امام محمد رحمہ اللہ کی چند کتب

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
تعارف کتب فقہ :
مفتی محمد یوسف ﷾
امام محمد رحمہ اللہ کی چند کتب(3)
قارئین! آپ کو یاد ہوگا گزشتہ قسط میں ہم نے یہ وضاحت کی تھی کہ امام محمد رحمہ اللہ کی چھ مشہور کتب ہیں ،جنہیں” کتب ظاہرالروایۃ“ کہاجاتا ہے۔ کتاب المبسوط الجامع الصغیر اور الجامع الکبیر کا تعارف ہوچکا ،اب السیر الصغیر اور السیر الکبیر کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے۔
السیر الصغیر:
سِیَر؛ سیرت کی جمع ہے، اس کا معنیٰ ہے عادت و خصلت۔ شرعی اصطلاح میں یہ لفظ آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات کے ساتھ خاص ہے ، امام نسفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
السیر امور الغزو کالمناسک امور الحج۔
)قواعد الفقہ ص331(
ترجمہ: جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امور حج کو ”مناسک“ کہا جاتا ہے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امور حرب و قتال پر” سیر“ کا اطلاق ہوتا ہے۔
ملحوظہ:
کتاب کا نام دو لفظوں کا مجموعہ ہے، پہلے لفظ کو سیر ، س کے زبر اور ی کے جزم کے ساتھ پڑھنا غلط ہے۔ دراصل یہ لفظ سیر س کے زیر اور ی کے زبر کے ساتھ جمع کا صیغہ ہے۔ ان دو لفظوں میں فرق کرنا ضروری ہے جیسا کہ علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ نے ان دونوں میں فرق کرتے ہوئے تنبیہہ فرمائی ہے کہ بعض ناواقف لوگ ان دو لفظوں میں فرق نہیں کرتے وہ سِیَر کو سَیْر پڑھتے ہیں۔
)شرح عقود رسم المفتی ص27(
”السیر الصغیر“ بھی کتب ظاہر الروایۃ میں داخل ہے۔ یہ کتاب کِن مباحث پر مشتمل ہے ؟ اس میں کون سے مضامین زیر بحث لائے گئے ہیں؟ اس بارے میں کوئی حتمی رائے دینا اس لیے مشکل ہے کہ کتاب ہمیں میسر نہیں۔ البتہ شیخ ابو زہرہ مصری رحمہ اللہ نے اس کتاب کے مضامین پر روشنی ڈالی ہے۔
شیخ مرحوم السیر الصغیر اور السیر الکبیر کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:
یہ دو کتب احکام جہاد ان کے جائز و ناجائز مسائل و احکام ،صلح و نقض مصالحہ، احکام امان،احکام غنائم،فدیہ و غلامی کے مسائل حرب و پیکار میں پیش آنے والے مسائل اور ان کے نتائج کی تفصیلات پر مشتمل ہیں۔
)حیا ت حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ مترجم ص378(
السیر الصغیر؛امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ان مسائل پر مشتمل ہے جو آپ سے امام محمد رحمہ اللہ نے امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے واسطے سے روایت کیے ہیں۔ امام ابن عبد البر مالکی رحمہ اللہ ایک مسئلے کی تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وقد روی محمد بن الحسن فی السیر عن ابی یوسف عن ابی حنیفۃ ان المرتد یعرض علیہ الاسلام فان اسلم والا قتل مکانہ ، الا ان یطلب ان یوجل فان طلب ذالک اجل ثلاثۃ ایام۔
) الاستذکار ج7ص156(
ترجمہ: امام محمد رحمہ اللہ نے ”السیر الصغیر“ میں امام ابو یوسف رحمہ اللہ سےاور انہوں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ مرتد کو اسلام قبول کرنے کے لیے کہا جائے گا اگر اس نے اسلام قبول کرلیا تو ٹھیک ورنہ اسے وہیں قتل کردیا جائے گا۔ہاں البتہ اگر وہ مہلت طلب کرے تو اس کو تین دن تک مہلت دی جائے گی۔
شمس الائمہ امام سرخسی رحمہ اللہ نے” السیر الکبیر “کی شرح میں بیس سے زائد مقامات پر مختلف انداز سے ”السیر الصغیر“ کا تذکرہ کیا ہے ان میں سے اکثر مسائل میں یہ لکھا ہے کہ اس مسئلہ کی تفصیل ہم نے ”السیر الصغیر“ کی شرح میں بیان کردی ہے مثلاً: باب قتل الاساری والمن علیہم میں یہ جملہ لکھا وقد بینا تمام ھذا فی السیر الصغیر البتہ باب وصایا الامراء کے آغاز میں حدیث مبارک کے تحت یہ الفاظ تحریر کیے ہیں:
وقد بدأ محمد رحمہ اللہ السیر الصغیر بھذا الحدیث وقد بینا فوائد الحدیث ھناک۔
ترجمہ: امام محمد رحمہ اللہ نے اپنی کتاب”السیر الصغیر“ کی ابتداء اسی حدیث سے کی ہے اور حدیث سے متعلق فوائد ہم نے ادھر[ السیر الصغیر میں] ہی بیان کردیے ہیں۔
السیر الکبیر :
یہ کتاب بھی ان مضامین پر مشتمل ہے جو گزشتہ کتاب کے حوالے سے ذکر کیے گئے ہیں یوں کہہ لیجیے اس کتاب میں بھی جہاد، صلح و امان، مال غنیمت و مال فئے، فدیہ و جزیہ اور غلامی کے احکام بیان کیے گئے ہیں۔ نیز دشمن جاسوس اور دشمن قیدیوں کے ساتھ برتاؤ اور دار الکفر میں حدود اللہ کے نفاذ سمیت جنگ و حرب میں پیش آمدہ دیگر ہزاروں جائز وناجائز مسائل پر بحث کی گئی ہے۔
کتاب کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا طرز تحریر اور اسلوب نگارش تین طرح کا ہے :
1: امام محمد رحمہ اللہ کبھی کسی باب یا عنوان کے تحت مسئلہ کی ابتداء ہی فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے ہیں کبھی ایک اور کبھی ایک سے زائد احادیث لاتے ہیں پھر اسی مناسبت سے اپنا فقہی موقف بیان کرتے ہیں جیسا کہ باب وصایا الامراء اور باب الجراحۃ میں یہی طریقہ اختیار کیا ہے۔
2: کہیں ایسا بھی ہے کہ باب کی ابتداء میں اپنا فقہی مسئلہ پیش کرتے ہیں پھر اس کی تائید میں کوئی آیت کریمہ یا حدیث مبارک ذکر کرتے ہیں جیسا کہ
باب الفرار من الزحف ، باب صلوۃ الخوف ، باب سجدۃ الشکر، اور باب آنیۃ المشرکین وذبائحہم و طعامہم
، میں یہی اسلوب موجود ہے۔
3: ایسے مقامات بھی اس کتاب کا حصہ ہیں جہاں امام محمد رحمہ اللہ فقط فقہی مسئلہ ذکر کرنے پر اکتفا کیا ہے دلائل دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی
۔ مثلاً باب التفریق بین السبی،باب ماتجوز علیہ الشھادۃ بالردۃ ومالا تجوز اور باب من اسلم فی دار الحرب ولم یھاجر الینا
، وغیرہ۔
السیر الکبیر میں درج شدہ مسائل امام محمد رحمہ اللہ نے امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے بجائے بذات خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے نقل کیے ہیں بسا اوقات آدمی الجھن کا شکار ہوجاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے کون سے مسائل ایسے ہیں جنہیں امام امحمد رحمہ اللہ نے بواسطہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ نقل کیے ہیں اور کون سے ایسے ہیں جنہیں بلا واسطہ بذات خود نقل کیے ہیں؟ اس الجھن کو سلجھن میں تبدیل کرنے کے لیے فقہاء کرام رحمہم اللہ نے ایک ضابطہ بیان کیا ہے، لیجیے ملاحظہ فرمائیے:
شیخ زین الدین ابن نجیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
کل تالیف لمحمد بن الحسن موصوف بالصغیر فھو باتفاق الشیخین ابی یوسف و محمد بخلاف الکبیر فانہ لم یعرض علی ابی یوسف۔
)البحرالرائق ج1ص579باب صفۃ الصلوۃ (
ترجمہ: امام محمد بن حسن رحمہ اللہ کی ایسی کتابیں جن میں لفظ” صغیر“ آتا ہے وہ امام موصوف نے امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے واسطے سے روایت کی ہیں البتہ جن کتابوں کے ساتھ لفظ” کبیر “آتا ہے وہ امام محمد رحمہ اللہ نے بذات خودامام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے نقل کی ہیں ، امام ابو یوسف رحمہ اللہ پر یہ کتابیں پیش نہیں کی گئیں۔
علامہ شامی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ان محمدا قرء اکثر الکتب علی ابی یوسف الا ما کان فیہ اسم الکبیر فانہ من تصنیف محمد کالمضاربۃ الکبیر والمزارعۃ الکبیر والماذون الکبیر والجامع الکبیروالسیر الکبیر
۔)شرح عقود رسم المفتی ص29(
ترجمہ: امام محمد رحمہ اللہ نے اپنی اکثر کتابیں امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے واسطے سے نقل کی ہیں البتہ لفظ” کبیر“ جن کتابوں کے نام کا حصہ ہے وہ امام محمد رحمہ اللہ نے بلا واسطہ روایت کی ہیں جیسے مضاربہ کبیر ، مزارعہ کبیر، ماذون کبیر، جامع کبیر اور سیر کبیر۔
امام محمدرحمہ اللہ نے مختلف موضوعات پر کتب تصنیف فرمائی ہیں البتہ ان میں سے فقہ کے موضوع پر جو سب سے آخری کتاب لکھی ہے وہ کون سی ہے؟ اس بارے میں امام محمد بن احمد السرخسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اعلم بان السیر الکبیر اخر تصنیف صنفہ محمد رحمہ اللہ فی الفقہ ولھذا لم یروہ عنہ ابو حفص رحمہ اللہ لانہ صنفہ بعد انصرافہ من العراق۔
)مقدمہ شرح کتاب السیر الکبیر ص3(
ترجمہ: فقہ کے موضوع پر امام محمد رحمہ اللہ کی سب سےآخری تصنیف ”السیر الکبیر“ ہے، یہی وجہ ہے کہ امام محمد رحمہ اللہ کے مایہ ناز شاگرد اور ان کی کتابوں کے راوی امام ابو حفص کبیر رحمہ اللہ نے یہ کتاب آپ سے روایت نہیں کی کیوں کہ یہ کتاب امام موصوف ن اپنے شاگرد امام ابو حفص کے عراق جانے کے بعد لکھی۔
السیر الکبیر اپنے موضوع پر امتیازی حیثیت کی حامل ہے، صرف اس بات سے اندازہ لگائیں کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ جیسے محدث اور حافظ ابو سعد سمعانی رحمہ اللہ جیسے صاحب علم کی مرویات اور نقل شدہ کتابوں میں یہ کتاب بھی شامل ہے، اس سے بڑھ کر یہ کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ”المعجم المفہرس“ میں اور حافظ سمعانی رحمہ اللہ نے ”معجم شیوخ“ میں اپنے سے لے کر امام محمد رحمہ اللہ تک اس کی سند بھی درج کردی ہے۔
) بحوالہ تلامذہ امام اعظم ابو حنیفہ کا محدثانہ مقام ص421(
امام طحاوی رحمہ اللہ ”السیر الکبیر“ کے حوالے سے ایک مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وذہب محمد بن الحسن بآخرہ فی السیر الکبیر الی انہ ان کان مامونا علیہ من العدو فلاباس بالسفر بہ الی ارضھم، وان کان خوفا علیہ منھم فلا ینبغی السفر بہ الی ارضھم۔
)شرح مشکل الآثار ج5ص167(
ترجمہ: امام محمد رحمہ اللہ کا آخری قول جو ان کی کتاب ”السیر الکبیر“ میں یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان دوران سفر دشمن کے علاقے میں قرآن کریم اپنے ساتھ لے جانا چاہے تو دیکھ جائے اگر اس بات کا یقین ہو کہ قرآن مجید دشمن کی دسترس سے محفوظ و مامون رہے گا تو ساتھ لے جانے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر کفار کی طرف سے بے حرمتی کیے جانے کا اندیشہ ہو تو پھر کلام اللہ شریف ساتھ نہ لے جایا جائے۔
شیخ ابو زہرہ مصری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: السیر الصغیر اور السیر الکبیر میں احکام اور آثار و اخبار سے ان کے دلائل نقل کیے گئے ہیں۔
)حیات امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ص380(
]ادارہ معذرت خواہ ہے[
سابقہ شمارہ ماہنامہ فقیہ بابت ماہ فروری 2014 میں لوح ایام میں مہمانان گرامی کے ذیل میں مفتی عبدالقدوس ترمذی کی مرکز تشریف آوری کی خبر میں غلطی سے مفتی عبدالشکور ترمذی لکھا گیا۔ موصوف کافی عرصہ قبل وفات پاگئے اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور مرحوم کے جانشین مفتی عبدالقدوس ترمذی کی عمر میں برکت عطا فرمائے ، مرکز میں مفتی عبدالقدوس ترمذی تشریف لائے تھے۔ ادارہ