امام محمد رحمہ اللہ کی چند کتب

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
تعارف کتب فقہ :
مفتی محمد یوسف ﷾
امام محمد رحمہ اللہ کی چند کتب(4)
قارئین! آپ کو یاد ہوگا گزشتہ قسط میں ہم نے یہ وضاحت کی تھی کہ امام محمد رحمہ اللہ کی چھ مشہور کتب ہیں ،جنہیں” کتب ظاہرالروایۃ“ کہاجاتا ہے۔ پانچ کتب کا تفصیلی تعارف آپ نے ملاحظہ کر لیا۔ اب بعض شروحات اور الزیادات کا تعارف پیش خدمت ہے۔
السیر الکبیر کی شروحات:
السیر الکبیر کی ویسے تو متعدد شروحات لکھی گئی ہیں۔ مگر اس وقت جو شرح ہمارے پیش نظر ہے اس کے پانچ حصے ہیں جو تین جلدوں پر مشتمل ہیں۔ یہ نسخہ تخریج شدہ ہے، اسے ”المکتبۃ السبحانیۃ کانسی روڈ کوئٹہ“ نے شائع کیاہے۔ یہ شرح لکھنے والے کوئی عام آدمی نہیں بلکہ پانچویں صدی ہجری کے نامور عالم دین امام محمد بن احمد سرخسی رحمہ اللہ ہیں،جو اہل علم طبقہ میں شمس الائمۃ کے لقب سے معروف ہیں۔
السیر الکبیر کی شرح دیکھنے سے پتہ چلتاہے کہ امام سرخسی رحمہ اللہ کا مزاج خواہ مخواہ بات الجھانے اور بے جا بحث کرنے کا ہرگز نہیں، آپ کی عادت یہ ہے کہ پہلے متن والی عبارت نقل کرتے ہیں پھر جس مسئلے میں جس قدر ضرورت ہوتی ہے اتنی شرح کرتے ہیں۔ کتاب میں ایسے مقامات بھی ہیں جہاں مکمل صفحے پر صرف متن والی عبارت نقل کی ہے، شرح کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ البتہ جہاں ضرورت ہو وہاں تھوڑی سی عبارت نقل کرنے کے بعد وضاحت کردیتے ہیں۔ بعض مقامات پر ایسا بھی ہے کہ امام محمد رحمہ اللہ نے ایک مسئلہ بیان کیا مگر ساتھ اس کی علت اور دلیل ذکر نہیں کی۔ مثلاً امام محمد رحمہ اللہ ایک مقام پر تحریر فرماتے ہیں:”مشرکین کے برتنوں میں کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ کھانے پینے سے قبل برتنوں کو دھونے کا اہتمام کرلیاجائے۔“
مگر شرح کرتے وقت امام سرخسی رحمہ اللہ اس مسئلہ کی وجہ وحکمت اور دلیل بیان کردیتے ہیں، مثال کے طورپر مذکورہ مسئلہ ہی لے لیجئے امام سرخسی رحمہ اللہ نے کتنے خوبصورت انداز میں اس کی شرح کی ہے اس کا مفہوم ملاحظہ فرمالیجئے۔
”مشرکین کے برتن میں کھانے پینے کی وجہ یہ ہے کہ مشرکین اگرچہ کافر ہیں مگر ان کے کفر والی نجاست سے برتن ناپاک نہیں ہوتے، کیونکہ کفر ایک باطنی و پوشیدہ چیز ہے۔ برتن تو ظاہری وحقیقی نجاست سے ناپاک ہوتے ہیں اور یہ ظاہری وحقیقی نجاست دھونے سے زائل ہوجاتی ہے۔ ہاں البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ برتن مسلمانوں کے ہوں یا کافروں کے، ظاہری وحقیقی نجاست لگنے کی صورت میں ان سب کو دھونا لازمی ہوگا۔ باقی رہی یہ بات کہ کافروں کےبرتن اگرچہ پاک بھی ہوں پھر بھی ان کو دھونے کا حکم کیوں دیاگیا؟ اس کی حکمت یہ ہے کہ کافر لوگ پاکی وناپاکی کا خاص اہتمام نہیں کرتے، اس لئے برتن والے معاملے میں ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔لہٰذا مسلمان کے حق میں بہتر یہ ہے کہ وہ قبل از استعمال ان برتنوں کو دوبارہ دھولے اور اگر کفار کے برتن بظاہر صاف ہوں اور اسی ظاہری حالت کو دیکھتے ہوئے کوئی مسلمان بغیر دھوئے انہیں استعمال کرلے تو اس کی گنجائش موجود ہے۔ کیونکہ حقیقت میں برتن پاک ہی ہوتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ دوبارہ دھولینے میں احتیاط زیادہ ہے اسی لئے شریعت میں دوبارہ دھونے کا حکم موجود ہے۔جیسا کہ سیدنا ابو ثعلبہ الخشنی رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: یارسول اللہ! مشرکین کے علاقے میں ہم آتے جاتے رہتے ہیں کیا ہم ان کے برتنوں میں کھاپی سکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر ان برتنوں کے علاوہ کوئی اور صورت نہ ہوتو پہلے انہیں دھولو پھر انہیں استعمال میں لاؤ“
) شرح کتاب السیر الکبیر: ج 1ص 103(
فقہاء عراق، فقہاء شام اور فقہاء احناف رحمہم اللہ کا موقف یہ ہے کہ جب میدان جنگ میں کوئی مجاہد شہید ہوجائے تو اسے غسل نہیں دیاجائےگا البتہ اس کی نماز جنازہ ادا کی جائےگی۔ مگر فقہاء مدینہ کا نظریہ یہ ہے کہ اس شہید کی نماز جنازہ بھی نہیں پڑھی جائےگی۔ امام محمد رحمہ اللہ اہل مدینہ کی دلیل دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
پھر اہل مدینہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ میت پر نماز جنازہ اس وجہ سے پڑھی جاتی ہے تاکہ اس کے حق میں گناہوں کی مغفرت اوررحمت کی دعا کی جائے۔ اور شہید ان چیزوں سے بے نیاز ہے۔کیونکہ میدان جنگ میں تلوار{یعنی اسلحہ} نے اس کو گناہوں سے پاک کردیاہے۔{لہذا اب نماز جنازہ کی ضرورت نہیں رہی۔۔۔ ازناقل} اہل مدینہ کی مذکورہ دلیل کے تحت امام سرخسی رحمہ اللہ نےبہت جاندار اور دلچسپ پیرائے میں عقلی دلائل کے ساتھ اپنے موقف کو ثابت کیاہے اور اس ضمن میں واردہونے والے شبہہ یا اعتراض کا تسلی بخش جواب بھی دیاہے۔امام سرخسی رحمہ اللہ نے کیا خوب لکھاہے:ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر یہ حق ہے کہ اگر وہ فوت ہوجائے تو اس کی نماز جنازہ پڑھے۔یہ نماز جنازہ اس میت کے حق میں عزت وشرف کاباعث ہے اور شہید اس تعظیم وتکریم کے زیادہ لائق ہے۔ اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ شہید کا درجہ نبوت کے مقام سے کم تر ہے۔ اس کے باوجود بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم نے ادافرمائی ہے۔ تومعلوم ہواکہ شہادت کی وجہ سے شہید اس مقام تک نہیں پہنچتا کہ مومنین کی دعائے رحمت ومغفرت سے بے نیاز ہوجائے۔اگر شہید کی نماز جنازہ کے بارے میں یہ اعتراض کیا جائے کہ شہید تو بنص قرآنی زندہ ہوتاہے، جبکہ نماز جنازہ میت پر پڑھی جاتی ہے نہ کہ زندہ پر۔ تو یہ اعتراض نہایت کمزور ہے۔ اس لئے کہ شہید کی حیات کا تعلق احکام آخرت کے ساتھ ہے۔دنیاوی احکام میں وہ ہمارے حق میں میت متصور ہوگا۔ لہٰذا دنیاوی احکام اس پر لاگو ہوں گے۔یہی وجہ ہے کہ شہادت کے بعد شہید کی میراث تقسیم کی جاتی ہے اور اس کی بیوہ کے لئےعدت گزر نے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنابھی جائز ہے۔ تو شہید کی نماز جنازہ بھی میراث وغیرہ کی طرح احکام دنیا میں سے ہے لہٰذا نماز جنازہ پڑھی جائےگی۔ باقی شہید کو غسل نہ دیے جانے کی حکمت یہ ہے کہ روز قیامت شہید کاخون اس کے قاتل کے خلاف بطور گواہ پیش ہوگا۔ )شرح کتاب السیر الکبیر:ج 1 ص 160 باب الشہید ومایصنع بہ(
کئی مقامات پر ایسا بھی ہے کہ متعلقہ مسئلہ کی وجہ وحکمت لکھنے سے قبل امام سرخسی رحمہ اللہ اس کی شرعی حیثیت بتلانا ضروری سمجھتے ہیں۔ مثال کے طورپر ایک مقام پر سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث نقل کی ہے:”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے غزوہ احد کے دن یہ اعلان کیاکہ تمام لواحقین اپنے اپنے مقتولین {شہداء} کو اسی مقام پر دفن کریں۔“
اس کی شرح میں امام سرخسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:میت کو اسی مقام پر دفن کرنا جہاں اس کی وفات ہو یہ مستحسن اور اولیٰ ہے واجب نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء احد کو اسی مقام پر دفن کرنے کا حکم اس لیے دیا تھا کہ اس دن قتال کی وجہ سے مسلمان زخمی حالت میں تھےاورتھکاوٹ اس کے سوا، اس حالت میں شہداء کو دوسرے مقامات کی طرف لے جانے میں خاصا حرج اور مشقت پیش آتی، اس وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء احد کو اسی جگہ دفن کرنے کا حکم فرمایا۔
مذکورہ مسئلہ کے متصل بعد امام سرخسی رحمہ اللہ نے متن کی عبارت نقل فرمائی ہے، جس میں ہے کہ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے جہاد کے سفر میں اپنی میت کو دوسرے مقام پر منتقل کرنے کی وصیت کی تھی آپ نے فرمایا تھا: جب میری وفات ہوجائے تو تجہیز وتکفین کے بعد میری میت کو اپنے ساتھ لےچلنا اور دشمن کی سرزمین میں جہاں تک باآسانی لے جا سکو لے جانا پھر مجھے وہیں دفن کردینا۔ اس عبارت کی شرح میں بھی امام سرخسی رحمہ اللہ نے پہلے تو ”انتقال میت“ کی شرعی حیثیت واضح کی ہے پھر سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی مذکورہ وصیت کی توجیہ پیش کی ہے۔
شمس الائمۃ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:”میت کو ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف منتقل کرنا بھی واجب نہیں ہے۔ “سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں جو وصیت فرمائی تھی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ آپ کی دلی تمنا یہ تھی کہ میں دشمن کے زیادہ سے زیادہ قریب پہنچ جاؤں تاکہ جہاد فی سبیل اللہ میں فوت ہونے والے کی جو فضیلت اور اجر وثواب ہے وہ مجھے بھی حاصل ہوجائے، اور دوسری وجہ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ شہرت سےبچنا چاہتے تھے۔ کیونکہ جب تدفین ہی دور دراز گمنام جگہ میں ہوگی تو آنےجانے والوں کی تعداد بھی کم ہوگی اور زیارت کرنےوالوں کا ازدحام بھی نہیں ہوگا، نتیجتاً چرچے اور شہرت سے نجات مل جائےگی۔
آج کل یہ رواج بہت تیزی سے پھیل رہاہے کہ آدمی کی وفات جہاں بھی ہو، اس کی میت کو آبائی وطن یا علاقے میں لاکر دفنانا ضروری سمجھاجاتاہے، بسااوقات میت کو منتقل کرنے کا دورانیہ پچیس تیس گھنٹوں پر مشتمل ہوتاہے اس صورت میں لواحقین کو سخت پریشانی اور شدید انتظار کا سامنا تو ہوتاہی ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ نماز جنازہ کی ادائیگی اور عمل تدفین میں اچھی خاصی تاخیر بھی ہوجاتی ہے۔
اس بارے میں ضابطہ کیا ہے؟ کتنی مسافت تک میت کو منتقل کرنے کی اجازت ہے؟ فقہاء کرام نے اس حوالے سے یہ فرمایا ہے کہ اگر ایک دومیل یا اس کے لگ بھگ مسافت ہوتو پھر میت کو منتقل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ہاں اگر اس سے زائد مسافت ہوتو پھر میت کو منتقل کرنا مکروہ اور خلاف اولیٰ ہے۔
امام سرخسی رحمہ اللہ نے پہلے تو امام محمد رحمہ اللہ کی عبارت نقل فرمائی ہے۔ پھر اس کے تحت دلنشین انداز میں تفصیل ذکر کی ہے، مفہوم پیش خدمت ہے۔
” میت کو ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنامکروہ ہے کیونکہ دوشہروں کے مابین مسافت کی مقدار اتنی بنتی ہے جو کراہت کے زمرے میں آتی ہےاور کراہت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میت دوسرے مقام پر منتقل کرنے میں کوئی خاص فائدہ بھی نہیں۔ کیونکہ میت کو جہاں بھی دفن کردیاجائے زمین اسے قبول کر لے گی۔ ساری زمین ہی میت کو اپنے اندر سمونے کے لئے تیار ہے۔کراہت کی اور وجہ یہ بھی ہے کہ زندہ آدمی جب ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتاہے تو اس کی کوئی نہ کوئی غرض ہوتی ہے، جب کہ میت تو ہر غرض سے بے نیاز ہوتی ہے مزید یہ کہ انتقال میت کی وجہ سے عمل تدفین میں تاخیر لازم آتی ہے اور کراہت کے لئے یہی کافی ہے۔“
) شرح کتاب السیر الکبیر : ج 1 ص 162 تا164(
کتاب الزیادات :
امام محمد رحمہ اللہ کی کتب ظاہر الروایۃ میں سب سے آخری کتاب الزیادات ہے۔ اس کو لکھنے کی نوبت کیوں پیش آئی ؟ اس بارے میں اکثر علماء کرام کی رائے یہ ہے کہ امام محمد رحمہ اللہ نے الجامع الصغیر اور الجامع الکبیر کے بعد یہ کتاب لکھی۔ وہ مسائل جو جامع صغیر اور جامع کبیر میں درج نہ ہوسکے امام محمد رحمہ اللہ نے انہیں یکجا کیا اور اس مجموعے کا نام الزیادات رکھا۔ اس کتاب کا نام الزیادات کیوں ہے ؟ اس ضمن میں حاجی خلیفہ رحمہ اللہ نے چار وجوہات ذکر کی ہیں سب سے آخری وجہ انہوں نے یہی ذکر کی جو ہم نے ابھی ذکر کی ہے۔
)کشف الظنون ج 2 ص 16(
شروحات :
کتاب الزیادات کی کافی تعداد میں شروحات لکھی گئی ہیں بڑے نامور اور جید علماء کرام اس کتاب کے شارحین میں شامل ہیں جن میں صاحب فتاویٰ قاضی خان ، امام سرخسی ، امام بزدوی اور امام حلوانی رحمہم اللہ قابل ذکر ہیں۔
علامہ عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ نے امام احمد بن محمد العتابی کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے کہ آپ کی تصانیف میں زیادات کی شرح بھی ہے۔ علماء کرام نے اس شرح کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ بہت دقیق اور تحقیقی معلومات پر مشتمل ہے اس میں وہ مضامین اور جزئیات ہیں جو دیگر کتابوں میں نہیں۔
)الفوائد البہیہ ص 36(
ملحوظہ :
زیادات نام کی امام محمد رحمہ اللہ کی دو کتابیں ہیں۔ ایک کا نام فقط ”الزیادات“ہے۔ جس کا تعارف ذکر کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری کا نام زیادات الزیادات ہے یہ کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے جس میں طلاق ، عتاق ،وراثت اور خرید و فروخت وغیرہ کے مخصوص مسائل پر بحث کی گئی ہے۔