فضائل اعمال پر اعتراضات کا علمی جائزہ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
قسط نمبر 7: تصوف سے متعلق[الف ]
فضائل اعمال پر اعتراضات کا علمی جائزہ
……… متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن ﷾
شیخ الحدیث قطب العصر مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”فضائل ِ اعمال“ میں صوفیاء کرام کے چند واقعات بھی نقل فرمائے ہیں۔ جن پر اعتراض کرنے والوں نے بہت واہی تباہی مچائی ہے۔ انہوں [اعتراضات کرنے والوں] نے صوفیاء کرام رحمہم اللہ کو آج کل کے جعلی پیروں اور عاملوں کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے جہاں غلط بیانی سے کام لیا وہاں وہ تصوف کو قرآن و سنت سے متصادم اور متوازی ایک دین تصور کر بیٹھے ہیں۔ اس غلط فہمی کا نتیجہ بہت دور تک چلا جاتا ہے۔ جس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی بھی محفوظ نہیں رہتی۔ ہم ان شاء اللہ قدرے تفصیل اور دلائل کے ساتھ اس پر ایک اصولی بحث پیش کرنے لگے ہیں۔

تصوف کی تعریف۔

تصوف کا ثبوت۔

تصوف کی ضرورت۔

ترکِ تصوف کے نقصانات۔

افعالِ تصوف اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے چند پہلو۔

بیعت کی شرعی حیثیت۔

خانقاہوں کا وجود اور ان کی اہمیت۔

تصوف اور انسان کی عملی زندگی۔
تصوف کی تعریف :
تصوف کی تعریف میں امت محمدیہ کے نامور مشائخ عظام رحمہم اللہ نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق مختلف مقامات پراپنی آراء کا اظہار کیا ہے۔ ”شیخ ابراہیم بن مولد رقی رحمہ اللہ“نے اپنی کتاب میں تقریباً ایک سو سے زائد اقوال جمع کیے ہیں جبکہ شیخ شہاب الدین سہروردی رحمہ اللہ [چھٹی صدی ہجری میں ان کی وفات ہوئی ہے ] نے ”عوارف المعارف“ میں ان اقوال کی تعداد ایک ہزار سے بھی متجاوز بتلائی ہے۔
کشف المحجوب کا حوالہ :
حضرت ابو الحسن سید علی بن عثمان ہجویری رحمہ اللہ [ غالباً ان کی وفات پانچویں صدی ہجری میں ہے ] اپنی شہرہ آفاق کتاب کشف المحجوب میں حضرت مرتعش رحمہ اللہ کے حوالے سےتصوف کی تعریف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
التصوف حسن الخلق۔تصوف حسن خلق کا نام ہے۔ خصائل حمیدہ تین قسم کے ہیں۔
پہلی : یہ کہ اوامر الہیہ ادا کرنے میں کسی قسم کا ریا اور دکھاوا نہ ہو اور اپنے رب کی رضا مندی کی طلب میں اس کے حقوق کی ادائیگی کا مکمل خیال کیا جائے۔
دوسری : عوام کے ساتھ نیک خصلت ہو بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر رحم اور ہر معاملہ میں انصاف پسند ہو اس میں کسی قسم کا معاوضہ حاصل کرنا مطلوب نہ ہو۔
تیسری: اپنے آپ کو شیطانی خواہشات سے بچاتا رہے اور ہر طرح کی حرص اور [ بری ] خواہش نفسانی سے خود بچائے۔
دوسرے مقام پرسید علی بن عثمان ہجویری رحمہ اللہ؛ حضرت ابو علی قزوینی رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں:التصوف ھوا الاخلاق الرضیۃ۔ تصوف ایسے اخلاق اور خصلت کا نام ہے جس سے بندہ ہر وقت اور ہر حال میں اپنے رب کی رضا میں راضی رہے۔
عوارف المعارف کا حوالہ :
شیخ شہاب الدین سہروردی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”صوفی وہ ہے جو ہمیشہ تزکیہ نفس کرتا رہے اور اپنے قلب کو نفسانی آلائشوں سے صاف کر کے ہمیشہ اپنے اوقات کو کدورتوں سے پاک و صاف رکھے چونکہ وہ ہر وقت اپنے مولیٰ کے سامنے سرنیاز خم کرتا رہتا ہے اس لیے اس کی یہ نیاز مندی اس کا دل صاف کر کے کدورتوں کو دور کرتی ہے۔ “
) عوارف المعارف (
مکتوبات صدی کا حوالہ :
شیخ احمد یحییٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ[ م 782ھ ]نے ”مکتوباتِ صدی“ میں تصوف اور طریقت کی جوعام فہم تعریف کی ہے ، وہ نقل کرتے ہیں :
”طریقت کی راہ بھی شریعت ہی سے نکلتی ہے شریعت میں توحید ، نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ ، جہاد ، طہارت اور دوسرے احکام کا ذکر ہے ، طریقت کہتی ہے کہ ان معاملات کی حقیقت دریافت کرو اپنے اعمال کو قلبی صفائی سے آراستہ کرو ، اخلاق کو نفسیاتی کدروتوں سے پاک کرو۔ ظاہری تہذیب سے جس کو تعلق ہے وہ شریعت ہے اور تزکیہ باطنی سے جس کو لگاؤ ہے وہ طریقت ہے۔ کپڑے دھو کر پاک کرنا کہ اس سے نماز پڑھی جا سکے فعل شریعت ہے اور دل کو کدورت بشری سے پاک کرنا فعل طریقت ہے۔ نماز میں قبلہ رو کھڑے ہونا شریعت ہے اور دل سے اللہ کی طرف متوجہ ہونا طریقت ہے۔ بغیر شریعت کے طریقت کا ارادہ کرنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص بغیر سیڑھی کے[ دیوار کو پکڑ پکڑ کر ] چھت پر چڑھنے کی کوشش میں لگا رہے۔ “
)مفہوماً مکتوبات صدی از شیخ منیری رحمہ اللہ (
تصوف کا ثبوت:
تصوف کی تعریف میں یہ واضح ہو گیا کہ اصلاحِ باطن اور تزکیہ قلب کا نام تصوف ہے۔ اس لیے جتنی بھی آیات اور احادیث اصلاح باطن اور تزکیہ قلب کے بارے میں موجود ہیں وہ تمام آیات و احادیث اس کے ثبوت کے لیے کافی ہیں۔
سورۃ الانعام کا حوالہ :
قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
وَذَرُوْا ظَاہِرَ الْاِثْمِ وَ بَاطِنَہ۔
)سورۃ الانعام آیت نمبر 120 (
ترجمہ : ظاہری اور پوشیدہ گناہوں کو چھوڑ دو۔
تفسیر احکام القرآن للجصاص کا حوالہ :
و یجوز ان یکون ظاھر الاثم ما یفعلہ الجوارح ، و باطنہ ما یفعلہ بقلبہ من الاعتقادات۔
) احکام القرآن للجصاص ج 3 ص 10(
ترجمہ : )لفظ( ظاہر الاثم سے مراد انسان کے ظاہری اعضاء سے صادر ہونے والے گناہ ہیں اور باطنہ سے مراد قلبی افعال [ اعتقادات وغیرہ ]ہیں۔
تفسیرالجامع لاحکام القرآن کا حوالہ :
ان الظاہر ما کان عملا بالبدن مما نھی اللہ عنہ ، وباطنہ ما عقد بالقلب من مخالفۃ امر اللہ فیما امر و نھی۔
) الجامع لاحکام القرآن للقرطبی ج 1 ص 1227(
ترجمہ : ظاہر سے مراد وہ اعمال[ گناہ ] ہیں جن کا تعلق انسان کے ظاہری اعضاء سے ہےاور اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کاموں سے روکا ہےاور باطنہ سے مراد وہ قلبی افعال جو اللہ تبارک و تعالیٰ کے اوامر اور نواہی سے مخالفت پر مبنی ہیں۔
تفسیر خازن کا حوالہ :
المراد بظاہر الاثم افعال الجوارح و باطنہ افعال القلوب۔
)تفسیر خازن ج 2 ص 146(
ترجمہ : )لفظ( ظاہر الاثم سے مراد انسان کے ظاہری اعضاء سے صادر ہونے والے گناہ ہیں اور باطنہ سے مراد قلبی افعال ہیں۔
تفسیر مظہری کا حوالہ :
یعنی الذنوب کلہا ظاہرہا من اعمال الجوارح و باطنہا من اعمال القلب و صفات النفس۔
) تفسیر مظہری ج 3 ص 281(
ترجمہ : یعنی سارے کے سارے گناہ چھوڑ دو خواہ ان کا تعلق ظاہر سے ہو یعنی ظاہر سے مراد وہ گناہ جو انسان کے ظاہری اعضاء سے صادر ہوں خواہ ان کا تعلق باطن سے ہو یعنی باطنہ سے مراد وہ اعمال جن کا تعلق دل ہے اور نفس کی صفات سے ہے۔
حدیث جبرئیل کا حوالہ :
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حالت یہ ہوتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت شان اور علو مرتبت کے غلبے سے آپ سے بمشکل سوال کر پاتے۔ اس صورتحال کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سائل بنا کر بھیجا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چند سوال کیے ، جن کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوابات ارشاد فرمائے۔ بعد میں صحابہ کرام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم اس کو جانتے تھے ؟ یہ جبرئیل امین تھے جو تمہیں تمہارے دین کی تعلیم دلوانے آئے تھے۔ یہ حدیث؛ حدیث جبرئیل کے نام سے کئی معتبر کتب حدیث میں مذکور ہے۔
حضرت جبرئیل امین علیہ السلام کے سوالات کو اگر نگاہِ بصیرت سے دیکھا جائے تو تین اقسام پر مشتمل ہیں۔

ما الایمان ؟……………ایمان کیا ہے ؟[تصحیح عقائد سے متعلق ]

ماالاسلام ؟…………… اسلام کیا ہے ؟[اعمال ظاہری سے متعلق ]

ما الاحسان ؟…………… احسان کیا ہے ؟ [اصلاح باطن سے متعلق ]
انسانی زندگی انہی تینوں[تصحیح عقائد ، اعمال ظاہری اور اصلاح باطن ] کے گرد گھومتی ہے۔ پھر تاریخی حقیقت کو نظر انداز نہ کیا جائے اور انصاف سے کام لیا جائے تو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ

تصحیح عقائد کے لیے قرآن و سنت کی راہنمائی میں ”علم الکلام“ اور” علم العقائد“ مدون کیا گیا۔

اعمال ظاہری کیلیےقرآن و سنت کی راہنمائی میں ”علم الفقہ“ مدون کیا گیا۔

اور اصلاح باطنیہ کے لیے قرآن و سنت کی راہنمائی میں ”علم الاخلاق ، علم الاحسان“ اور ”علم التصوف “مدون کیا گیا۔
حضرت جبرئیل امین کے سوال کی اس جزو کے متعلق جو جواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرحمت فرمایا وہ تصوف کی بنیاد ہے۔ جیسا کہ حضرت الشیخ مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ ایک مقام پر تحریر فرماتے ہیں :”تصوف کی ابتداء انما الاعمال بالنیات [ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ] اور انتہاء ان تعبداللہ کانک تراہ [ بندہ اپنے رب کی عبادت ایسے کرے گویا وہ اسے دیکھ رہا ہے]“
تصوف کے ثبوت کے لیے یہ دلائل کافی ہیں۔ باقی اجزاء پراصولی اور علمی بحث ان شاء اللہ اگلی قسط میں۔
…………) جاری ہے(