کی مددشامل حال ہوگئی۔
کشف کی حالت دائمی نہیں ہوتی:
یہ بات بھی یاد رکھیں کہ کسی بھی اللہ کے ولی کی حالتِ کشف نہ تو دائمی ہوتی ہے اور نہ اختیاری بلکہ کبھی کبھار اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حالت نصیب ہوجاتی ہے۔ کبھی معلوم بھی نہیں ہوتا کہ ہم نے کشف میں کیا دیکھا؟ جیساکہ حضرت اسید بن حضیر کے واقعے میں حضرت اسید کو یہ علم نہ ہوا کہ وہ چراغوں کی مثل کیا چیزیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتانے پر معلوم ہوا کہ ملائکہ [ فرشتے ]ہیں۔
عوام الناس کی غلط فہمی کاازالہ:
بعض لوگوں کو اولیاء اللہ کے بارے میں حد سے تجاوز کرتے دیکھا گیا ہے کہ وہ کشف وکرامات کو بزرگوں کے اختیاری کام سمجھتے ہیں۔ لوگوں کی اس بدعقیدگی اور فاسد غلطی کی اصلاح کرتے ہوئے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں کہ
” بعض اہل غلو کا اعتقاد ہے کہ کشف؛ بزرگوں کا اختیاری فعل ہے جب چاہیں جس واقعے کو چاہیں معلوم کر لیتے ہیں ، بعض سمجھتے ہیں کہ بزرگوں کو ہر وقت ہر واقعہ معلوم رہتا ہے۔ اس ( حدیث جابر جو بخاری ومسلم میں ہے) واقعہ سے دونوں خیالوں کی غلطی ثابت ہوتی ہے۔ ایسے اعتقاد والوں کو اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔“
)التکشف عن مہمات التصوف ص 507(
کشف اور آج کا زمانہ:
چونکہ دنیا میں ہر وقت اہل اللہ موجود ہوتے ہیں اور ان سے کرامات اور مکاشفات کا صدور ہوتا رہتا ہے۔ لہٰذا آج کے دور میں بھی اولیاء اللہ کو کشف ہو سکتا ہے۔ کشف کا انکار کرنا نصوص صریح کا انکار کرنے کے مترادف ہے۔ اس سے بچنا چاہیے اور ہر ولی کو ہر وقت ہر معاملہ میں بذات خود ( بغیر اللہ کی عطا کے) صاحبِ کشف سمجھنا بھی گمراہی ہے۔
اعتدال بہت ضروری ہے :
افراطِ وتقریظ سے بچ کر اعتدال کی راہ پر چلتے ہوئے یہ نظریہ رکھنا چاہیے کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی اپنے ولی کو کوئی واقعہ یامعاملہ بتانا یا دکھلانا چاہیں تو اسے ” منکشف“ فرما دیتے ہیں اور ولی کو” کشف“ ہوجاتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اس معاملہ کو نہ دکھانا اور نہ بتانا چاہیں تو ولی اپنے ذاتی اختیار سے کسی مخفی امر کا انکشاف نہیں کر سکتا۔ نہ تو بالکل کشف وکرامات کا انکار کیا جائے اور نہ ہی ایسے معاملات میں اولیاء اللہ کو ذاتی اختیارات سونپے جائیں۔ اللہ ہمارے ایمان وعمل کی حفاطت فرمائے۔
بہرحال! فضائل اعمال میں درج اولیاء اللہ کے مکاشفات کا انکار کرنا دینی علوم سے دوری کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں علمِ دین پر اخلاص کے ساتھ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
…………) جاری ہے(