قصر ِصحابیت اورتاریخ کے تیشے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

">قصر ِصحابیت اورتاریخ کے تیشے!!!

……مولانا عبدالمنان ﷾
صحابیت وہ مضبوط قلعہ ہے جس میں اسلام محفوظ ہے،قرآن و حدیث میں اس طبقے کو نجات دہندہ اور جنتی قرار دیا گیا ہے اب اس کے بعد تاریخ کے تیشوں سے اس عمارت کوتوڑنا تو درکنا اس کو خراش بھی نہیں پہنچائی جا سکتی۔
جوشخص کسی واقعے کے اسباب ،پس منظر اورسیاق وسباق سے واقف نہ ہو تو وہ محض واقعہ پڑھ کر اپنے ذہن کے مطابق کچھ بھی رائے قائم کرسکتا ہے۔ مثال کے طورپریہ جملہ دیکھیں ”شہزادہ جنگ جیت کرآیا توبادشاہ اس کا استقبال کرنے کی بجائے اپنی خلوت گاہ میں مقیم رہا۔“اب اس کا کوئی مطلب یہ نکالے گا کہ بادشاہ شہزاد ے سے ناراض تھا کوئی کہے گا بادشاہ ملکی امور سے سے لا تعلق تھا ،کوئی کہے گا بادشاہ کسی خاص پریشانی میں مبتلاتھا۔ کوئی کہے گا بادشاہ کو اس کی خوشی ہی نہیں ہوئی ،الغرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ درست بات وہی بتا سکتا ہے جوموقع پر موجود ہویابادشاہ کا رازدان ہو توبہتر یہ ہے کہ اسی سے معلوم کیا جائے حالانکہ بات صرف اتنی ہو کہ بادشاہ بیمار تھا۔ اصل بات رازدان ہی جا سکتا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےدین کے وارث علماء کرام ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ارشاد فرمایا: العلماء ورثۃ الابنیاء )علماء ابنیاء کے وارث ہیں (اب اگرکوئی شخص علماء کرام سے پوچھے بغیر محقق بننے کی کوشش کرے گا توگمراہی کا شکار ہو جائے گا۔ بعض لوگوں کوتاریخ پڑھنے کابہت شوق ہوتا ہے ، تاریخ کامطالعہ کرکے خود کومؤرخ سمجھنے لگتے ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےبارے میں منفی رائے قائم کر لیتے ہیں۔
مثلاً: فلاں صحابی نے ایساکیوں کیا؟فلاں نے ایساکیوں نہ کیا؟ حالانکہ صحابہ کرام کوپرکھنے کا معیار قرآن وحدیث ہے نہ کہ تاریخ ،تاریخی روایات اکثر غیرمستند ہوتی ہیں۔ لہٰذاجب تاریخ کا تقابل احادیث کی صحیح روایات سے ہوگا توتاریخی روایات کو بالکل نظراندازکردیا جائے گا۔ صحابہ کرام جن کی عظمت وشان ،مقام ومرتبہ قرآن وحدیث،اجماع امت اورنقل متواتر سے ثابت ہے،ان کے مقابلے میں تاریخی روایات کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔
سالار حریت شیخ العرب والعجم مولانا سیدحسین احمدمدنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:” صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں جوآیات وارد ہیں وہ قطعی ہیں ،جواحادیث صحیحہ ان کے متعلق واردہیں وہ اگرچہ ظنی ہیں مگران کی اسانید اس قدر قوی ہیں کہ تاریخ کی روایات ان کے سامنے ہیچ ہیں اس لیے اگرکسی تاریخی روایات میں اورآیات واحادیث صحیحہ میں تعارض واقع ہوگا توتواریخ کوغلط کہنا ضروری ہے۔ “
)مکتوبات شیخ الاسلام ج 1ص 264 (
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:” صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق ان قطعی اورمتواتر نصوص اوردلائل عقلیہ ونقلیہ کی موجودگی میں اگرروایات صحیحہ احادیث کی بھی موجود ہوتیں تومردودیامؤول قراردی جاتیں چہ جائیکہ روایات تاریخ۔ اب آپ اصول تنقید کوپیش نظررکھ کرکوئی رائے قائم کیجئے۔
) مکتوبات شیخ الاسلام ج1ص 287(
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدشفیع عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:” صحابہ کرام کی ذوات وشخصیات اوران کے مقام کا تعین تاریخی روایات کی بنیاد پرکرلینا درست نہیں کیونکہ یہ حضرات رسالت اورامت کےدرمیان واسطہ ہونے کی حیثیت سے ازروئے قرآن وسنت ایک خاص مقام رکھتے ہیں تاریخی روایات کا یہ درجہ نہیں ہے کہ ان کی بنا پران کے اس مقام کوگھٹایا یا بڑھا یا جائے جا سکے ،اس کا یہ مطلب ہرگزنہیں سمجھنا چاہیے کہ فن تاریخ بالکل ناقابل اعتبار وبیکارہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اعتماد کے بھی مختلف درجات ہوتے ہیں۔ اسلام میں اعتبارواعتماد کا جومقام قرآن کریم اوراحادیث متواترہ کا ہے وہ عام احادیث کا نہیں جوحدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ ہے وہ اقوال صحابہ رضی اللہ عنہم کا نہیں ،جوقرآن وسنت یا سندصحیح سے ثابت شدہ اقوال صحابہ کا ہے بلکہ جس طرح نص قرآنی کے مقابلے میں اگرکسی غیرمتواتر حدیث سے اس کے خلاف کچھ مفہوم ہوتا ہوتواس کی تاویل کرنا واجب ہے یا تاویل سمجھ میں نہ آئے تونص قرآنی کے مقابلے میں اس حدیث کاترک واجب ہے اسی طرح تاریخی روایات اگرکسی معاملہ میں قرآن وسنت سے ثابت شدہ کسی چیز سے متصادم ہوں تووہ بمقابلہ قرآن وسنت کے متروک یا واجب التاویل قراردی جائیں گی ،خواہ وہ تاریخی اعتبارسے کتنی ہی معتبر ومستندہوں۔
)مقام صحابہ ص 14تحت فن تاریخ کی اہمیت (
حافظ ابن حجرمکی رحمہ اللہ متوفی ٰ 976ھ فرماتے ہیں:جوشخص صحابہ کرام کے بارے میں کوئی بات سنے تواس پراس معاملہ کی تحقیق واجب ہے اورصرف کسی کتاب میں دیکھ لینے یا کسی شخص سے سن لینے کی بناپراس غلطی کو ان میں سے کسی کی طرف منسوب نہ کرے
) الصواعق المحرقہ ص216 فی بیان اعتقاد اھل السنۃ والجماعہ فی الصحابۃ(
تاریخ توپھر بھی تاریخ ہے محدثین نے تویہاں تک لکھا ہے کہ جن احادیث میں بظاہرکسی صحابی پراعتراض واردہوتا ہے اس کی تاویل کرنا واجب ہے اگرتاویل نہ ہوسکے تووہ روایت قابل قبول نہیں ہوگی کیونکہ کسی حدیث سے کسی صحابی کی تنقیص نہیں ہوسکتی۔ شارح مسلم علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وہ احادیث جن میں بظاہرکسی صحابی پراعتراض ہوتا ہو اس کی تاویل واجب ہے اوریہ بھی کہا کہ صحیح روایات میں ایسی کوئی بات نہیں جس کی تاویل نہ ہو سکے۔
)مسلم جلد2صفحہ 278(
مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:” پوری امت کا اتفاق ہیں کہ صحابہ کرام کی معرفت ان کے درجات اورانہیں پیش آنے باہمی اختلاف کا فیصلہ کوئی عام تاریخی مسئلہ نہیں بلکہ معرفتِ صحابہ توعلمِ حدیث کا اہم جز ہے جیسا کہ مقدمہ اصابہ میں حافظ ابن حجررحمہ اللہ اورمقدمہ استیعاب میں حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ وضاحت سے بیان فرماتے ہیں اورصحابہ کرام کے مقام اورباہمی تفاضل و درجات اوران کے درمیان پیش آنے والے اختلافات کے فیصلے کوعلمائے امت نے عقیدہ کامسئلہ قرار دیا ہے اورتمام کتب عقائد اسلامیہ میں اس کو ایک مستقل باب کی حیثیت سے لکھا ہے۔ ایسامسئلہ جوعقائد اسلامیہ سے متعلق اوراسی مسئلہ کی بنیاد پربہت سے اسلامی فرقوں کی تقسیم ہوئی ہے۔ اس کے فیصلے کیلئے بھی ظاہر ہے قرآن وسنت کی نصوص اوراجماع امت جیسی شرعی حجت درکار ہیں اس کے متعلق اگرکسی روایت سے استدلال کرنا ہے تواس کومحدثانہ اصول تنقید پرپرکھ لینا واجب ہے اس کو تاریخی روایتوں میں ڈھونڈنا اوران پراعتماد کرنا اصولی اوربنیادی غلطی ہے وہ تاریخیں کتنے ہی بڑے ثقہ اورمعتمد علمائے حدیث ہی کی لکھی ہوئی کیوں نہ ہوں ان کی فنی حیثیت ہی تاریخی ہے جس میں صحیح سقم جمع کردینے کاعام دستورہے۔ “
)مقام صحابہ صفحہ 35 تحت مشاجرات صحابہ کا مسئلہ (
تاریخی روایات کوپرکھنے کے اصول :
تاریخی روایات کی اکثریت غلط اورمنقطع روایت کی ہے تومناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان روایات کوپرکھنے کے اصول بھی لکھ دیے جائیں جن کی روشنی میں ہر روایت کوتنقیدکی کسوٹی پر پرکھا جا سکے وہ اصول حسب ذیل ہیں :

ایسی تاریخی روایت معتبر ہوگی جو نص قرآنی کے خلاف نہ ہو۔

وہ روایت جوسندمتواترہ کے خلاف نہ ہو۔

وہ روایت جوصحابہ کے اجماع قطعی خلاف نہ ہو۔

وہ روایت جو مسلمہ اصولوں کے خلاف نہ ہو۔

وہ روایت جو صحیح اورمقبول حدیث کے خلاف نہ ہو۔

وہ روایت جو عربی قواعد کے خلاف نہ ہو۔

وہ روایت ایسی نہ ہوجس میں راوی کسی شخص سے ایسی روایت کرتا ہو جوکسی اورنے نہیں کی اوریہ راوی اس شخص سے نہ ملاہو۔

روایت ایسی نہ ہوجس کے معنی رقیق یا شا ن نبوت یا شان صحابہ کے منافی ہو

روایت عقل سلیم کے خلاف نہ ہو۔

روایت میں کوئی ایسامحسوس ومشہورواقعہ بیان ہو کہ اگروقوع میں آتا تواس کوروایت کرنے والے متعدد آدمی ہوتے لیکن اس کے خلاف ایک یا دو راوی ہوں تووہ روایت بھی قبول نہیں ہوگی۔
یہ دس اصول متن روایت کو پرکھنے کیلئے ہیں باقی سند روایت کے پرکھنے کیلئے حسب ذیل اصول ہیں :
نمبر1: راوی عادل تام الضبط اورثقہ ہو۔
نمبر2: روایت کتنے طریق سے مروی ہے اورراویوں کی تعداد کتنی ہے۔
نمبر3: روایت اصل آدمی تک پہنچتی ہے یا درمیان میں ہی رک جاتی ہے اگرروایت اصل آدمی تک پہنچتی ہوگی تومرفوع ہوگی وگرنہ منقطع ہوگی۔
یہ وہ اصول ہیں جن پرتاریخ کی ہرروایت کے متن اورسند کو پرکھا جاسکتا ہےکہ یہ روایت کس حدتک معتبرہے؟ اگران اصولوں کو تاریخی روایات میں اپنایا جائے توغلط اورمنقطع روایات کی کافی حد تک چھان بین ہوسکتی ہے۔ اوراس وقت ایک قاری اورتاریخ کا مطالعہ کرنے والااچھے طریقے سے سمجھ جائے گا کہ غلط روایات کا کس قدرذخیرہ تاریخ کے صفحات میں سمودیا گیا۔ قرآن وحدیث سے واضح ہوتا ہے کہ ابنیاء کرام کے بعدصحابہ کرام کے بعد دنیا کے بہترین انسان اوراللہ تعالیٰ کے محبوب ترین بندے ہیں اورقرآن کریم نے تمام صحابہ کے بارے میں جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔ وہ فسق وفجور ،جھوٹ ،ظلم ،حسد اورخیانت سے پاک تھے ان کی نیتوں پر شک ہرگز نہیں کیا جاسکتا ، وہ گمراہی پر متفق نہیں ہوسکتے۔ وہ اگرچہ معصوم نہیں تھے بشری تقاضوں کی بناپرکبھی کبھار لغزش ہوئی تو ان کی معافی کا اعلان ہوچکا ہے۔ مقام صحابیت یہ اللہ تعالیٰ کا خاص مقام ہے جو محنت سے حاصل نہیں ہوسکتا نہ ہی علم وعمل پر موقوف ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا انتخاب ہے۔ صحابہ کرام کی اس خصوصیت کی وجہ سے امت کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ بڑے سے بڑا ولی خواہ وہ غوث ہو، قطب ہویا ابدال ہو یا اس سے بھی بڑے درجے والا ہو ایک ادنی سے صحابی کے مقام کو نہیں پہنچ سکتا۔ ان کی عظمت وکردار پرجرح وتنقید کی گنجائش نہیں نکل سکتی واضح رہے کہ صحیح تاریخی روایات صحابہ کے بارے بدگمانی کا ساتھ نہیں دیتیں۔ جن روایات کی بنا پر شکوک وشبہات پیداکیے جاتے ہیں وہ زیادہ ترمن گھڑت ہیں لہٰذا ہرمسلمان کو چاہیے کہ وہ تاریخ کی بڑی کتب کے بجائے قریبی دورکے مستند علماء اہل السنت کی کتب پڑھیں۔ مثلاً رحماء بینھم ، تنقید اورحق تنقید، صحابہ کرام کا عادلانہ دفاع ،مقام صحابہ،اسلام میں صحابہ کرام کی آئنیی حیثیت،صحابہ کرام کا مدبرانہ دفاع ،حضرت امیرمعاویہ اورتاریخی حقائق۔