عقیدہ نزول عیسیٰ علیہ السلام ……صدی بہ صدی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
عقیدہ نزول عیسیٰ علیہ السلام ……صدی بہ صدی
مولانا محمدارشدسجاد﷾
ہرعقل مند مسلمان اس اصول سے متفق ہے کہ قرآن کریم اورحدیث نبوی کو اس طرح سمجھناچاہیئے جیسا کہ ان لوگوں نے سمجھا جن میں قرآن کریم نازل ہوا اور اس پر اس طرح عمل کرنا چاہیے جیسے امت کے پہلے طبقہ نے کیاہے۔
اگر آج اس اصول کواپنا لیاجاتاہے کہ ہم نے قرآن وحدیث کواپنے اسلاف کے فہم کی روشنی میں سمجھناہے تو موجودہ تمام جھگڑے ختم ہوسکتے ہیں اور آدمی صحیح معنوں میں صرط مستقیم پرکاربند ہوسکتاہے۔
لیکن ہوتاکیاہے کہ پہلے ایک مخصوص عقیدہ اور نظریہ بنایاجاتاہے پھر قرآن وحدیث کو اس پرڈھالنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ بندہ خود بھی گمراہ ہوجاتاہے اورپنے متبعین کوبھی گمراہی کے گڑھے میں دھکیل دیتاہے زیادہ دورجانے کی ضرورت نہیں موجودہ دورمیں کئی ایسے لوگ ہمارے علم میں ہیں جو اس بے راہ روی کاشکار ہوچکے ہیں اس پر میں اپنے ہی علاقہ (حسن شاہ ضلع،بھکر) کا واقعہ پیش کرتاہوں۔ ہمارے علاقہ میں بعض گمراہ لوگوں) جن کی پہچان امت مسلمہ کے اجماعی عقیدے…عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت ہے ( نے عوام کی اس قدر غلط رہنمائی کی کہ ان کے ذہن میں یہ بات رچ بس گئی ہے کہ جوبات قرآن میں ہوگی وہ ماننی ہے اورجوقرآن میں نہیں وہ نہیں ماننی پھر اس اصول پر قرآن کریم کی جوتحریف کی جاتی ہے۔ الامان والحفیظ۔
حالانکہ کئی ساری مسلمہ چیزیں ایسی ہیں جوقرآن مجید میں نہیں مثلاً
1: پنجگانہ نماز کو ادا کرنے کاطریقہ قرآن میں نہیں ہے۔
2: جنازہ کاطریقہ قرآن میں نہیں ہے۔
3: داڑھی رکھنے کا حکم قرآن میں نہیں ہے۔
4: بھینس اور اس کے دودھ کے حلال ہونے کا ذکر قرآن میں نہیں ہے۔
5: گدھے اوربندر کے حرام ہونے کاذکرقرآن میں نہیں ہے۔
اس کے علاوہ بھی بہت سارے احکام ایسے ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں نظر نہیں آتا۔
لیکن ان کی اس کارستانی کانتیجہ یہ نکلا کہ یہی عوام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اوران کے دوبارہ نازل ہونے کاانکار کربیٹھی کہ قرآن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پرجانے کا ذکر توہے لیکن دنیا میں دوبارہ آنے کاذکر نہیں ہے، اس لیے ہم نہیں مانتے۔ جبکہ تفسیرو حدیث، اجماع امت اورپندرہ صدیوں سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوچکی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پرزندہ ہیں اور قرب قیامت دنیا میں تشریف لائیں گے۔یہ بات بھی یاد رہے کہ علماء متکلمین فرماتے ہیں کہ یہ عقیدہ ضروریات دین میں سےہے جس کاانکار کفرہے۔
تنبیہہ:
آدمی کے مومن بننے کے لیے تمام ضروریات دین اور ایمانیات پر ایمان لانا ضروری ہے جبکہ کفر میں داخل ہونے کے لیے تمام ایمانیات کاانکار ضروری نہیں ہے بلکہ ایمانیات میں سے کسی ایک چیز کاانکار کرنے سے آدمی کفر میں چلاجاتاہے۔ اس لیے ضروری سمجھا کہ ”عقیدہ حیات ونزول عیسیٰ علیہ السلام“ کے متعلق کچھ لکھ دیا جائے تاکہ ہمارے مسلمان بھائی غلط نظریات اور شکوک وشبہات سے محفوظ رہ سکیں۔
قارئین کرام!ہمارا پہلا اصول کہ اگر آدمی قرآن وحدیث کوفہم اسلاف کی روشنی میں سمجھے اور اس پر عمل کرے تو ہرقسم کی بدعت وگمراہی سے خود بھی محفوظ رہ سکتاہے اور اپنے متعلقین کوبھی محفوظ رکھ سکتاہے اسی کے پیش نظر ہم اس عقیدہ پر صدی وار پندرہ صدیوں کے اسلاف واخلاف کی تشریحات ذکر کرتے ہیں تاکہ یہ بات بالکل واضح ہوجائے کہ قرآن وحدیث کے موافق شروع اسلام سے یہ عقیدہ تواتر کے ساتھ چلاآرہاہے۔
پہلی صدی:

حضرت حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ )متوفی 42ھ (

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ )متوفی57ھ (

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ) متوفی 65ھ(

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ )متوفی 73ھ (

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما )متوفی 73ھ(

حضرت نواس بن سمعان اورحضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہما ودیگرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے متعدد سندوں کے ساتھ مروی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قرب قیامت نزول فرمائیں گے۔

(صحیح مسلم :ج 1 ص 87 ج 2 ص 400)
دوسری صدی:
امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ متوفی 150ھ فرماتے ہیں:
وخروج الدجال۔۔۔۔۔۔ ونزول عیسیٰ علیہ السلام من السماء وسائرعلامات یوم القیامۃ علی ماوردت بہ الاخبار الصحیحۃ حق کائن۔
ترجمہ: دجال اوریاجوج ماجوج کانکلنا، سورج کامغرب کی طرف سے طلوع ہونا اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کاآسمان سے اترنا اوران تمام علامات قیامت کاظاہر ہونا حق اورسچ ہے جواحادیث صحیحہ میں واردہیں۔
(الفقہ الاکبر: ص 109)
تیسری صدی:
امام بخاری رحمہ اللہ) متوفیٰ 256ھ (اپنی کتاب صحیح بخاری ”کتاب الانبیاء“میں ”باب نزول عیسیٰ علیہ السلام“ قائم کرکے اپنے عقیدے کی وضاحت فرمادی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نزول فرمائیں گے۔
(صحیح بخاری باب نزول عیسیٰ علیہ السلام:ج 1 ص 490)
چوتھی صدی:
وکیل احناف امام ابوجعفر الطحاوی رحمہ اللہ )متوفیٰ 321ھ (فرماتے ہیں۔
ونومن باشراط الساعۃ منہاخروج الدجال ونزول عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام من السماء۔
(عقیدہ طحاویہ :ص 21 عقیدہ نمبر100)
ترجمہ: ہم قیامت کی تمام نشانیوں پر ایمان رکھتےہیں جن میں سے دجال کا نکلنا اورعیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے اترنا بھی ہے۔
پانچویں صدی:
امام ماوردی رحمہ اللہ )متوفیٰ 450ھ( لکھتے ہیں:
الثالث ان خروج عیسیٰ علم الساعۃ لانہ من علامۃ القیامۃ وشروط الساعۃ قالہ ابن عباس وقتادۃ ومجاہد والضحاک والسدی۔
(تفسیر الماوردی: ج 5 ص 235 زخرف:61)
ترجمہ: عیسیٰ علیہ السلام کاآنا قیامت کی ایک نشانی ہے کیونکہ آپ کاوجود علامات قیامت میں سے ہے یہی تفسیر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما حضرت قتادہ، حضرت مجاہد اورسدی نے کی ہے۔
چھٹی صدی:
حافظ ابن عطیہ اندلسی مالکی رحمہ اللہ )متوفیٰ518ھ( لکھتے ہیں:
واجمعت الامۃ علی ماتضمنہ الحدیث المتواتر من ان عیسیٰ فی السماء حی وانہ ینزل فی آخر الزمان فیقتل الخنزیر ویکسر الصلیب ویقتل الدجال۔
(تفسیر البحر المحیط :ج 2 ص 497)
ترجمہ: امت کااس بات پراجماع ہوچکاہے جس کو یہ متواتر حدیث شامل ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان میں زندہ ہیں اور آپ آخری زمانہ میں نازل ہوں گے خنزیرکوقتل کریں گے، صلیب کوتوڑیں گے اوردجال کوقتل کریں گے۔
ساتویں صدی:
مشہور مفسر امام بیضاوی )متوفیٰ 668ھ( لکھتے ہیں:
وان عیسیٰ علیہ السلام لعلم للساعۃ لان حدوثہ اونزولہ من اشراط الساعۃ۔
(تفسیر بیضاوی: ج 1 ص 150زخرف:61)
ترجمہ: بے شک حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی ایک نشانی ہیں آپ کا ظہور یانزول قیامت کی علامات میں سے ہے۔
آٹھویں صدی:
امام ابن کثیر رحمہ اللہ )متوفیٰ 774ھ (لکھتے ہیں:
وقدتواترت الاحادیث عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ اخبر بنزول عیسیٰ علیہ السلام قبل یوم القیامۃ اماماً عادلاً وحکماً مقسطاً۔
) تفسیر ابن کثیر: ج 7 ص 236 زخرف:61)
ترجمہ: آپﷺسے تواتر کے ساتھ ایسی احادیث پہنچی ہیں جن میں آپ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قیامت سے پہلے نازل ہونے کی خبردی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام امامِ عادل اورانصاف کے علمبردار کی حیثیت سے تشریف لائیں گے۔
نویں صدی:
شارح بخاری علامہ بدرالدین عینی رحمہ اللہ )متوفیٰ 855ھ( لکھتے ہیں:
فان قلت ماالحکمۃ فی نزول عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام والخصوصیۃ بہ قلت فیہ وجوہ الاول للرد علی الیہود فی زعمہم الباطل انہم قتلوہ وصلبوہ۔
(عمدۃ القاری باب نزول عیسیٰ علیہ السلام : ص 202)
ترجمہ: اگرکوئی بندہ یہ اعتراض کرے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول میں کیاحکمت ہے؟ تومیں کہتاہوں اس کی کئی وجوہ ہیں: پہلی یہ ہے کہ یہودیوں کی تردید مقصود ہے کیونکہ انہوں نے اپنے گمان باطل کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوسولی پر چڑھاکر قتل کردیاتھا۔
دسویں صدی:
مشہور مفسر امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ )متوفیٰ 911ھ( لکھتے ہیں:
روی الشیخان حدیث انہ ینزل قرب الساعۃ ویحکم بشریعۃ نبینا صلی اللہ علیہ وسلم ویقتل الدجال والخنزیر ویکسر الصلیب ویضع الجزیۃ۔
(تفسیر جلالین: ج 1 ص 52آل عمران:61)
ترجمہ: شیخین (بخاری ومسلم) نے اس حدیث کو روایت کیاہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قرب قیامت نزول فرمائیں گے اورہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق فیصلہ فرمائیں گے دجال اورخنزیر کو قتل کریں گے، صلیب کو توڑدیں گے اورجزیہ کوختم کردیں گے۔
گیارہویں صدی:
علامہ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ )متوفیٰ 1052ھ (لکھتے ہیں:
بہ تحقیق ثابت شدہ است باحادیث صحیحہ کہ عیسیٰ علیہ السلام فرود می آید از آسمان بہ زمین وے باشد تابع دین محمد را صلی اللہ علیہ وسلم وحکم می کنند بشریعت آنحضرت۔
(اشعۃ اللمعات: ج 4 ص 351)
ترجمہ: تحقیق کئی صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے زمین پرنزول فرمائیں گے اور آپ دین محمدی کے تابع ہوکر رہیں گے، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق احکام جاری کریں گے۔
بارہویں صدی:
علامہ سفارینی رحمہ اللہ )متوفیٰ 1188ھ( فرماتے ہیں:
واماالاجماع فقداجمعت الامۃ علی نزولہ لم یخالف فیہ احد من اہل الشریعۃ۔
(لوامع الانوار البہیہ باب العلاماۃ الثانیۃخروج الدجال: ج 2 ص 94)
ترجمہ: حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہماالسلام کےنزول پرپوری امت کااجماع منعقد ہو چکاہے اورعلماء شریعت میں سے کسی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا۔
تیرہویں صدی:
قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ ) متوفیٰ 1225ھ (نے اپنی تفسیر میں کئی احادیث حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہونے اورقرب قیامت دنیا میں دوبارہ تشریف لانے کی جمع کی ہیں۔
(تفسیر مظہری: ج 2 ص 56)
چودھویں صدی:
محدث اعظم علامہ انورشاہ کشمیری رحمہ اللہ ) متوفیٰ 1352ھ( نے ”عقیدہ حیات ونزول عیسیٰ علیہ السلام“ پر مستقل کتاب ”التصریح بماتواتر فی نزول المسیح“ تصنیف فرمائی ہے جس میں یہ ثابت کیاگیاہےکہ یہ عقیدہ تواتروتسلسل کے ساتھ امت میں چلا آرہاہے۔
پندرہویں صدی:
امام اہلسنت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ)متوفیٰ1430ھ( فرماتے ہیں:اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کواپنی طرف اٹھالیا اسی طرح متواتر درجے کی احادیث ہیں جواسی بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر زندہ ہیں اورقیامت سےپہلے زمین پرتشریف لائیں گے۔
(تفسیر ذخیرۃ الجنان فی فہم القرآن: ج 3 ص 116)
نوٹ:
امام اہلسنت نے اس پرمستقل ایک کتاب ”توضیح المرام فی نزول المسیح علیہ السلام“ تصنیف فرمائی ہے جس میں تفسیر، احادیث، علم کلام، فقہ، تاریخ،اور صوفیاءکرام کے کئی حوالہ جات اس عقیدہ پرجمع کر کے اس بات کو روز روشن کی طرح واضح کر دیا کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کاوقوع قیامت سے پہلے دوبارہ دنیا میں تشریف لانا ضروریات دین میں سے ہے۔
اللہ رب العزت سے دعاہے کہ قرآن وحدیث کے جملہ عقائد ومسائل کوفہم اسلاف کی روشنی میں سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین ببرکۃ النبی الکریم۔