صبر و شکر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
مجلس الشیخ:
صبر و شکر
ترتیب و عنوانات: مفتی شبیر احمد حنفی
2جنوری 2104ء بروز جمعرات متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ نے خانقاہ اشرفیہ اختریہ مرکز اہل السنۃ و الجماعۃ 87 جنوبی سرگودھا میں منعقدہ ماہانہ مجلسِ ذکر سے خطاب فرمایا، جس میں ’’صبر و شکر‘‘ کے عنوان پر پُر اثرگفتگو فرمائی۔ بیان کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔
الحمدللہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سئیات اعمالنا من یہدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضلل فلاہادی لہ ونشہد ان لا الہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ ونشہد ان سیدنا ومولانا محمدا عبدہ ورسولہ،امابعد فَاَعُوْذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ: ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنْسَ إِلاَّ لِيَعْبُدُونِ﴾
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔
احسانات کی بارش:
اللہ رب العزت کا ہم پربہت بڑا احسان یہ ہے کہ ہمیں انسان بنایا ہے، اللہ رب العزت کا بہت بڑا احسان ہم پر یہ ہے کہ ہمیں مسلمان بنایا، اللہ رب العزت کابہت بڑا احسان یہ ہے کہ ہمیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بنایا اور اللہ رب العزت کا بہت بڑاحسان یہ ہے کہ ہمیں انسان ، مسلمان ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بنا کر ان لوگوں کے ساتھ جوڑ دیا جو اللہ کے نام پر خوش ہوتے ہیں اور اللہ کے مخالف نام سے پریشان ہوتے ہیں۔ تو یہ اللہ رب العزت کی اتنی بڑی نعمت ہے کہ انسان اس کا جس قدر شکر ادا کرے کم ہے۔
آیت کا مطلب:
میں نے قرآن کریم کی جو آیت کریمہ تلاوت کی ہے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے خود ارشاد فرمایا ہے کہ میں نےانسان اور جن کو اپنی عبادت کےلیے پیدا کیا ہے۔ ہم سب پیدا ہوئےہیں اللہ رب العزت کی عبادت کےلیے۔ اگر ہم اللہ رب العزت کی عبادت کرتے ہیں تو اس کامطلب یہ ہے کہ ہم اللہ رب العزت کی پیدا شدہ مخلوق کے مقصد جو تخلیق کی اصل بنیاد ہے، ہم اس پر عمل کررہے ہیں اور ہمیں خوش ہونا چاہیے اور اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہمیں یقیناً اس پر پریشان ہونا چاہیے۔ جس چیز کو جس مقصد کےلیے بنایا جائے اس کو اسی مقصد میں استعمال کرنا یہی اُ س چیز کا شکر ادا کرنا ہے۔ تو ہمیں حق جلّ مجدُہ نے عبادت کے لیے پیدا فرمایا۔
عبادات کی اقسام:
عبادات دو قسم کی ہیں۔ بعض عبادات وہ ہے کہ جن کا وقت مقرر اور معین ہے اور بعض عبادات وہ ہے کہ جن کا وقت مقرر اور معین نہیں ہے۔ توجن عبادات کا وقت متعین ہے عموماً ہم انہیں کہتے ہیں کہ یہ عبادات ”مؤقت“ ہیں اور جن کا وقت متعین نہ ہو عموماً ہم انہیں کہتے ہیں کہ یہ عبادات ”غیر مؤقت“ ہیں۔ جن عبادات کا وقت متعین ہے مثلاً دن میں پانچ نماز یں فرض ہیں اور ہر نماز اپنے وقت پر ہے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا یہ اعلان ہے:
﴿إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا﴾
(النساء:103)
کہ نمازمومنین پر وقت مقررہ وقت پر فرض کی گئی ہے۔
جمع بین الصلاتین کی صورت:
اس لیے ایک مسئلہ بھی یاد رکھیے۔ ہمارے ہاں آج بیماری چلی ہے کہ ہم دین کو آسان سمجھتے ہیں اور آسانی کا تعین اپنی مرضی سے کرتے ہیں۔ دین آسان تو ہے لیکن اُتنا ہی آسان رکھیں جتنا اللہ نے آسان بنایا ہے۔ اگر آسان کا معنی کہ ”اس میں کوئی تکلیف نہیں“ تو پھر دین دین رہتا ہی نہیں۔ ابتلاء اور امتحان ختم ہوجاتاہے۔ خیر بیماری کیا ہے؟ آج بہت سارے احباب وہ ہیں جو دو نمازوں کو ایک وقت میں ادا کرتے ہیں، جسے ہم کہتے ہیں ”جمع بین الصلاتین“۔ دونمازیں ایک ہی وقت میں مثلاً ظہر اور عصر ایک وقت میں ، مغرب اور عشاء ایک وقت میں اور بڑے آرام سے دلیل پیش کر لیتے ہیں کہ” جی! حدیث مبار ک میں ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو نمازیں جمع فرمائیں۔
(سنن الترمذی: رقم 187)
جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع فرمائیں توہم جمع کیوں نہیں کر سکتے؟“حضرت امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ- اللہ ان کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے- حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ اس حدیث مبارک کا اتنا پیارا مطلب بیان فرماتے ہیں کہ قرآن کی آیت اپنی جگہ پر رہتی ہے اور حدیث مبارک اپنی جگہ پر رہتی ہے، نہ آیت کا مفہوم بدلنا پڑتا ہے اور نہ حدیث مبارک آیت کے خلاف نظر آتی ہے، حضرت امام صاحب ایسا مفہوم بیان فرماتے ہیں۔ اب دیکھو امام صاحب نے کتنا بہترین مسئلہ سمجھایا ہے۔
فرمایا کہ جب قران مجید کہہ رہا ہے کہ نماز کا وقت متعین ہے۔ پانچ نمازیں ہیں، ہر نماز کا اپنا اپنا وقت متعین ہے، تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ قرآن حکم دے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک عمل اس آیت کے خلاف ہو؟ اللہ کی منشاء کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ تو پھراس کا مطلب کیا ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونمازیں جمع فرمائیں ہیں؟ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی سفر کرے اور سفر چونکہ لمبا ہے اور وقت کم ہے تو سفر کا بھی خیال کرے اور نمازیں بھی وقت پر پڑھے، اس کی صورت یہ ہوئی کہ ظہر کی نماز کو مؤخر کرکے آخری وقت میں پڑھا او رعصر کی نماز کو اول وقت میں پڑھا۔ تو دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ ظہر اور عصر کی نمازیں جمع ہو رہی ہیں حالانکہ ظاہراً جمع ہیں، حقیقتاً اپنے اپنے وقت میں ہیں۔
مثلاً ہمارے ہاں آج کل مغرب کی نماز کا وقت شروع ہوتا ہے 05:15 بجے اور ختم ہوتا ہے تقریباً 06:32 یا 06:34 پر۔ اب اگر کوئی آدمی سفر میں ہے، نماز مؤخر کرتا جائے اور جا کر تقریباً 6:25 پر مغرب پڑھ لے اور وہاں پر تھوڑی دیر بیٹھ جائے، تسبیحات فاطمہ مکمل کرے ، قہوہ پی لے، چائے پی لےیا ہلکی سی ریفریشمنٹ کرلے اور اس کے بعد نماز مغرب کے دس منٹ بعد 6:35 پر عشاء پڑھ کے چلا جائے۔ تو لو گ سمجھیں گے کہ مغرب اور عشاء کو جمع کیا ہے حالانکہ جمع نہیں کیا، مغرب اپنے وقت میں پڑھی ہے اور عشاء اپنے وقت میں پڑھی ہے۔ اسے علماء کے زبان میں کہتے ہیں ”جمع صوری“۔ ایک ہوتی ہے ”جمع حقیقی“ ، جمع حقیقی کامعنیٰ مغرب اور عشاء دونوں مغرب کے وقت میں یا مغرب اور عشاء دونوں عشاء کے وقت میں پڑھی جائے اور جمع صوری کامعنیٰ مغرب کو مغرب کے وقت میں اور عشاء کوعشاء کے وقت میں پڑھے، صورتاً محسوس ہورہا ہےکہ دونوں اکھٹی ہیں حالانکہ دونوں کو اکٹھا کر کے پڑھا نہیں ہے بلکہ الگ الگ پڑھا ہے۔
اقتداء صوری:
ایک مسئلہ اور بھی یاد رکھ لیں۔ ہمارے ہاں بہت سارے احباب جو تبلیغی جماعت میں تشریف لاتے تو وہ ہم سے مسئلہ پوچھتے ہیں کہ جی! فلا ںمسجد اہلِ بدعت کی ہے، ہم ان کے پیچھے نماز پڑھیں؟ نماز ہو جاتی ہے؟ہم کہتے ہیں: نماز نہیں ہوتی۔ اب ان کی اگلی الجھن کیاہے؟ اگر ان کے پیچھے نماز نہ پڑھیں تو وہ ہمیں اپنی مسجد میں جماعت کا کام نہیں کر نے دیں گے اور اگر نماز پڑھیں تو آپ کہتے ہیں کہ نماز ہوتی نہیں، اب بتاؤ ہم کیاکریں؟ ہم ان کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ آپ حضرات الجھن کا شکار نہ ہوں، الجھن کا حل فقہاء اور علما ءہیں۔ الجھن پیش آئے تو علماء سے پوچھیں آپ کی الجھن دور ہوجائے گی۔ اس کا حل بہت آسان ہے۔ اقتداءِ حقیقی نہ کرے اقتداءِ صوری کرے۔ اقتداءِ حقیقی اور اقتداءِ صوری میں کیا فرق ہے؟ اقتداءِ حقیقی اسے کہتے ہیں کہ اپنے مسلک اور صحیح العقیدہ امام کے پیچھے نماز پڑھے اور اسی کے پیچھے اقتداء کی نیت کرے کہ میں اس کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ نماز پڑھ رہا ہوں۔ یہ اقتداءِ حقیقی ہے جیسا کہ ہم پڑھتے ہیں اور اقتداءِ صوری یہ ہےکہ امام بدعتی ہو اور وہ اپنی نماز پڑھے اور آپ اپنی نماز پڑھیں۔ وہ اللہ اکبر کہے اور آپ بھی اللہ اکبر کہیں اور اپنی نماز شروع کریں۔ثناء بھی پڑھیں، اعوذ باللہ بسم اللہ بھی پڑھیں، فاتحہ بھی پڑھیں، اس کے بعد آمین بھی کہیں، سورت بھی پڑھیں۔وہ رکوع میں جائے تو آپ بھی رکوع میں چلے جائیں۔ وہ کھڑا ہو تو آپ بھی کھڑے ہوتے جائیں۔ اسے کہتے ”اقتداءِ صوری“ کہ صورۃ ًتو اس امام کی اقتداء ہے حقیقۃًً اس کی اقتداء نہیں ہے۔ اب آپ کی دعوت کا کام بھی ہو جائے گا اور آپ کی نماز بھی ٹھیک ہو جائےگی۔ تو جب ایک حل موجود ہے تو پھر اپنی نماز کیوں خراب کرتے ہو۔
نماز کا ثواب مل جائے تو غنیمت ہے:
ایک شخص مجھے کہنے لگا: جی! آپ نے جو مسئلہ بتایا ہے چلیں اس سے ہماری نماز تو ہو جائے گی لیکن یہ بتایئے کی ہماری جماعت کا کیا ہوگا؟ میں نے کہا: دیکھو! جماعت تب ہو جب نماز ہو، جب نماز ہی نہیں ہوئی تو پھر جماعت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایک صورت یہ ہے کہ آپ اس کے پیچھے نماز پڑھیں تو آپ کی نما زہی نہ ہو۔ دوسری صورت کیا ہے کہ آپ اس کے پیچھے ظاہراً کھڑے ہو نماز اپنی پڑھیں۔ اب اس سےجماعت کی نماز تو نہیں ہوگی لیکن نماز کا ثواب تومل جائےگا۔ تو نمازوں کا ثواب ہی نہ ملے یہ بہتر ہے یا نماز کا ثواب مل جائے اور عذر کی وجہ سے جماعت رہ جائے یہ بہتر ہے؟
اب تو بَلائیں ہیں:
میں علمی لطیفے کے طور پر عرض کرتا ہوں۔ ہمارے فقہاء کرام ایک بات کہتے ہیں کہ ”اھون البلیئتین“ کو اختیار کرنا چاہے ، یعنی جب انسان پر دو مصیبتیں ہوں تو دونوں میں سے جو ہلکی ہو اس کو لے لے اور جو زیادہ بوجھ والی ہو اس کو چھوڑ دے۔ اسے ”اھون البلیئتین“ کہتے ہیں۔
میں نے کہا: میں بطور علمی لطیفہ کے عرض کرتا ہوں کہ اب ”اھون البلیئتین“ کا مسئلہ نہیں بلکہ ”اھون البلایا“ کا مسئلہ ہے، اب ”بلیئتین“ ہے، اب بلائیں ہیں۔ اب بڑی بلا میں سے کسی چھوٹی بلا پر گزارا کریں۔ تو اُس دور میں ”بلیئتین“ ہوتی تھیں، اب بلایا ہوتی ہیں تو جب بلائیں آئیں تو پھر آدمی بڑی بلا سے بچے اور چھوٹی بلا پر گزارا کرے۔ اللہ ہمیں یہ باتیں سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
عبادات مؤقت و غیر مؤقت: