عاق نامہ…… شریعت کی نظر میں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
عاق نامہ…… شریعت کی نظر میں!! )2(
مولانا عبدالرحمٰن سندھی
امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں ایک حدیث نقل فرمائی ہے کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک شخص نے پوچھا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم والدین کا اپنی اولاد پر کیا حق ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ دونوں(ماں باپ)(اگر تو ان کی خدمت کرے ) تیرے لیے جنت میں(جانے کا سبب) یا (تو نے ان کی نافرمانی کی) تیرے لیے جہنم( میں جانے کا سبب) ہیں۔
)سنن ابن ماجہ ص 260(
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک نقل فرماتے ہیں کہ جو شخص والدین کے حقوق بجالانے میں ا للہ کی فرمانبردای کرتے ہوئے صبح کرتا ہے تو صبح سے ہی اس کے لیے جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں، اگر ماں باپ میں سے ایک زندہ ہے تو پھر ایک جنت کا درازہ کھولا جاتا ہے اور جو شخص والدین کے حقوق کے بارے میں اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے صبح کرتا ہے تو صبح سے ہی اس کے لیے جہنم کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور اگر ماں باپ میں سے ایک زندہ ہے تو پھر ایک جہنم کا درواز کھولا جاتا ہے ، تو ایک صحابی نے عرض کیا اگرچہ (والدین) ماں پاب ظلم کریں اولاد پر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا اگرچہ وہ اس پر (اولاد) ظلم کریں۔
) شعب الایمان فصلی فی حفظ حق الوالدین بعد موتھما(
اس طرح کی بہت ساری احادیث کے اندر والدین کے حقوق اور نافرمانی کی سزا بیان کی گئی ہے بلکہ والدین کی نافرمانی کی سزا اللہ دنیا میں بھی مرنے سے پہلے دیتے ہیں
”فانہ یعجل لصاحبہ فی الحیاۃ قبل الموت“
مشکوٰۃ ص 421
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ والدین کی نافرمانی کی سزا مرنے سے پہلے دنیا میں ہی دےدیتے ہیں۔ اور یہ واقعات ہم دنیا میں اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور سنتے ہیں۔
قارئین!جس طرح والدین کے حقوق کو بیان فرمایا ہے اور نافرمانی سے روکا ہے اور نافرمانی کی صورت میں سزا بتائی ہے اس طرح اللہ تعالیٰ نے اولاد کے حقوق کو بھی بیان فرمایا ہے۔ ان حقوق میں سے ایک حق ، حق میراث( والدین کے فوت ہونے کے بعد ان کی ملکیت میں حصہ دار ہونا بھی ہے یہ ایسا حق ہے جو اللہ کا دیا ہوا حق ہے جو کسی کے ختم کرنے سے ختم نہیں ہوتا۔ اس لیےی اگر کوئی اپنے مرنے سے پہلے یہ لکھ دے کہ فلاں شخص میرا بیٹا ہے ، یا بیٹی یا بیوی وغیرہ میری ملکیت سے محروم ہوں گے جسے عرفِ عام میں عاق نامہ کہا جاتا ہے تو اس سے کوئی بھی وارث شرعی طور پر ملکیت سے محروم نہیں ہوگا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصہ کے برابر ہے۔
) سورۃ النساء:11(
اس سورۃ مبارکہ کے اندر حق تعالیٰ شانہ نے تمام ورثاء کے مقرر حصہ کو بیان فرمانے کے بعد فرماتے ہیں
” غَيْرَ مُضَارٍّ وَصِيَّةً مِنْ اللَّهِ “
) سورۃالنساء:12(
اس کے تحت مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ اپنی تفسیر معارف القرآن میں لکھتے ہیں:یہ قید اگرچہ صرف اس جگہ مذکور ہے لیکن اس سے پہلے جو دو جگہ وصیت اور دین کا ذکر ہے وہاں پر بھی معتبر اور معمول یہ ہے مطلب اس کا یہ ہے کہ مرنے والے کے لیے وصیت یا دین (قرض) کے ذریعے وارثوں کو نقصان پہنچانا جائز نہیں ہے ، وصیت کرنے یا اپنے اوپر قرض کا فرضی اقرار کرنے میں وارثوں کو محروم کرنے کا ارادہ ہونا اور اس ارادہ پر عمل کرنا سخت ممنوع ہے اور گناہ کبیرہ ہے۔
)معارف القرآن ج2ص330(
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہر وہ وصیت جو ظلم کی بنا پر قائم ہو خطاء کی وجہ سے یا جان بوجھ کر اسے انصاف کی طرف لوٹایا جائے گا۔ اس کی مثال جیسے کسی شخص نے ثلث سے زیادہ کی وصیت کی ہو یا ورثاء میں سے کسی ایک کو محروم کرنے کی وصیت کی ہو یا اس کے علاوہ اور کوئی وصیت کی ہو تو اس کو قبول نہیں کیا جائے گا بلکہ انصاف کے طور پر ملکیت کو تقسیم کیا جائےگا۔
)احکام القرآن للتھانوی ج1ص162(
حدیث مبارک میں ہے : حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے حجۃ الوداع والے سال خطبہ کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اپنا حق دیا ہے اب کسی وارث کے بارے میں وصیت کو قبول نہیں کیا جائے گا۔
[ کنزالعمال حدیث نمبر 14576(
حضرت انس رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک نقل فرماتے ہیں جو شخص وارث کے میراث کا حصہ ختم کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے جنت کا حصہ ختم فرمائیں گے۔
) ابن ماجہ حدیث نمبر 2694(
بعضے ایمان کی وجہ سے جو جنت کا حقدار تھا اب جنت کے بجائے اسے جہنم میں داخل کیا جائے گا اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری احادیث ہیں جن کے اندر ورثاء کے حقوق کو بیان کیا گیا ہے اور ورثاء کو محروم کرنے کی صورت میں اس کا وبال بھی بیان کیا گیا ہے۔
اسی طرح فقہاء نے بھی فرمایا ہے:
الارث جبری لا یسقط بالاسقاط
) تنقیح الحامدیہ ج2ص54، تکملہ رد المختار ج1ص505(
وراثت میں حق اضطراری ہے جو کسی کے ختم کرنے سے نہیں ہوگا۔
قارئین!ان تمام حوالہ جات سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ شرعی طور پر تمام ورثاء کے حصے مقرر کر دیئے گئے ہیں جو کسی کے ختم کرنے سے ختم نہیں ہوں گے لہذا عاق نامہ کی شرعی طور پر کوئی حیثیت نہیں اور ورثاء کو اپنا مقرر حصہ دیا جائےگا۔
آخر میں کچھ مفتیان کرام کے فتاویٰ جات بھی تحریر کرتے ہیں:
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کوئی شخص اپنی اولاد کو بوجہ ناراضی بےحق ومحروم الارث کو دے، سو یہ امر شرعاً بے اصل ہے اس سے اس کا حق ارث باطل نہیں ہو سکتا۔
) امداد الفتاویٰ ج4ص364(
مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جو لڑکا والدین کا نافرمان ہو انہیں ایذاء پہنچائے وہ تو خود ہی عاق ہے یعنی نافرمان رہا یہ کہ عاق کر دینا یعنی اس کو میراث سے محروم کر دینا تو یہ کوئی شرعی بات نہیں ہے اور نہ شرعاً اس کی اجازت ہے اگرچہ عوام میں یہ بات مشہور ہے مگر بے اصل ہے۔
)کفایت المفتی ج8ص365(
حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ لکھتے ہیں: کسی شرعی وارث کو محروم کرنا یہ ہے کہ وصیت کر دی جائے کہ میرے مرنے کےبعد فلاں شخص وارث نہیں ہوگا ، جس کو عرف عام میں ”عاق نامہ “ کہا جاتا ہے اسی وصیت حرام اور ناجائز ہے اور شرعاً لائق اعتبار بھی نہیں ہے ، اس لیے جس شخص کو عاق کیا گیا ہو وہ بدستور وارث ہوگا۔
) آپ کے مسائل اور ان کا حل ج7ص396(